A season of tough decisions

کڑے فیصلوں کاموسم

:Share

1990ء میں افغانستان میں بری طرح شکست کھانے کے بعدجب سوویت یونین کاشیرازہ بکھرگیاجس سے امریکادنیاکی واحدسپر طاقت بن گیالیکن جن ملکوں(پاکستان و افغانستان)کے توسط سے اس کویہ مرتبہ ملا،اس نے اپنی سرشت کے مطابق سب سےپہلے انہی کواپناہدف بناتے ہوئے نقصان پہنچانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اوراس نے یہ ثابت کر دیاکہ امریکاکی دوستی اس کی دشمنی سے بھی بدترہے۔جونہی واحدسپرطاقت کانشہ دوآتشہ ہواتواس نے فوری طورپردنیاکی سیاست اورجغرافیے میں تبدیلیوں کیلئے متعصب یہودی نژادامریکی ہنرہ کسینجرکے مرتب کردہ ”نیو ورلڈآرڈر”جیسے منحوس پروگرام کو بالجبرنافذکرنے کیلئے جارحیت کا آغازکردیاتاکہ کوئی بھی قوت اس کے مدمقابل نہ آسکے۔سب سے پہلے ایک منظم پروگرام کے مطابق اکتوبر2001 میں نائن الیون کوجوازبناکرافغانستان پروحشیانہ جارحیت کاآغازکیااوران تمام عناصرکوختم کرنے کی کوشش کی گئی جن کوامریکااپنے مدمقابل سمجھ رہا تھا ۔

اس کے بعدامریکانے اپنی خفیہ ایجنسیوں کی بے بنیادمعلومات کوبہانہ بناکرکہ عراق کے پاس دنیاکوتباہ کرنے کیلئے مہلک ہتھیار کی موجودگی کابے سروپا الزام لگاکرمشرقِ وسطیٰ کے ایک خوبصورت اورترقی یافتہ تہذیب یافتہ اورتیل سے مالامال ملک عراق پرحملہ کردیامگرآج تک امریکانہ صرف اس الزام کوثابت نہیں کرسکابلکہ اس کے سیکرٹری خارجہ کولن پاؤل کو اقوام متحدہ میں اپنے اس جھوٹ کے پلندے اورسابقہ بیان پرشرمندگی اورمعافی کااعتراف بھی کرناپڑالیکن عراق اورافغانستان کوکھنڈرات میں تبدیل اورلاکھوں افرادکوہلاک کرنے کے باوجودابھی تک وہاں مداخلت کاسلسلہ بند نہیں ہوسکااورآئے دن تشددکے مختلف واقعات میں سینکڑوں افرادکاہلاک ہوناایک معمول بن گیاہے اوردونوں ممالک کی معیشت آج مکمل طورپر انتہائی خستہ حال ہوچکی ہے جبکہ عراق کے تیل سے مالامال ہونے کے باوجوداس کے اپنے شہری زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔

دوسری جانب امریکی صدارت کی انتخابات کی تاریخ قریب ہونے پرامریکی صدراورطاقتورادارے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آج امریکاپہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہے یعنی امریکانے اپنی سلامتی کویقینی بنانے کیلئے دنیاکی سلامتی کوغیر یقینی صورتحال سے دوچارکررکھاہے جس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ امریکی صدرجوگزشتہ ماہ امریکا کے دیوالیہ ہونے پردہائی مچارہاتھا،اس نے اسرائیل اوریوکرین کیلئے سینکڑوں ارب ڈالر کی امدادمختص کردی ہے جس میں خطرناک قسم کے اسلحہ کی ترسیل کوتیزرفتای کے ساتھ پہنچانے کاحکم بھی جاری ہو چکاہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کے بیلیسٹک میزائل کے پروگرام کیلئے سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی 3اوربیلاروس کی ایک کمپنی پرپابندی عائدکردی ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ بیجاپابندیوں کے باوجوداپنے ایٹمی پروگرام کی ریکارڈحفاظت کاذمہ دارانہ ثبوت دیتے ہوئے متعلقہ عالمی اداروں کو بھی قائل کیاہے کہ پاکستان ہمیشہ”اینڈیوزاوراینڈیوزرویریفکیشن میکانزم” کیلئے تیارہے لیکن ایکسپورٹ کنٹرول کے من مانے سیاسی مقاصداوراطلاق کوہرگزقبول نہیں کیاجاسکتاجبکہ دوسری طرف جوہری عدم پھیلاپرسخت کنٹرول کرنے کادعوی کرنے والوں کواپنے گریبان میں بھی جھانک کردیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے ان کی ناک کے نیچے بعض ممالک کیلئے جدید فوجی ٹیکنالوجیزکیلئے لائنسنسنگ کی شرط کوبھی ختم کررکھاہے بلکہ بھارت کے ساتھ امریکااوراس کے اتحادیوں کے معاہدے خود ان کی دوغلی پالیسیوں کے منہ بولتے ثبوت ہیں اورماضی میں توکھلم کھلاپاکستان اورایران کواس کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے جبکہ نائن الیون کے فوری بعدپاکستان ہی کی سرزمین کواستعمال کرتے ہوئے وہ دنیاکی واحدسپرپاور کہلانے کامستحق ٹھہراتھالیکن اپنی ہی بے وفائی کی تاریخ کودہراتے ہوئے اس نے اپنے انہی آزمودہ دوستوں کویہ کہہ کرغیرمستحکم کرنا شروع کردیاکہ اب سوویت یونین کے کیمونزم کوشکست دینے کے بعداسلام کی باری ہے جس کیلئے پاکستان کانقشہ تبدیل کرنابہت ضروری ہے۔

انہی دنوں جب یہ سازش چل رہی تھی تومعروف امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ کی شائع کردہ ایک رپورٹ سے اس بات کاانکشاف کیاگیاتھاکہ”امریکانے پاکستان میں ڈرون حملوں،یمن، افغانستان اورافریقہ میں جاری سی آئی اے کے خفیہ آپریشنزاورایرانی ایٹمی پروگرام کوناکارہ بنانے کیلئے سواچھ ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ پاکستان میں مبینہ بائیولوجیکل وکیمیکل لیبارٹریز اور ایٹمی ہتھیاروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کیلئے بھی سی آئی اے بھاری رقوم خرچ کررہاہے اوردیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کوامریکی خفیہ نگرانی کی فہرست میں ترجیحی سطح پررکھاگیاہے”۔رپورٹ کے مطابق”امریکاکو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق انتہائی تشویش ہے اس لئے پاکستان سے متعلق خفیہ نگرانی کے نیٹ ورک کوپہلے سے کہیں زیادہ وسیع کیا گیا ہے” ۔اس کے جواب میں فوری طورپرپاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ پرردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے عدم ِ پھیلاؤ کے مقصد پرسختی سے عمل پیراہے اوراس سلسلے میں پاکستان کی پالیسی ضبط اورذمہ داری کی ہے جس کیلئے عالمی اداروں سے ہونے والے مذاکرات کابھی حوالہ دیاگیاکہ انہوں نے بھی پاکستان کے حفاظتی انتظامات کی تعریف کی ہے۔مذکورہ رپورٹ امریکی اخبارنے امریکی ایجنسی سی آئی اے اوراین ایس اے کے سابق اہلکارایڈورڈ اسنوڈن سے حاصل کردہ سی آئی اے کے مفصل سیاہ بجٹ پرمشتمل178صفحات کی دستاویزات کی بنیادپرشائع کی جس میں امریکی سلامتی سے متعلق پروگرام کی تفصیلات موجودہیں۔رپورٹ کے مطابق16/امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کاسالانہ بجٹ 52۔6بلین ڈالرکے علاوہ 14-7بلین ڈالرسالانہ سی آئی اے پرخرچ ہوتاہے جس میں سے سی آئی اے کانصف بجٹ ہیومن انٹیلی جنس پر خرچ ہوتاہے۔یادرہے کہ اس وقت16/امریکی انٹیلی ایجنسیوں میں ایک لاکھ7ہزار25ملازمین کام کررہے تھے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان،عراق اورلیبیاکی دلدل نکلنے کے باوجودملازمین کی تعدادمیں 8فیصداضافہ ہوچکاہے۔

رپورٹ میں اس بات کابھی انکشاف کیاگیاتھاکہ سی آئی اے اوراین ایس اے دشمن ممالک کے کمپیوٹرنیٹ ورک کوناکارہ بنانے کیلئے ہیک کرتی ہیں،ان میں چین،روس، ایران، اسرائیل اورکیوباکے ممالک شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق2004کے بعدسی آئی اے کیسالانہ بجٹ میں3بلین ڈالر کے لگ بھگ اضافہ کردیاگیاہے۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی کمانڈوزنے خلا میں موجودہ سیٹلائٹ کی مددسے پاکستان میں موجوداسامہ بن لادن کومارنے کادعوی بھی کیاتھا۔واضح رہے واشنگٹن پوسٹ کی شائع کردہ یہ رپورٹ ایڈورڈ سڈون کی فراہم کردہ معلومات کی بنیادپرتیارکی گئی تھی۔ ایڈورڈسڈون امریکی خفیہ اداروں میں کمپیوٹراسپیشلسٹ تھاجوسی آئی اے اوراین ایس اے کیلئے کام کرتاتھا۔ایڈورڈ سڈون نے مئی2013 میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے متعلق بہت سے رازافشا کئے تھے اوردنیاکے لوگوں کی خفیہ نگرانی کوغیراخلاقی قراردیاتھاجس کے بعدوہ امریکی ایجنسیوں کے خوف سے امریکاکوچھوڑکر ہانگ کانگ سے کئی دوسرے ملکوں میں چھپتارہاجس کے بعد اس نے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی جبکہ روس نے امریکی مخالفت مول لیتے ہوئے ایڈورڈسڈون کی سیاسی پناہ کی درخواست قبول کرلی ۔

امریکی خفیہ برقی نگہداشت اورجاسوسی پروگرام میں ٹھیکے پرملازم سٹوڈن کی وجہ شہرت امریکی ادارے برائے قومی سلامتی کے طریقہ کارکابھانڈہ پھوڑنے پرہواکہ کس طرح امریکااپنے دشمنوں سمیت دوستوں کی بھی کڑی جاسوسی کرتاہے۔سٹون2003 میں امریکی خفیہ اداررے برقی نگہداری اورجاسوسی پروگرامنگ میں بطورمحافظ بھرتی ہوا لیکن بعدازاں اپنی دونوں ٹانگیں تڑوابیٹھا۔2013میں سنوڈن نے گارجین کے اخبارنویس گلن گرینوالڈ کوپیغام بھیجاکہ اس کے پاس امریکی جاسوسی کے بارے میں اہم مصدقہ موادموجودہے لیکن وہ صرف پی جے پی طریقہ سے برقی رابطہ قائم کرناچاہتاہے۔گرینوالڈاس ٹیکنالوجی سے نابلدتھاچنانچہ اس کی جہالت کی بنا پررابطہ میں بہت تاخیرہوگئی۔

سنوڈن نے بالآخرتنگ آکریہ موادصحافی لاراپوئٹرس کوبھیجاجواس ٹیکنالوجی سے واقف تھی۔لاراپوئٹرس نے یہ ساراموادگرینوالڈ کوبھیج دیا۔اسی اثنا میں سنوڈن نے یہ 41صفحات پرمبنی یہ مواد واشنگٹن پوسٹ کوبھی بھیج دیا۔دونوں اخبارات نے فوری طورپرامریکی سرکارسے رابطہ کیااوراس موادکے صرف تین صفحات کوہی شائع کرنے کی جرأت کر سکے ۔ 14 جون2013 کووائرڈ نے”پی جی پی”کااستعمال کرتے ہوئے”انکرپٹڈ”پیغام سنوڈن کے نام شائع کرہوگیااوربھانڈہ پھوٹنے پرسنوڈن فوری طورپراپنی جان بچانے کیلئے ہوائی سے ہانگ کانگ چلاگیاکہ اس وقت ہانگ کانگ چینی حکومت کی عمل داری میں آچکاتھا۔

کرسمس2013پرسنوڈن نے برطانوی دورنماپراپنے پیغام میں کہاکہ امریکی اوربرطانوی جاسوسی ایک عالمی خطرہ ہے اوریہ ویلی دنیاکے نقشے سے بھی گھناؤنی ہے۔سنوڈن نے یہ بھی کہاکہ وہ جیت چکا ہے۔گویا یہ امریکااوربرطانوی جاسوسی نظام پرایک زوردارطمانچہ تھاجس کووہ کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیارنہیں تھے۔سنوڈن پران اداروں کاعتاب اب ضروری ہوگیااور دنیابھرمیں اس کی گرفتاری کیلئے کام شروع ہوگیا۔اسی اثنا میں بولیویاکے صدر”ایوومورالس”روس کے سرکاری دورے کے بعداپنے ملک جا رہے تھے کہ ان کے جہازکوزبردستی ”ویانا آسٹریا”میں اتارلیاگیاکہ انہیں یہ شک تھاکہ اس جہازمیں سنوڈن بھی سفرکررہاہے لیکن سخت ترین تلاشی کے بعدصدر کو اپناسفرجاری رکھنے کی اجازت ملی ۔ گویا اس عمل سے آپ دونوں ممالک کی پریشانی کااندازہ لگاسکتے ہیں کہ انہوں نے سنوڈن کواغواکرنے کیلئے تمام عالمی سفارتی ضابطوں کوبھی بالائے طاق رکھ دیا۔

سنوڈن کے زیراستعمال آن لائن برقی خدمت کے مالک نے سرکاری خفیہ حکمنامہ ملنے کے بعدفوری طورپرسنوڈن کے زیرِ استعمال یہ سہولت بندکردی لیکن اس کے باوجوداس ادارے کو کئی طریقوں سے حراساں کیاگیا۔اسی طرح برطانوی سرکارنے گلن گرین والڈکے ہم جنس شریک کوروک کر برطانوی دہشتگردی کے قانون کی آڑمیں ہراساں کیا۔ امریکی غصے اور احتجاج کایہ معاملہ اس وقت مزیدعروج پرپہنچ گیاجب اس وقت کے صدراوباما نے روسی دورے کے درمیان صدرپیوٹن سے ملاقات کرنے سے انکارکردیا۔دنیابھر میں آزادی رائے کااحترام کرنے والوں کانعرہ لگانے والوں کے حساس ادارے کے ارکان نے گارجین اخبارکے دفترمیں زبردستی گھس کروہ تمام کمپیوٹرزتباہ کردیئے جس پرسنوڈن کادیاہواموادمحفوظ تھا۔

امریکی حکام نے فوری طورپرایکشن لیتے ہوئے سنوڈن پرجاسوسی کاالزام عائدکرتے ہوئے اس کاپاسپورٹ منسوخ کردیاتاہم اس اثنا میں سنوڈن ہانگ کانگ سے ماسکو فرار ہو گیاجہاں اس نے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں داغ دیں۔ امریکانے تمام ممالک کوڈرادھمکاکرسنوڈن کے تمام فضائی راستے بندکروادیئے اور اس کی سختی سے نگرانی بھی شروع کر دی۔سنوڈن نے روس میں عارضی سیاسی پناہ کی درخواست دائرکردی جس پرامریکانے روس کوبذریعہ خط یہ یقین دلایا کہ سنوڈن کووطن واپسی پرنہ ہی کسی قسم کی کوئی اذیت دی جائے گی اورنہ ہی سزائے موت،اس لئے اسے روس اسے سیاسی پناہ نہ دے تاہم روسی صدرپیوٹن نے امریکاکی یہ استدعاٹھکراتے ہوئے صاف انکارکردیاکہ روس کبھی کسی ایسے فرد کوکسی اورملک کے حوالے نہیں کرتاجس نے روس سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہو۔بالآخرصدرپیوٹن کی منظوری کے بعدسنوڈن کوجولائی 2013کوایک سال کی عارضی سیاسی پناہ دے دی گئی جس کے بعدسنوڈن ماسکوہوائی اڈے سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔

ایڈورڈسڈون نے اخلاقی جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے دنیاکوکوامریکی پالیسیوں سے آگاہ کیاکہ امریکااپنی سلامتی کوممکن بنانے کیلئے ہرقسم کی قانونی اور اخلاقی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ایڈورڈ سڈون کے امریکا خفیہ ایجنسیوں سے متعلق رازافشا کرنے کے بعدجرمنی میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کی پالیسیوں کوبہت تنقیدکانشانہ بنایاگیااورجرمنی نے امریکا سے سردجنگ میں کئے جانے والاجاسوسی کامعاہدہ ختم کردیاجس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خودمغربی ممالک میں امریکی انٹیلی جنس کاروائیوں کوتنقیداورمخالفت کاشدید سامنا ہے ۔ انہیں دنوں جرمن میگزین نے اس بات کابھی انکشاف کیاتھاکہ امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر اور80ممالک کے سفارت خانوں کی خفیہ جاسوسی کی ہے ۔ میگزین کے مطابق امریکی ایجنسی این ایس اے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرمیں ویڈیوکانفرنسنگ سسٹم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

تجزیہ نگاروں نے اس انکشاف پراپنے خدشات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اگرامریکاپر اقوام متحدہ کی جاسوسی کے الزامات ثابت ہوگئے تویہ امریکااور اقوام متحدہ کے درمیان اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی جس کے مطابق امریکااقوام متحدہ کی جاسوسی کرنے کاکوئی حق نہیں رکھتااورجاسوسی ثابت ہونے پرامریکی خفیہ کاروائیاں غیرقانونی شمارکی جائیں گی ۔میگزین کے مطابق این ایس اے نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرکے ساتھ ساتھ امریکامیں قائم یورپی یونین کے سفارتخانے کی بھی جاسوسی کاکام بھی سرانجام دیتارہا۔رپورٹ کے مطابق امریکاپوری دنیاکے مواصلاتی نظام کی جاسوسی کرتاہے جس میں لوگوں کے آن لائن ڈیٹااور ٹیلی فون کالزکی نگرانی کی جاتی ہے۔ابھی یہ رپورٹ بھی گردش کررہی تھی کہ امریکا میں عام کی جانے والی ایک عدالتی دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ امریکی قومی سلامتی کی ایجنسی این ایس اے نے غیرقانونی طورپرسالانہ امریکیوں کی56ہزارکے قریب ذاتی ای میلز جمع کی تھیں جوصارفین کی پرائیویسی کے حقوق کی سراسرخلاف ورزی تھی۔

10/اگست2013میں جاری ہونے والی جرمن جریدے کی رپورٹ کے مطابق امریکی قومی سلامتی سے متعلق خفیہ ایجنسی این ایس اے نے بیرونِ ممالک اپنے جاسوسی پروگرام میں یورپی ممالک کوسرِ فہرست رکھاہواہے جبکہ چین،روس ،ایران پاکستان اورشمالی کوریاکی نگرانی سب سے اہم ہدف قراردیاہے۔امریکی اہداف میں فرانس،جرمنی اورجاپان کی نگرانی کودرمیانے درجے میں رکھاگیاتھا۔2ستمبر2013کوعالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے نے برازیل اور میکسیکو کے صدورکی بھی خفیہ نگرانی کی تھی اوران کے آن لائن ڈیٹاتک رسائی حاصل کی تھی۔ مذکورہ معلومات عام ہونے کے بعدبرازیل کی حکومت کی جانب سے امریکاکے اس عمل کی شدیدمذمت کی گئی ۔اس تمام صورتحال کوپیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکی حکومت وانتظامیہ اپنے مفادات کوتحفظ دینے کیلئے نہ تواپنے شہریوں کے حقوق کاخیال رکھتی ہے اور نہ ہی دنیاکے کسی قوانین کی پرواہ کی جاتی ہے۔امریکااپنی من گھڑت اطلاعات کی بنیادپرافغانستان،عراق اوردنیاکے تین درجن سے زائدممالک کووحشیانہ ظلم وستم کی جنگی کاروائیوں کانشانہ بناچکاہے اوراب دنیاکی دوسری اقوام کی ذاتی زندگی کوبھی اجیرن بنارہاہے جس کے نتیجے میں امریکی پالیسیاں دنیاکی سلامتی پرایک سوالیہ نشان بن چکی ہیں ۔ اس لئے امریکی حکومت کی طرف سے ایرانی صدرکے سرکاری دورے سے دودن قبل پاکستانی وزارتِ خارجہ میں امریکی مقاصدکی تکمیل کیلئے ملاقاتیں اورسازشیں شروع ہوچکی ہیں اورعین ان دنوں میں جب اسرائیل کی وحشیانہ کاروائیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان تمام ممالک کوخوفزدہ کرکے اپنے مقاصدکی تکمیل کے ایجنڈے پرکام شروع ہوچکاہے جس کیلئے نہ صرف پاکستان کو تنہاکرنے کیلئے ٹرائیکاسرتوڑکوششوں میں مصروف ہے بلکہ پابندیوں کاعمل بھی شروع کیاجاچکاہے۔ان کوعلم ہے کہ پاکستان دنیاکی واحدایٹمی قوت ہے جس کی نیوکلئیرصلاحیت کومعاشی پابندیوں کے ساتھ اس قدربے بس کردیا جائے کہ جس کے بعدمنحوس ”ون ورلڈآرڈر”کے منصوبے کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔

ویسے بھی امریکی حکومت کی طرف سے یہ پابندی کاعمل کوئی پہلاواقعہ یاایساکوئی نیابھی نہیں،پاکستان نے 1970 میں جونہی اپنے ایٹمی پروگرام کو شروع کرنے کااعلان کیا،تب سے ہی یہ مذموم سلسلہ جاری ہے بلکہ خوداس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکوہنری کسینجرنے اپنے دورہ لاہور پاکستان میں عبرت کانشان بنانے کی دہمکی بھی دی تھی۔ایسی کڑی پابندیاں اکتوبر 2003میں بھی ہم بھگت چکے ہیں جب امریکانے پاکستان کوبیلیسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اورسامان فراہم کرنے والی 3چینی کمپنیوں سمیت دنیابھرکی بے شمارکمپنیوں پراسی الزام میں پابندیاں عائدکی تھیں لیکن اس تمام غنڈہ گردی کے باوجودآج پاکستان ایک ایسی ایٹمی قوت ہے جس کے خوف میں ٹرائیکااپنے تمام اتحادیوں سمیت ان سازشوں میں مصروف ہے۔

یادرکھیں!رب ذوالجلال نے انسانی جسم میں ایک ایساچھوٹالوتھڑا”دل”کی شکل میں نصب کررکھاہے کہ جہاں صرف ایک خوف سماسکتا ہے۔اللہ اور دنیاوی طاغوتی قوتوں کے خوف یکجا نہیں رہ سکتے،اگردنیاکوخوف دل میں بیٹھ گیاتواللہ کاخوف چپکے سے نکل جائے گاکیونکہ میرے رب کاخوف بڑا باغیرت ہے اوردنیاآپ کوخوب رسوابھی کرے گی اور تذلیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی لیکن اگردل میں اللہ کاخوف براجمان کرلیاجائے توساری دنیاآپ سے خوفزدہ رہے گی اورکوئی آپ کوخوفزدہ کرنے کی جرأت نہیںکرسکتا۔ اپنے اکابرین کی تاریخ اس پرشاہد ہے کہ مٹھی بھرمسلمانوں نے اللہ کے خوف کواپنے دلوں کی جب زینت بنایاتوپانی پربھی گھوڑے دوڑانے میں بھی کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی اور آج خودمستشرقین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگرمسلمانوں کی تاریخ میں حضرت عمرکومزیدموقع مل جاتایااس کے بعدایک اورعمرحکمران ہوتا توساری دنیاپراسلام کاغلبہ ہوتا۔سونابھی آگ میں تپ کرکندن بنتاہے۔ہمت اورحوصلے کی ضرورت ہے۔اگرآپ کی ٹانگیں ابھی کانپ رہی ہیں توسوچ لیں کہ کل کامؤرخ آئندہ نسل کوآپ کے بارے میں سب حقیقت توضروربتادے گا۔دنیاوآخرت کی نفرین اورشرمندگی سے بچنے اورپناہ مانگتے ہوئے سوچ سمجھ کر فیصلوں کی ضرورت ہے۔
تجھے کیا ناصحااحباب خودسمجھائے جاتے ہیں
ادھرتوکھائے جاتاہے،ادھروہ کھائے جاتے ہیں
چمن والوں سے جاکراے نسیم صبح کہہ دینا
اسیران قفس کے آج پرکٹوائے جاتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں