خلیج فارس۔۔۔امریکی سفیدہاتھی

:Share

امریکا کے صدرجمی کارٹرنے۱۹۸۰ءمیں’’اسٹیٹ آف یونین‘‘خطاب کے دوران کہا تھا کہ’’اگر کسی بیرونی طاقت نے خلیج فارس کاکنٹرول سنبھالنے کیلئے کسی قسم کی مداخلت کی توامریکا مشرق وسطیٰ میں تیل کی آزادانہ نقل وحمل کی حفاظت کیلئے اس کے خلاف جوابی کاروائی کرے گا‘‘۔ کارٹراور ان کے جانشینوں نے اس وعدہ کوہمیشہ نبھایاہے۔ قصرسفیدکادعوی ہے کہ امریکانے نہ صرف خطے میں موجودامریکی فوج کی صلاحیتوں میں اضافہ کیابلکہ عراق کے صدام حسین کوتیل کی سپلائی لائن پرقبضے سے روکنے کابہانہ بناکرجنگ خلیج میں بھی حصہ لیتے ہوئے عراق کوتاراج بھی کردیا۔ اگرچہ خلیج فارس میں امریکاکے دیگر بھی کئی مفادات تھے جن میں جوہری پھیلاؤ کی روک تھام،انسداد دہشت گردی اورجمہوریت کافروغ شامل ہیں لیکن امریکاکاسب سے اہم مفادتیل کی ترسیل کوبغیررکاوٹ جاری رکھناتھاجبکہ وقت نے امریکی بیانیے نےیہ ثابت کردیاکہ اس خطے میں امریکاکی موجودگی اپنے مخصوص مفادات”ورلڈآرڈر”کے تابع ہیں۔
خلیج فارس سے امریکا کی اس وابستگی پراسے کبھی کسی بڑی مخالفت کاسامنا نہیں کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو امریکا کے یورپ اور ایشیا میں مختلف اتحادوں کے مخالف رہے ہیں اور ان اتحادوں کو ملکی معیشت پر بوجھ قرار دیتے رہے ہیں،انہوں نے بھی ہمیشہ اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ امریکا کو خلیج فارس کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر رکھنا چاہیے، کیونکہ دنیا کے ایک تہائی تیل کی پیدوار اس خطے سے ہوتی ہے۔لیکن اب دنیا میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔سرد جنگ کے دوران خطے میں امریکی مفادات کیلئے سب سے بڑا خطرہ سوویت یونین تھا۔امریکی پالیسی ساز پریشان تھے کہ اگر سوویت یونین تیل کی ترسیل کو منقطع کرنے میں کامیاب ہو گیا، تو تیل و گیس پر انحصار کرنے والی امریکی فوج یورپ میں کوئی بڑی جنگ نہ جیت سکے گی۔لیکن سوویت یونین کے خاتمے نے تیل کی سپلائی کے حوالے سے امریکی مفاد کی نوعیت کو تبدیل کر دیا۔ جہاں قومی سلامتی اورخوشحالی دونوں کاانحصار خلیج فارس کی حفاظت پر ہوا کرتا تھا،اب اس کاتعلق صرف خوشحالی سے رہ گیا۔جس نے امریکا کی پالیسی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ قومی سلامتی کے عنصر کی عدم موجودگی نے خلیج فارس میں فوج کی مداخلت بڑھا دی، کیونکہ زیادہ تر امریکی معاشی مفادات کے دفاع کیلئے فوج کو مشکلات میں ڈالنے کو برا نہیں سمجھتے۔تو یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا خلیج فارس کا تیل اتنا قیمتی ہے کہ اس کا دفاع امریکی فوجی قوت کے ذریعے کیا جائے؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے مزید چار سوالوں کے جواب حاصل کرنے ہوں گے۔ اول یہ کہ اگر امریکا خلیج فارس سے اپنی وابستگی ختم کر دیتا ہے تو اس بات کا کتنا امکان ہے کہ خلیج فارس سے تیل کے بہاؤ میں کوئی بڑی رکاوٹ پیدا ہو گی؟ دوم، اس رکاوٹ کا امریکی معیشت پر کتنا اثر پڑے گا؟ سوم، امریکا خلیج فارس سے تیل کے بہاؤ کی حفاظت پرکتنے فوجی اخراجات اٹھاتا ہے؟ آخری یہ کہ خلیج فارس کی حفاظت کیلئے غیر فوجی متبادل ذرائع کیا ہو سکتے ہیں اور اس پر کتنے اخراجات ہوں گے؟ان سوالات کے جوابات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے نظام کی حفاظت پر آنے والی لاگت، اس سے حاصل ہونے والے فوائد کے برابر پہنچ گئی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ لاگت اس پالیسی سے حاصل ہونے والے فوائد سے بھی بڑھ جائے گی۔سو یہ وہ وقت ہے جب امریکا کو خلیج فارس سے فوجی وابستگی ختم کر کے ایسے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو تیل کی ترسیل میں رکاوٹ کی صورت میں امریکی معیشت کو سہارا دے سکیں۔ ایک دہائی یا اس سے کچھ زیادہ وقت میں جب یہ خطہ آج سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہو چکا ہو گا تو امریکا کو اس مقام پر ہونا چاہیے کہ وہ خلیج فارس سے فوجی وابستگی مکمل طور پر ختم کر دے۔
موجودہ پالیسی کاصحیح جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک غلط فہمی دورکرلی جائے۔ سیاستدان اورتجزیہ نگاراکثریہ بات کہتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ تیل کے ترسیلی نظام میں آنے والی کسی رکاوٹ کے خطرے سے بچنے کیلئے امریکاکوتیل کی پیداواربڑھانی ہوگی تاکہ درآمدی تیل پر انحصارکم سے کم ہویعنی توانائی کے شعبے میں خودمختارہو۔یہ دلیل بنیادی طورپرتیل کی عالمی منڈی کے نظام کی ناسمجھی کوظاہرکرتی ہے کیونکہ قابل مبادلہ اجناس کی تجارت میں خودمختاری کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دراصل تیل کی خریدوفروخت عالمی منڈی میں ہوتی ہے،اس لیے امریکا میں اس کی قیمت دنیابھرمیں تیل کی قیمتوں سے جڑی ہوئی ہے۔ تیل کی عالمی منڈی کی مثال ایک پانی کے ٹب کی سی ہے،جس میں پانی ڈالنے کیلئے بہت سے نل لگے ہوئے ہیں اوراس کی نکاسی کیلئے بھی بہت سی نالیاں ہیں۔اس لیے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں کہ کسی ایک نل سے کتنا پانی آتاہے اورکسی خاص نالی سے کتناپانی بہتاہے۔ رسد اورطلب کی بنیاد پرانحصارکرنے والی تیل کی منڈی میں زیادہ اہمیت تیل کی رسد کی ہے کیونکہ اگر تیل کی رسدتیزی سے کم ہوتی ہے تو ٹب سے پانی حاصل کرنے والے تمام صارفین ہی متاثر ہوں گے۔اس لیے اگر امریکا کی خلیج فارس سے تیل کی درآمد صفر بھی ہوجاتی ہے، تو بھی خلیج فارس سے نکلنے والے تیل کی سپلائی متاثر ہونے کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں آنے والی تبدیلیوں سے امریکا بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پائے گا۔
یہ تو سوچا جاسکتا ہے کہ امریکا کے خطے سے نکل جانے کی صورت میں تیل کی سپلائی کس طرح متاثر ہو سکتی ہے، لیکن ان سوچے جانے والے آپشنز میں سے قابل عمل کوئی بھی نہیں لگتا۔ ایک امکان جس پر غور کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی خلیجی ملک اپنے پڑوسی ممالک پر قبضہ کر کے خطے میں موجودتیل کے بیشتر ذخائرپرقبضہ کرلیتاہے توپھرتیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتا ہےاور ایساکوئی بھی اقدام تیل کے بڑے صارفین جیسے برطانیہ اورامریکاکی طاقت کوچیلنج کرنے کے برابرہوگالیکن یہ آپشن کسی طور پر ممکنات میں سے نہیں،کیونکہ خطے میں اتنی طاقت رکھنے والا کوئی ملک نہیں ہے۔عراق امریکی حملے کے بعد سے تباہ ہو چکا ہے اور ابھی بھی انارکی کی لپیٹ میں ہے۔ایران کو مغربی پابندیوں نے کمزور کر کے رکھ دیا ہے اوراس کے رہنما اندورنی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ سعودی عرب، یمن جنگ میں پھنس جانے کی وجہ سے خطے کو فتح کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
دوسری فرضی صورتحال جس پرغورکیاجاسکتاہے وہ یہ ہے کہ خطے پرکنٹرول حاصل کرنے کی بالواسطہ جنگ سے خلیجی ممالک افراتفری اورانارکی کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اوربنیادی انفرا سٹرکچرتباہ ہوسکتا ہے۔ جس سے تیل کی سپلائی بذریعہ بحری جہازمتاثرہوسکتی ہے۔ لیکن بہت سے عوامل ایسے ہیں جواس فرضی صورتحال کوحقیقت کاروپ دینے میں رکاوٹ ہیں۔ خطے میں کوئی بھی ایسی ریاست نہیں ہے جواپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے اتنی بڑی جنگ کاخطرہ مول لے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ بھی آسان کام نہیں۔ ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کو نشانہ بنا سکتے تھے لیکن ان دونوں کو خلیج فارس نے ایک دوسرے سے الگ رکھا ہوا ہے۔
عراق اندرونی تقسیم اور ایران کے ساتھ سرحد لگنے کی وجہ سے نسبتاً زیادہ غیر محفوظ ہے،لیکن ایران کو خودبے شمارچیلنجوں کاسامنا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ امریکا کے عراق پر حملے کی صورت میں پیش آنے والی مشکلات سے بہت کچھ سیکھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ تیل کے ذخائر کابنیادی انفراسٹرکچراس قابل ہے کہ شدید جنگ کے دوران بھی کام دیتا رہے، جس کی واضح مثال ۱۹۸۰ء کی ایران،عراق جنگ ہے، جب شدید جنگ کے دوران بھی تیل کی سپلائی کم ضرورہوئی لیکن جاری رہی اورجنگ بندی کے کچھ ہی عرصے میں تیل کی قیمتیں دوبارہ مستحکم ہو گئیں۔
تیسری ممکنہ صورتحال یہ ہوسکتی ہے کہ ایران امریکااوراس کے اتحادیوں کومشکلات میں ڈالنے کیلئے آبنائے ہرمز سے ہونے والی تیل کی سپلائی میں رکاوٹ پیداکرے۔ آبنائے ہرمزکا۲۱میل کا بہت ہی تنگ ساراستہ ہے جہاں سے روزانہ۲۰ملین بیرل تیل گزرتاہے جوکہ عالمی پیداوارکا تقریباً۲۰ فیصد بنتاہے باوجوداس کے کہ ایرانی فوج اس راستے کومکمل بندکرنے کی اہلیت نہیں رکھتی لیکن ماہرین کاکہناہے کہ وہ بارودی سرنگیں بچھاکر اورمیزائل بوٹ کی مدد سے سپلائی متاثرضرورکرسکتی ہے۔
لیکن اس بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ آیاایران آبنائے ہرمزکوبندکرنے کاارادہ رکھتا بھی ہے یا نہیں بہرحال سپلائی لائن بندکرنے سے اس کی اپنی پیدواراورآمدنی بھی متاثرہوگی اورپڑوسی ممالک بھی اس پرسخت ردعمل کااظہارکریں گے۔ درحقیقت ایران نے کبھی ایسا کرنے کی کو شش بھی نہیں کی،حتیٰ کہ عراق جنگ کے دوران بھی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرامریکا خطے سے اپنی’’کمٹمنٹ‘‘ختم کردیتاہے توشایدایران کبھی اس آپشن پربھی غورکرناشروع کردے بہرحال یہ بات قابل فہم لگتی ہے کہ امریکا کے خطے سے نکل جانے کے بعد ایران جب ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو اس پر مغرب کی لگائی جانے والی پابندیوں کے ردعمل میں وہ آبنائے ہرمز کے راستے کو بند کرنے کی کو شش کرے۔ ایسا سب کچھ ہونا آسان تو نہیں ہوگا، لیکن اگر امریکا خلیج فارس کی حفاظت کا بیڑا اٹھانے سے انکار کر دے گاتو اس صورتحال کے حقیقت کا روپ دھارنے کے امکا ن میں اضافہ ہو گالیکن اب صورتحال یکسرتدیل ہوگئی ہے اورخودٹرمپ نے ایران کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیارکرلی ہے اورایران پرشکنجہ کسنے کیلئے مزید عالمی پابندیوں کیلئے پرتول رہاہے جس کے بعدایران ہنگامی بنیادوں پرمعاہدے کے باقی ارکان سے بات چیت کرہاہے۔فی الحال ایران کی جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے منگل کو صحافیوں کو بتایا آیت اللہ خامنہ ای نے متعلقہ حکام کو حکم دیا ہے کہ وہ افزودگی کے لیے اپنی تیاریاں تیزکردیں۔ اسی لئے یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت بڑھانے کے بارے میں اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ایران کے جوہری ادارے نے اعلان کیا ہے کہ وہ افزودگی کا سب سے اہم جز یورینیم ہیگزا فلورائڈ زیادہ بنائے گا۔ اگر ہم معمول کے مطابق کام کرتے تو شاید چھ سے سات سال لگ جاتے لیکن اب یہ آئندہ ہفتوں یا مہینوں میں تیار ہو جائے گا۔
امریکاکی بددیانتی کے بعدتیل کی سپلائی لائن میں رکاوٹ پیدا کرنے والا آخری ممکنہ خطرہ یہ ہو سکتا ہے کہ تیل پید ا کرنے والے کسی بڑے ملک کے اندرونی حالات اس حد تک خراب ہو جائیں کہ تیل کی پیداوار متاثر ہو۔ اس ممکنہ صورتحال کا نشانہ سعودی عرب بن سکتا ہے۔ سعودی عرب نہ صرف عالمی پیداوار کا دس فیصد سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے، بلکہ اس کے پاس تیل کے اتنے بڑے ذخائر ہیں کہ وہ دنیا بھر میں تیل کی سپلائی لائن متاثر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔فی الوقت تو اس کی برآمدات بظاہر محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ سعودی فوج تیل کے ذخائر کی حفاظت پر مامور ہے اور وہ اس کام کو بہتر طریقے سے سر انجام دے رہی ہے۔ اس لیے کسی قسم کی دہشت گردی کی کارروائی ممکنہ طور پر ناکام ہی ہو گی حالانکہ ان دنوں میں سعودی عرب کی بادشاہت کاادارہ مشکلات کا شکار ہےلیکن حالات اس حد تک خراب نہیں کہ انارکی اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو۔
سعودی شاہی خاندان کو عمومی طور پربادشاہت کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے بیشتر عوام تیل کی دولت سے فوائد حاصل کر رہے ہیں اور جنرل راحیل اوران کے دیگرساتھیوں کی انتھک محنت اورعسکری مہارت کی بناء پر ملک کی فوج بھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اعلی مہارت کی حامل بن چکی ہے۔ یہی وہ سب وجوہات ہیں جنہوں نے بروقت سعودی عرب کو’’عرب بہار‘‘کے اثرات سے بچائے رکھاہے۔ مزید یہ کہ خانہ جنگی کی صورت میں اگر کوئی نئی طاقت اقتدار سنبھالتی ہے تو اسے بھی تیل کی پیداوار کو جاری رکھنا ہو گا، کیونکہ ملک کی معیشت مکمل طورپر تیل کی پیداوارپرانحصار کرتی ہے۔اگرامریکاخلیج سے اپنی’’کمٹمنٹ‘‘ ختم کرتاہے توبھی وہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کیلئے اس کی فوج کو تربیت دینے کاعمل جاری رکھ سکتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ خفیہ معلومات کاتبادلہ اورہتھیارکی فراہمی بھی جاری رکھی جاسکتی ہے۔ مختصریہ کہ اگرامریکا خطے سے اپنی فوجی”کمٹمنٹ” ختم کرنے کافیصلہ کرتاہے،تو تیل کی سپلائی متاثرہونے کے امکان میں اضافہ توہوگا،خاص طورپرآبنائے ہرمزسے، لیکن یہ اضافہ نہایت معمولی ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ تیل کی سپلائی میں ایسی کوئی رکاوٹ کتنی مہنگی پڑ سکتی ہے؟اوریہ خطے میں کسی ممکنہ بڑی جنگ کاپیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔
تیل کی سپلائی میں کسی قسم کی رکاوٹ کے باعث ہونے والے نقصانات کے بارے میں ماہرین کی پیش گوئیاں کافی خطرناک ہیں۔ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق تیل کی عالمی پیداوار میں ایک فیصد کمی سے تیل کی عالمی قیمتوں میں ۸ فیصد تک اضافہ ہو گا۔ ان اعدادوشمار کو سامنے رکھا جائے تو ایک لاکھ بیرل یومیہ تیل اگر کسی رکاوٹ کی وجہ سے کم سپلائی ہوتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ سعودیہ کی برآمدات صفر ہو جاتی ہے یا آبنائے ہرمز سے تیل کی سپلائی ۶۰ فیصد کم ہو جاتی ہے، تو تیل کی عالمی قیمتیں دگنی ہو جائیں گی۔دنیانے ابھی تک ایسی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کیا، لیکن ایسا ہونے کی صورت میں نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔اور قیمت میں اس بھی زیادہ اضافہ ممکن ہے۔تیل کی قیمتوں کا امریکا کی معیشت پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تیل کی قیمت دگنی ہونے کی صورت میں امریکا کی مجموعی ملکی پیداوار میں تین فیصد کمی آئے گی،جو کہ تقریباً ۵۵۰ ارب ڈالر بنتی ہے اور کسی بڑی رکاوٹ کی صور ت میں جیسے کہ آبنائے ہرمز سے تیل کی سپلائی مکمل طور پر بند ہونا،تو اس کے نقصانات بھی اتنے ہی خطرناک ہوں گے۔
لیکن اس کے حقیقی اثرات امریکاپرنہایت کم ہوں گے۔کیونکہ ایسی صورت میں امریکا اپنے پیٹرول کے ذخیرے Strategic Petroleum Reserve کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے زیرزمین ذخائرکااستعمال بھی کرسکتاہے۔ایک اندازے کے مطابق۷۰۰ ملین بیرل تیل ’’اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو‘‘میں موجودہے۔اس کے علاوہ چارارب بیرل سے زائد تیل عالمی توانائی ایجنسی کے ارکان ممالک کے پاس بھی موجود ہوتا ہے۔ (یہ تنظیم ۱۹۷۴ء میں قائم کی گئی،جس کامقصد دنیابھرمیں تیل کے بحران کی صورت میں مل کراس کامقابلہ کرناتھا)۔آبنائے ہرمزسے اگر تیل کی سپلائی آٹھ ماہ کے طویل عرصے کیلئے بھی بند ہوجائے تویہ چارارب بیرل تیل آٹھ ماہ تک اس کمی کوپوراکرسکتاہے۔ ایسے کسی بحران کی صورت میں پہلے ایک ماہ تو امریکا اپنے SPR سے یومیہ ۴ء۴ ملین بیرل تیل نکالے گااوراسی طرح عالمی توانائی ایجنسی کے ارکان ممالک بھی ۸ء۵ ملین بیرل یومیہ اضافی تیل اپنے ذخائرسے نکال سکتے ہیں۔ چین جوکہ عالمی توانائی ایجنسی کارکن نہیں ہے، لیکن وہ بھی اپنے ذخائرکااستعمال کرسکتاہے،چین اپنی درآمدکے حساب سے۹۰دن کے ذخائررکھتا ہے۔یہ تمام اعدادوشماراس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خلیج فارس سے تیل کی سپلائی میں کسی بڑی رکاوٹ کی صورت میں دنیا اگر باہمی طور پر کوئی لائحہ عمل اپنائے گی تو وہ یومیہ ہونے والے نقصانات کا ازالہ کر سکتی ہے۔
امریکی فوج کی خلیج فارس میں موجودگی کے معاشی فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے وہاں رہنے پر آنے والے اخراجات کا جائزہ بھی لیا جائے۔ وہاں بھاری اخراجات تو امریکی جنگی جہازوں کو فعال رکھنے پر آتے ہیں۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے پینٹاگون نے ایک وقت میں دو دشمنوں سے مقابلے کی جو حکمت عملی بنا رکھی ہے اس میں سے ایک دشمن کوہمیشہ خلیج فارس میں سمجھ کرمنصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ دومحاذوں پرلڑنے کی حکمت عملی اس لیے اپنائی گئی کہ کبھی ایسا موقع نہ آئے کہ امریکا کسی ایک محاذ پر اتنا پھنس جائے کہ موقع پرست دوسرے محاذ سےحملہ کر کے فائدہ اٹھا لیں۔
اگر امریکا خلیج فارس میں جنگ کی تیاری کی حکمت عملی کو ترک کرتا ہے تو اس کے پاس دو آپشن بچتے ہیں،ایک یہ کہ وہ دو دشمنوں سے ایک وقت میں لڑنے والی حکمت عملی جاری رکھے لیکن وہ دوسرا دشمن کسی اور خطے میں ہو،دوسرایہ کہ وہ ایک وقت میں ایک جنگ کی حکمت عملی اختیارکرلے لیکن اس حکمت عملی میں خلیج فارس سے زیادہ خطرناک کوئی خطہ نہیں جہاں اس حکمت عملی کے تحت موجودگی برقرار رکھی جا سکے۔
خلیج فارس میں امریکی فوج پر آنے والے اخراجات کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے،کیونکہ وہاں موجود فوج اور بھی کئی جگہوں پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق اگر امریکا ایک جنگ کی حکمت عملی اپناتا ہے تو ایک اندازے کے مطابق سالانہ ۷۵؍ارب ڈالرکی بچت ہوگی جو کہ دفاعی بجٹ کا۱۵ فیصد بنتا ہے۔ فوجیوں کی تعداد میں کمی، جنگی جہازوں کی تعداد میں کمی اور اسلحہ کی مقدار میں کمی لا کر یہ رقم بچائی جا سکتی ہےلیکن امریکا کی خلیج سے وابستگی صرف فوجیوں کی تعداد میں کمی تک محدود نہیں۔ اس خطے میں امریکا تیل کے حوالے سے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بالواسطہ یا بلا واسطہ کئی جنگیں لڑ چکا ہے، جن کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ امریکا نے خلیج کی جنگ میں حصہ لیا تو بنیادی مقصد تیل کی سپلائی جاری رکھنا تھا۔ اگر چہ امریکی بیانئے کے مطابق عراق جنگ تیل کیلئے نہیں لڑی گئی لیکن وقت نے ثابت کردیاکہ یہ صرف دنیاکودھوکہ دینے کیلئے تھااور پالیسی سازوں کے ہاں عراق میں استحکام اور جمہوریت کی جو تڑپ نظر آتی تھی اس کی بنیادی وجہ وہاں موجود تیل کے ذخائر ہی تھے۔ اس لیے اب خلیج سے وابستگی ختم کرنے کے نتیجے میں نہ صرف ڈالر بچیں گے بلکہ قیمتی جانوں کا ضیا ع بھی رک جائے گاکیونکہ اب خطے کے ممالک امریکی دھوکے کوسمجھ چکے ہیں۔
اس ساری بحث کے اختتام پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ خلیج فارس سے نکلنے والے تیل کی حفاظت کیلئے فوج کے استعمال کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ اگر تیل کی رسد میں آنے والی رکاوٹ سے نمٹنے کیلئے فوج کا استعمال ہی بہتر آپشن ہوتاتوآج اس پالیسی کا دفاع کرنے والے بہترپوزیشن میں ہوتے۔ درحقیقت امریکا بہت سے غیر فوجی ذرائع استعمال کر کے اس سپلائی کی حفاظت کو یقینی بنا سکتا ہے۔ایک طرف تو امریکا تیل کے اپنے تزویراتی ذخائر میں اضافہ کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر اگر امریکا اپنے SPR (سٹریٹجک پٹرولیم ریزرو)میں پچاس فیصد کا اضافہ کرتا ہے تو وہ تیل سپلائی میں آنے والے کسی بڑے تعطل کی صورت میں عالمی طلب کو مزید چند ماہ پورا کر سکتا ہے۔اور اس کام کیلئے اسے دس سے چالیس ارب ڈالرخرچ کرنے پڑیں گے جووہ متاثرہ ممالک سے وصول کرسکتاہے۔
اگر ہم امریکی اوریورپی ممالک کی پٹرول کی طلب کی طرف دیکھیں توان میں بیشترممالک اس دن سے پٹرول کانعم البدل ڈھونڈنے میں مصروف ہیں جب شاہ فیصل مرحوم نے امریکا اوراس کے اتحادیوں کیلئے پٹرول فروخت کرنے کااعلان کردیاتھاجس کے بعددنیامیں ایک بھونچال آگیاتھا۔ اس دن کے بعد ایک خاص حکمت عملی کے تحت امریکی معیشت میں تیل کا حصہ کم کر نے کے اقدامات شروع کردیئے گئے لیکن ابھی تک مکمل طور پرپٹرول کانعم البدل ڈھونڈنہیں پائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکااوریورپ نے ایسے پالیسیوں کااجراء ضرورکیاہے کہ معیشت پر تیل کی تبدیل ہوتی قیمتوں کا اثر نہ پڑے۔امریکا میں نقل و حمل کا شعبہ 70فیصد تیل استعمال کرتا ہے،اس لیے اس شعبہ پر خصوصی توجہ دینے کے عمل کارحجان بڑھ رہاہے۔جار ج بش سے لے کراوباما تک تمام صدور نے اس معاملے پر خصوصی توجہ دی ہے لیکن ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے نہ صرف اس خطے کو بلکہ دنیاکوتباہی کے کنارے لاکھڑاکیاہے۔دفاعی اورمعاشی ماہرین نے ان خطرات سے بچنے کیلئے جارحانہ پالیسیوں سے گریزکا مشورہ دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس کومتنبہ کیاہے کہ ممکنہ خطرات سے بچنے کیلئے امریکااوراس کے اتحادیوں کوہنگامی بنیادوں پرتیل کی کھپت کوکم کرنے کے اقدامات پرابھی سے اقدامات کرناہوں گے۔اس کیلئے پٹرول پرٹیکس کی شرح بڑھانی ہو گی تاکہ عوام متبادل ذرائع کا استعمال بڑھائیں۔
امریکی ماہرین کے مطابق کچھ ترقیاتی اخرجات ایسے ہوتے ہیں جو طویل عرصے بعد نتائج دیتے ہیں،جیسے کہ ریسرچ کا شعبہ،اگر حکومت ریسرچ کے شعبے کیلئے مختص رقم میں اضافہ کر دے تو اس کے نتیجے کی صورت میں ۲۰۳۵ ء تک ملک میں تیل کی کھپت میں پچاس فیصد تک کمی ممکن ہو سکے گی۔ اس لیے حکومت اگر آئندہ ۱۵سالوں میں ۱۰۰سے ۲۰۰؍ارب ڈالرریسرچ جیسے شعبہ جات پرخرچ کرتی ہےجوکہ تقریباًدس ارب ڈالرسالانہ بنتے ہیں،توخلیج فارس کے دفاع پر آنے والے ۷۵ ارب ڈالر سالانہ اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکا تیل کی سپلائی میں کسی رکاوٹ کے معیشت پراثرات کم کرنے کیلئے مختلف اقدامات کر سکتا ہے۔ SPRمیں اضافہ کے علاوہ IEAپر دباؤڈالاجائے کہ وہ بھی اپنےذخائر میں خاطرخواہ اضافہ کرے۔کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کسی بحران کے موقع پرامریکاکو اکیلے بوجھ برداشت کرناپڑے گا۔اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کوخلیجی ممالک پربھی دباؤبڑھاناہوگا کہ وہ آبنائے ہرمزپراپناانحصارکم کریں اورتیل کی پائپ لائن ،جوکہ آبنائے ہرمزسے گزرتی ہیں ان کی استعداد بڑھائیں اور یہ کام وہ آسانی سے کربھی سکتے ہیں۔
امریکی فوج کی خلیج فارس میں موجودگی کے فوائدو نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد انداز ہ ہوتاہے کہ حالیہ حکمت عملی کلی طور پرغلط نہیں ہے۔ اکثر ہمیں کم خطرات سے نمٹنے کیلئے بھاری اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔لیکن اب عقل یہی کہتی ہے کہ اس وابستگی کا خاتمہ ہو نا چاہیے۔قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھاجائے تواب خلیج فارس سے آنے والے تعطل پرکسی بڑے نقصان کا خدشہ نہیں ہے۔معاشی طورپربھی ملک اب تیل کی سپلائی میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو برداشت کرسکتاہے اورآئندہ اس تیل پرانحصارمزیدکم ہی ہوگا۔موجودہ حالات میں امریکاکوخلیج فار س میں اپنی موجودگی برقراررکھنے کی بجائے بتدریج خودکو ایسی پوزیشن پرلانا ہو گاکہ کسی بھی وقت وہ اس وابستگی کوختم کرسکے۔ آنے والے دو عشروں میں تیل کے حوالے سے خود انحصاری حاصل کرنے کیلئے مزید سرمایہ کاری کرنی ہوگی، جیسا کہ ملکی ذخائر میں اضافہ، توانائی کا بہتر استعمال اور آبنائے ہرمز سے گزرنے والی تیل کی پائپ لائنوں کی استعداد میں اضافہ،ان اقدامات سے ملک جلد خودانحصاری حاصل کرلے گا۔
ادھرپینٹاگون نے ٹرمپ کواس بات پرقائل کرلیاہے کہ تیل کے معاملے میں خود انحصاری کے بعد امریکا کو خلیج میں اپنی وابستگی وہاں موجود خطرات کو سامنے رکھ کر برقرار رکھنی ہو گی۔ ان خطرات میں سب سے نمایاں ایران ہے۔ ایران پرایٹمی معاہدے میں مزیدسخت شرائط عائدکرنے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس سے وابستہ خطرات بھی کم ہوتے چلے جائیں گے۔ تیل کی درآمد سے پابندی ہٹنے کے بعد ایرن شاید ہی کبھی خلیج فارس میں کسی گڑبڑ کا سوچے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اس کو بہت بڑی آمدنی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔اس طرح جب ایران سے خطرات بھی نہ ہو نے کے برابر رہ جائیں گے اور امریکا تیل پر خود انحصاری حاصل کرلے گا تو اس کو تیل کی سپلائی لائن کی حفاظت کی ذمہ داری سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ لیکن اگر ایران جارحیت پر اترتا ہے تو پھر امریکا کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان دنوں خودامریکی عوام کے اندریہ احساس بڑھتاجارہاہے امریکاکو خلیج سے اپنی فوجی وابستگی کا خاتمہ جلدازجلدکرناچا ہئے، جس سے اس کے اخراجات میں نمایاں کمی ہو گی اور تر جیحات بدل جائیں گی۔ دوسری طرف اگر امریکا اپنی فوجی وابستگی برقرار رکھتا ہے، تواسے اپنے دفاعی بجٹ کابڑاحصہ اس مد میں خرچ کرناپڑے گا۔ بہرحال یہ فیصلہ توامریکاکی خلیج فارس میں فوجی ترجیحات کی بنیادپرہوگا،جن میں جوہری پھیلا ؤسب سے اہم ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فیصلہ سازوں نے دہائیوں سے خلیج میں فوج کی موجودگی پرکبھی سوال ہی نہیں اٹھایا باوجود اس کے کہ خلیج میں فوج کی ضرورت پہلے جیسی نہیں رہی۔اس معاملے پر نظرثانی نہ کرنااوراس کے متبادل پرسرمایہ کاری نہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے ۔اس غلطی کے نتیجےمیں جہاں امریکا کواربوں ڈالرکا نقصان ہورہاہے وہیں اپنی فوج کوغیر ضروری جنگ میں بھی الجھایاہواہے اگراس سفید ہاتھی سے جلدجان نہ چھڑائی گئی تویہ سفیدہاتھی خود امریکاکواپنے قدموں تلے کچلناشروع کردے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں