A Big Decision In A Big Case

بڑے کیس کابڑافیصلہ

:Share

ممنوعہ فنڈنگ کایہ کیس2014سے الیکشن کمیشن میں زیرسماعت تھا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ فیصل21جون کومحفوظ کیا گیاتھااوراب چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجاکی سربراہی میں نثاراحمداورشاہ محمدجتوئی پرمشتمل تین رکنی بینچ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ عمران خان پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوگئے ہیں اور سٹیٹ بینک سے حاصل کردہ ڈیٹااوردیگرریکارڈکی بناپرعمران خان کافنڈنگ کے حوالے سے2008سے 2013تک دیاگیابیان حلفی جھوٹاہے۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کواس کیلئے اپریل2018سے دسمبر2021تک کاوقت دیاگیاتاہم پارٹی اپنے فنڈنگ کے ذرائع چھپاتی رہی۔پی ٹی آئی نے34انفرادی اور 351 غیر ملکی کمپنیوں اوراداروں سے فنڈنگ وصول کی۔پی ٹی آئی نے کمیشن کے سامنے صرف آٹھ اکاؤنٹس کی ملکیت کوتسلیم کیاہے جبکہ اس نے 13 اکاؤنٹس کو نامعلوم قراردیتے ہوئے اظہارِلاتعلقی کیاہے۔ کمیشن کے مطابق سٹیٹ بینک سے حاصل کردہ ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی نے جن اکاؤنٹس سے لاتعلقی کااظہارکیاوہ پی ٹی آئی کی سینیئرصوبائی اورمرکزی قیادت اور عہدیداروں نے کھولے اورچلائے تھے۔پی ٹی آئی نے سینیئرپارٹی قیادت کے زیرِانتظام تین مزید اکاؤنٹس کوچھپایا۔کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے ان16بینک اکاؤنٹس کوچھپاناآئین کی شق17(3)کی خلاف ورزی ہے۔اس حوالے سے پی ٹی آئی کواظہارِوجوہ کانوٹس جاری کیاہے کہ کیوں نہ یہ ممنوعہ فنڈزضبط کرلیے جائیں۔ تحریکِ انصاف نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کااعلان بھی کردیاہے۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سےاس پرکارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے کرگئی اوریہ مؤقف اپنایاگیاکہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کاقانوناًاختیارہی نہیں۔ تحریک انصاف نے اس مقدمے میں نومختلف پیٹیشنز دائر کیں اور نو ہی وکیل بدلے جبکہ الیکشن کمیشن نے متعدد مرتبہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تفصیلات بھی خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔ایک مرتبہ حکم امتناع ملنے کے بعد جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار کو تحریک انصاف کی طرف سے چیلنج کیا گیا اور کمیٹی کو اپنا کام کرنے سے روکنے کیلئےبھی حکم امتناع حاصل کرنے کی درخواست دی گئی۔ باربارحکم امتناع کی درخواستیں دائرکرنے پرپاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب کاموقف تھاکہ کسی سیاسی جماعت کودستیاب قانونی آپشن استعمال کرنے سے نہیں روکاجاسکتا۔

یہاں میں یہ واضح کردوں کہ پاکستان مسلم لیگ نوازکے رہنماحنیف عباسی نے جب موجودہ وزیراعظم عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھاتواس کے ساتھ ایک متفرق درخواست پی ٹی آئی کوملنے والے مبینہ ممنوعہ فنڈزکے حوالے سے بھی دی گئی تھی اوراسی درخواست پرفیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے2016میں فیصلہ دیاتھاکہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگزکی تحقیقات کااختیارالیکشن کمیشن کے پاس ہے۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمشن کو2009سے 2013کے دوران تحریک انصاف کو موصول ہونے والے فنڈزکی جانچ پڑتال کاحکم بھی دیاتھااورپاکستان تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگزکے حوالے سے تحققیات کیلئےمارچ 2018میں الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹرجنرل لاکی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ آڈیٹرجنرل آف پاکستان اوروزارت خزانہ کاایک نمائندہ بھی اس سکروٹنی کمیٹی کاحصہ تھا۔

تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر اس مقدمے کو لگ بھگ ساڑھے سات برس قبل اُس وقت کمیشن کےسامنے لے کر آئے جب وہ اندرونی اختلافات کی وجہ سے پارٹی اور اعلیٰ قیادت سے دُور ہوئے۔اس معاملے پر دیگرسیاسی جماعتیں ابتدائی کچھ عرصہ تو خاموش رہیں مگر جیسے جیسے عمران خان نے مخالف سیاسی جماعتوں کو اپنا ہدف بنانا شروع کیا تو اِن جماعتوں کی قیادت کی طرف سے بھی یہ مطالبات سامنے آنے لگے کہ تحریک انصاف کوبیرون ملک سے حاصل ہونے والی فنڈنگ کاحساب کتاب ہونا چاہیے۔گذشتہ برسوں کے دوران پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کواس مقدمے میں کوئی حتمی فیصلہ سنانے سے روکنے کیلئے متحرک نظرآئی۔ چند ماہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے جب الیکشن کمیشن کو30روزمیں ممنوعہ فنڈنگ کیس کافیصلہ سُنانے کاپابندکیا توتحریک انصاف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیارکیاتھاکہ اُن کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی اسی نوعیت کے کیسزالیکشن کمیشن میں زیرالتواہیں مگرکسی دوسری سیاسی جماعت کے حوالے سے عدالت نے الیکشن کمیشن کوفیصلہ سُنانے کا پابندنہیں کیاہے۔

اس کیس پرسماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو 30 روز میں پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ کرنے سے متعلق سنگل بینچ کافیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کوتمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک جیساسلوک کرنے سے متعلق بھی(پی ٹی آئی)کی درخواست پرنوٹس جاری کردیا۔ عمران خان اوراُن کی جماعت گذشتہ چھ برس سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ اُن کی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈزحاصل نہیں کیے بلکہ تمام حاصل ہونے والے فنڈزکی دستاویزات موجودہیں۔

اپنے خلاف تحریک عدم اعتمادکی کامیابی سے چندروزقبل ایک نجی ٹی وی چینل کودیے گیے انٹرویومیں عمران خان نے دعویٰ کیاتھاکہ دوملکوں نے انھیں عام انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جوانہوں نے قبول نہیں کی تھی۔عمران خان نے ان دوملکوں کے نام یہ کہہ کرنہیں بتائے کہ ان کے نام بتانے سے پاکستان کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے۔

الیکشن کمیشن میں دائر اپنی درخواست میں اکبرایس بابرنے الزام عائدکیاتھاکہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے فنڈزحاصل کیے،جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتاجبکہ اکبر ایس بابرنے دعویٰ کیاتھاکہ مبینہ طورپرممنوعہ ذرائع سے پارٹی کوملنے والے فنڈزکامعاملہ اُنہوں نے2011میں پہلی مرتبہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایاتھااوریہ درخواست کی تھی کہ پارٹی کے ایک اوررکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائےجواس معاملے کودیکھے لیکن اس پرعمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پروہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کرگئے۔اکبر ایس بابرنے ایک اورالزام بھی عائدکیاکہ امریکااور برطانیہ میں جماعت کیلئےوہاں پررہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈلائبیلیٹیزکمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والافنڈممنوعہ ذرائع سے حاصل کیاگیا۔اسی طرح آسٹریلیااوردیگرممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈزملے اوریہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہُنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈمیں رقم بھجوائی گئی۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں ابراج گروپ کے عارف نقوی پرامریکامیں قائم مقدمات کاحوالہ دیتے ہوئے کہاہے کہ پی ٹی آئی نے بظاہرجان بوجھ کر مجرمانہ دھوکہ دہی میں ملوث کاروباری شخصیت کے زیرِانتظام کمپنی سے عطیات وصول کیے۔جب کمیشن نے پارٹی کے سامنے ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے پی ٹی آئی پاکستان کوفنڈزکی منتقلی کے بارے میں ثبوت رکھے توپی ٹی آئی نے عارف نقوی کادستخط شدہ بیانِ حلفی فراہم کیاجس میں اُنہوں نے تسلیم کیاتھا کہ اُنھوں نے متحدہ عرب امارات میں ہوتے ہوئے (پی ٹی آئی) فنڈ،عطیات اورچندہ جمع کرنے اورخودبھی رضاکارانہ طورپرحصہ ڈالا جوکہ متحدہ عرب امارات کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔(21 لاکھ 21 ہزا500 ڈالر)ووٹن کرکٹ لمیٹڈکے ذریعے منتقل کیے گئے اوریہ فنڈز کس نے دیے،یہ عارف نقوی اورپی ٹی آئی نے نہیں بتایاہے اوریہ فنڈزپاکستانی قوانین کے تحت کمپنیوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کی پابندی کے دائرے میں آتے ہیں۔

دبئی میں رجسٹرڈبرسٹل انجینیئرنگ سروسز سے حاصل کردہ 49 ہزار965 ڈالر،سوئٹزرلینڈ میں رجسٹرڈای پلینیٹ ٹرسٹیز سے حاصل کردہ ایک لاکھ ڈالراوربرطانیہ میں رجسٹرڈایس ایس مارکیٹنگ لمیٹڈسے حاصل کردہ رقوم بھی سیاسی جماعت کوفنڈنگ کی پابندی کے زمرے میں آتے ہیں۔پی ٹی آئی نے امریکامیں کمپنیوں کے ذریعے امریکی شہریوں اورامریکامیں قائم کمپنیوں سے عطیات اورچندے وصول کرنے کیلئےچندہ مہم چلائیں۔ان کمپنیوں نے امریکی قانونی تقاضے توپورے کیے مگر پاکستان میں کام کرنے والی سیاسی جماعتوں سے متعلق پاکستانی قوانین کی پاسداری نہیں کی جس کے تحت کمپنیاں اورغیرملکی شہری ایسے عطیات نہیں دے سکتے۔امریکا میں قائم پی ٹی آئی امریکاایل ایل سی 6160 نے کُل پانچ لاکھ 49 ہزارامریکی ڈالر منتقل کیے جس میں سے70ہزار960ڈالرغیر ملکی شہریوں اورکمپنیوں سے حاصل کیے گئے ۔اسی طرح پی ٹی آئی امریکاایل ایل سی5975نے13غیرملکی شہریوں اور231 غیرملکی کمپنیوں سے اندازاًایک لاکھ 13ہزار948 ڈالرکی رقم پی ٹی آئی پاکستان کو منتقل کی۔

ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایاگیاکہ تحریک انصاف نےالیکشن کمیشن سے 31کروڑسے زائدموصول ہونے والی رقم خفیہ رکھی اوردرجنوں اکاؤنٹس ظاہرہی نہیں کیے گئے۔رواں برس جنوری کے پہلے ہفتے میں جاری ہونے والی الیکشن کمیشن کی تین رکنی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمیشن میں عطیات سے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئیں۔تحریک انصاف نے چند افراد کے علاوہ فارن فنڈنگ کے مکمل ذرائع ظاہر نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے سکروٹنی کمیٹی اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصرہے۔ تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا،برطانیہ،جاپان،سنگاپور،ہانگ کانگ،سوئٹزرلینڈ،نیدرلینڈاور فن لینڈ سمیت دیگرممالک سے فنڈزموصول ہوئے۔ کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کونیوزی لینڈسے موصول ہونے والے فنڈ تک سکروٹنی کمیٹی کو رسائی نہیں دی گئی۔

سکروٹنی کمیٹی کے مطابق جب تحریک انصاف سمیت فریقین کی طرف سے مکمل ڈیٹاتک رسائی سے متعلق تعاون نہیں کیاگیاتو پھرکمیٹی نے الیکشن کمیشن کی اجازت سے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان کے دیگر بینکوں سے 2009سے 2013 کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور یوں یہ رپورٹ مرتب کی گئی۔ تحریک انصاف کی طرف سے جو بیان الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا،اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پرنہیں بلکہ اُس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات اس کام کیلئےحاصل کی جاتی ہیں۔ مخالف جماعتوں نے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیاہے کہ اُنہوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈزحاصل کیے ہیں۔

الیکشن کمیشن ایکٹ2017کے سیکشن204کے سب سیکشن3کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈزجوکسی غیرملکی حکومت،ملٹی نینشل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈزک ے زمرے میں آتے ہیں۔اس کے علاوہ سیکشن204کے سب سیکشن چارکے تحت اگریہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں توجتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کوبحق سرکارضبط کرنے کااختیاربھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔غیرملکی کمپنیوں یاحکومتوں سے فنڈزحاصل کرنے والی جماعت پرپابندی بھی عائدکی جاسکتی ہے۔

ملکی تاریخ میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پرپابندی عائدکی تھی،جس پرالزام ثابت ہوگیاتھا کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے پارٹی چلانے کیلئےفنڈزاکھٹے کیے تھے۔نیشنل عومی پارٹی ایک ترقی پسند سیاسی جماعت تھی اور اس کی بنیاد1958میں اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں عبدالمجید خان بھاشانی نے رکھی تھی۔اس کے بعدسے لے کراب تک کسی بھی سیاسی جماعت پرپابندی عائدنہیں ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں