تیرے دل میں توبہت کام رفوکانکلا

:Share

سیاست میں دہرامعیارکوئی نئی بات نہیں۔بات انسانی حقوق کی ہوتودعووں اورحقائق کے درمیان فرق بڑھ جاتاہے۔اس حوالے سے امریکاپرغیر معمولی نکتہ چینی معمول کی بات ہوتی جارہی ہے جوکسی ایک مقام پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاروناروتا رہتاہے اور دوسرے مقام پر،اپنے مفادات کی خاطر،انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کامرتکب ہونے میں نہ صرف کوئی عارمحسوس کرتاہے بلکہ اس کودرست بھی گردانتاہے۔ کیاانسانی حقوق کے حوالے سے یہ تنقیددرست اورصحیح ہے؟ہیومن رائٹس واچ کی جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ اس سوال کابہتر جواب دے سکے گی۔کم ہی حکومتیں انسانی حقوق کاسوال اُس طرح اٹھاتی ہیں جس طرح امریکااٹھاتارہاہے۔امریکانے مختلف معاملات میں انسانی حقوق کامعیار اپنے لیے کچھ اس اندازسے مقررکر رکھا ہے کہ اس کے ناقدین بھی اب اس کی کارکردگی کواس معیارکے پیمانے ہی سے ناپنے لگے ہیں۔

کارٹردورسے اب تک امریکاانسانی حقوق کوخارجہ پالیسی کی بنیادبناتاآیاہے یعنی اگرکوئی ملک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہاہوتو امریکا سے اس کے تعلقات شدیدمتاثرہوتے ہیں۔عوام بھی اس حوالے سے پالیسی کی تبدیلی کے عادی ہوچکے ہیں۔ہرامریکی حکومت اسی بنیادپرخارجہ پالیسی ترتیب دیتی آئی ہے۔اسی بنیادپردوست اوردشمن کاتعین ہوتاہے۔اس وقت امریکی محکمہ خارجہ میں انسانی حقوق سے متعلق سیکشن شایداس نوعیت کادنیامیں سب سے بڑابیوروہے۔بیوروآف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈلیبرامریکی محکمہ خارجہ کا انتہائی اہم حصہ ہے۔اس کے سربراہ انسانی حقوق کے سابق وکیل اورنیویارک میں قائم تنظیم ہیومن رائٹس فرسٹ کے سربراہ مائیکل پوزنرہیں۔

بیوروآف ڈیموکریسی،ہیومن رائٹس اینڈلیبرہرسال مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے مضحکہ خیز رپورٹس جاری کرتا ہے مگر کبھی اس حوالے سے اپنائے جانے والے دہرے معیارکی بات نہیں کرتا۔ان رپورٹس میں صاف جھلکتا ہے کہ جن ممالک سے امریکی مفادات جڑے ہوئے ہوں ان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بھی کوئی پروانہیں کی جاتی۔امریکاانسانی حقوق کے حوالے سے جورپورٹس جاری کرتاہے انہی کی بنیادپردنیاکویہ دیکھنے کاموقع بھی ملتاہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے اداروں کوکس طوراستعمال کرتاہے۔امریکاکے بارے میں ہیومن رائٹس واچ نے 22جنوری کوجورپورٹ جاری کی ہے اس میں ایسے کئی نکات موجودہیں جن کی مدد سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکی پالیسیوں میں دہرامعیارکس حدتک ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے لکھاہے کہ:

٭کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں امریکامیں،مختلف بہانوں سے،لوگوں کوغیرمعمولی حدتک پریشانی کاسامناکرناپڑتاہے اورسزائیں سنانے کے معاملے میں بھی نسل پرستی کااظہارکیاجاتاہے۔
٭امریکامیں ہرسال محض داخلی سلامتی کے نام پرتین لاکھ سے زائدافرادکوتحویل میں لیاجاتاہے جبکہ ان سے ملک کی سلامتی کو بظاہرکوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
٭گوانتاناموبے میں امریکی جیل یاحراستی مرکزمیں سیکڑوں افرادکوکسی جوازاورقانونی کارروائی کے بغیرحراست میں رکھاگیا ہے۔اس حراستی مرکزکو وعدے کے باوجودبندنہیں کیاگیا۔
٭امریکامیں ملٹری ٹریبونل کے تحت بھی کارروائی ہوتی ہے مگران ٹریبونل کی تشکیل اوران کے طریق کارمیں شدیدنوعیت کی خامیاں اورکمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
٭امریکی جیلوں اورحراستی مراکزمیں جن لوگوں کوتشددکانشانہ بنایاجاتاہے وہ اگرانصاف کے حصول کیلئے عدالت کادروازہ کھٹکھٹاناچاہیں توان کی راہ میں دیوارکھڑی کی جاتی ہے۔
٭تازہ ترین اعدادوشماربتاتے ہیں کہ امریکامیں کم وبیش4کروڑ60لاکھ افرادغربت کی زندگی بسرکررہے ہیں۔المناک بات یہ ہے کہ اس معاملے میں نسلی اورثقافتی فرق نمایاں ہے۔سیاہ فام اورغیرمغربی نسلوں میں غربت کی سطح انتہائی بلندہے۔

یہ حقائق ہیومن رائٹس واچ نے جاری کیے ہیں جوامریکی تنظیم ہے جس پراکثریہ تنقیدکی جاتی ہے کہ وہ امریکی معاشرے اور حکومت کی خامیوں کواجاگر کرنے سے گریزکرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی بعض اوقات کارگرثابت ہوتی ہے کہ اورکئی ممالک کی پالیسیوں کودرست کرنے میں اس سے خاصی مددملی ہے مگربہتر یہ ہوگاکہ امریکی حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے پہلے اپناقبلہ بھی درست کرے ۔امریکی ریکارڈکودرست کرنے کیلئے صرف دواہم واقعات کی طرف توجہ مبذول کرواناانتہائی ضروری ہے:

عافیہ صدیقی کامقدمہ نہ صرف مشرف دورسے لیکرموجودہ حکومت اورامریکی محکمہ انصاف اورارباب اقتدارکیلئے سب سے بڑاکلنک کاٹیکہ ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصول اقتدارکیلئےعافیہ صدیقی کانام بڑے زورشورسے استعمال توکیا لیکن اقتدارکی ٹوپی سرپررکھتے ہی ٹوپی کے نیچے دماغ اوردل سے محوکردیالیکن امریکی محکمہ انصاف نے بھی اس مقدمے میں اس جھوٹے مقدمے میں اس پتلی دھان پان اورتین معصوم بچوں کی ماں کوباوجود جسمانی،دماغی تشددکے 86سال کی سزاسناکرپابندسلاسل کررکھاہے۔

دوسری مثال کراچی کے ایک بے گناہ ٹیکسی ڈرائیورکانام ختم کرکے اس کوایک نمبر”گوانتاناموبے انٹرنمنٹ سیریل نمبر 1461”کی شناخت دے دی گئی ہے ،کوغلط شناخت کی بناءپرحسن گل نامی دہشتگردہونے کاجھوٹاالزام عائدکرکے سی آئی اے کوفروخت کرکے گوانتاناموبے پہنچادیا گیاجبکہ گرفتاری سے کچھ ہی دن قبل اس کویہ خوش خبری ملی تھی کہ وہ باپ بننے والاہے۔اغوا کے کچھ مہینے بعداس کی بیوی نے بیٹے جاوید کوجنم دیالیکن آج اس کابیٹا 18 سال کاہوگیاہے اوروہ اس کی شکل تک دیکھنے سے قاصرہے۔دکھ کی بات تویہ ہے کہ خودگوانتاناموبے والوں نے اصلی حسن گل کوبھی گرفتارکیااورتفتیش کے بعداسے جانے دیالیکن یہ بدنصیب آج تک قیدہے۔شایدوہ امریکی اہلکاراپنی غلطی کوچھپانے کیلئے اس کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

جوبائیڈن امریکی صدرمنتخب ہونے پراورہمارے ہاں عمران خان ایک مرتبہ پھراعتمادکاووٹ لیکرپْرتکلف عشائیوں میں شرکت کے موقع پرانصاف کےبہت بلندبانگ دعوے کرتے ہوئے یہ بات ضرورذہن میں رکھیں کہ یہ دونوں بے گناہ قیدی عافیہ صدیقی اور ٹیکسی ڈرائیورگزشتہ سات سالوں سے بھوک ہڑتال پرہیں اورانہیں زندہ رکھنے کیلئے جبری طورپرادویات کے ذریعے خوراک دی جارہی ہے جبکہ ایک قیدی پرامریکی حکومت کو ہرسال تقریباً ایک کروڑ40لاکھ امریکی ڈالرخرچ کرنے پڑرہے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق جب انہیں اغواکیاگیاتھا،اس کے مقابلے میں آج ان کا وزن آدھاہوچکاہے اورایسالگتاہے کہ جبری طورپرغذا دیے جانے کے باوجودان کوجیل ہی میں ماردیاجائے گا۔

امریکی صدرجوبائیڈن نے بطورسینیٹرایک مکمل مدت گزاری،8سال امریکاکے نائب صدررہے اوراب صدارتی انتخابات میں سابق صدر ٹرمپ کو ہرا کر46ویں صدرکی حیثیت سے حلف اٹھالیاہے۔جنوری2009 میں آپ نے اس وقت اوباماکے ساتھ نائب صدرکاحلف اٹھاکرگوانتانا موبے کوبند کرنے کے عزم کااظہارکیاتھا۔اسی ہفتے ایک صدارتی حکم نامہ بھی جاری ہوا تھاجس میں گوانتاناموبے میں ضابطہ اخلاق اورآئینی اقدارکوبحال کرنے کا وعدہ کیاگیاتھا۔سی آئی اے کی جانب سے کیے جانے والے تشددپر2014 میں سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی جاری کردہ رپورٹ بھی آپ کی نگرانی میں ہی مکمل ہوئی تھی۔اس رپورٹ میں اس ٹیکسی ڈرائیورکانام بھی موجود تھا۔

اس رپورٹ میں یہ واضح طورپربتایاگیاتھا کہ اس ٹیکسی ڈرائیورکوکسی حکم کے بغیرافغانستان کے تاریک قیدخانے میں540 دنوں تک تشددکا نشانہ بنایاگیا۔ نجانے اب اس بات کی کوئی اہمیت بھی ہے یانہیں لیکن رپورٹ میں اس عمل کی تصدیق کی گئی کہ اس قیدی کودورانِ تشددایک اندھیرے گڑھے میں لٹکا کررکھاگیاتھاجہاں دن اوررات کافرق کرنامشکل نہیں ناممکن تھااور اب امریکی طبی ماہرین کے مطابق اس تشددکے دوران قیدی کے کندھے اپنی جگہ سے باقی ماندہ ساری عمرکیلئے ہٹ چکے ہیں اورجسم کی کئی ہڈیاں بھی بیکار ہوکراپناکام کرناچھوڑچکی ہیں گویااس وقت یہ قیدی نیم معذورہوچکاہے۔

جوبائیڈن اورعمران خان کوشایداس کا اندازہ نہ ہو کہ یہ تشدد کس قسم کاہوتاہےاوریقیناًان کواس صورتحال کا اندازہ نہیں ہوگاجس میں قیدی کو ساتھ والے کمرے سے کسی خاتون کی چیخ وپکارکی آوازیں آرہی ہوں اورقیدی کوبتایاجائے کہ یہ خاتون تمہاری بیوی ہے اوراگرتم نے ان کی بات نہ مانی تووہ تمہاری بیوی کوزیادتی کانشانہ بنائیں گے اوربعدازاں تمہاری بیوی کوتمہارے اس بچے سمیت جس کو تم آج تک دیکھ نہیں پائے،قتل کردیں گے۔عافیہ صدیقی اوریہ بے گناہ ٹیکسی ڈرائیورتواس بے پناہ تشددکابدلہ بھی نہیں چاہتےلیکن میں چاہتاہوں کہ لوگوں کوپتاچلے کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیاگزری اوراسے کس طرح چھپادیاگیا۔ہوسکتاہے کہ اس طرح دیگرافراداس وحشیانہ اورانسانیت سوزتشدد سے بچ جائیں۔ امریکی تاریخ سے تشددکایہ داغ مٹایا نہیں جاسکتااور قصر سفیداوران کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ انصاف اس معاملے میں اپنی آنکھیں بندنہیں کرسکتے،جیسے کچھ ہواہی نہیں۔

جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں بڑے تواترکے ساتھ خاندان کی اہمیت کاذکربھی کیااوران کےسننے اوردیکھنے والوں نے جوبائیڈن کی آنکھوں کی نمی سے ان کے دل پر لگے ہوئے اس زخم اورچوٹ کوبھی بری طرح محسوس کیا۔مجھے پورایقین ہے کہ جوبائیڈن اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ اپنے بیٹے کوکبھی نہ دیکھ پانے کااحساس کیساہوتاہے۔عافیہ صدیقی اوریہ ٹیکسی ڈرائیورکے بچے بھی اب سن بلوغت کوپہنچ گئے ہیں لیکن اس دوران ان بچوں کی رہنمائی کیلئے یہ دونوں موجودنہیں تھے اوران بچوں کا پورابچپن ان کے بغیرکس قدرمحرومی میں گزراہوگااوروہ آج بھی ہردم کسی ایسے معجزے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ کب وہ اپنے وجودمیں اس حقیقی محبت کی گرمی سے گلے لپٹ کراس وجودمیں گم ہوجانے کی خواہش کریں گے اوریہ بدنصیب قیدی بھی توہرلمحہ اسی آس پراپنی زندگی کے سانس لیتے ہوں گے کہ کب ان کی آنکھوں کانورمنورہوکران کی باقی زندگی کی ظلمتوں کامداواکرے گا۔

میں یہاں گوانتاناموبے بندکرنے میں آپ کی ناکامی پربات نہیں کرناچاہتا،نہ ہی یہ بتاناچاہتاہوں کہ اب اسے بند کرناآسان ہوگالیکن یہ بات میرے لیے امید افزاہے کہ امریکاکی قیادت ایک بارپھرایک ایسے صدرکے ہاتھ میں ہے جوانصاف اورقانون کی عملداری پریقین رکھتاہے۔جس نے برملا اپنی انتخابی مہم میں انسانی حقوق کی بحالی کاعزم کرتے ہوئے اپنے قریبی اتحادی اورسب سے بڑے اسلحے کے ایسے خریدارجس نے آپ کی اسلحے کی ڈوبتی ہوئی صنعت کودوبارہ زندگی عطاکرتے ہوئے تیس ہزارامریکیوں کوبیروزگار ہونے سے بچایا،انسانی حقوق کے نام پراس کوسخت ترین وارننگ دیتے ہوئے اسلحے کی ترسیل بندکرنے کااعلان کیا۔

مسٹرپریذیڈنٹ:آپ ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی کئی سانحات کاسامناکیاہے۔آپ نے1972ء میں ایک حادثے میں اپنی بیوی اوربیٹی کی جدائی کاغم برداشت کیااورپھردماغی ٹیومرکے ہاتھوں اپنے بیٹے کی وفات کاصدمہ اٹھایا۔آپ نےاپنی زندگی میں بے تحاشا دردبرداشت کیے ہیں۔ان بے گناہ قیدیوں کی زندگی کے جیلوں میں گزرے ہوئے طویل ماہ وسال کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہیں،ایک ایسا خواب جس نے ان کے خاندان اوران کے بچوں کے علاوہ سارے پاکستان کے شہریوں کوبھی اپنے شکنجے میں جکڑاہواہے۔مجھے امیدہے کہ آپ ان بے گناہوں اوران سے متعلقہ لواحقین کے علاوہ کروڑوں پاکستانیوں کادردبھی سمجھ سکیں گے جنہوں نے آپ کوواحدسپرپاوربنانے کیلئے86ہزارجانوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ 132بلین ڈالرزکاخطیرنقصان بھی برداشت کیااوراب بھی نہ صرف آپ کے چہیتے اتحادی بھارت،جس نے آپ کی موجودگی میں پاکستان کونقصان پہنچانے کیلئے افغانستان میں دہشتگردوں کی پرورش کرنے کیلئے اپنے ٹھکانے بنالئے ہیں اوراب بھی ان کاسرپرست اورمربی کا کرداراداکررہاہے جس کے کئی مرتبہ حقیقی شواہدبھی آپ کے علاوہ دنیابھرکے دیگرممالک کوفراہم کئے گئے ہیں اورہم آج بھی اپنے جان ومال کی قربانیوں سے ان کامقابلہ کررہے ہیں لیکن اس کے باوجودآپ کی افواج کوافغانستان سے بخیروعافیت نکالنے کیلئے دوحہ معاہدہ میں کلیدی کردارادا کیاہے۔

میں جوبائیڈن کویقین دلاتاہوں کہ وہ ان بے گناہ قیدیوں کورہاکرکے امریکی محکمہ انصاف اورانتظامیہ پرلگے ہوئے بدنام زمانہ دھبہ کودورکرکے جہاں تاریخ میں اپنانام درج کروالیں گے وہاں پاکستانیوں کے دل جیت کرساری دنیاکوامن کابہترین پیغام بھی دے سکیں گے۔
مصحفی ہم تویہ سمجھے تھےکہ ہوگاکوئی زخم
تیرے دل میں توبہت کام رفوکانکلا

اپنا تبصرہ بھیجیں