پچھلے دنوں آپ کے جریدے(روزنامہ جنگ لندن) میں ہمارے ایک بھائی نے ”ضیاء الحق شہید”کوآمرمطلق اوران کے مظالم کوبڑی فراخ دلی سے نہ صرف گنوایابلکہ حسب معمول تبرے بازی سے بھی دریغ نہ کیا اورآج کل یہ دستور چل نکلاہے کہ جانے والے کوتمام برائیوں کی جڑقرار دیکراپنی سیاست کاآغازکیاجائے اوربھلاہوآپ کے اخبارکاکہ اس کے کالم بھی ہرچڑھتے سورج کی تعریف کیلئے ہروقت حاضرہوتے ہیں۔یقیناً آپ اس کو آزادیٔ اظہارکانام دیں گے لیکن میں سمجھتاہوں کہ دیارِ کفرمیں بھی اختلاف کے کچھ اصول و آداب ہوتے ہیں اورمسلمانوں کاتوشیوہ رہاہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی اصلاح کیلئے بھی اس نے تعمیری اندازاختیارکیاہے لیکن یہاں جب سے جھوٹ کی سیاست کارواج چل نکلا ہے ہم مسلمانوں نے خوداغیارمیں اپنے بھائیوں کی رسوائیوںمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ہرروزآپ کے اخبارمیں پچھلی حکومت کوجی بھرکر مطعون کیاجاتاہے۔جی بھرکراس کوگالیاں اورکوسنے دیئے جاتے ہیںاوریہ سمجھ کرکہ لوگوں کاحافظہ اس قدرکمزورہے کہ ”شہید جمہوریت”کے زمانے کے کارہائے نمایاں لوگ فراموش کرچکے ہیںحالانکہ یہ سچ نہیں ہے کیونکہ مکمل سچ کے اظہارمیں ایسی کچھ ناگفتنیاں آئیں گی کہ موجودہ حکومت اوران کے حواری شائدٹھنڈے پیٹ برداشت نہ کرسکیں۔
اگراس بات کا یقین کرلیں کہ ایوب خان اوریحیٰی خان کی آمریت کے بعدوطن عزیزکوحقیقی جمہوریت کا”دورِ بہار”ملاتھاتوپھرسوچنے کی بات ہے کہ لوگوں کاجم غفیربھٹومرحوم کے خلاف سڑکوں پرکیوں نکل آیااورقومی اتحاد کی تحریک میں رسوائے زمانہ ایف ایس ایف کے ہاتھوں ہزاروں آدمیوں کوکیوں گولیوں سے بھون دیاگیا۔اس کے مقابلے میں ضیاء الحق جیسے آمرنے جب ملک کی بھاگ ڈور سنبھالی تولوگوں نے نہ صرف مٹھائیاں بانٹیں بلکہ خوش دلی سے اس کوقبول بھی کیا۔پھراس آمر مطلق کے دور حکومت میں کیوں نہ کسی کی سرِ بازار پگڑی اچھالی گئی اوراس کی حکومت کے خاتمے پرعوام نے نہ صرف ملک کے طو ل وعرض میں بلکہ دنیاکے تقریباً تمام اسلامی ممالک میں کیوں محبت والفت کے جذبے کے ساتھ اس کی غائبانہ نمازجنازہ اداکی؟اسلام آبادمیں لاکھوں لوگوں کے جم غفیر کودیکھ کرجاج شلز اوردوسرے غیرملکی سربراہوں نے مخالفت کے باوجوداپنے اپنے ملکوںکی انٹیلی جنس کو کیوں کوسا؟پھراس آمراعظم کی میت کوکندھادینے کیلئے کیوں مخالفین بھی اپنی سعادت سمجھ کرآنسوؤں کانذرانہ دے رہے تھے۔پچھلے آمروں(ایوب خان اوریحیٰی خان)کے جنازے اس طرح کیوں نہ اٹھے؟
پھرایساکیوں ہے کہ ”شہید جمہوریت”کے مظالم اورفرعونیت کی کہانیاں آج بھی لوگوں کی ذہنوں میں نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ ان کے بہت ہی قریبی معتمد بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے ۔ اگر معراج خان کوجہاں محبت کایہ صلہ ملاکہ اپنی ایک آنکھ کے نورسے محروم ہوناپڑاوہاں جے اے رحیم جیسے بزرگ اورمخلص ساتھی کے منہ پربھری محفل میں طمانچہ ماردیاگیااور وہ اپنی اس عزت افزائی پرکئی ماہ گھرسے نہ نکل سکے اورمختاررانا توشہید جمہوریت کے جمہوری دورکے پہلے اسیرہوئے اورپانچ سال جیل کی یاتراکے بعدبرطانیہ جیسے جمہوری ملک میں جمہوریت کے آداب سیکھنے کیلئے بھیج دیاگیالیکن اس کے مقابلے میںآمرمطلق کی انکساری،اخلاق ومحبت کے مظاہرے آج بھی لوگوں کی حسین یادوںکاایک سرمایہ بن گئے ہیں اور پھر یہ آمراعظم عوام کے مخالفانہ مظاہروںاورمردہ بادکی گونج میں اقتدارسے رخصت نہیں ہوابلکہ لاکھوں لوگوں کی آہوں،سسکیوںمیں ایک سازش کے تحت رخصت ہوا اورآج کی جمہوریت میں تواس حادثے کی تحقیقات بھی روک دی گئی ہیں۔
آمراعظم کے مظالم میںکوڑوں کی سزاکاذکرہردوست سر فہرست رکھ کردوسرے مظالم کواس کے مقابلے میں کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے
مگرشہیدجمہوریت کی ”نتھ فورس” اور ایف ایس ایف کے ٹارچر سیل توبرسوں لوگ اپنے ذہنوں سے محونہ کرسکیں گے جن سے ہزاروں شہریوں نے استفادہ کیااوربعض توجان جان آفریں کے سپرد کرکے شہید جمہوریت کوبھرپورخراج تحسین پیش کرتے ہوئے دنیاسے اس طرح رخصت ہو گئے کہ آج تک ان کانام ونشاں باقی نہیں،بعض آج بھی عمربھر کی معذوری کی سندلیکر شہید جمہوریت کیلئے دن رات دعاگوہیں۔کیاکوڑوں کی سزا گولیوں کے نذرانے سے زیادہ ظلم کاپیام لے کرآئی تھی؟
آج آمر اعظم کے زندانوں کابڑاذکربڑے زوروشور سے کیاجاتاہے مگردلائی کیمپوں اورشاہی قلعہ کے عقوبت خانوں کوکیوں فراموش کردیاگیا جہاں کے اینٹ وپتھرآج بھی زبان حال سے ان تمام کرم فرمائیوں کاذکراپنے سینوں میں محفوظ رکھتے ہیں اوراس وقت کے منتظرہیں کہ انسان کے منہ پرخاموشی کی مہرلگادی جائے گی اورتمام اعمال نامہ آنکھوں کے سامنے دہرادیاجائے گا۔بہرکیف افسوس سے دوبارہ دنیامیں واپسی کی خدائے برتر سے گزارش کی جائے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہوگا۔
پھرآمرمطلق پرکوڑوں کے بل پرحکومت کرنے کاالزام لگایاجاتا ہے ۔کیاوجہ ہے کہ یہ لوگ جب سینہ کھول کر شہید جمہوریت کی گولیوں کے تحائف اپنی جھولی میں سمیٹ رہے تھے آمر مطلق کے کوڑوں سے کیوں دبک کر اپنے گھروں میںبیٹھ گئے؟پھراس حقیقت سے کیسے انکارکیاجا سکتا ہے کہ ”شہیدجمہوریت”آٹھ سال تک ایک آمرایوب خان کی حکومت کا خدمت گاررہے اورپھرمادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی سربراہی میں لڑی جانے والی جمہوریت کی اصل جنگ میں آمرمطلق ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ کافریضہ سرانجام دینے کاسنہری موقع بھی انہی کے حصے میں آیا۔دوسرے آمرمطلق یحیٰی خان کاوزیرخارجہ کون تھاجس نے پولینڈ کی قراردادکے پرزے اڑاکرمشرقی پاکستان کی علیحدگی کویقینی بنادیا؟ آمراعظم کے مارشل لاؤں کاتذکرہ کرتے وقت ہمارے دوست اس حقیقت سے کیسے انکارکریں گے کہ شہیدجمہوریت نے اپنے سیاسی کیریئر کاآغاز مارشل لاء کی کابینہ کے ایک وزیر کی حیثیت سے کیاتھااوراسی آمرمطلق کوراولپنڈی میں کنونشن لیگ کے سالانہ اجتماع میں”امیرالمومنین”کا خطاب کس نے دیاتھا؟پھریہ بات تحریرکرتے ہوئے بھی بالکل شرمانا نہیں چاہئے کہ شہید جمہوریت نے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کاتاج پہن کرہی ملک کی باگ ڈورسنبھالی اوراپنے اقتدارمطلق کاآغازان تمام غداروں کوجنہوں نے پاکستان کودولخت کیاتھا،پناہ دے کرکیا۔آخروہ کون سی چیز مانع تھی جوان تمام غداروں کوگولی سے اڑادینے میں مانع تھی،لیکن شہید جمہوریت کی زلف کے اسیرپھربھی ملک میں اپنے اعزازات کے ساتھ نہ صرف دفن ہوئے بلکہ تمام مراعات سے ان کی اولاد آج بھی استفادہ کر رہی ہے۔
پھرتاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اقتدارکے خاتمے کیلئے عوامی مظاہروںپردل کھول کرآنسوگیس کے شیل ہی نہیںبلکہ ایف ایس ایف اورمقامی پولیس کواسی آمر مطلق سے گولیوں کی بھیک مانگناپڑی اورصرف معاملہ یہی تک محدود رہتاتوبات تھی،لاہورمیں مارشل لاء کس کے احکام سے نافذ ہوا؟جتنی خونریزی شہید جمہوریت کے دورمیں ہوئی کیاایسی ہی مثال اس آمرمطلق کے دورمیں کہیں ملتی ہے؟ڈیرہ غازی خان کے فرشتہ صفت ڈاکٹر نذیرشہید کودن دیہاڑے کس نے جمہوریت کے جام سے سیراب کیا؟خواجہ رفیق کودن دیہاڑے اسمبلی کے سامنے جمہوریت کاتحفہ کس نے دیا؟سمن آبادکالج سے دونوجوان لڑکیوں کوگورنرہاؤس کی زینت کس نے بنایا؟مال روڈ لاہور،اسلام آبادکی سڑکوں پرکھلے عام شراب کی بوتلیں لہرا کراسلام کامذاق کس نے اڑایا؟سندھ ہاؤس میں شہناز کے لئے ممتاز بھٹوسے لڑائی کس نے مول لی اوراسی دن اس کوسندھ کی گورنری سے برطرف کیوں کیاگیا؟حسنہ شیخ کانام کس سے منسوب ہوا؟ان بے شمار سوالات کاجواب اگرایمانداری سے میرے دوست اپنے ضمیر سے پوچھیں تومیراخیال ہے کہ شہیدجمہوریت کی تصویرہی ابھرکرسامنے آئے گی جبکہ آمر مطلق کاسال میں کئی دفعہ کعبے کی چوکھٹ اورمدینہ منورہ میں رسول اکرمۖ کی جالیوں سے چمٹ کرآہ وزاری توکسی اورتصویرکارخ پیش کرتی ہے۔
شہید جمہوریت کے وارثان جہاں آج خزانے کے خالی ہونے کاواویلاکرکے ملک کے غریبوں کوبے وقوف بنارہے ہیں وہاں آصف زرداری کو نواب شاہ میں شوگرملز کیلئے بغیرکسی ضمانت کے پچاس کروڑ پچاس لاکھ کاقرضہ عنائت کردیاگیاہے۔اپنے سسر محترم حاکم علی زرداری کوتقریباً دو ارب کے قرضوں سے مستفیذکیاگیااورپھروزیروں مشیروں کی فوج کو بھرتی کرکے ملک کے خزانے پراحسان کردیاگیاہے۔آمر مطلق کوامریکا کا ایجنٹ کہتے ہوئے جوزبان نہ تھکتی تھی،آج امریکاکے دورے میں پاکستان کی تاریخ پر جو لیکچر ارشاد فرمائے گئے ہیں اورامریکابہادرکے نامحرموں کے ساتھ عروسی جوڑے میں ہاتھ ملاکر اسلامی تہذیب کاجس طرح نام روشن کیاگیاہے اس کی مثال بھی شائد آمرمطلق کے دورمیں نہیں ملتی۔ امریکا میں پاک چین دوستی اورمشرقِ وسطیٰ کے سلسلے میں جو مجرمانہ خاموشی محض اس لئے اختیار کی گئی کہ امریکا بہادرآج کل چین سے ناراض ہے اور مربی سولارز عربوں کی بات سننا گوارہ نہیں کرتے۔
روس پرچندمنٹ برس کرامریکاسرکارکی جہاں آشیربادحاصل کی وہاں روس وامریکاکی ملی بھگت کاشکارہوکرافغان پالیسی کارخ موڑ دیا۔ازلی دشمن بھارت کی خوشنودی کے لئے فوج کے بجٹ میں شرمناک کمی کردی اورملک کے تمام قومی سلامتی کے حساس رازوں سے اپنے وزیرداخلہ کی توسط سے بھارت کومطلع کرکے ملک کو شرمناک حدتک رسوائی کے گڑھے میں دھکیل دیا جب کہ آمرمطلق نے دنیاکی ایک سپرطاقت کے سامنے افغان مجاہدین کی شکل میں ایسا سیسہ پلائی ہوئی دیوار کھڑی کردی کہ اس سپر طاقت کونہ صرف ذلیل ورسوا ہوکروہاں سے نکلناپڑابلکہ اسی کی کوکھ سے چھ اسلامی ملکوں نے مزید جنم لیا اوردنیاکی تمام آزادی کی تحریکوں کوایک نئی زندگی مل گئی جب کہ وارثان شہید جمہوریت نے اپنی غلط پالیسی سے جلال آبادمیں مجاہدین کاناقابل تلافی نقصان کرڈالا اورمجاہدین کی منزل کوتھوڑااوردورکردیا۔
ان تمام باتوں کے باوجودبھی اگرمیرے سادہ لوح دوست اس آمرمطلق پرتبرابازی کرتے ہیں تواس حدیث نبویۖ کواپنے ذہن میں رکھ لیں کہ مخبر صادق ۖ کاارشادِ گرامی ہے کہ:”حادثے کی موت شہادت ہے”:
مجھے امید ہے کہ آئندہ اس موضوع پرقلم اٹھانے سے پہلے تاریخ کی گواہی ضرور حاصل کی جائے گی اوراگرآئینے میں اپناہی داغ دار چہرہ نظر آیاتوبرا نہیں منائیں گے۔
Load/Hide Comments