اک نئی کربلابپاآج بھی ہے

:Share

تحریر،ہاں کیاہرواقعہ تحریرکیاجاسکتاہے؟ شاید،ہوسکتاہے خودپرتھوڑاساجبرکریں،خودکوجمع کریں توآپ لکھ لیں گے لیکن کیا ہربات لکھی جاسکتی ہے؟
خوشی کوتولکھاجاسکتاہے۔اورغم کو………!
دکھ توتحریرہوسکتاہے اوردرد…………!
آنسوؤں کوکیسےلکھاجاسکتاہے۔کرب کوکیسے لکھیں………اضطراب کو،بے کلی کو،بے حسی کو،اناکوتحریرمیں کیسے سموئیں!

لفظ وہی ہوتےہیں،قلم وہی ہوتاہے،صفحات وہی ہوتے ہیں…سب کچھ وہی ہوتاہےلیکن آپ بے دست وپاہوتے ہیں۔رحمت کوتوبیان کیا جاسکتا ہے ، تحریرکیاجاسکتاہے۔نحوست کوکیسے پابندتحریرکیاجاسکتاہے!اداسی کوتحریرکرسکتے ہیں آپ؟ کچھ نہیں کرسکتے ہم۔ فیض صاحب نے توکہاہے”جودل پہ گزرتی ہے سوگزرتی ہے،اسے بیان کیسے کریں!میرے لیے یہ ممکن نہیں۔نہیں مجھے یہ ہنر نہیں آتااورمجھے یہ سیکھنابھی نہیں ہے۔ضروری تونہیں ہے مجھے سب کچھ آتاہو۔نہیں میں نہیں لکھ سکتادل کو،اداسی کو،بے کلی کو،اضطراب کو… بالکل نہیں لکھ سکتا۔آنسوؤں کوکیسے تحریرکروں؟بتائیے آپ۔اگر آپ تحریرکرسکتے ہیں توضرورکیجئے۔

مجھے اعتراف ہے،مجھے نہیں معلوم کہ کشمیریوں پرکیاگزرہی ہے؟لیکن 5/اگست کے بعدایک لمحہ بھی وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہے۔مشکل ترین دن ہیں۔یہ میراپیچھا کب چھوڑیں گے۔میں وہاں موجودتونہیں لیکن ٹی وی کی اسکرین پرجوکچھ دیکھتا ہوں،حیرت ہے مجھے میرادل ابھی تک بندنہیں ہوا ۔ میں نے تواس وقت بھی سمجھایاتھاکہ عجلت میں فیصلے درست نہیں ہوتے لیکن بھارتی پائلٹ کوغیرمشروط رہاکرنے کی فاش غلطی نے پانسہ بدل دیااور سفاک مودی جو پانچ ریاستوں میں انتخاب ہارچکاتھا،اس عمل سے اس کی لاٹری نکل آئی اوروہ بھاری اکثریت سے انتخاب جیت گیااورمارے کو شاہ مدار مارنے کے مصداق ابھی بھارتی الیکشن کمیشن نے نتائج کااعلان بھی نہیں کیاتھا کہ ہم نے اسے دلی مبارکبادکاپیغام بھیج دیاجبکہ موصوف اس سے پہلے میڈیا میں اس بات کا اعتراف کرچکے تھے کہ میں نے تین مرتبہ مودی کوپیغام بھیجاہے لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب ہی نہیں آرہا۔

کیاہمیں اس بات کاعلم نہیں تھاکہ اس نے تواپنی پہلی انتخابی مہم میں بھی کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کاوعدہ کیاتھا اور اس مرتبہ توزورشورسے اس نے اعلان کیاتھا۔انتخابات جیتنے کے فوری بعدامیت شاہ نے کشمیرمیں جب ڈیرے ڈال دیئے توتب بھی میں نے اپنے کالموں میں توجہ دلائی کہ اس ماجرے کی بھی کوئی خبرلیں کہ آخرکشمیرمیں کیاہونے جارہاہے؟ لیکن مجال ہے جواس پرکوئی توجہ دی گئی ہواوراپنے امریکی دورے پرواپسی کوعالمی کپ کی فتح سے تعبیرکرکے خوب بغلیں بجائی گئیں کہ قصرسفیدکے فرعون نے کشمیرپرثالثی کابیان دیکرگویاہماری کامیاب خارجہ پالیسی کے ڈوبتے جہازکو کنارہ مہیاکردیا ہے اورمیرا دل تواسی وقت بیٹھناشروع ہوگیاکہ “ساقی نے کچھ ملانہ دیاہوشراب میں”۔۔

بالآخر جب کشمیرپرقیامت ڈھادی گئی توہاتھ پا ؤ ں پھولنے کی خوب اداکاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں تقریرکوکامیاب سفارت کاری کاایساتاثردیاکہ بس چنددنوں میں کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح گودمیں گرنے والاہے۔ اسلام آبادہوائی اڈے پرہی فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے خودکوکشمیرکاسفیر مقررکرتے ہوئے ہفتہ وارآدھ گھنٹے کے احتجاج کااعلان ہوا،اور بالآخروہ اعلان بھی اپوزیشن پردشنام طرازی کی شکل میں دم توڑگیا۔اب حالت یہ ہے کہ اسلام آبادمیں افریقی ممالک کے سفیروں کی کانفرنس میں بھی کشمیرکا ذکر کرنے کی بجائے اپوزیشن کی کردارکشی کارونارویاگیاجیساکہ اپنے ہرغیرملکی دورے میں اپوزیشن کاتذکرہ ہوتاتھا۔ پہلے نوازشریف کی بیماری اوربیرون ملک علاج ،بعدازاں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع،پھرالیکشن کمیشن کے سربراہ اوردیگراراکین کی تقرری کی خبریں، پھرسابقہ ڈکٹیٹرمشرف کوسنائی گئی سزا نے خوب دہماکے کئے اوراب راناثنااللہ کی ضمانت پررہائی پرشہریارکے سابقہ جوشیلے بیانات نےمیڈیاپرقبضہ جمارکھاہے اور رہا کشمیر کامعاملہ تواس کاجنازہ خوداپنے ہاتھوں خوب دھوم دھام سے نکال کرقوم کی نظروں سے اسے مکمل طورپر اوجھل کر دیاگیاہے.

مجھے انسانی حقوق کے چیمپئن بہت یادآئے اورجبہ ودستاروالے بھی۔ ہاں وہ بھی جو خادمین حرمین ہیں کہ اب وہاں نہ صرف کشمیراورغزہ کیلئے دعامانگنے کی بھی ممانعت ہے بلکہ ملائشیاسربراہ کانفرنس کے سلسلے میں جس بری طرح ہماراگلادبوچ لیاگیاہے کہ سانس بھی ان کی اجازت سے لینامحال ہوگیاہے لیکن خود سفاک ہندوکو اپنے ہاں بلا کر ملک کاسب سے اہم میڈل گلے میں پہناکرکاروبارمیں وسعت کے منصوبے تشکیل دیئے جارہے ہیں اور ہمیں اس بات کاحکم دیاگیاہے کہ خبردار آئندہ کشمیرکومسلم امہ کامسئلہ نہ کہاجائے۔کیاآج ہم اس قدرلاچارہوگئے ہیں،مسلم امہ اس قدربے بس ہوگئی ہے؟ہم وہاں جاکر،یہ جوکچھ ہوا،اسے نہیں روک سکتے تھے؟روک سکتے تھے لیکن ہم اپنے راحت کدوں میں بیٹھ کر یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ انسانی حقوق کے چیمئپن بھی ! جبہ و دستار والے بھی سب کے سب زبانی جمع خرچ کرتے رہے۔ ہاں میں بھی…………..!

مجھے بھی خاموش رہنے اورقلم توڑنے کامشورہ دیاجارہاہے۔میں کیاکروں، مجھے وہ امریکی غیرمسلم لڑکی یاد آرہی ہےجب فلسطینیوں کے گھربلڈوزکرنے کیلئےاسرائیلی فوج آگے بڑھی تو وہ تنہابہادرلڑکی نے ان کاراستہ روکاتھا: “نہیں تم نہیں گرا سکتے ان کے گھر ”… اورپھرہواکیاتھا،جانتے ہیں آپ؟جی،اس لڑکی پرسے بلڈوزرگزاردیاگیاتھا۔ہم سب کچھ نہ کرسکے،یہ جبہ ودستار والے بھی دیکھتے رہے بلکہ مرے رب نے ان سے احتجاج تک کرنے کی توفیق بھی سلب کرلی،میں کیسے خاموش رہ سکتا ہوں؟ہرگزنہیں۔

ایک امتحان ہے،یہ تو گزرہی جائےگا۔نتیجہ توبعدمیں نکلے گا۔کیا؟میں نہیں جانتا۔بس میں تویہ سوچ رہاہوں کہ میں نے کیا کیا اور ان کا نتیجہ کیانکلے گا؟ہم سب حاضرکیے جائیں گے اپنے رب کے حضور،اورپھردیکھیں گے میرارب کیافیصلہ صادر کرتاہے۔وہ تودلوں کے بھیدسے واقف ہے لیکن جناب!دنیا بھی تودارالمکافات ہے۔یہاں کیسے روکیں گے ہم اس سزا کو؟

ہاں دعا کروں میں…لیکن کس منہ سے دعاکروں؟کیسے اپنے رب کاسامناکروں؟

اک نئی کربلا میرے سامنے بپا ہے۔بچے اوربچیاں تہہ تیغ کئے جارہے ہیں،پانچ مہینوں سے کرفیوجاری ہے۔کس طرح وہ اپنی زندگی گزاررہے ہیں، خوراک کی قلت کس طرح مقابلہ کرتے ہوں گے،بیماروں کاعلاج معالجہ کاکیاپوچھیں ،اس ظلم وستم کے ہاتھوں اپنے رب کے پاس پہنچ جانے والوں کی تدفین کیسے ہورہی ہوگی؟ہم نام نہادحسینی بغلیں بجارہےہیں،مجھے خودکو حسینی کہتے شرم آتی ہے۔آپ کہاں ہیں اورکیاکہتے ہیں؟معصوم بچوں اوربچیوں کی چیخیں مجھے جینے نہیں دیں گی۔ میرا سینہ شق ہو جائے گا۔میں کچھ نہیں کرسکا۔ہاں مجھے زندگی پیاری ہے… ہاں میں سانس کی آمدورفت کوزندگی سمجھتا ہوں… ہاں میں نے ذلت و رسوائی کی زندگی قبول کرلی ہے … ہاں میں موت سے بہت ڈرتاہوں…ہاں میں نے اپنارب بدل لیا ہے… ہاں میں عزت و ذلت کامالک انہیں سمجھتاہوں جن کے ہاتھ میں بے حس بندوقیں ہیں۔شعلہ اگلتی ہوئی بندوقیں۔میں انہیں زندگی اورموت کامالک سمجھتاہوں جن کےجنگی جہازوں کی گڑگڑاہٹ سے دل دہل جاتاہے۔ہاں وہی ہیں میرے مالک… آپ کے متعلق کیسے کہہ سکتا ہوں! آپ جانیں اور آپ کا کام۔
حق و باطل کا وہی معرکۂ عہدِ قدیم
گرم دنیامیں بہ اندازِجدید آج بھی ہے
فرق یہ ہے کہ کہ نہیں عزمِ حسینی ورنہ
کربلا آج بھی ہے، روحِ یزیدآج بھی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں