A Column From Alam A Barzakh

عالم برزخ سے ایک کالم

:Share

سرماکی ایک یخ زدہ ٹھٹھرتی شام تھی جب میرے رب نے مجھے بلالیا۔اگلے دن عزیزوں،دوستوں اورملنے والوں کی ایک کثیر تعدادنے مجھےاپنے کندھوں پراٹھا کرمیری اہلیہ کے پہلومیں آٹھ فٹ گہری قبرمیں اتاردیا۔بہت سے دوستوں اوراداروں کی طرف سے مختلف رنگوں کےپھولوں کیاچادروں سے مجھ سے اپنی عقیدت اورمحبت کااظہارکیاگیا،تمام احباب رقت آمیزدعا ؤ ں سے دنیاکے سفر آخرت کی آخری رسوم اداکرتے ہوئے سمجھ رہے تھے کہ گویا انہوں نےاپنے تعلق کاحق اداکردیا۔مجھے بھی یوں لگ رہاتھاکہ شائداب فرصت ملے لیکن نجانے کیوں اچانک مجھے اپنی چھوڑی ہوئی دنیاکے شب وروز یادآگئے۔

اچانک چندبرس بیتاہواایک دن آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔صبح سے بارش ہورہی تھی۔تشویش میں مبتلامیری بہوسرجری کھلتے ہیں ڈاکٹرکے پاس لیکر پہنچ گئی ، گویاڈاکٹرکے پاس میں پہلامریض تھا۔ڈاکٹرنے ہم دونوں کے چہرے پرطاری تشویش پرحوصلہ دیتے ہوئے کچھ دوائیں تبدیل کردیں مگرخلافِ معمول میں خاموش رہا۔بہوباربارمجھے حوصلہ دے رہی تھی لیکن میں نے اس کی کسی بات کوجواب نہیں دیابس خالی خالی آنکھوں سے ہم دونوں ایک دوسرے کودیکھتے رہے مگراچانک دوپہرتک حالت اور بگڑ گئی۔جو بیٹا یوکے میں تھا،وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔اس سےچھوٹابیٹا اپنی اہلیہ کے ساتھ دونوں یونیسف کے سروےکیلئےایک دوسرے ملک میں تھے۔لاہوروالے بیٹے کوبھی میں نے فون نہ کرنے دیا کہ ابھی چنددن پہلے اپنے ذاتی گھرمیں شفٹ ہوا اوروہ اس سلسلے میں بے حد مصروف ہے اوربچوں کی وجہ سے خوداس کاآنابھی مشکل ہے۔رہاسب سے چھوٹابیٹا،وہ بھی ایک دوسرے شہرمیں اپنے نئے کاروبار کی نوک پلک سنوارنے میں خاصا مصروف تھا، اسے پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی!یوں صرف میں اور بڑی بہو ہی گھر پر تھے اورایک ملازم،جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔

عصرڈھلنے لگی تومجھے محسوس ہواکہ نقاہت کے مارے بات کرنامشکل ہورہاہے۔میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی،اپنی پوتی اوربہوکوپاس بٹھاکررقوم کی تفصیل بتانے لگاجومیں نے وصول کرناتھیں اوریہ بھی بتانا مقصود تھا کہ مجھ پر کسی کا کوئی بھی قرض واجب نہیں۔دونوں نے ہلکاسا احتجاج کیا۔”یہ توآپ کی پرانی عادت ہے۔ذرابھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کربیٹھ جاتے ہیں”مگران کے احتجاج میں پہلے والایقین نہیں تھا۔پھرسورج غروب ہو گیا۔تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بہومیرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اورسامنے دیوار پر لٹکی ہوئی کلمہ والی تصویر کی تحریر پڑھی اورغروب ہوگیا۔

مجھے محسوس ہورہاتھاکہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہرنکل رہاہوں۔پھرجیسےمیں ہوامیں تیرنے لگااورچھت کے قریب جاپہنچا۔بہوسُوپ لیکرآئی تومیں دیکھ رہا تھا۔ایک لمحے کیلئےاس پرسکتہ طاری ہوااورپھر دھاڑیں مارکررونے لگی۔پوتی اورگھر کاملازم بھی بھاگتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور سب ہی زورزورسے رورہے تھے۔میں نے بولنے کی کوشش کی،یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہاتھامگربول نہیں سکتاتھا۔اندرون ملک سے تمام بیٹے اوررشتہ داربالآخرپہنچ گئے،جوبیرون ملک تھے وہ جلدسے جلدبھی آتے تودودن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصرکے بعدمیری تدفین کردی گئی۔شاعر،ادیب،صحافی،سول سرونٹ اوردیگرتمام ملنے والوں کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔دیگرشہروں اورگاؤں سے بھی تقریباًسبھی آگئے تھے۔ ننھیا ل،ددھیال سب ہی موجودتھے۔

لحدمیں میرے تابوت کے اوپرجوسلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزرکرمیرے تابوت تک پہنچ گئی تھی۔مٹی کے بوجھ سے گھٹن میں اضافہ کے ساتھ ساتھ خوفناک قسم کے اندھیرے سےایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی تھی۔شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ روشنی اورانتہائی خوش کن خوشبومیں اضافہ ہوتا چلاگیا،اسی کیفیت میں سوال جواب کاسیشن ہوا۔یہ کیفیت ختم ہوئی۔محسوس ہو رہاتھاکہ چندلمحے ہی گزرے ہیں مگرفرشتوں نے بتایاکہ پانچ برس ہو چکے ہیں۔پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی۔”ہم تمھیں کچھ عرصہ کیلئےواپس بھیج رہے ہیں ۔تم وہاں”دنیامیں”کسی کونظرنہیں آؤگے،گھوم پھرکر،اپنے پیاروں کودیکھ لو،پھراگرتم نےکہاتو تمہیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے ورنہ واپس آجانا۔

میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اورفوراًہاں کردی۔یہ الگ بات کہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکاتھا۔پھرایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تومیں اپنی گھرکی گلی کی نکڑپرتھاجہاں میں اکثرگزرتے ہوئے تمام دوکانداروں کے سلام کرنے سے پہلے سلام کو ثواب کمانے کی فکرمیں رہتاتھا۔آہستہ آہستہ قدم اٹھاتااپن گھر کی جانب چلا۔راستے میں کرنل صاحب کودیکھا،گھرسے باہر کھڑے تھے۔اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔ اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کرمیں ٹھٹھک گیا۔میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔وفات سے چندہفتے پہلے تازہ ترین ماڈل کی خریدی تھی۔اس کاسن روف بھی تھااورچمڑے کی اوریجنل سیٹیں تھیں،دھچکاسا لگا۔گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟بچوں کے پاس تواپنی اپنی گاڑیاں موجود تھیں۔ توکیامیری بہو یا پوتی اس کواستعمال کررہی تھیں؟

دروازہ کھلاتھا۔میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کراوپراپنی لائبریری میں گیا۔یہ کیا؟کتابیں تھیں نہ الماریاں!رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی ،صوفہ، اعلیٰ کیرئیرکے دوران جومیڈلز،شیلڈیں اوریادگاریں مجھے ملی تھیں اورایک مخصوص کیبنٹ میں ان سب کوسجاکررکھاہواتھا۔بے شمار فوٹو البم،کچھ بھی تووہاں نہ تھا۔ مجھے عربی کے قیمتی مخطوطے”جامعہ الازہرسے چھپے ہوئےیادآئے،حکیم سعید شہیدکی لائبریری کاقیمتی قلمی نسخہ”گلستان سعدی ” کانادرنسخہ جوسونے کے پانی سے لکھا ہوا تھااور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا،اپنے آبا ؤ اجداد کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔کمرہ یوں لگتا تھا کہ “گودام” کے طورپراستعمال ہورہاتھا،سامنے والی پوری دیوارپرجوقیمتی کئی ہزارکی تصویرلگوائی تھی،جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی اورسامنے دیوارپرپاکستان کی مایہ نازمصوروپینٹر برادرم صداقت صدیقی کے ہاتھ کاکلمہ طیبہ کاپورٹریٹ بھی غائب تھا، ۔فاؤنٹین پینوں کابڑاذخیرہ میرے پاس پارکرشیفرڈکراس وہ بھی درازمیں نہیں تھے۔

میں پژمردہ ہوکرلائبریری سے باہرنکل آیا۔بالائی منزل کایہ وسیع وعریض لاؤنج بھائیں بھائیں کررہاتھا۔یہ کیا؟اچانک مجھے یاد آیا،میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے،سُوت سے بُنے ہوئے،چار پلنگ منگوا کراس لاؤنج میں رکھےتھے،قلمکاربرادری کو یہ بہت پسند آئے تھے،وہ سب غائب تھے۔نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بہو اکیلی کچن میں کچھ کررہی تھی۔میں نے اسے دیکھا۔پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہوگئی تھی!میری آنکھوں میں آنسوآگئے۔کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے دردکاکیاحال ہے؟شوگرکی وجہ سے جہاں کمزوراورپیلی رنگت ہو گئی تھی وہاں ایڑیوں میں بھی شدیددردکی شکائت ہوگئی تھی۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یانہیں؟میں اپنی ادویات کے ساتھ اس کیلئے باقاعدگی سے پھل لاتاتھاجس کو کسی نہ کسی بہانے مجھے ہی کھلادیتی تھی۔ نہ جانے میری اس بیٹی کے ساتھ بچے کیاسلوک کر رہے ہیں مگرمیں توبول نہ سکتاتھانہ ہی وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی،بہوبہت دیرباتیں کرتی رہی۔جوکچھ اس طویل گفتگوسے میں سمجھا،یہ تھاکہ میرے بچےاس مکان کوفروخت کرناچاہتے تھے تاکہ اپنااپنا حصہ لیکرالگ سے رہیں لیکن بہودبے لفظوں سے اکٹھے اتفاق سے رہنے کی برکات گنواکران کواس ارادے سے منع کررہی تھی لیکن اس کی کوئی سن نہیں رہا تھا۔اس نے میری نصیحت دہرا کرسمجھانے کی کوشش بھی کی کہ ڈیرہ اپناہی اچھاہوتاہے اور مگروہ میرے بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیارڈال رہی تھی۔گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جا چکی تھی۔بہونے خود ہی بیچنے کیلئے کہا تھاکہ کہ ہر کوئی اس پر اپنا حق جمانے کی کوشش کررہاتھا۔یہ حالت دیکھتے ہوئے اس نے ایک چھوٹی آلٹو خرید لی جبکہ میرے ہوتے ہوئے اس گھرمیں بڑی گاڑی ہی زیراستعمال رہی تھی۔اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔میں اس کا لباس دیکھ کرٹھٹھک گیا۔اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جوہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔نیچے وہ پتلون تھی جس کافیبرک میں نے اٹلی سے لیاتھا!اچھا تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہو چکے تھے کیونکہ مرحوم باپ کے کپڑے پہننے کیلئے کوئی بھی تیارنہ تھا۔

میں ایک سال لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کرسب کودیکھتارہا۔ایک ایک بیٹےکےگھرجاکران کی باتیں سنیں۔کبھی کبھارہی ابا مرحوم کایعنی میراذکرآتا ۔ وہ بھی سرسری سا۔ہاں!صبا،میری پوتی اکثر دادا ابو کا تذکرہ کرتی۔ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی۔”اماں یہ بانس کی میزکرسی دادا ابولائے تھے جب میں چھوٹی سی تھی۔اسے پھینکنانہیں”ماں نے جواب میں کہا”جلدی سے کپڑے بدل کرکھانا کھاؤ،پھرمجھے میری سہیلی کے گھرڈراپ کردو”۔میں قلمکاروں اور ادیبوں کے اجتماعات اورنشستوں میں گیا۔کہیں اپناذکرنہ سنا۔وہ جوبات بات پرمجھے”لکھنے کی جدیدمشین”اور عالمی امورکابہترین تجزیہ کاراور ٹرینڈسیٹرکہاکرتے تھے،جیسے بھول ہی توچکے تھے۔اب ان پریس کلب نے میری تمام کتابیں ڈسپلے سے ہٹا دی تھیں جبکہ کئی شیلفوں پرفقط میری کتابیں سجاناوہ باعثِ افتخارجانتے تھے۔ایک چکرمیں نے قبرستان کالگایا۔ میری قبرکابراحال تھا،گھاس اگی تھی۔کتبہ پرندوں کی بیٹ سے اٹاتھا۔ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہترنہ تھی جبکہ میں نے برسوں اپنی اہلیہ کی قبرکے ساتھ اس کے تمام پڑوسیوں کابھی بہت خیال رکھاتھاحالانکہ میں ان پڑوسیوں سے ایساواقف بھی نہ تھا۔سال کے کئی تہواروں بالخصوص ہرجمعہ اوررمضان المبارک میں توشائدہی کبھی میں نے ناغہ کیاہوگا۔

تاہم ملک میں سیاسی ابتری اورمعاشی بدحالی کے جومناظردیکھنے کوملے،ایسی تباہی سے ہمیں کبھی بھی سامنانہیں ہوا۔پہلے ہمارے ہاں اگرکوئی مہمان آتا تو سارا گھراس کی خدمت میں کوئی کسرنہیں چھوڑتا،چھوٹے بڑے سب ہی مہمان کی تعظیم میں باری باری سلام ودعاکیلئے حاضرہوتے،مہمان اگربزرگ عمر کے ہوتے توان کے گھٹنے چھوکران سے دعائیں لینے کواپنااعزازسمجھا جاتااورمہمان بھی باری باری سب کے حال احوال پوچھ کرپندونصائح سے نوازتے، اچھے برے کی تمیزسمجھائی جاتی۔دسترخوان سے پہلے مہمان کے ہاتھ دھلوانے اورکھانے کے اوقات میں ان کی خاطرمدارت کیلئےپہلو میں کھڑے رہنا تربیت کاایک حصہ سمجھاجاتاتھالیکن ان چندسالوں میں یہ تمام روایات توبالکل ختم ہوگئیں اوراب تومہمان کوسلام کرنے کی بجائے اپنے کمرے میں یاپھر ان کے سامنے ہی اپنے فون کے ساتھ مسلسل مصروف رہ کرمہمان سے عدم توجہی کی بناء پریہ سلسلہ ہی ختم ہوتاجارہا ہے اوراب بچوں کے بارے میں پوچھنا ہی دخل درمعقولات کے زمرے میں شامل ہوگیاہے۔تاہم ایک سلسلہ ویساہی چل رہاہے کہ ہرشام کی خبروں میں یہ سننے کوملتاتھاکہ ہماراملک شدیدخطرات سے دوچارہے اوریہ سرخی اب بھی بدرجہ اتم موجودہے۔

ایک سال کے جائزے کے بعدمیں اس نتیجے پرپہنچاکہ میری موت سے دنیاکوکوئی فرق نہیں پڑاتھا۔رمق بھربھی نہیں!بڑی بہواور پوتی یادکرلیتی تھی تاہم بچے، پوتے،پوتیاں سب بھول چکےتھے،ادبی حلقوں کیلئےمیں اب تاریخ کاحصہ بن چکاتھا۔جن بڑے بڑے محکموں اوراداروں کامیں سربراہ رہاتھاوہاں ناموں والے پرانے بورڈتک ہٹ چکے تھےاورنئے بورڈبھی مسلسل بھرتے جارہے تھے۔دنیارواں دواں تھی۔کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔گھر میں نہ باہرپھر تہذیبی ،معاشرتی اوراقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آرہی تھیں اورآئے جارہی تھیں،ہوائی جہازوں کی رفتارچارگنابڑھ چکی تھی۔دنیاکاسارا نظام سمٹ کرموبائل فون کے اندر آچکاتھا۔میں کبھی بھی ان جدید ترین موبائلوں کامکمل استعمال ہی نہ جان سکاتھا،بس واجبی سے فائدے کوہی غنیمت سمجھتاتھا۔

اب ہرنوجوان اپنے موبائل فون پرسوشل میڈیاکی بدولت ہرکسی کی پگڑی اچھالنے کااستحقاق رکھنااپناحق سمجھتاہے حتیٰ کہ وہ ملک کے کلیدی عہدوں پر اپنی مرضی کی تعیناتیوں اوراداروں کی پالیسیوں کی مکمل اصلاح کے بڑے بڑے احکام جاری کرنے میں آزادہے۔ اپنے سیاسی رہنماء کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانااورمخالفین کے بارے میں نازیبابیانات اورجعلی ویڈیوزکی تصدیق کئے بغیرفوری تشہیرکوعین عبادت سمجھتے ہوئے اپنی پوری صلاحیتیں صرف کرناکارثواب سمجھتے ہیں۔پچھلے دس برسوں سےسیاسی رہنماؤں نے اپنے اقتدارکے حصول کیلئے18برس کے نوجوانوں کوچارہ کاربناتے ہوئے ان کی تربیت کی بجائے اخلاق باختہ پیغامات سے ایسابیباک کردیاہے کہ اب28سال کی عمرکوپہنچ کران کی ذہنی حالت ایسی بنادی ہے کہ ایک پوری نسل ہی تباہ ہوگئی ہے اورہرگھرمیں سیاسی فسادنے ایساجنم لے رکھاہے کہ ماں باپ اب بے بسی سے اپنے ہاتھ مل رہے ہیں۔

فرض کیجئے میں فرشتوں سے التماس کرکے دوبارہ دنیامیں نارمل زندگی گزارنے آبھی جاتاتوکہیں خوش آمدیدنہ کہاجاتا!بچے پریشان ہوجاتے،ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اورپروگرام تھے جن میں اب میری گنجائش کہیں نہ تھی!ہوسکتاہے کہ اگربیوی کوبھی میرے ساتھ واپس آنے کی اجازت مل جائے تووہ بھی کہہ دے کہ ہم دونوں نے واپس آکراولاد کےمسائل میں اضافہ کردیاہے۔مکان بک چکا،میں توشائدکسی ایک بچے کے پاس رہ لیتی، دوکواب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے! دوست تھوڑے جوباقی بچے تھے،وہ بھی اب بیماراورچل چلاؤکے مراحل کاسامنا کررہے تھے!لاہورپاکستان میں برادرم ہمایوں جس کے رعب وداعب کی بناء پرسینہ چوڑاکرکے چلاکرتاتھا،اس کی کمربھی بری طرح جھک گئی ہے،پاگل ہے، وہ بھی یادماضی میں مجھے ڈھونڈ رہا ہے ،ایک ہی نشست میں جوانی کے دنوں میں استنبول ترکی، بلغاریہ، یوگوسلاویہ اور یونان کی حسین یادوں کو چھیڑ بیٹھا جب ہم خوبصورت قدرتی نظاروں کو دیکھ کر اللہ کی صناعی کو جی بھر کرداد دیتے تھے کیونکہ یہ خودجتنابڑاآرٹسٹ تھا،اس سے کہیں زیادہ حساس اوردوستوں پرجان چھڑکتاتھا۔یقیناً ان یادوں کی کسک کوبری طرح محسوس توکرتاہوگا لیکن اپنی محبت بھری یادوں کے بلندوبالا پہاڑوں کا بوجھ کب تک اٹھائے پھرے گا۔اسے جب ملنے کیلئے گیاتووہ ایساگلے ملا کہ چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھا ،یہ تو اچھا ہوا کہ وہ مجھے دیکھ نہیں سکتاتھا۔اس کی یادوں میں دخل اندازی کرتے ہوئے ہاتھ چھڑایا، اس کی خاموش آنکھیں اورچہرے کی اداسی شائدان دوستوں کوتلاش کررہی تھی جہاں مخلص اور بے لوث قہقہے تھمنے کانام نہیں لے رہے تھے.میرے بس میں ہوتاتو اسے بھی ساتھ لے لیتااور زمانے کی بے ثباتی اورمہرووفاسے عاری ان کرداروں کوملاتا جوزندگی میں توجان چھڑکنے کادعویٰ کرتے تھے لیکن اب بھولے سے بھی ان کی زبان پرنام آناتودرکنارایک لمحہ بھی مجھے یادکرنے کیلئے ان کے پاس نہ تھا.
سوچاذراپروفیسرحسین عالم کے حال احوال ہی دیکھتاچلوں جو میرے ہرکالم پربڑاسیرحاصل تبصرہ کرکے مضمون کے بین السطورکوبھی بیان کر دیتا تھا.کئی مرتبہ سمجھایا لیکن وہ اپنی صاف گوئی بیان کرنے سے پیچھے ہٹنے کوتیارنہیں ہوتا تھا.میں سوچ رہاتھا کہ اب وہ کس کے مضامین پرتبصرہ کرتاہوگا،کس کے ساتھ ملک میں جاری سیاسی،معاشی اورمعاشرتی زیادتیوں پراپنادل کھول کرجذبات کو سہلاتاہوگا.پہلے تو ہم دونوں مل کران جاری حالات اورمقتدرحلقوں کے منافقت پر”سیاپا”کرتے تھے،اس کے پیغامات کو ان سب دوستوں تک پہنچاتاتھاکہ اس دل جلے کی سچی اورکھری باتوں کی طرف بھی دھیان دو کہ بے قابو طوفان کہیں سب کچھ نہ بہا کرلیجائے. اب توگھٹن اوربڑھ گئی ہے.اب وہ لاہورمیں کس کواس قدرمحبت سے اپنی میزبانی سے شادبادکرے گا.اس کے کان میں سرگوشی کی کہ ابھی اسے اور بہت سے کام کرنے ہیں،نئی نسل کی آبیاری کیلئے پیشہ پیغمبری کی گراں بارامانت اس کے کندھوں پرہے،نجانے کسی ایک کی دنیاسنوارنے کاکام اس کی عقبیٰ وآخرت کی نجات کا وسیلہ بن جائے.
برانہ مان ضیا اس کی صاف گوئی کا
جودردمندبھی ہے اوربے ادب بھی نہیں

روبینہ صحرائی کے صحراکارخ کیاکہ آخر وہ کیوں اس لق ودق صحرامیں اکیلی ہانپتی،کانپتی بغاوت پر تلی ہوئی ہے.اسے پہلی مرتبہ دیکھ کرمجھے قطعی تعجب نہیں ہوا کیونکہ میں نے اس کے بارے میں جوسوچ رکھاتھا،وضع قطع میں بالکل ویسی ہی تھی.ابھی سے اس عمرمیں اپنے اندرکسی ایک “بابا”کوسجائے بیٹھی ہے بلکہ میں یوں کہوں کہ اس باباکی انگلی پکڑے اسے بھی اپنے ساتھ بھاگنے پرمجبورکررہی ہے جبکہ وہ تو اس عمر میں دنیا کو فتح کرنے کا پلان بنائے بیٹھی ہوئی ہے اوربابا تو اسی دنیاکوتیاگ چکالیکن وہ اب بھی اپنی منزل کے حصول کیلئےبڑی پریقین ہے.بعض اوقات مجھے یقین ہوتاہے کہ شائد یہ میری ہی گم گشتہ جوانی کاکوئی کردار ہے کہ:
تپتے صحرامیں مرے حال پرکوئی بھی نہ رویا
گرپھوٹ کررویاتومرے پاؤں کاچھالہ
روبینہ ….میری بے شماردعائیں تمہارے ساتھ ہیں،میں عالم برزخ سے بھی تمہاری کامیابیوں کیلئے دعاگو ہوں کہ تمہارے اندرکاباغی لاوہ اس معاشرے کی تمام ناانصافیوں،زیادتیوں کو جلاکر راکھ کردے اورتمہارے اس آتش فشاں میں کامیابی کے ایسے پھول کھلیں جو اس دنیاکوایساگلزاربنادیں جس کے بعد اس دنیامیں کوئی دکھ باقی نہ رہے کہ یہی انسانیت کی معراج ہے اوراسی مقصدکیلئے اس کی تخلیق کی گئی ہے:
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

اب اس دنیامیں مزیدرکنے کادل نہیں چاہ رہاتھا،اس لئے مزیدرکنے پرمعذرت کی اورفیصلہ کرلیاکہ واپسی ہی میرے حق میں بہترہے کیونکہ میں اب مکمل طورپر اَن فٹ ہوں۔ نئے لباس میں پیوندکی طرح، جدیدبستی میں پرانے مقبرے کی مانند!لیکن مجھے فوری خیال آیاکہ کیوں نہ دنیاسے محبت کرنے والوں اورہروقت جنت کی دعاکرنے والوں کویہ بھی توبتادوں کہ جس جنت کی تم خواہش کرتے ہو،اس کیلئے پہلے مرناضروری ہے اورمرنے کے بعد پہلاپڑاؤ تو قبر ہے،کیوں نہ اس قبر کے حال کاتھوڑا سے حال احوال بتادوں:

ہم کیوں قبرکی نعمتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے،ہم یہ کیو‌ں نہیں کہتے کہ وہ سب سے بہترین دن ہوگاجب ہم اپنے رب سے ملیں گے۔ہمیں یہ کیوں نہیں بتایاجاتاکہ جب ہم اس دنیاسے کوچ کریں گے توہم ارحم الراحمین کی لامحدوداوربے مثال رحمت اورمحبت کے سائے میں ہوں گے،وہ رحمان جوماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ﷺنے ایک جانورکودیکھاجواپناپاؤں اپنےبچے پررکھنے سے بچارہی تھی،توآپ نے صحابہ سے فرمایا”بے شک ہمارارب ہم پراس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔

کیوں ہمیشہ،صرف عذاب قبرکی باتیں ہورہی ہیں،کیوں ہمیں موت سے ڈرایاجارہاہے،یہاں تک کہ ہمیں،معاذاللہ،پختہ یقین ہوگیاکہ ہمارارب ہمیں مرتے ہی ایسا عذاب دے گاجس کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔ہم کیوں اس بات پرمصرہیں کہ ہمارارب ہمیں صرف عذاب ہی دے گا،ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا رب ہم پررحم کرے گا۔ہم یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ جب قبرمیں مومن صالح سے منکرنکیرکے سوال جواب ہوجائیں گےتوہمارا رب کہے گا”میرے بندے نے سچ کہا،اس کیلئےجنت کابچھونابچھاؤ،اس کوجنت کے کپڑے پہناؤاورجنت کی طرف سےاس کیلئےدروازہ کھول دواوراس کو عزت کے ساتھ رکھو۔پھروہ اپنامقام جنت میں دیکھےگاتواللہ سے گڑگڑاکردعاکرے گا:پروردگارقیامت برپاکرتاکہ میں اطمینان سے جنت چلاجاؤں۔(احمد،ابوداؤد)

ہم یہ بات کیوں نہیں بتاتے کہ ہماراعمل صالح ہم سےالگ نہ ہوگااورقبرمیں ہمارامونس وغمخوارہوگا۔جب کوئی نیک آدمی وفات پا جاتاہے تواس کےتمام رشتہ دار جو دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں،اس کی طرف دوڑیں گے اور سلام کریں گے،خیر مقدم کریں گے۔اس ملاقات کےبارے میں ﷺنےفرمایاکہ”یہ ملاقات اس سے کہیں زیادہ خوشی کی ہوگی جب تم دنیامیں اپنےکسی عزیزسے طویل جدائی کے بعد ملتے ہواوروہ اس سے دنیاکے لوگوں کے بارے میں پوچھیں گے۔ان میں سے ایک کہے گااس کوآرام کرنے دو،یہ دنیاکے غموں سے آیاہے۔(صحیح الترغیب لالبانی)

موت دنیاکے غموں اورتکلیفوں سے راحت کاذریعہ ہے۔صالحین کی موت درحقیقت ان کیلئےراحت ہے۔اس لئے ہمیں دعاءسکھائی گئی ہے۔(اے اللہ موت کوہمارے لئے تمام شرورسے راحت کاذریعہ بنادے)۔ہم لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ موت زندگی کادوام ہےاوریہ حقیقی زندگی اورہمیشہ کی نعمتوں کادروازہ ہے۔ہم یہ حقیقت کیوں چھپاتے ہیں کہ روح جسم میں قیدی ہے اوروہ موت کے ذریعے اس جیل سےآزادہوجاتی ہےاورعالم برزخ کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان وزمان کی کوئی قیدنہیں ہے،رہناشروع کردیتی ہے۔ہم کیوں موت کورشتہ داروں سےجدائی،غم اوراندوہ کےطورپرپیش کرتے ہیں،کیوں نہیں ہم یہ سوچتے کہ یہ اپنے آباؤاجداد،احباب اورنیک لوگوں سے ملاقات کاذریعہ ہے۔ قبرسانپ کامنہ نہیں ہے کہ آدمی اس میں جائےگااورسانپ اس کوچباتارہے گابلکہ وہ توحسین جنت اورحسیناؤں کاعروس ہے جو ہمارے انتظارمیں ہیں۔اللہ سے نیک امیدرکھواوراپنے اوپرخوف طاری مت کرو۔ہم مسلمان ہیں،اس لئے ہم اللہ کی رحمت سے دورنہیں پھینک دئیے گئے ہیں۔

اللہ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدانہیں کیاہے۔وہ ہم سے کیاچاہتاہے اورکیانہیں چاہتا،ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کی رضاکے کام کون سے ہیں اور ناراضگی کےکون سے ہیں اورہم دنیامیں آزادہیں جوچاہے کریں۔اے میرے پروردگار!میری عمرکابہترین حصہ اس کے آخری وقت کوبنائیے اورمیرے آخری اعمال کوبہتربنائیے اورمیری زندگی کے دنوں میں سب سے اچھااو بہترین دن وہ بنائیے جس دن میں آپ سے ملوں۔
علامہ اقبال نے مومن کی کیفیت بوقت وفات بہترین اندازمیں بیان کی ہے۔
نشان مردمومن باتوگوئم
چوں مرگ آیدتبسم برلب اوست۔
(مرد مومن کی تونشانی یہی ہے کہ جب موت آتی ہےتومسرت کےساتھ اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ ہوتی ہے )

دنیاکی یہ بے ثباتی اوربے وفائی دیکھ کرمیں نے فرشتے سے رابطہ کیا اوراپنی آخری چوائس بتادی۔میں واپس قبرمیں جانا چاہتاہوں!فرشتہ مسکرایا۔اس کاکمنٹ بہت مختصرتھا۔”ہرانسان یہی سمجھتاہے کہ اس کے بعدجوخلاپیداہوگا،کبھی بھرانہیں جاسکے گا،مگروہ یہ نہیں جانتاکہ خلاتوپیداہی نہیں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں