جب آدمی کی مت ماری جاتی ہے تووہ عجیب سے فریب میں مبتلاہوجاتاہے،اونگیاں بونگیاں مارنے لگتاہے،عجیب سے خبط میں پڑجاتاہے۔وہ منظرکے قریب نہیں جاتا،اسے تخیل کے کیمرے سے زوم لگاکرقریب لاتاہے اورپھرپندونصائح شروع کردیتاہے۔اس کے بالکل سامنے جوکچھ ہورہا ہو اسے نہیں دیکھتااورجودورکہیں ہو رہاہواس سے پنجہ آزمائی شروع کردیتاہے ۔اپنے اندرکی دھڑکتی کوٹھی کونہیں ٹٹولتا ،دوسروں کے عیب گنوانے لگتا ہے۔ پتاہونہ ہو،معلوم ہونہ ہو………..بس ہرجگہ،ہرمجلس میں اپنی پٹاری کھول کرنیاسنپولیانچانے لگتا ہے اوراسے کہتاہے تبلیغ……….. اورپھر اس سے آگے بڑھ کرخدمت ِانسانیت۔بھائی نے ایک دن یہ کہہ دیا کہ باتیں اتنی کرتاہے لیکن وہ نمازکیوں نہیں پڑھتا ؟
توباباجی نے بہت غصے میں اس کابازوتھام کرکہا:تجھے کب سے اورکیوں اس کی نمازکی فکرہوگئی؟کیا تیری نمازٹھیک ہوگئی ہے تیری عاقبت سنورگئی ہے جودوسروں کی سوچنے لگاہے، دوسرے کاتوشایدتجھ سے پوچھاجائے نہ پوچھاجائے،تجھ سے تیراتوپوچھا جائے گا،توکیاتواپنابیڑاپارلگاچکا؟تیری نیا کنارے لگ گئی؟محبت کادریارواں تھاان میں۔
ایک جیدعالم دین………..صرف عالمِ دین ربانی ہی نہیں،باعمل پابند ِشریعت،ہنس مکھ………..االلہ جی نے مال ودولت سے بھی نوازاتھا۔ خود مسجد بنائی اورجمعہ کا خطبہ دینے بڑی سی لشکارے مارتی گاڑی میں آتے اورہماری چوکڑی کومنتظرپاتے۔ کبھی خالی ہاتھ نہیں آئے۔ ایک تھیلے میں کھانے پینے کانجانے کیاکچھ سامان لے کرآتے،السلام علیکم!کیسے ہوتم لوگ واہ واہ آج توسب چمک رہے ہو،کہتے ہوئے تھیلامیرے ہاتھ میں تھماتے اورخود منبرِ رسول ﷺپررونق افروزہوجاتے۔ بوڑھے تھے لیکن عجیب طاقت تھی ان میں ۔کچھ دیرمنبرِرسول پربیٹھ کرآنکھیں بند کرلیتے اورپھراپناعصا لے کرکھڑے ہوجاتے اورپھرتوایسی قرآت کہ اللہ ہی اللہ ،آنکھوں کاغسل شروع ہوتااورپھر آوازآتی!برادرانِ اسلام میری ماں بہنوں اوربیٹیوں ، ا ور پھرچل میرے خامے بسم اللہ،سبحان اللہ،الحمدللہ۔ کیسے کیسے نادرونایاب ہیرے تقسیم کرتے تھے۔
بہت طویل عرصے تک ہمیں دیالوبابادیتے رہے اورہم اپنی جھولی بھرتے رہے،ظرف کب بھرے گا،نہ جانے کب؟جب دیکھو ایک ہی بات پرزور ، اپنی فکرکرنادان ،اپنی فکرکر۔اسلام خودکوبدلنے کانام ہے۔خودکوتبلیغ کر،خودکوسنو،اپنے قول کودیکھ،اپنے فعل وعمل پرنگاہ رکھ،یہ جواندربیٹھا ہوا اژدھاہے،نفس نام کا،اسے کچل نہیں سکتاتویہ توکرلے کہ اس کے جبڑے پرپاؤں رکھ کرکھڑارہ،کبھی مت چوکنا،بربادہوجائے گا،تباہ ہوجائے گا، کچھ نہیں بچے گاتیرا۔اپنی فکرکرے گاتوسنورے گا۔لوگوں کو کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ تیری روشنی اورخوشبوخودبخود پھیلے گی….. .. ….اورایسی پھیلے گی کہ تودنگ رہ جائے گا۔ کاٹنانہیں جوڑنا سیکھ،دوسروں کے عمل پرنہیں اپنی بے عملی پر آنسو بہا،دوسرے کی چنتاچھوڑخود پردھیان رکھ،بس خودکو بدل،دوسرے تجھے دیکھ کربدل جائیں گے۔بہت یادآتی ہیں ان کی باتیں۔وہ توچلے گئے لیکن خوشبوبسی ہوئی ہے میرے چاروں طرف ان کی۔
آج بابافریدجی بھی یادآگئے۔ایک مرید قینچی لے کرحاضرِ خدمت ہوااورکہنے لگاسرکارتحفہ لایاہوں قبول کیجیے اونہال کیجیے۔ دیکھ کررنجیدہ ہوئے اور کہا اتنی وزنی قینچی اٹھالایا،کیامیں تجھے کاٹنے والالگتاہوں………..مجھے سوئی دھاگہ لاکردیتاکہ میں جوڑنے کاکام کرتاہوں۔ ہمارے سارے بابوں نے ایک ہی بات کرکے دکھائی،کبھی کسی کی توہین نہیں کی۔سدا مسکراتے رہے۔ کاٹنے سے منع کیا،جوڑناسکھایا۔اپنی کٹیامیں درہی نہیں بنایا کہ کبھی بندملے۔سب کیلئے کشادہ دل رہے، تنگ دلی سے منع فرمایا۔سب کے ساتھ کھایا،گایااورناچے۔محبت تھے ، محبت دی،نفرت کوبھی محبت کاچولا پہنایا اور محبت بنادیا۔یارِجانی کہتے تھے،یارِجانی سمجھابھی۔جوکہہ دیانبھاکردکھایا،کرکے بتایا۔
کس منہ سے نام لوں،میرے آقاومولا،روشن جبیںﷺنے اس بچے کوپیارسے فرمایا گڑمت کھایاکرو۔توبچے کی ماں کہنے لگیں:یہ بات توآپ ﷺکل بھی فرماسکتے تھے؟تب سرکارِدو عالمﷺنے تبسم فرمایااور پھر موتی بکھیرے کل توخودکھایاہواتھا،کیسے منع کرتا ۔سرکارﷺکے بعد کس کی بات کروں۔چاروں طرف ہم سب کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ،توڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔وہ ایساہے فلاں ویساہے۔میں خودکو دیکھ ہی نہیں رہاکہ میں کیساہوں………میراکیابنے گا!میں کس دھوکے میں پھنس گیاہوں مجھے اپنادھیان ہی نہیں،بس دوسروں کی عیب جوئی کرتا رہتاہوں اورپھراسے تبلیغ بھی کہتاہوں۔بندہ مکروفریب،اپنے اندرکی دھڑکتی کوٹھی کوکب دیکھوں گامیں……….! وقت توکسی کالحاظ نہیں رکھتا،وہ تو کبھی نہ کبھی اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے تمام واقعات کی ایسی شہادت فراہم کردیتاہے جس سے فرارممکن نہیں!ایسی ہی گواہی دینے کیلئے کچھ کہنے کی اجازت چاہتاہوں:
مردکے کپڑوں میں عورت کی صفائی دکھائی دیتی ہے،عورت کے لباس میں مردکی مردانگی ظاہرہوتی ہے اورلڑکیوں کے لباس میں ماں کے اخلاق نظرآتے ہیں۔ہم محبت،رواداری، وفاداری،احترام اورتمام اعلیٰ اقدارپرپلی ہوئی نسل ہیں،ہم ان مردوں اور عورتوں کے درمیان رہتےتھے جو پڑھنالکھنانہیں جانتےتھے،لیکن انہوں نے تعلقات اوراحترام میں مہارت حاصل کی تھی۔انہوں نے ادب نہیں پڑھالیکن ہمیں ادب سکھایا،انہوں نے فطرت کے قوانین اورحیاتیات کامطالعہ نہیں کیا،لیکن انہوں نے ہمیں شائستگی کافن سکھایا۔ انہوں نے رشتوں کی ایک بھی کتاب نہیں پڑھی لیکن اچھاسلوک اوراحترام سکھایا،انہوں نے مذہب کاگہرائی سے مطالعہ نہیں کیالیکن ہمیں ایمان کامفہوم سکھایا۔وہ منصوبہ بندی کے معنی سے واقف نہیں تھے،لیکن انہوں نے ہمیں دوراندیشی سکھائی۔ہم میں سے اکثرکوگھرمیں اونچی آوازمیں بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ہم وہ نسل ہیں جوگھرکے صحن میں بجلی بندہونے پرسو جاتے تھے،ہم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے تھےمگرایک دوسرے کے بارے میں باتیں نہیں کرتے تھے۔
میری دلی محبت اورتعریف ان لوگوں کیلئے جنہوں نے ہمیں حسن ادب کے یہ قرینے اپنے عمل سے سکھائے،کہ والدین کی عزت ہوتی ہے،استادکی عزت ہوتی ہے،محلے دارکی عزت ہوتی ہے،رفاقت کی عزت ہوتی ہے اوردوستی کی عزت ہوتی ہے۔ہم ساتویں پڑوسی کی عزت کرتے تھے اوربھائی اوردوست کے ساتھ اخراجات اوررازبانٹتے تھے۔ان لوگوں کیلئے جنہوں نے وہ خوبصورت لمحات گزارے،اوراس نسل کیلئے جس نے ہمیں پرورش اورتعلیم دی،اورمیں ان سے کہتاہوں:کہ آپ میں سے جوزندہ ہیں،اللہ رب العزت ان کی حفاظت اورصحت عطافرمائے اورجوہمیں چھوڑکراس فانی دنیاسے رخصت ہوگئے،ان کی بخشش فرمائے،اورہمیں یہ توفیق مرحمت فرمائے کہ جونعمتیں اورسلیقے ہم نے اپنے والدین اور بزرگوں سے سیکھے،ان کواپنے بچوں میں منتقل کریں۔۔آمین