ایران میں یہ آگ اورکیوں بھڑکی؟

:Share

بالآخرخطے میں ایران بھی پچھلے دوہفتوں سے شدیداور متشدد مظاہروں کی لپیٹ میں آگیاہے اور ایران کے مختلف شہرکے گلی کوچے احتجاج کرنے والے مظاہرین کے نعروں سے گونج رہے ہیں اوراہم ترین بات یہ ہے کہ اب تک ان مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دودرجن سے متجاوزہوچکی ہے اور ان حالیہ مظاہروں میں شریک سابقہ ایرانی صدراحمدی نژاد کو بھی گرفتارکرلیاگیاہے۔اہم اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں میں ملک کی سب سے مؤثراور طاقتورفورس پاسداران انقلاب کے دواہلکاربھی عوامی غیض وغضب کانشانہ بن چکے ہیں۔یوں مشہد،خراسان اور دوسرے شہروں میں بھی احتجاج کی لہریں تیزیں سے پہنچ رہی ہیں جس سے اب فسادات جنم لے رہے ہیں۔اگرچہ اس احتجاج کی بنیادمہنگائی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہے جس نے پچھلے کئی سالوں سے ایران کی معیشت کو بری طرح جکڑرکھا ہے۔یوں تواحتجاج کی ابتداء عوام کی بنیادی ضروریات کی آسمان کوچھوتی ہوئی قیمتیں اورحکومت کی طرف سے کئے گئے وعدوں کی نہ ملنے والی تعبیر وجہ انتشارتھالیکن اب اس احتجاج کے دوران ایران کے انقلاب کی علامت اورمذہبی پیشواایرانی رہبرآیت اللہ خامنہ ای کے خلاف بھی واشگاف نعروں کی وجہ سے سیاسی اورنظریاتی اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں اور لامحالہ آنے والے دنوں میں مزیدشدت پیداہونے کابھی امکان ہے جس سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ ایرانی انقلاب کے حوالے سے سب اچھاشروع دن سے ہی نہیں ہے اورحکومتی جبرنے اب تک عوامی آراء کودباکر رکھاہواتھاحتیٰ کہ ایرانی رہبرآیت اللہ خامنہ ای کے درمیان سوچ کافرق ان کے دوطرفہ تعلقات کے کبھی بھی بہت مزے کے ہونے کی چغلی نہیں کھاسکاہے۔
یوں۲۰۰۹ء میں ایران میں عوامی احتجاج کی جوصورت گری ہوئی تھی ایک مرتبہ پھربہ اندازدیگراسی کی یادیں تازہ ہونے کوہیں۔۲۰۰۹ء میں احتجاج کی لہرکاسبب احمدی نژادکا دوسری مرتبہ صدرمنتخب ہوناان کے مخالفین کوسخت گراں گزراتھا،اس لئے وہ سڑکوں پرنکل آئے تھے۔۱۲جون ۲۰۰۹ء سے شروع ہونے والاوہ احتجاج جب دوہفتے مکمل کرنے لگا توحکومت نے پاسداران انقلاب کواحتجاج کچلنے کیلئے استعمال کیااور۲۵/اگست تک پاسداران انقلاب نے اپنے ذمے لگایاہواکام مکمل کردکھایا،یقینًاپاسداران انقلاب کیلئے احتجاجی عوام نہیں بلکہ حکومت اورانقلاب مقدم تھا،یوں پاسداران انقلاب نے عوامی احتجاج کوکچل کرزندگی بظاہرمعمول کی راہ پرڈال دی تھی۔کہاجاتاہے کہ اس وقت امریکی خواہشات بھی احتجاج کو ایندھن فراہم کرنے کاکام کررہی تھیں لیکن بات ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکی لیکن اب کی بارمعاملہ ان معنوں میں زیادہ سنگینی والاہے کہ اب امریکی صدارت پرٹرمپ جیسافردموجودہے جس کی الیکشن مہم سے لیکر اب تک ایران کے بارے میں خیالات اورظاہراورباہرہیں،اس لئے اس بگاڑ کی شکارصورتحال میں ٹرمپ کاتازہ بیان جلتی پرتیل ڈالنے کی ایک ٹھیک ٹھاک کوشش ہے۔
ٹرمپ جوامریکاسے لیکرپوری دنیامیں ایک نئی افراتفری کے پیش کارکے طور پرابھررہے ہیں،نے ایران میں پیداشدہ صورتحال پرجویہ بیان دیاہے کہ ”عظیم ایرانی عوام گزشتہ کئی برسوں سے جبرواستبدادکاسامناکررہے ہیں،وہ خوراک ، بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے بھوکے ہیں،ایرانی دولت لوٹی جارہی ہے ،اس لئے اب تبدیلی کاوقت آچکا ہے”۔امریکی صدرکے ایران کے جوہری پروگرام اوراس سلسلے امریکاسمیت چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ اوبامادورمیں ہونے والے معاہدے کے شدیدناقدہیں۔اپنی انتخابی تقریروں سے لیکراب تک ان کی ایران کے بارے میں بھی ایک واضح رائے چلی آرہی ہے بلکہ کہناچاہئے کہ ایک واضح ایجنڈاہے۔وہ اس سے قبل ستمبر۲۰۱۷ء میں جنرل اسمبلی میں ایران کے خلاف شدیدتنقید کرتے ہوئے کہاتھا:جابرنظام ہمیشہ کیلئے اپناوجودبرقرارنہیں رکھ سکتا،وہ دن ضرورآئے گا جب ایرانی عوام کوحقیقی انتخاب کاحق حاصل ہو
گا”۔
گویاایرانی قیادت نے احتجاج کے جس ہائی جیک ہونے کااشارہ دیاہے اس میں کچھ جان ضرورہے،اگرچہ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مسائل خودایران کی اپنی پالیسیوں کے اندربھی موجودہیں اورامریکی صدرجن ایرانی عوام کوبرسراحتجاج ہونے پرعظیم قراردے رہے ہیں انہی کیلئے امریکی دروازے بندکرنے کی کوشش بھی کرچکے ہیں۔امریکی صدرکے علاوہ یورپی یونین نے بھی ایرانی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ احتجاج کرنے والے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیاہے۔ اس تناظرمیں ممکن ہے آئندہ دنوں میں ایران میں میڈیااورسوشل میڈیا کی آزادی اوراس سے ملتے جلتے ایشوزکوبھی امریکااورمغربی ممالک ہوادیں اور ایران جودوسرے ملکوں بشمول پاکستان میڈیاپرخرچ کرنے کی بلاواسطہ یا بلواسطہ کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتا ہے ،اسے اپنے عوام کیلئے ملک کے اندرمیڈیاپرعائدکچھ پابندیوں کونرم کرنے کیلئے دباؤکاسامناہو۔
اس پس منظرمیں ڈاکٹرروحانی نے کہاہے کہ ایرانی شہریوں کوآزادی ہے کہ وہ احتجاج کریں،مظاہرے کریں اورحکومت پرتنقیدکریں تاکہ ملک میں صورتحال بہترہوسکے۔انہوں نے معاشی حالت،عدم شفافیت اوربدعنوانی کے حوالے سے شکایات کوبھی تسلیم کیالیکن اپنی حکومت کااس حوالے سے دفاع بھی کیاہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ تنقیدکرناایک بات ہے لیکن پرتشددہونایاسرکاری املاک کو نقصان پہنچاناالگ بات ہے۔بلاشبہ اب ایران میں شروع ہونے والااحتجاج فسادات میں تبدیل ہوچکاہے کیونکہ دودرجن سے زائدہلاکتیں اورسرکاری ونجی املاک کونقصان پہنچانے کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے اس لئے آنے والے دنوں میں حکومت کیلئے مشکل ہوگاکہ پاسداران انقلاب کواحتجاج کچلنے کیلئے اپنی پوری صلاحیتوں کوبروئے کارلانے سے روکے کیونکہ خودپاسدارانِ انقلاب نے بھی احتجاج کرنے والے عوام کوخبردارکرناشروع کردیاہے کہ عدم استحکام پیداکرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے گا ۔
معیشت کی جس کمزوری،بیروزگاری اورمہنگائی کاشکوہ کرنے کیلئے ایرانی عوام گلیوں بازاروں میں سراپااحتجاج میں اپنی جانیں دے رہے ہیں ، ایران کی اس معاشی بدحالی کاایک بڑاسبب امریکی اوریوری یونین کی طرف سے عالمی پابندیوں کی زدمیں رہنابھی ہے لیکن دوسری بڑی وجہ جواس وقت بھی پوری شد ومدسے جاری ہے وہ خطے میں ایران کااپنے فوجی اورجنگی مقاصدپرسالہاسال سے خطیررقم کاخرچ کرناہے۔ایک تخمینے کے مطابق شام میں ایران سالانہ بنیادوں پرچھ ارب ڈالرکے اخراجات برداشت کررہاہے۔شام کے علاوہ ایران کی جنگی مشن اوراپنے مسلکی دوستوں کودوسرے ملکوں میں مدددینے اورعسکری اہداف کیلئے جوخطیررقم خرچ کررہاہے وہ اس کے علاوہ ہے۔بلاشبہ ایران کے پندرہ ارب ڈالر کے مجموعی سالانہ بجٹ میں سے اس قدربھاری رقم کابیرونی دنیامیں عسکری مقاصد پرخرچ کرنااپنے عوام کی ضروریات کونظراندازکرنے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ ان غیرضروری اخراجات کاذریعہ پاسدارانِ انقلاب ہی ہے جس کاخطے اوردنیاکے بارے میں ویژن اور اہداف ہی سارے اخراجات کاسبب ہیں۔معاشی تنگی کی اس صورتحال میں ہرآنے والادن ایرانی عوام کیلئے مشکلات بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔انہیں مشکلات سے ڈرے ہوئے اورمہنگائی کے بوجھ تلے پسے ہوئے عوام نے اپنی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف خون دیکربھی اپنے احتجاج کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوہفتے قبل شروع ہونے والے اس احتجاج کی اثرانگیزی اس طرح بھی سامنے آئی ہے کہ اب یہ احتجاج نہ صرف مشہداورخراسان سے باہرصوبوں اورشہروں میں زورپکڑتادکھائی دے رہاہے ۔ایک ایساملک جہاں خمینی انقلاب کی حفاظت ایک نئی سپاہ کی مددسے کرنے کاپہلے ہی سوچ لیاگیاتھااس ملک میں عوام کی سوچ میں رنگارنگی اورفرق کے امتیاز کی کھوج لگانے کی قطعاًضرورت نہیں ہوسکتی ہے۔اگرخمینی انقلاب کے موقع پرہی اس وقت کی انقلابی قیادت سمجھتی کہ پوری ایران میں ہرطرف عوام کی حمائت ان کے ساتھ ہے توکم ازکم اس ترددیعنی پاسداران انقلاب طرزکی ایک نئی فورس تشکیل دینے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تقریباً چار عشرے ہونے کوہیں لیکن پاسداران انقلاب نام کی اس فورس کی ضرورت آج بھی انقلابی سوچ محسوس کرتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ۱۹۷۹ءمیں قائم کی گئی یہ پاسدارانِ انقلاب کی سپاہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ایران کیلئے اہمیت وافادیت بڑھانے میں کامیاب ہو چکی ہے گویااڑتیس سال گزرنے کے بعدبھی انقلاب کے داعیان اورحامی یہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب کوآج بھی ملک کے اندرچیلنجزدرپیش ہیں اور انقلاب کی اونرشپ میں ابھی تک عوامی سطح پرمسائل کاسامناہے۔اسی شرح صدرکے باعث ایرانی قیادت نے پاسداران انقلاب کوسابق ایرانی شاہ رضاپہلوی کی ساواک کی طرح نہ صرف بلاکامضبوط کیاہے بلکہ اسے ہرشعبۂ زندگی میں گھسیڑنے کابھی ایک شعوری یالاشعوری اہتمام موجودہے۔ اس کی مضبوطی کاایک بڑا سبب حکومت کاتحفظ سراسراس کے ذمے ہونا بھی ہے۔ملک کے اندرسیکورٹی اورسیاسی احتجاج سے نمٹنا بھی اسی کے فرائض کاحصہ ہے،نیزملک سے باہر جہاں بھی ایرانی فوج کوجہاں ضرورت ہو پاسداران انقلاب اس کی مددکیلئے موجودہوگی۔
خطے کے حالیہ منظرنامے میں پاسداران انقلاب کی اہمیت اوربھی بڑھ گئی ہے۔ شام،یمن اورعراق میں ایرانی عسکری موجودگی کی پالیسی نے پاسداران انقلاب کومزیداہم بنادیاہے جبکہ ملک کے نظریاتی اورسماجی امورہی نہیں ملک کے معاشی اموراوراداروں میں بھی پاسداران انقلاب کا کردارانتہائی اہم ہوچکاہے۔اس کے مخالفین اسے انقلاب ایکسپورٹ کرنے کی ایرانی انقلاب کے ابتدائی دنوں کی سوچ کی امین سمجھتے ہیں۔اس لئے ایک طرف ملک کے باہربھی اس کاکردار ایران کیلئے اہم ہوچکاہے۔ان حالات مین ایرانی عوام سمجھتے ہیں کہ ان کی معاشی ابتری میں حکومتی حکمت عملیوں کابڑاعمل دخل ہے۔یوں ایک جانب کئی برسوں سے معاشی تنگی کاشکارعوام اب مزیدبرداشت کرنے کیلئے تیار نظرنہیں آتے تودوسری جانب انقلاب کی شروع دن سے مخالف قوتوں نے بھی اپنے آپ کو اس موقع کے ساتھ وابستہ کرلیاہے،یوں معاشی آسانی کی جستجومیں شروع ہونے والااحتجاج اب سیاسی نعروں ،حقوق اورنظریات کی آوازبن رہا ہے ۔بلاشبہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کارخ اب ایرانی حکومت کی غلط خارجہ پالیسیوں کی طرف مڑگیاہے۔امریکی صدرنے بھی اسی رخ کومہمیزدینے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔تہران بھی معاملہ ہائی جیک ہونے کااشارہ دے رہاہے۔
لیکن امریکی صدرٹرمپ اوران کی حکومت اس سلسلے میں شائدایک حدسے آگے نہیں جاسکے گی کہ خطے میں امریکااپنی فوجوں سمیت پہلے ہی سخت مشکلات میں الجھاہواہے۔اپنی اس الجھن کااظہاربوکھلاہٹ کی حدتک پاکستان کے خلاف کرنے لگاہے جبکہ خطے میں امریکاکے آنے والے دنوں میں معاشی اور جیوپولیٹیکل مفادات بھی زیروزبرہوتے نظر آ رہے ہیں۔امریکاان حالات میں ایران کومزیددورکرنے کی پالیسی کوشائدہی جاری رکھ سکے کیونکہ افغانستان میں امریکی موجودگی قائم رکھنے اورپاکستان پردباؤ بڑھانے کیلئے امریکاکوبھارت اورایران کی بھی ضرورت ہے،خودبھارت نے چاہ بہاربندرگاہ کے حوالے سے ایران میں جس طرح کانیٹ ورک پھیلارکھاہے،وہ بھی خطرے میں پڑسکتاہے۔ اس امرکا امکان ردنہیں کیاجاسکتا کہ امریکاایران کے خلاف بیانات کی حدتک تومتحرک رہے اورایران کابازومروڑکراسے چھوڑ دے کہ ایک ہی وقت میں امریکاخطے کی کئی ملکوں کے ساتھ مخاصمت کادروازہ کھولے۔ٹرمپ کی زبانی کلامی اچھل کود کا معاملہ اپنی جگہ کہ جب تک وائٹ ہاؤس میں ہے اسے اپنی موجودگی کااحساس اپنے ہی اندازمیں دلاتے رہناہے لیکن اپنی مشکلات میں اضافے کی پہلے ہی خطرناک پالیسی شروع کرچکاہے،اب اس میں مزیداضافہ نہیں کرسکے گا۔ہاں سعودی عرب کوکسی حدتک رام کرنے کیلئے ایران کے بارے میں اسی پیرائے میں شورمچاتارہ سکتاہے۔موجودہ حالات میں ایران کے خلاف اس سے زیادہ جانااسے اپنے لئے سودمندنظرنہیں آتاہے لہنداایران عوام کی اپنے ملکی وسائل کوبیرون ملک جنگوں میں جھونکنے پرناراضگی کوفی الحال صرف اتناہی استعمال کرناچاہے گاجس سے ایرانی حکومتی معاملات پرگرفت کی کمزوری ثابت ہوسکے۔اس سے ازخود ایرانی حکومت کمزورہوگی ، خامنہ ای کا کردارمتنازعہ بنے گااورپاسداران انقلاب کی جنگی چالیں زیربحث آئیں بہرحال اگلے دنوں میں عوامی احتجاج کوفسادات میں شدت پیدا کرنے سے فوری روکنا ایرانی حکومت کیلئے بھی ایک بڑاچیلنج ہوگااوریہ دیکھناپڑے گاکہ یہ آگ اورکیوں بھڑکی؟
بدھ۳۰ربیع الآخر۱۴۳۹ھ۱۷جنوری۲۰۱۸ء

اپنا تبصرہ بھیجیں