ثابت قدمی۔۔۔۔ کامیابی کی نوید

:Share

آپ توقعات کم رکھیں تومایوس نہیں ہوں گے۔جب امریکااور بھارت کے ناجائز مطالبات کے جواب میں ہمارے پالیسی سازوں کا یہ ایک معمول بن جائے گاتوحالات کی بہتری کے امکان بھی بڑھ جائیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے نئی دہلی کے دورے پر بھارتی قیادت نے کیاسنہری خواب دکھائے ہیں ،خطے کے موجودہ حالات سے سب واضح ہےلیکن مودی کے گرم جوش استقبال، گاندھی سمرتی کی خوشگوار مثالیں اور روشن مستقبل کے وعدوں کے باوجود امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے۔بھارت کی ٹرمپ انتظامیہ سے وابستہ توقعات کوحقیقت پسند بنانے کی کئی وجوہا ت ہیں،قطع نظر اس بات کے کہ امریکی صدریاوزیرخارجہ کیاکرسکتے ہیں۔
امریکا کی پاکستان کیلئے کوئی نئی پالیسی نہیں ہے اورنہ ہی مستقبل قریب میں ہوگی۔۲۱؍اگست کوٹرمپ نے پاکستان سے نمٹنے کیلئے نئی پالیسی اپنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہاتھا:’’ہم زیادہ عرصے خاموش نہیں رہ سکتے”اس بیان پر اسلام آباداورنئی دہلی کے کان کھڑے ہوگئے لیکن امریکاکی نئی جنوب ایشیائی پالیسی کے اعلان کے چارماہ گزرنے کے باوجودعوامی سطح پرپاکستان کے خلاف کو ئی اہم قدم نہیں اٹھاسکا۔ اگرزیرسمندرتبدیلی کاکوئی عمل جاری ہے تو وہ لہروں کے نیچے پوشیدہ ہے،اس پرحیرت نہیں کی جانی چاہیے۔جب تک پاکستان کے پڑوس افغانستان میں امریکی فوجی موجودرہیں گے، پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ اورزمینی راستوں پرامریکاکاانحصار رہے گا۔امریکاسمجھتاہے کہ پاکستان کا طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر اثرورسوخ سب سے اہم ہےاورمزید ۵۰۰۰ فوجی بھیجنے کے بعد افغانستان میں امریکا کا کردار کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے گااورموجودہ ٹویٹ بھی اسی ردّی کی ٹوکری کی نذرہوجائے گا۔
اکتوبر کے وسط میں ایک زبردست مظاہرہ دیکھنے میں آیاجب ۱۲؍اکتوبرکوایک امریکی خاتون اوران کے کینیڈین شوہر کو۳بچوں سمیت پانچ سال بعدحقانیوں کی قیدسے آزادکرالیا گیا،خواہ یہ ایک مناسب وقت پرکی گئی فوجی کاروائی ہویا خفیہ بات چیت کے بعدکیاگیاآپریشن،اس کاروائی سے امریکاکوپاکستان کے مددگار ہونے اورنقصان پہنچانے کی صلاحیت کااندازہ ہوگیا،جس کے بعدٹیلرسن نے پاکستانی حکومت اورفوج کاشکریہ اداکرتے ہوئے اس کاروائی کو پاک امریکا مضبوط تعلقات اوردہشت گردی کے خلاف عزم کیلئے اہم قراردیا۔امریکااور بھارت چین کے حوالے سے پالیسی پربھی متفق نہیں ہیں، اکتوبر کے آغازمیں ٹیلرسن نے چین اوربھارت کے ساتھ امریکاکے تعلقات کے تناظرمیں اہم تقریر کرتے ہوئے کہاتھاکہ’’ہمارے چین کے ساتھ بھارت جیسے تعلقات نہیں ہوسکتے، چین ایک غیرجمہوری معاشرہ اوربھارت ایک جمہوریت ہے‘‘۔انہوں نے چین کے بیلٹ اورروڈ منصوبے پربھی شدید تنقیدکی،انہوں نے اس منصوبے کے متبادل کیلئے فنڈزکے حوالے سے امریکااوربھارت کی مشترکہ کوششوں کی پیشکش بھی کی لیکن ٹیلرسن نے نہیں بتایاکہ اس طرح کے کسی منصوبے کیلئے فنڈز کہاں سے آسکتے ہیں۔
چین بیلٹ اورروڈ منصوبے کے ایک ٹکڑے کیلئے پاکستان میں۴۶؍ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کے منصوبوں میں عملاً شریک ہے،ادھرامریکی انتظامیہ نے خارجی امور کے حوالے سے۲۸ فیصد بجٹ کٹوتی کا منصوبہ بنایا ہے اور ٹیلرسن اس منصوبے کی مکمل حمایت کررہے ہیں۔بھارت کی جانب سے بھی دوسرے ملکوں میں سڑکوں اورریلوے انفرااسٹرکچرکی تعمیرپراربوں خرچ کرنے کاکوئی امکان نہیں کیونکہ بھارت کوخودبنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ بھارت چین کے کردارکومحدودکرنے کیلئے اتحادبنانے کے مشورے پرعمل کرنے سے نہ صرف مسلسل گریزاں بلکہ ناکام ہوچکاہے،اس موسم گرما میں ڈوکلام میں ہونے والی جھڑپوں کے بعدبھارت اپنی اوقات پہچان چکاہے۔
اس عمل کے بعددہلی کویہ فکرکھائے جارہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس کے برعکس جاسکتی ہے،مثال کے طورپرچین کے ساتھ گزشتہ ۳۵سال کے بدترین تنازعے کے باوجودجاپانی وزیراعظم نے بھارت کے حق میں ایک بیان تک نہ دیا۔امریکااوربھارت،افغانستان اورایران کے معاملے پرمختلف موقف رکھتے ہیں ۔ ٹرمپ انتظامیہ کی نظرمیں افغانستان ایک امریکی پراجیکٹ ہے،وہ افغان معاملے میں بھارت کے ساتھ سودے بازی کرنا چاہتے ہیں۔۲۱؍اگست کی تقریرمیں ٹرمپ کاکہناتھا کہ’’بھارت امریکاسے تجارت کرکے اربوں ڈالر کماتا ہے،ہم افغانستان میں بھارت کی مزیدمدد چاہتے ہیں” مگربھارت کااپناایجنڈاہے اوروہ امریکا کاحشردیکھ رہاہے۔بھارت نے افغانستان کو۳؍ارب ڈالرامداداورسرمایہ کاری کی شکل میں فراہم کیے ہیں،اس میں زیادہ رقم افغانستان کوایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے منسلک کرنے پرخرچ ہوگی،چاہ بہارکی تعمیرکابھارتی منصوبہ چین کے بیلٹ اورروڈ منصوبے کے توڑ کیلئے ہے، یہ منصوبہ پاکستان سے گزرے بغیر خشکی میں گھرے افغانستان تک روڈ، ریل اور سمندری راستے سے رسائی کو محفوظ بناتا ہے،یہ بھارت، ایران اور افغانستان کیلئے ایک بہترمگرمہنگا راستہ ثابت ہوگا، لیکن مشکل یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کی عالمی تجارتی سرگرمیوں کوروکنے کی پوری کوشش کررہی ہے ۔
۱۳؍اکتوبرکو صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ۲۰۱۵ء میں ہونے والے اہم جوہری معاہدے کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا، یہ معاہدہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہوا تھا، ٹرمپ نے اس معاہدے کو امریکی تاریخ کا بدترین یکطرفہ سمجھوتہ قراردیااورایران پرنئی پابندیوں کااعلان بھی کیا،اس اقدام سے ٹرمپ کے تہران پرمعاشی دباؤڈالنے کی پالیسی کااظہاربھی ہوگیاجس کے بعدایران اور افغانستان کے درمیان سڑکوں اورریل منصوبوں پربھارت کی جانب سے کی جانی والی ہرسرمایہ کاری کوامریکی مفادکے خلاف تصورکیاجارہاہے اوراس حوالے سے بھارت کی بھاری سرمایہ کاری ڈوبتی نظرآرہی ہے۔ابھی وزیر خارجہ ٹیلرسن کا دورہ غیرحقیقت پسندانہ خواہشات کے انتہاپرجانے کاآخری موقع ثابت نہیں ہوا،موجودہ امریکی انتظامیہ کے دورمیں ایسے مواقع ابھی اوربھی آئیں گے۔ ٹرمپ کے دورہ بھارت پر بھی یہی صورتحال پیش آسکتی ہے۔
اگر واشنگٹن میں گردش کرنے والی افواہیں درست ہیں تواقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی ٹیلرسن کی جگہ لے سکتی ہیں،نکی پہلی بھارتی نژادامریکی وزیر خارجہ ہوں گی،نکی ہیلی کے وزیرخارجہ بننے کی صورت میں بہت سے مبصّرین امریکابھارت تعلقات میں انقلابی تبدیلیوں کی پیش گوئی کررہے ہیں لیکن ان کی یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوسکتی ہے۔خاموشی کے ساتھ تعلقات کومضبوط کرنااچھی خبرہوگی،دونوں ممالک گزشتہ چندسالوں کے درمیان ایک دوسرے سے کافی قریب آگئے ہیں،اس دوران تین بھارتی وزیراعظم اورتین امریکی صدور نے اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کی، مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت میں بھی یہ تعلقات آگے بڑھتے رہے،ان تعلقات میں کئی نشیب وفراز بھی آئے اوربین الاقوامی تعلقات میں ایسا ہی ہوتاہے،بھارت اورامریکا تعلقات میں گرم جوشی کی یہ نئی لہراپنے اپنے مفادات کی اسیرہے،کوئی فرق نہیں پڑتاکہ وائٹ ہاس میں کون بیٹھاہے اوردہلی میں کس کی حکومت ہے لیکن پچھلی سات دہائیوں میں یہ پہلاموقع ہے کہ پاکستان کے”نومور”نے امریکاکواس خطے میں ایک ایسی آزمائش میں ڈال دیاہے جس کے جواب میں افغانستان میں اپنی شکست وہزیمت کوبچانے اور چھپانے کیلئے قصرسفیدکافرعون دہمکیوں پراترآیاہے لیکن اس مرتبہ پاکستان کی ثابت قدمی اس خطے میں ایک ایسی لازوال تبدیلی کی نوید ثابت ہوگی جہاں دنیاایک نئے پاکستان سے متعارف ہوگی،ان شاء اللہ۔ اس اہم موقع پرہمیں اشتعال کی نہیں بلکہ اپنی صفوں میں مکمل یکجہتی کااظہارکرناہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں