A Moment's Fault A Century's Punishment

لمحوں کی خطا،صدیوں کی سزا

:Share

تین جون 1984ء کوبھارتی مکاربنئے نے ایسی ہولناک اورتاریخی غلطی کا ارتکاب کیاجوسکھوں کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے ایک انتقام کااستعارہ بن چکا ہے۔بھارت نے ایک جارحانہ فوجی آپریشن کرکے امرتسرمیں واقع سکھوں کے سب سے اہم مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل پربمباری کی۔بلوسٹارکے نام سے مشہوراس فوجی آپریشن کے دن گولڈن ٹیمپل پربھارت کی جانب سے بمباری کے نتیجے میں ہوئی تباہی سکھ عوام کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔یہ زخم ہمیشہ ہرے رہنے والے ہیں۔ان کے اندرمال کی کوئی بھی کوشش بیکارہی ثابت ہوئی ہے جبکہ بھارتی حکومت نے اس حملے میں تباہ ہونے والے گولڈن ٹیمپل کی تعمیرپرحکومتی سطح پرکافی رقم خرچ کی لیکن سکھوں نے اسے اپنی غیرت اور مذہب کے منافی سمجھتے ہوئے اس ساری تعمیرکومسمار کرکے خود اس کی دوبارہ تعمیراورتزئین وآرائش کے بعد اس میں اپنی مذہبی رسومات کاآغاز کیا اورابھی تک سکھوں کی اپنی کمیٹی اس کانظم ونسق چلا رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ سکھ اس شرومنی کمیٹی کے بارے میں بھی کچھ تحفظات رکھتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکارنہیں کہ مدت مزیدگزرنے کے باوجودبھارتی بربریت کے زخم ہرے اورتازہ ہیں کیونکہ سکھ برادری اس حملے کونہ صرف انسانیت کش سمجھتی ہے بلکہ اس کواپنے مذہب پرایک ایساگھناؤناوارسمجھتی ہے جس سے ہندوکی اصلیت کھل کرسامنے آگئی ہے۔دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کادعویدار بھارت مسلمانوں اورسکھوں سمیت اپنی تمام اقلیتوں کاوجودبرداشت نہیں کرپارہااوریہ اقلیتیں آج بھی اسی طرح ستائی جارہی ہیں جس طرح پہلے دن ان پرظلم وستم روا رکھاگیاتھا۔بھارت سرکار چاہے سیکولرازم کالبادہ اوڑھے،کانگرس ہویا ہندوتواکے پرچارک زعفرانی بریگیڈ،ہرایک نے مسلمانوں،سکھوں،دلتوں،عیسائیوں کوکرب واذیت سے دوچاررکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاہے مگریاد رہے کہ ظلم و بربریت اورسفاکیت کایہ برہنہ رقص کسی بھی مہذب اورجمہوری سماج کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوسکتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گولڈن ٹیمپل آپریشن بلیواسٹارایسادردناک اوروحشت انگیزواقعہ تھاکہ جوسکھوں کومکاربنئے سے آزادی اوراپنے لئے الگ وطن خالصتان کے حصول کیلئے جنگ لڑنے پرحوصلہ اورہمت دیتارہے گا۔کشمیری مسلمان بھارت کے استعمار،ظلم وجبراوربے پناہ زیادتیوں کاشکارہیں اوروہ ٹھیک طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اپنوں کوکھونے کاصدمہ کتنا عظیم ہوتاہے،اسی لئے سکھوں کوپہنچائے جانے والے غم کوکشمیری بھی محسوس کرتے ہیں اوراس حقیقت کوکوئی ردنہیں کرسکتاکہ ظلم وبربریت اورجبرواستبدادکسی بھی کمزورقوم کوہمیشہ کیلئے زیرنہیں کرسکتا اورجابراور غاصب قوتوں کوہمیشہ ناکامی اورذلت کامنہ دیکھناپڑاہے اوربھارت بھی یقیناًاسی تاریخی حقیقت سے ہمکنارہوکررہے گالیکن اس وقت بہت سا پانی پلوں کے نیچے گزر چکاہوگااورخودہندوؤں کی آنے والی نسلیں بھی اس کاخمیازہ بھگتیں گی۔

بھارتی فوج نے سکھوں کے سب سے بڑی مذہبی عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پرفوجی دھاوابول کرسینکڑوں سکھوں کوبری طرح گولیوں اوربموں سے اڑادیاتھا، بھارت نے اس ہولناک لشکرکشی کوبلیواسٹارکانام دیاتھا۔ گولڈن ٹیمپل کمپلیکس میں سکھوں کے ایک مذہبی لیڈرجرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ڈیرہ جمائے ہوئے تھے اوراس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی کی طرف سے براہ راست بھارتی فوج کوحملے کاحکم دیاگیااوربھارتی فوج نے ٹینکوں اور توپوں کے ساتھ وحشتناک حملہ کرکے گولڈن ٹیمپل میں مقیم تمام سکھ مردوزن کوتہہ تیغ کردیا۔پانچ دن تک مسلسل یہ خون خرابہ جاری رہاجس کے نتیجے میں سکھ رہنماءجرنیل سنگھ اوران کے تمام ساتھیوں کوماردیاگیا۔عینی شاہدین کایہ بھی کہناہے کہ اگربھارتی حکومت چاہتی تو گولڈن ٹیمپل پرٹینکوں اورتوپوں کے ساتھ حملہ کرنے کی بجائے دوسرے ذرائع سے بھی خالی کرواسکتی تھی لیکن مکار ہندوحکومت کی سربراہ اندرا گاندھی دراصل یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ ان تمام سکھ حریت پسندوں کوجان سے مارکرسکھوں کی اس تحریک کوہمیشہ کیلئے ختم کردیاجائے لیکن آج وقت نے یہ ثابت کردیاکہ اس ظالم اور جابر متعصب ہندوعورت کایہ فیصلہ قطعی غلط تھا۔

سرکاری طورپرہلاکتوں کی تعداد400سوسکھ اور 83فوجی بتائی گئی لیکن عینی شاہدمرنے والے سکھوں کی تعدادہزاروں میں بتاتے ہیں۔سکھوں کی ہلاکتوں کے بعدپورے مشرقی پنجاب میں سوگ اورانتہائی غم وغصہ کاسماں تھا۔بالآخر گولڈن ٹیمپل پر حملے کاغصہ چھ ماہ بعداس وقت رنگ لایا جب اندرگاندھی کے دوگارڈزنے ان کوگولیوں سے بھون کررکھ دیااور اپنے سب سے بڑے مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل پرحملے کابدلہ لے لیا۔اندراگاندھی کی ہلاکت پرپورے ملک بالخصوص دہلی میں سکھ مخالف مظاہرے ہوئے جن میں سرکاری طورپرتین ہزارسے زائدسکھوں کوہلاک کرنے کی اطلاع جاری ہوئی جبکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ان سکھ مخالف مظاہروں کی جوچندہولناک فلمیں دیکھنے کوملیں ان کودیکھ کرظالم ہندوکااصلی مکروہ چہرہ سامنے آگیا۔سکھوں کے ہاتھ پیچھے باندھ کران کی گردن میں ٹائرڈال کرپٹرول چھڑک کرآگ دکھادی گئی اوران کواس حال میں دوڑنے پر مجبور کیاگیااورہندو مظاہرین ان کے گردانتقامی رقص کرکے اپنے خونی دیوتاؤں کوخوش کر رہے تھے ۔

2012ء میں اس آپریشن کی بازگشت ایک مرتبہ پھرلندن میں سنی گئی جب چندسکھ نوجوانوں نے جن میں ایک نوجوان لڑکی بھی شامل تھی،بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کلدیپ سنگھ براڑپراس کی ریٹائرمنٹ کے بعدچاقوسے اس وقت حملہ کیاجب وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنے ہوٹل واپس آرہاتھا۔ کلدیپ سنگھ براڑ آپریشن بلیواسٹارکے کمانڈنگ آفیسرتھااوراسے اس آپریشن کا آرکیٹکٹ بھی کہاجاتاہے۔جنرل کلدیپ سنگھ براڑکی گردن پرایک گہرازخم آیالیکن وہ جان لیواتوثابت نہیں ہوسکا لیکن زندگی بھرکیلئے نہ صرف اس پر خوف طاری ہوگیابلکہ اب وہ اسی زخم کی بناء پرمستقل طورپرگھرمیں مقیدہے۔

یہ تاریخ کاباضابطہ حصہ ہے کہ تقسیم برصغیرکے وقت قائداعظم نے سکھون کی قیادت کویہ پیشکش کی تھی کہ وہ پاکستان میں شمولیت اختیارکرلیں تو انہیں مشرقی پنجاب میں ایک ملحقہ آزاد ریاست کادرجہ دیاجائے گا۔دراصل یہ پیشکش بڑی حکمت ودانائی پرمبنی تھی اگرسکھ لیڈربلدیوسنگھ اورماسٹر تارا سنگھ اسے تسلیم کرلیتے تونہ مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کومغربی پنجاب کی طرف دھکیلاجاتااورنہ ہی مغربی پنجاب سے سکھوں کوبھاگ کرمشرقی پنجاب میں پناہ لیناپڑتی اور1947ءمیں تقسیم ہند کے موقع پروحشت وبہمیت کاوہ طوفان نہ امنڈ آتا جس نے انسانون کادرندہ بنادیااور75سال گزرنے کے بعدبھی یہ زخم مندمل نہیں ہوسکے۔قائداعظم کے اس حکمت پرمبنی پلان کے مطابق آہستہ آہستہ کئی برسوں میں پرامن طریقے سے اپنی مرضی و منشاءسے انتقال آبادی کامرحلہ مکمل ہوتااورصدی کی سب سے بڑی انسانوں کی ہجرت میں لاکھوں افرادکے جان ومال کا ضیاع بھی نہ ہوتااورمزیدیہ کہ پاکستان کی حامی سکھ ریاست بھارت اورپاکستان کے درمیان ایک بفرریاست کاکردار اداکرتی اورپٹھانکوٹ کے راستے بھارتی فورسز کی کشمیرپرجبری قبضے کی نوبت بھی پیش نہ آتی اورمسئلہ کشمیربھی ہمیشہ کیلئے حل ہوجاتا۔

جواہرلال نہرو،سردارپٹیل اورگاندھی کایہ منصوبہ تھاکہ کسی بھی طورسکھوں کو الگ وطن نہ ملے،اس لیے وہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کےخون کو اپنےسیاسی مفادکی بھینٹ چڑھاکرقائد اعظم کی امن پسندانہ کوشش کوناکام بنانے پرتل گئے۔ نہرو اورگاندھی نے اس وقت کی سکھ قیادت کو ورغلایا اورسکھوں کے ساتھ ایسادھوکہ کیا جس کی وجہ سے وہ اپنی ریاست معرضِ وجودمیں لانے سے ناکام رہے اور آج کی سکھ نسل ان کی اس غلطی کی پاداش میں غلامانہ زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔نہرو نے کانگرس کے صدرکی حیثیت سے سکھ لیڈروں کو کہاکہ وہ قائداعظم کی پیشکش پرقطعاًغورنہ کریں بلکہ بھارت میں شامل رہیں توانہیں مشرقی پنجاب میں مکمل آزاد ریاست دی جائے گی اوربھارت مالی طورپربھی اس سکھ ریاست کواپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مددفراہم کرے گا۔نہروایک دھوکہ باز اورمکارشخص تھااورسکھ لیڈر اس کی پرفریب اورپرکشش دعوت کو قبول کرنے میں کچھ تامل کااظہار کررہے تھے لیکن گاندھی دنیاکاوہ سب سے بڑامکارتھاجوبادی النظرمیں انکسار، تواضع اور انتہائی میٹھے لب ولہجے سے بڑے بڑے سمجھدار لوگوں کوکسی معاہدے کے بغیرجھانسہ دینے کافن جانتاتھا۔سکھوں کی اس وقت کی قیادت نے گاندھی کوباپو (باپ)مان کرکسی تحریری معاہدے کے بغیریقین کرلیاکہ مشرقی پنجاب انہی کوملے گا۔مسلم لیگ جوباقاعدہ تحریری معاہدہ کرنے جارہی تھی،سکھوں نے اسے پس پشت ڈال دیااوریوں سکھوں کی قیادت نے اپنے پاؤں پرخودہی کلہاڑی مارلی گویا”لمحوں کی خطانے صدیوں کی سزا”میں مبتلاکردیا۔

کانگرس لیڈروں نے سکھوں کوبدنیتی پرمبنی اس امرکایقین دلایاکہ مشرقی پنجاب میں اگرمسلمان اسی طرح آبادرہے توسکھ ریاست قائم نہیں ہوسکے گی۔آزادریاست سکھوں کی واضح اکثریت کی بنیادپرہی قائم ہوسکتی ہے چنانچہ سکھوں کے مسلح دستوں نے ہندوؤں کی راشٹریہ سیوک سنگھ کے جتھوں ،بھارتی پولیس اورفوج نے مل کرمسلمانوں کا(خدانخواستہ) نام ونشان مٹانے میں ایسی ایسی شقاوتوں کاثبوت دیاکہ ابلیس بھی مارے شرم کے اپنامنہ چھپاکرکہیں چھپ گیا۔پٹیالہ، کپورتھلہ ،جالندھر اورلدھیانہ سے لیکرفیروزپورتک ہرجگہ مسلمانوں پرقیامت ڈھائی گئی۔اس وحشت ناکی اور خون آشامی کے دوران میں جب مسلمانوں کی مملکت وجودمیں آئی توسکھ خوش تھے کہ انہیں انڈین یونین میں اپنی آزادریاست ملے گی مگراب مکافاتِ عمل کادورشروع ہوچکاتھا۔قدرت نے سکھوں کوانہی کم ظرف اوربدبخت ہندوؤں کے ہاتھوں ذلیل کرناشروع کیاجن کے کہنے پر انہوں نے مسلم لیگ سے ایک باعزت میثاق نامے کوٹھکراکرلاکھون مسلمانوں کوخون میں ڈبودیئے تھے ۔سالہاسال تک سکھوں نے پوری کوشش کی وہ بھارت ماتاکے وفادارشہری ہونے کاثبوت دیکرہندونیتاؤں کواتناممنون کریں کہ وہ انہیں ایک الگ ریاست ہنسی خوشی دے دیں لیکن مکارہندوبنئے نے سکھوں کواس قدربے بس کردیاہے کہ خودان کے درمیان سیاسی تقسیم کرکے باہربیٹھاتماشہ دیکھ رہاہے۔

قائداعظم نے سکھوں کوجوبات سمجھائی تھی وہ انہیں تین عشرے تک ہندوبنئے سے تذلیل کروانے کے بعدسمجھ میں آئی اور 1984ء میں وہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی قیادت میں اپنے حقوق کیلئے کانگرس حکومت کے سامنے اٹھ کھڑے ہوئے مگر جواب میں اندراگاندھی نے آپریشن بلیواسٹار شروع کرکے ایک ہولناک لشکر کشی کے ساتھ سکھوں کے اہم مذہبی مقام ”دربار صاحب”کے ساتھ ساتھ لاکھوں سکھوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اورآج تک ہزاروں لاپتہ سکھوں کے ورثاء اپنے عزیزوں کی تلاش میں خودبھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔مارے غم وصدمے کے آج سکھوں کی آنکھیں کھلیں ہیں اورانہیں مکارہندو کی اصل ذہنیت کاپتہ چلاہے اورخودمیرے کئی سکھ دوست اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ ان کے لیڈروں نے قائداعظم کی بات نہ مان کرجوتاریخی غلطی کی ہے نجانے اس کی سزاکب ختم ہوگی۔ اب انہوں نے طے کرلیاہے کہ وہ آزاد خالصتان بنا کر ہی دم لیں گے اوراس سلسلے میں انہیں مزیدجتنی بھی قربانی دینی پڑی وہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں پریہ ادھارچھوڑکرنہیں جائیں گے۔

سکھ یہ بات بھی مانتے ہیں کہ انہیں 1947ء میں دھوکہ دیکربیوقوف بنایاگیااوروہ اس بات کابھی اعتراف کرتے ہیں کہ قدرت ان سے انتقام لے رہی ہے۔ مشرقی پنجاب میں ویسے ہی حالات ہیں جیسے مقبوضہ کشمیرمیں، تاہم بھارتی میڈیاانہیں ہروقت دبانے کیلئے جھوٹاپروپیگنڈہ کرنے میں مصروف رہتاہے۔ کینیڈامیں مقیم میرے انتہائی بہترین دوست ڈاکٹراوتارسنگھ سیکھوں جوبرسوں سے سکھوں پرہونے والے ہندوؤں کے مظالم کی تاریخ مرتب کررہے ہیں اوراقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے پلیٹ فارم پرمستقل طورپرایک توانا آوازکاکام بھی کررہے ہیں،ان کے مطابق گولڈن ٹیمپل کے حملے سے لیکراب تک دولاکھ سے زائدسکھوں کوقتل کردیاگیاہے اورہزاروں سکھ اب تک گرفتاراورلاپتہ ہیں ۔کئی لاکھ سکھ جلاوطن ہو کردنیاکے ڈیڑھ سوممالک میں میں منتشرہوچکے ہیں جن میں ڈاکٹر اوتارسنگھ سیکھوں کے علاوہ امریکامیں مقیم ہمارے دوسرے دوست امرجیت سنگھ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی آزادخالصتان کیلئے شب وروزجدوجہدکررہے ہیں۔وہ تواکثراس بات کااعتراف کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں کہ کاش ہماری سکھ قوم میں کوئی محمدعلی جناح پیداہوجو ہمیں ان ظالم برہمنوں سے نجات دلائے۔

میرے ان جیسے اورکئی اعلیٰ تعلیم یافتہ سکھ دوست جوتواترکے ساتھ ہمارے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں ،وہ اس بات کااعادہ کرتے ہیں کہ سکھ آج اپنے آباؤواجداد کی غلطیوں کی تلافی کیلئے تیارہیں۔سکھ آج مشرقی پنجاب کی آزادی میں مدد دینے کے عوض کشمیرکی جنگ میں تعاون پرآمادہ ہیں۔ پاکستان کی مقتدرقوتوں کوان کی اس پیشکش پرغورکرناچاہئے جبکہ بھارت کھلم کھلا پاکستان کے معاملات بالخصوص بلوچستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے سازشوں میں مصروف ہے اور افغانستان میں درجن بھرسے زائداپنے تربیتی کیمپوں سے پاکستان میں دہشتگردی میں مصروف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں