دل چیردینے والی آواز

:Share

اتنی صبح گھنٹی کی آوازنے دل کی دھڑکن کوبے ترتیب کردیا۔میں نے ریسیوراٹھایاتوچندلمحے جان ہی نہ پایاکہ میں جاگ رہاہوں یاخواب کی کوئی کیفیت ہے۔ اس کی آوازمیری اکلوتی پوتی سے بہت ملتی جلتی تھی۔اس کاہرلفظ گہرے کرب میں ڈوباہواتھاوہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی،مجھے اورکچھ سنائی نہیں دے رہاتھا۔کیا رات کاآخری پہرتھاکہ نیندمیری آنکھوں سے یکایک ایسے روٹھ گئی جیسے اس سے میری کوئی آشنائی نہیں۔میں اٹھ کربیٹھ گیااوروہ جانے مجھے کیا جان کرروتی رہی،اپنی کہانی سناتی رہی اورمیں اسے جھوٹی تسلیاں دیتارہا۔میں یہ پوچھنا بھی بھول گیا کہ اس نے میراٹیلیفون کہاں سے حاصل کیاہے؟اس کانام زینب ہے اور مقبوضہ کشمیر…… سے اس کاتعلق ہے۔کئی ماہ پہلے اس کی شادی ہوئی،کچھ ہی دنوں بعدجلادصفت وردی میں ملبوس کچھ لوگ آئے، تلاشی کے نام پرسارے گھرکو اکھاڑپچھاڑدیا۔جاتے ہوئے اس کے خاوند کواپنے ساتھ لے گئے۔ گھر والوں نے جب احتجاج کیاتوگولیوں کی تڑتڑسے اس کا گھرانہ اس طرح کانپ رہاتھاجس طرح خوفِ خداسے کسی گناہ گارکادل تنہائی میں کانپتاہے۔

تین دنوں کے بعدوہ گھرواپس آگیالیکن اسے پہنچاننامشکل ہورہاتھا۔اس سے تفتیش کی جاتی رہی کہ وہ کبھی سرحدپارگیاتھایانہیں؟ مزیدچند دنوں بعدآدھی رات کو وہی وردی میں ملبوس افراد نے اچانک چھاپہ مارا،دیوارپھلانگ کراندرآنے والے،زینب کے شوہراور جیٹھ کو،کچھ کمپیوٹر اور دوسری اشیاء سمیت اٹھا لے گئے۔ دونوں برسوں دہلی میں رہے اوروہاں تعلیمی اداروں میں پڑھاتے رہے۔ان کاقصوریہ تھاکہ وہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم کومکمل ثبوتوں کے ساتھ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کومہیاکرتے تھے۔ابھی زینب کے ہاتھوں کی مہندی بھی پھیکی نہیں پڑی تھی کہ وہ اس افتادکاشکارہوگئی۔اس نے عالمی انسانی ہمدردی کے تمام اداروں سے رابطہ کرکے اس ناگہانی مصیبت کے بارے میں مطلع کیاتوسب نے اپنی اپنی مجبوریوں کااظہارکرتے ہوئے جان چھڑالی ۔ اس نے عدالت سے رجوع کیاتوحسبِ معمول بھارت کی تمام ایجنسیوں نے تحریری طورپران دونوں کے بارے میں اپنی لاعلمی کاجھوٹابیان دیدیا۔

22سالہ دلہن اب بستی بستی بھٹک رہی ہے،دکھائی دینے والاہردروازہ کھٹکھٹارہی ہےگلیوں گلیوں دہائی دے رہی ہے لیکن ظلم کے لق ودق صحرا میں اس کی آوازچیخ بن کرخوداسی کے کانوں میں پلٹ آتی ہے۔لگ بھگ بھارت کی ایک ارب انسانوں کی بھری پڑی آبادی میں کوئی دروازہ وانہیں ہوتا،کوئی دریچہ اپنی آغوش نہیں کھولتااورکوئی کھڑکی اسے آوازنہیں دیتی۔میں ابھی تک نرم وگداز بسترمیں نیم درازبیٹھاتھااورلندن کی خنک رات ہولے ہولے سرک رہی تھی اور کشمیرکی ایک عفت مآب بیٹی کی آوازقطرہ قطرہ میرے دل پرٹپک رہی تھی۔وہ آبدیدہ آوازمیں فریادکناں تھی:
“مجھے بتائیں میں کہاں جاؤں؟سرینگرسے ٹھوکریں کھاتی کھاتی نئی دہلی اس لئے آگئی ہوں کہ دنیامیں سب سے بڑی جمہوریت کا نعرہ لگانے والے کشمیرمیں کسی انسانی حقوق کے ادارے کوجانے کی اجازت نہیں دیتے،کوئی غیرملکی صحافی یاکیمرہ اس جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جس کوان درندوں نے جہنم میں تبدیل کردیاہے۔میراکوئی ٹھکانہ ہے نہ جائے پناہ،میں کیاکروں؟کدھرجاؤں؟میں اپنے کھوجانے والے شوہراوراس کے بھائی کی تلاش کروں یااپناآپ بچاؤں؟میں اپنی فریاداخباروں کوسناچکی،مسلمان ہونے کے ناطے مجھے بہت سے اخبارکے مالکان کی کڑوی اورکسیلی باتیں بھی سننے کوملیں،کسی کادل نہیں پسیجا،کسی نے میراحال نہیں پوچھا۔آپ کے ایک واقف کارنے اپنے ٹیلیفون سے نمبرملاکرمیرے ہاتھ میں یہ کہہ کرتھمادیاکہ ان کوبھی تواطلاع ہونی چاہئے جن کوہرکشمیری بہن بیٹی اپنابھائی اورباپ سمجھ کرہرلمحہ ان کی سلامتی اورعافیت کی دعاؤں میں مگن رہتی ہیں۔اتنی رات گئے آپ سے بات کرنے پربہت شرمندہ ہوں لیکن میں کیاکروں؟میں کدھرجاؤں؟بہنیں اوربیٹیاں آخراپنے دکھ اورغم اپنوں سے ہی کرسکتی ہیں؟ اب میں کس کو…… !

فون بندہوجانے کے بعدبھی میراکمرہ دیرتک سسکیوں سے بھرارہا۔دیرتک میرے کانوں میں صحرائی ریت کے بگولے سائیں سائیں کرتے رہے اوردیر تک میری آنکھیں دہکتے کوئلوں پرکسمساتی راکھ سے بھری رہیں اوردیر تک ایک آوازجومیری پوتی کی آوازسے بہت ملتی جلتی تھی،میری بند کھڑکی کے شیشوں پردستک دیتی رہیں۔زینب اپنے شوہراوراس کے بڑے بھائی کی تلاش میں ہے۔ہزاروں دیگرافراداپنے پیاروں کے انتظارمیں کسی اچھی خبرکے منتظرہیں۔کئی بوڑھے والدین کی آنکھیں پتھراچکی ہیں کہ ان کے بڑھاپے کے سہارے ان سے چھین لئے گئے ہیں اوراس وقت بے سہارا مارے مارے پھر رہے ہیں۔امریکاکی ایک ہندوپروفیسرنے اپنے ساتھی پروفیسر کی مدد سے کشمیر میں اجتماعی قبروں کی نشاندہی میں مدد دی جہاں چار ہزارسے زائد افراد کو گڑھے کھودکر دفن کردیا گیا۔اس جنتِ ارضی میں جنگل کاقانون جاری وساری ہے۔

اس جنتِ ارضی میں جنگل کاقانون جاری وساری ہے اورہم جوسینہ ٹھونک کران کے وکیل بننے کا دعویٰ کررہے تھے،ہم سے ہفتہ وارایک گھنٹے کا احتجاج بھی تونہیں ہوسکا۔ضعیف مردِ مجاہدعلی گیلانی اورآسیہ اندرابی کے سچے اورمضبوط عزم کے سامنے ایک مرتبہ پھرہم سب کے سرشرم سے جھک گئے جب اسمبلی سے سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل کلبھوشن کواپیل کاحق دینے کی قراردادکوتوپاس کروالیاگیالیکن ہم نے ایک لمحہ کیلئے بھی نہ سوچاکہ اس مردمجاہدگیلانی کے دل پرکیاگزری ہوگی جس نے ہندوبنئے فوج کے حصارمیں لاکھوں کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں یہ سرفروشانہ نعرہ کندہ کردیاکہ” ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہمارا ہے”اورآسیہ اندرابی جس کے شوہرڈاکٹرقاسم کوناکردہ جرم میں پچھلی دودہائیوں سے بھی زائدجیل میں بندکر رکھاہے اورآسیہ اندرابی کوتہاڑجیل میں انسانیت سوزمظالم کے حوالے کردیاگیا،جہاں شبیراحمد شاہ کی چھوٹی بیٹی سحر شبیر شاہ کاکہناہے کہ ”میں روزسپنے میں باباکودیکھتی ہوں، جیسے وہ مجھے بلارہے ہوں اورکہہ رہے ہوں کہ میں جیل سے چھوٹ گیا،پھر ماں جگاتی ہے لیکن مجھے کچھ وقت کے بعدہوش آتاہے”۔ وہ اپنے والدکی گرفتاری کے باعث افسردہ اورذہنی تناؤکاشکاررہتی ہے۔

فریادکناں زینب کے یہ جملے میرے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانندکیوں دوڑرہے ہیں کہ”بالآخر بیٹیاں اپنے دکھوں کاتذکرہ اپنے باپ سے نہ کریں تو کہاں جائیں؟”میں اسے کیسے بتاؤں کہ عصمت صدیقی اپنی عفت مآب بیٹی عافیہ صدیقی کی تلا ش میں بھٹک رہی ہے،آمنہ مسعود جنجوعہ پچھلے کئی برسوں سے حکومتی اداروں کے مردہ ضمیروں کوجگانے کی کوششوں میں ناکام اورتھک ہارکربیٹھ گئی۔کوئی ان کی انگلی تھامنے والا نہیں،کوئی انہیں راستہ سجھانے والانہیں۔ یہ کیساسحرہے کہ انسان بیٹھے بٹھائے تحلیل ہو جاتے ہیں اورکسی کوکچھ پتہ بھی نہیں چلتا۔

کسی پرشک ہوتوقانون موجودہے،اسے حرکت میں لایاجاسکتاہے،اس کے خلاف شواہد جمع کرکے اسے عدالتی عمل سے گزارا جا سکتاہے،اسے صفائی کاموقع دینے کے بعدجرم ثابت ہونے پرکڑی سزادی جاسکتی ہے لیکن یہ عجیب دستورچل نکلاہے کہ کسی کوغائب کردیاجائے اورپھر مہینوں بلکہ سالوں تک اس کے عزیزوں کوانتظارکی سولی پرلٹکادیاجائے کہ ان کے پیارے عزیز کہاں اورکس حال میں ہیں اوران پرکیاگزررہی ہے ؟ایساکرنے سے ایک مہذب ملک کی ساکھ پرانتہائی منفی اثرپڑتاہے جودنیابھرکی سب سے بڑی جمہوریت کاجعلی ڈھنڈورابھی پیٹ رہاہو۔ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح ان کی”روشن خیال جمہوریت “محض ایک سراب دکھائی دینے لگی ہے؟ہم نے تویہ جرم عظیم سب کچھ امریکی کروسیڈ سے عہدِوفانبھانے کیلئے کیا لیکن بھارت تو امریکا اور مغرب کی دوستی کادم بھررہاہے۔وہ اپنے انہی دوستوں کے کندھے استعمال کرکے اقوام متحدہ کی مستقل نشست(ویٹوپاور)کے خواب دیکھ رہاہے تاکہ اس طاقت کے نشے میں وہ مہابھارت کی تکمیل کرسکے۔پھرکیاوجہ ہے کہ انسانی حقوق کی ایسی پامالی پرایک امریکی ہندوپروفیسرکوبھی اجتماعی قبروں جیسے ہولناک مظالم پراحتجاج کی آوازاٹھاناناگزیرہوگیااورانسانی حقوق کے چیمپئن ممالک کوکشمیرمیں اس ہولناک مظالم سے آگاہ کرناپڑا۔

ہم نصیبوں جلے توایسے ہیں کہ آج تک کشمیرمیں ان اجتماعی قبروں کے انکشاف کے بعدقصرِسفیدکے فرعون سے کوئی اعلامیہ جاری نہ کرواسکے بلکہ مغربی ممالک توبھارت کی بلائیں لے رہے ہیں اورایٹمی توانائی کی مددکیلئے دل وجاں فرشِ راہ کردیئے لیکن ماورائے عدالت ہلاکتوں سے لیکر اغوا تشدد،ریاستی جبر اورقانون وعدل کی رسوائی تک ہروہ الزام ہمارے دامن کاداغ بنادیاگیاجس کاتصورکیاجاسکتاہے،اس کے باوجودامریکا کی دلداری ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے جس کیلئے ہم نے اچھے بھلے ملک کوجنگل بنادیااورڈھٹائی کی حدتویہ ہے کہ اب بھی اسی عطارکے لونڈے سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں اور امریکا سے ہی درآمدسیکورٹی مشیرامریکاسے گلہ کررہے ہیں کہ پاکستان کوکیوں فراموش کردیاگیا۔

زینب کے شوہرکاجرم صرف یہی ہے کہ وہ دنیاکے انسانی حقوق کے اداروں کوکشمیر میں ہونے والے مظالم کی اصلی تصویرسے آگاہ کرتاتھا۔ کشمیر میں “غیراعلانیہ کرفیو” کی آڑمیں ہونے والے مظالم کی نشاندہی کرتاتھا۔”غیراعلانیہ کرفیو”جیسی منحوس اصطلاح کااستعمال سب سے پہلے 2008ءمیں امرناتھ اراضی ایجی ٹیشن کے دوران گورنراین این وہرانے شروع کیاتھالیکن اس سے بھی پہلے شیخ محمدعبداللہ نے1975ءمیں پبلک سیفٹی ایکٹ یہ کہہ کرمتعارف کروایاتھاکہ یہ صرف اسمگلروں کے خلاف استعمال کیاجائے گا۔ اس ایکٹ کے تحت بغیرکسی عدالتی کاروائی کے کسی بھی شخص کودوسال کیلئے زنداں کی تاریکی میں پھینکاجاسکتاہے لیکن آج تک اسی غیرانسانی اورظالمانہ قانون کوبے دریغ بے گناہ کشمیریوں کے خلاف استعمال کیاجارہاہے اوربیشترکشمیری اسی تعذیبی قانون کے تحت چودہ چودہ سال سے بھی زیادہ بھارت کی جیلوں میں گل سڑرہے ہیں۔

اگرآپ کویادہوتو29اور30مئی 2009ء کی درمیانی رات کوکشمیر کی دومجبور بیٹیوں نیلوفراورآسیہ کواجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کردیا گیاتھاجس سے اہل شوپیاں کے علاوہ سارے کشمیریوں کے دل دہل گئے تھے۔پوری وادی میں اس پربھرپوراحتجاج ہوالیکن شوپیاں کے غیورعوام نے47دن کی مسلسل ہڑتال سے اس سانحے کوامرکردیاکہ وہ اپنی ان بیٹیوں کے صدمے کوکبھی نہیں بھول سکتے۔مجھے یادہے کہ تین سالہ سوزین جوایک سال بعداپنی ماں اورپھوپھی کی اجتماعی عصمت دری کے خلاف احتجاج کررہاتھا اس کوغمزدہ لواحقین کے ساتھ انصاف مانگنے کی پاداش میں مجرم ٹھہراکرگرفتارکرلیا گیاتھا۔ کیایہ ممکن تھا کہ تین سالہ بچہ جواپنے پاؤں پراچھی طرح چل بھی نہیں سکتا وہ بھارت کے وزیراعظم کیلئے کوئی خطرہ بن سکتاتھا؟دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے محافظ اس بلکتے تڑپتےشیرخوارسوزین جس کے آنسوکئی دلوں کوگھائل کررہے تھے، مردہ خورگدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے تھے۔

مجبورومقہورکشمیریوں کے سرقلم کرنے کیلئے”غیراعلانیہ کرفیو”کے دوران”پبلک سیفٹی ایکٹ” کی بے لگام تلوارہی کافی تھی کہ اب کشمیرمیں تعینات 8 لاکھ افواج کو”آرمڈفورسزسپیشل پاورایکٹ”اور”ڈسٹرب ایریاایکٹ”جیسے ظالمانہ قوانین کے تحت بے پناہ اختیارات حاصل کرنے کے بعد کسی کوجوابدہ نہیں،جس کی وجہ سے اب یہ قانون عوام کے محافظین کہلانے والوں کیلئے ایک نفع بخش تجارت کی شکل اختیارکرگیاہے جس میں لین دین انسانی سروں اور سستے انسانی خون سے ہوتاہے۔میں توابھی تک زاہد،وامق،عنائت اللہ اورطفیل متو کی ہلاکتوں سے لیکر مژھل فرضی جھڑپوں میں کشمیریوں کے سرِعام قتل کونہیں بھول سکا،اے میری مظلوم ومجبوربیٹی زینب!کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام کاایک درخشندہ ستارے کانام بھی زینب تھاجن کی کنیت”ام المصائب ” تھی جن کے خطبات آج بھی مسلم امہ کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔

میراوجدان اس بات کی گواہی دیتاہے کہ ظلم وستم کایہ دورایسے عوامی انقلابی ریلے کودعوت دے رہاہے جس کے سامنے توپ وتفنگ ناکارہ اوربے بہرہ ہو جاتی ہیں۔انقلابِ فرانس بھی ایک پتھرمارنے سے شروع ہواتھاپھراس کے بعدبادشاہ کے محافظین اپنے تمام اسلحے کے ساتھ نہ توبادشاہ کی حفاظت کرسکے اور نہ خودکوبچاسکے۔اس طوفانی ریلے کے سامنے تمام ظالمانہ قوتیں اپنے اتحاد کے باوجودتنکوں کی طرح خس وخاشاک کی طرح بہہ گئیں۔جونرم ہاتھ یا سفید کالر والی گردن نظرآئی اس کاشانوں سے تعلق ختم کردیاگیا۔کشمیرکےموجودہ حالات میں امرناتھ جیسی ایجی ٹیشن سے بھی کہیں شدیدمزاحمتی تحریک شروع ہوچکی ہےجہاں سات دہائیوں سے کشمیریوں کابہنے والامقدس خون اب ضروررنگ لائے گااوراب کوئی نیامیرجعفریامیرصادق ظالموں کومیسرنہ آ سکے گاانشاء اللہ۔

لیکن ٹھہریئے مجھے کچھ ان افرادکے ضمیر کوبھی جگاناہے جن کی یہ مجبورومقہوربیٹیاں ان کے نام کی دہائی ان شہدا کے قبرستانوں میں دیتی نظر آرہی ہیں جو ہمارے ہاں کے مفادپرستوں کی چیرہ دستوں کاشکارہوگئے جن کوہرقیمت پراپنااقتدارعزیزہے اورسفاک مودی سے ملاقات کیلئے بے چین تھے اورسلامتی کونسل میں اپناووٹ دیکراس کوممبربنانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی۔آخریہ روتی بلکتی مائیں،دربدربھٹکتے بوڑھے باپ،بال بکھرائے دہائی دیتی بیویاں کہاں جائیں؟کون سی زنجیرعدل ہلائیں، کس دیوارسے سر پھوڑیں؟میں سوچتے سوچتے تھک گیا ہوں لیکن کوئی جواب سجھائی نہیں دیتا۔آج بھی تین سالہ سوزین کے آنسو اور بائیس سالہ نوبیاہتازینب کی آوازیں مسلسل میراتعاقب کررہیں ہیں اور میرے لئے کرب کاایک اضافی پہلویہ ہے کہ دل چیر دینے والی آواز میری پوتی کی آوازسے ہوبہوملتی ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں