ایران جوہری معاہدہ،امریکی دوعملی

:Share

امریکی صدر ٹرمپ نے 2015 میں طے پانے والے ایران کے جوہری معاہدہ سے علیحدگی کے اعلان کے بعدکشیدگی میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ سی آئی کے سابق سربراہ مائیک پومپے نے کہاہے کہ امریکہ اب ایران پر تاریخ کی سخت ترین پابندیاں عائد کرنے والا ہے۔ تاکہ وہ اپنا جوہری اور میزائل پروگرام ترک کردے۔امریکاایران کوپھرسے مشرقِ وسطی میں غالب ہونے کیلئےچھوٹ نہیں دی جائے گی۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی پہلی تقریرمیں مائیک پومپے نے کہا کہ انتظامیہ نے ایران کی جانب سے کسی بھی متبادل حکمتِ عملی سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔واشنگٹن میں ہیریٹیج فانڈیشن میں خطاب کرتے ہوئے امریکا کے اعلی ترین سفارتکار کا کہنا تھا کہ نئی پابندیوں کے بعد ایران کو اپنی معیشت کی بقا کامسئلہ پڑجائے گا۔وزارتِ دفاع اورعلاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کسی بھی ممکنہ ایرانی جارحیت کوروکنے کی منصوبہ بندی کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم بہت زیادہ اقتصادی دباؤبڑھائیں گے۔تہران میں رہنمائوں کوہماری سنجیدگی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوگا۔
ادھریورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان جیسے دوستوں کے ہوتے ہوئے ہمیں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے بلغاریہ میں ایک اجلاس کے دوران یورپی رہنماں پر زورد دیا کہ وہ امریکہ کی ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے دستبرداری اوریورپ کے خلاف تجارتی محصولات عائد کرنے کے خلاف مشترکہ محاذ بنائیں۔ٹسک نے بلغاریہ کے شہرصوفیہ میں یورپی یونین کے 28 ملکوں کے رہنماں کے اجلاس کے دوران امریکہ کا موازنہ یورپ کے روایتی حریفوں روس اور چین سے کیا۔صدر ٹرمپ کے حالیہ فیصلوں کودیکھتے ہوئے کوئی یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ ایسے دوستوں کی موجودگی میں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے؟ یورپی یونین 15 سال کے بعد بلقان کے خطے میں پہلا سربراہی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ اس علاقے کے چھ ملک یورپی یونین کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ بدھ کے روز اجلاس کے دوران یورپی رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ امریکہ کی جانب ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے ختم کیے جانے کے باوجود یہ معاہدہ اور ایران کے ساتھ تجارتی تعاون جاری رہے گا۔
ڈونلڈ ٹسک نے اس موقعے پر مزید کہا: ‘یورپ کو صدر ٹرمپ کا شکرگزار ہونا چاہیے کیونکہ ان کی وجہ سے ہمارے تمام اوہام دور ہو گئے ہیں۔ انھوں نے ہمیں باور کروا دیا ہے کہ اگر آپ کو مدد کی ضرورت ہے تو اپنی مدد آپ کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ”چین کی نمود اور روس کے جارحانہ رویے جیسے روایتی چیلنجوں کے علاوہ ہمیں آج ایک نئے مقابلے کا سامنا ہے: امریکی انتظامیہ کی خود کو منوانے کی متلون مزاج کوشش”۔ اجلاس کے بعد یورپی یونین کے ایک عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایران ایٹمی معاہدے کے بارے میں یورپی رہنماں نے “متحدہ حکمتِ عملی” پر اتفاق کیا ہے۔انہوں نے امریکی فیصلے کے نتیجے میں متاثر ہونے والی یورپی کمپنیوں کے تحفظ کے لیے مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپے کی جانب سے ایران کے خلاف تاریخی کڑی پابندیاں عائد کیے جانے کے بیان کے ردِ عمل میں امریکہ پر کڑی تنقید کی ہے۔حسن روحانی نے سی آئی کے سابق سربراہ مائیک پومپے کو مخاطب کرتے ہوئے دریافت کیا کہ “آپ ایران اور باقی دنیا کے لیے فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ آج کی دنیا یہ قبول نہیں کرے گی کہ امریکہ ان کے لیے فیصلہ کرے، کیونکہ تمام ممالک آزاد ہیں، وہ وقت گزر گیا۔ہم اپنی قوم کی حمایت میں اپنے راستے پر گامزن رہیں گے۔
ادھرایران کے وزیرخارجہ محمدجوادظریف نے ایران،امریکاجوہری معاہدے سے امریکاکی علیحدگی کے بعد2015ء کے جوہری معاہدے پر مذاکرات کیلئے چین،روس اوریورپی ممالک کےطوفانی دورے شروع کردیئے ہیں۔چین کے دارلحکومت بیجنگ پہنچتے ہی کہاکہ امریکانے جوکرنا جوکرناتھاوہ اس نے کرڈالا،ہم کسی بھی صورتحال کامقابلہ کرنے کیلئے تیارہیں۔چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گنگ شوانگ نے ایران کوہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے اوراسی طرح روس نے بھی ایران سے اپنے تعاون کوجاری رکھنے کااعلان کیاہے۔دریں اثناء ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعدیورپی یونین کااہم اجلاس ہواجس میں برطانیہ، فرانس اورجرمنی کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ایرانی وزیرخارجہ جوادظریف نے تینوں وزرائے خارجہ اوریورپی یونین کی اعلیٰ اہلکار فیڈریکامغیرنی سے بھی ملاقات کی۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کومحدودعرصہ تک روکنے کے حوالے سے امریکا،روس اورایران مذاکرات شروع ہوئے تھے جس کے نتیجے میں2015 ء میں دونوں ممالک میں معاہدہ طے پایاتھا۔ اوبامادورتک یہ معاہدہ خوش اسلوبی سے چلتارہالیکن ٹرمپ کے اقتدارسنبھالتے ہی اس نے معاہدے سے نکلنے کاعندیہ دیناشروع کردیاتھا جس کے بعد12مئی 2018 ء کوٹرمپ نے یکطرفہ طورپراس معاہدے کوختم کرنے کااعلان کردیا۔ایران امریکا کے اس معاہدے کی ضمانت عالمی طاقتوں نے دی تھی۔عالمی طاقتوں نے ٹرمپ کی جانب سے مزیدتین اضافی شرائط کوغیرضروری قراردیاتھاتاہم روس اورچین کے علاوہ یورپی یونین چونکہ امریکاکے اتحادی اورحلیف بھی ہیں اس لئے ان کی طرف سے فرانسیسی صدرایانویل میکرون نے کوشش کی کہ ایران امریکاکی ان تین اضافی شرائط مان لے لیکن ایران نے معاہدے کے دعوؤں کے علاوہ کوئی بھی دوسری شرائط کوماننے سے انکار کردیا۔
امریکاجن تین موضوعات کو2025ء میں ختم ہونے والے اس معاہدے میں شامل کراناچاہتاتھاان میں 2025ء میں معاہدے کے خاتمے کے بعدکی صورتحال پرتفصیلی بات چیت کرنے،مشرقِ وسطیٰ کے تنازعہ میں ایران کوشامل کرنے اورایران کے بیلسٹک میزائل کے پروگرام کے خاتمے کوشامل بحث کرنے کی اضافی شرائط وموضوعات پیش کیے گئے تھے جس کوایرانی صدرحسن روحانی نے مستردکرتے ہوئے کہاکہ اب ایران اپنے وعدوں سے زیادہ پابندیاں ہرگزقبول نہیں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکانے جن تین اضافی شرائط کومعاہدے میں شامل کرانے کی کوشش کی تھی ان کا ایٹمی معاہدے سے سرے سے تعلق ہی نہیں ہے مگرٹرمپ اوران کاٹولہ جن میں قومی سلامتی کے مشیرجان بولٹن اورسی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر پومیوشامل ہیں۔ایران کوجکڑنے اوراسرائیل کوبدمست جنگلی درندے کی طرح کھلارکھناچاہتے ہیں،اس لئے کہ اوبامادور میں ایران کے ساتھ امریکا نے جو ایٹمی معاہدہ کیاتھااس سے سب سے زیادہ تکلیف اسرائیل کوہوئی تھی۔اس معاہدہ پر ایران اورامریکا کے ساتھ بطورضمانتی دستخط کرانے والے ممالک روس،چین ،برطانیہ ،فرانس اورجرمنی نے اس معاہدے پراعتماداوراطمینان کااظہارکیاتھالیکن ٹرمپ کے اقتدارمیں آتے ہی امریکاکویہ معاہدہ اپنے مفادات کے خلاف نظرآنے لگااوراس نے معاہدے سے نکلنے کااعلان کرکے ایران کوبلیک میل کرنے کی کوشش کی لیکن ایران امریکاکے جھانسے میں نہیں آئے گا۔
ایران کے ایٹمی طاقت بن جانے سے نہ امریکاکیلئے کوئی خطرے کی بات تھی اورنہ ہی دوسری عالمی قوتوں کوکوئی خطرہ تھالیکن اسرائیل کیلئے یہ ایک خوفناک خواب ہے ،اس لئے کہ اسرائیل اپنی سلامتی کیلئے اس قدرخوفزدہ ہے کہ وہ چاہتاہے کہ اس خطے کاکوئی بھی ملک ایٹمی ہتھیار حاصل نہ کرسکے حالانکہ خوداسرائیل جدیدترین اوروسیع تباہی کے حامل ہتھیاروں کاحامل ہے۔ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کواس لئے متنازعہ بنا دیاگیا کہ یہ بھی اسرائیلی مفادات کے خلاف ہے۔ایران بیلسٹک میزائلوں میں پیش رفت امریکااوراسرائیل کیلئے ناقابل قبول ہے۔ایران کے پاس 2500سے لیکر3000کلومیٹرتک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں جن کے ذریعے وہ بآسانی اسرائیل کونشانہ بناسکتاہے اورایران کی یہی صلاحیت اسرائیل کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس اس وقت 300سے زائد خطرناک ایٹمی ہتھیار موجودہیں۔اسرائیل کا میزائل پروگرام انتہائی جدیدہے لیکن اسرائیل نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ابہام کی پالیسی اختیارکررکھی ہے حالانکہ اسرائیل نے بیلسٹک میزائل ڈیفنس کے چارسسٹم مقامی طورپر امریکا کی تکنیکی اورمالی امدادسے نصب کررکھے ہیں اوراس کے علاوہ امریکانے اسرائیل کو پیٹریاڑ اینٹی میزائل سسٹم فراہم کررکھاہے۔ اسرائیل کا جیریکر3میزائل 5000کلومیٹر تک مارکرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اب ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کا مطلب مشرقِ وسطیٰ میں بڑے بحران کوجنم دیناہے۔ایران پہلے ہی اعلان کرچکاہے کہ وہ ایٹمی معاہدے سے امریکاکے نکل جانے کے بعدیورینیم کی افزودگی کاکام شروع کردے گااورایران کاایٹمی پروگرام پھراس مقام تک پہنچ جائے گاجہاں وہ 2015ء میں اس ایٹمی معاہدے سے قبل تھا اور ایران کے ایٹمی معاملات امریکاکے بس سے بھی باہرہوسکتے ہیں۔اس پراگراسرائیل یاامریکانے ایران کے خلاف کاروائی کی توپوارامشرقِ وسطیٰ اورخلیج فارس کاخطہ آگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔
ادھرالجزیرہ کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ نے 10مئی کوایرانی سیکورٹی فورس،پاسدارانِ انقلاب کے ماتحت القدس فورس سے وابستہ 6افراداورتین ایرانی اداروں پرنئی پابندیاں عائدکردی ہیں۔امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق پابندیوں کی زدمیں آنے والی شخصیات ایرانی نژادہیں جبکہ پابندیوں کانشانہ بننے والے ادارے بھی ایران میں رجسٹرڈہیں۔ امریکی دعوے کے مطابق ان تمام اداروں اوراشخاص کے پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ روابط تھے ۔ان افراداورکمپنیوں نے متحدہ عرب امارات میں خفیہ منی چینجنگ کاایک وسیع نیٹ ورک قائم کررکھاتھا جس کے ذریعے کالے دھن کو سفیدکرکے پاسدارانِ انقلاب کے القدس بریگیڈکوفراہم کی جاتی رہی ہیں جسے وہ مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم ایرانی عسکری گروپوں کوفراہم کرتارہا ہے۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے حکومتی اداروں نے ایران کے 9اداروں اوران سے منسلک شخصیات کے نام دہشتگردی کیلئے فنڈنگ کرنے کے جرم میں ملوث قراردیتے ہوئے دہشتگردی میں ملوث افرادکی فہرست میں درج کردیئے ہیں اماراتی اداروں کے مطابق ملک میں مزیدایسی کئی کمپنیوں اوراداروں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں جویمن ، عراق،شام اورصومالیہ میں سرگرم عسکری گروپوں کامالی تعاون فراہم کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔دوسری جانب الجزیرہ نے یہ انکشاف بھی کیاہے کہ امریکاجوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعدبہت جلدایران پرنئی عالمی پابندیاں لگانے کیلئے سرگرم ہوگیاہے جس پرایرانی صدرحسن روحانی نے اپناردّ ِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ روس،چین اوربرطانیہ کوایٹمی معاہدہ برقراررکھنے کیلئے اپناکردار ادا کرنے کیلئے رابطہ کریں گے تاہم عالمی معاشی ماہرین کاکہناہے کہ مذکورہ ممالک کی جانب سے معاہدہ برقراررکھنے کے باوجود ایران پابندیوں سے نہیں بچ سکے گاکیونکہ ایران پرعائدکی جانے والی پابندیوں میں سے 90فیصدسے زائدادارے امریکی کنٹرول میں ہیں۔
اس وقت ایران کے مخالف ممالک یاایرانی مداخلت پرناخوش حلقے اس نکتے پرغورکررہے ہیں کہ کیاجوہری معاہدے سے دستبرداری کی صورت میں مشرقِ وسطیٰ کی لڑائی پراثرات مرتب ہوں گے یانہیں کیونکہ یمن،شام ،عراق اورصومالیہ میں ایرانی مداخلت اب ایک حقیقت بن چکی ہے اوراس کے بہت واضح ثبوت اورشواہدسامنے آرہے ہیں۔اس حوالے سے بہت سے عالمی دفاعی ماہرین کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بجائے حالات مزیدخرابی کی طرف جائیں گے کیونکہ ایران یورینیم کی افزودگی بڑھانے کے ساتھ دیگرانتقامی اقدامات کرے گاجس سے امریکااور اس کے اتحادیوں کوپریشانی ہوگی اوران کے مفادات کونقصان پہنچے کااندیشہ ہوگا۔ ایرانی حکام پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ جوہری معاہدے سے امریکی دستبرداری کے بعدایران یورینیم افزودگی بڑھادے گا۔مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ماہرین نے توقع ظاہرکی ہے کہ ایران پر پابندیوں سے شامی لڑائی ، عراق کی صورتحال اوریمن میں حوثی باغیوں کونقصان ہوسکتاہے اور ایران کوان محاذوں پراپنے حامیوں کوفراہم کی جانے والی رقوم، امداد اورآلات میں کمی کرناپڑے گی۔اس طرح کی رائے رکھنے والے ماہرین کاتعلق سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اوربحرین سے ہے جبکہ غیر جانبدار رائے رکھنے والے ماہرین کاکہناہے کہ ایران پرلگنے والی پابندیوں کے اثرات مشرقِ وسطیٰ کے حالات پرمرتب نہیں ہوسکتے تاہم ایران میں عوامی زندگی،ایرانی کرنسی اورتیل کی تجارت متاثرہوسکتی ہے جوماضی میں بھی متاثرہوتی رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں