تحریکِ پاکستان کامطالعہ ہمیشہ سے میراشوق رہاہے۔اس تحریک کی خون کوگرمادینے والی رُوداد یں اوراس کے کارکنوں اور لیڈروں کی جدوجہد،جذبوں اورقربانیوں کی ولولہ انگیزداستانیں پڑھتے ہوئے میرے دل ودماغ پرایک عجب سُرورکی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اورسرفخرسے بلندہوجاتاہے۔اس سال بھی اگست کامہینہ آیاتواپنی یادداشتیں تازہ کرنے کیلئے ایک بارپھر تحریکِ پاکستان کاموضوع کھول لیا۔دورانِ مطالعہ کئی نئی معلومات اورحقائق سامنے آئے،غوروفکرکے نئے دریچے واہوئے،لیکن اسی دوران ہمیشہ کی طرح ہندوؤں اورسکھوں کی طرف سے بے بس اورلاچارمسلمان مردوں، عورتوں،بچوں اوربوڑھوں پرظلم وستم اورغارت گری کے بے شمارواقعات بھی پڑھے۔ان میں سے کچھ حقائق اورواقعات اس قدررُوح فرساتھے کہ ذہن سے چپک کررہ گئے۔باوجودہزاربارجھٹکنے کے جب یہ ذہن سے محونہ ہوئے توسوچاکہ انہیں اوراس کے نتیجہ میں پیداہونے والے چند سوالات اپنے ہم وطنوں سے شیئرکرلوں کہ شاید اس سے دل کابوجھ کچھ ہلکاہوجائے۔
3جون1947ءکوہندوستان کی آزادی اورپاکستان کے نام کے ساتھ ایک الگ مسلم ملک کے قیام کااعلان کردیاگیا۔اس کیلئے14اور 15اگست 1947 ء کی درمیانی رات بارہ بجے کاوقت طے ہوا۔یہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مصلحت یامشیت کی طرف اشارہ تھاکیونکہ یہ رات لیلۃ القدرتھی۔اگلادن27 رمضان المبارک اورجمعۃ الوداع تھااوراس کے تین روزبعدعیدالفطرآنے والی تھی۔مسلمانوں کیلئے یہ ہراعتبارسے ایک مبارک ساعت،مبارک رات ، مبارک دن،مبارک ماہ اورمبارک سال تھا۔پورے ہندوسان کے مسلمان خواہ وہ مجوزہ پاکستان کاحصہ بننے والے تھے یانہیں،خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔جشن کی تیاریاں ہورہی تھیں۔مبارک بادیں دی اورلی جارہی تھیں۔نعرہ تکبیربلندہورہے تھے۔گلی گلی،گاؤں گاؤں اورشہرشہر”پاکستان زندہ باد”اور”قائداعظم زندہ باد”کےفلک شگاف نعرے لگ رہے تھےلیکن دوسری طرف ہندوؤں کے سینوں پرسانپ لوٹ رہے تھے۔وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی بہت بڑی اکثریت،طاقتورمذہب،نامی گرامی لیڈروں،بڑی تعدادمیں کانگرسی اوراحراری مسلم علماء کی معاونت اورانگریزوں کی علانیہ اورخفیہ حمایت کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کاایک نحیف ونزار لیڈرمحمد علی جناح اپنی ذہانت،فطانت،دیانت،کردارکی مضبوطی، آئینی وقانونی معاملات میں مہارت،موقف کی مضبوطی،جہدِمسلسل اوراپنی قائدانہ صلاحیتوں کے زورپراُن تمام کوچاروں شانے چت کرکے بھارت کا ایک حصہ پاکستان کے نام پراُن کے ہاتھوں سے چھین لے جائے گا۔یہ اُن کی”بھارت ماتا”یعنی اِن کی ماں کو دوٹکڑے کرنے کے مترادف تھا۔اُن کے ہاں سوگ برپاہوگیا،صفِ ماتم بچھ گئیں اورآہ وبکاشروع ہوگئی۔پھروہ غیض وغضب اور نفرت وانتقام کی آگ کابگولہ بن کرمسلمانوں پرٹوٹ پڑے۔اورپھرچشمِ فلک نے ان ہندوؤں اورسکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں پرظلم وستم کے وہ مظاہرے دیکھے کہ انسانیت رہتی دنیاتک اِس پرماتم کناں رہے گی۔حالات کی سنگینی کودیکھتے ہوئے جب مجوزہ پاکستان کے قریبی علاقوں کے مسلمانوں نےاپنے گھرباراورمال واسباب سب کچھ چھوڑکرخالی ہاتھ اپنی جانیں بچانے کیلئے پاکستان کی طرف ہجرت کرناچاہی توہندوؤں اورسکھوں نے انہیں اپنی تلواروں، کرپانوں،برچھیوں اورنیزوں کی نوک پررکھ لیا۔ شہروں کے شہر، قصبوں کے قصبے،گاؤں کے گاؤں اورمحلوں کے محلے مسلمانوں کے وجودسے صاف کردیئے گئے۔اس طرح کہ بچے،جوان، بوڑھے اوربوڑھیاں تہِ تیغ کردی گئیں اورجوان لڑکیوں اورعورتوں کووحشیانہ آبروریزی کے بعدیاذبح کردیاگیا، جلادیاگیا،ٹکڑے ٹکڑے کردیاگیایاباندیوں کی طرح گھروں میں ڈال لیاگیا،اوران کے گھرلُوٹ لئے گئے۔اس شیطنت اورفرعونیت کے دوران10لاکھ سے زائد مسلمان مردوں،عورتوں،بچوں اوربوڑھوں کوشہید کیا گیا،لاکھوں زخمی اورلاکھوں عمربھرکیلئے معذور ہو گئے۔ڈیڑھ لاکھ کے قریب جوان مسلمان لڑکیاں اورعورتیں اغواکرلی گئیں۔جان ومال اورعزت وآبروکے تحفظ سے محروم سترسے اسی لاکھ مسلمان ہندوستان کے مختلف علاقوں سے راستے میں اپنے پیاروں کوگنواتے،کٹواتے،مرتے اورمارتے خالی ہاتھ پاکستان ہجرت کرآئے۔آئیے!آپ بھی اس نوع کے ہزاروں واقعات میں سے چندایک کی جھلکیاں دیکھ لیں۔
اس ضمن میں پہلاواقعہ ایک مظلوم مسلمان عورت کی اپنی زبانی سنیے:
قیام پاکستان کے اعلان کے فورًابعدشمالی ہندوستان کے طول وعرض میں ہندومسلم فساد پھوٹ پڑے۔انسانی اوراخلاقی قدریں محض قصہ ماضی بن کررہ گئیں۔سالہاسال سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ان حالات میں میرے والد نے گاؤں کے دوسرے لوگوں سے مشورے کے بعدپاکستان کی طرف ہجرت کافیصلہ کیالیکن ہندوؤں اورسکھوں کویہ بات بھی گوارانہ تھی اورعین ہماری روانگی کے وقت آس پاس کے گاؤں سے مسلح جتھے وہاں پہنچ گئے اورچشم زدن میں تمام مردوں کو تہِ تیغ کردیا۔نوجوان لڑکیوں کوان کی ماؤں کے سامنے اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایاگیا۔ آج بھی جب میں ان دلخراش منظرکوچشم تصورسے دیکھتی ہوں تویقین نہیں آتاکہ ابن آدم ذلت کی ان گہرائیوں تک بھی جاسکتاہے۔
میرامعصوم بھائی باقی بچوں کی طرح ڈرا ساکھڑاتھا۔جب اس نے چندحیوانوں کومیری طرف بڑھتے دیکھاجن پرمیری منت سماجت کاکوئی اثرنہیں ہورہاتھاتوبھاگ کر میرے سامنے آگیااور مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔تبھی ایک منحنی سے ہندونےاپنی کلہاڑی کازوردارواراس معصوم کی گردن پرکیاجس سے اس کاسرتن سے جداہوکردُورجاپڑا۔اس پراس ظالم نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہااگرمجھے معلوم ہوتاکہ تمہاری گردن اتنی کمزورہے تواپنی کلہاڑی تمہارے گندے خون سے بھرشٹ(ناپاک)نہ کرتا۔اب مجھے اپنی کلہاڑی گنگاجل سے دھوکرپوتر(پاک) کرنی پڑے گی”۔یہ کہہ کروہ بھی شیطانی کھیل میں شامل ہوگیا ۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجودزمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹ کرگرا۔تمام بوڑھی عورتوں کوقتل کرنے کے بعدسب لڑکیوں کووہ ایک حویلی میں لے گئے اور سب قطاربناکرکھڑے ہوگئے اورباری باری اپنے”اشرف المخلوقات”ہونے کاثبوت فراہم کرتے گئے۔نئے آنے والے قطارکے آخرمیں اپنی باری کے انتظارمیں کھڑے ہوجاتے۔ اس عمل میں،میں زندہ بچ جانے والی چندخوش نصیب یابدنصیبوں میں بھی شامل تھی۔اس کے بعدمیں ایک کے ہاتھوں سے دوسرے تک پہنچتی رہی۔آخرسوہن سنگھ نے مجھے اپنے گھرڈال لیااورشادی بھی کرلی۔سات سال بعد سوہن سنگھ سورگباش ہوگیاتواس کے چھوٹے بھائی مہندرنے مجھ سے شادی کرلی”۔(بحوالہ:1947ءکے مظالم کی کہانی خودمظلوموں کی زبانی۔ازحکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)۔
اورہوشیارپورکایہ دردناک واقعہ بھی سن لیں:
“ہوشیارپورکی وہ رات بے حد طویل تھی۔چوک سراجاں پرحملے کی دوسری رات۔۔۔حملہ آوروں کی تعدادمیں اضافہ ہورہاتھا۔پہلے روزپچاس نوجوان شہید ہوئے۔دوسرے روزساٹھ،شام ہونے سے پہلے دوچارایسے دلدوزواقعات ہوئے کہ مسلمانوں کی عزیمت اور جوش میں زبردست اضافہ ہوا۔ بزرگ اورنوعمربھی میدان میں اترنے لگے۔عصرکے وقت سے دست بدست لڑائی ہورہی تھی۔ایک مسلمان نوجوان گرا،خون کے فوارے نکل رہے تھے۔اس نوجوان کاگھرلڑائی کے میدا ن کے بالکل سامنے تھا۔گھرکاایک چھوٹابچہ یہ منظردیکھ رہاتھا۔خواتین کو ہوش نہ رہااوربچہ باپ کوپکارتے ہوئے دروازے سے نکل کرہندوؤں اورسکھوں کی طرف بھاگا۔ سکھوں نے بچے کوپکڑلیااورچلاّچلّاکراعلان کیا،دیکھوہم آج مُسلے کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔مسلمان دم بخودتھے کہ یہ بچہ وہاں کیسے پہنچ گیا۔سکھوں نے بچے کواوپراُچھالااورنیچے سے نیزے پراسے لے لیا۔بچے کی چیخ اس قدردلدوزتھی کہ آسمان تک لرزاٹھا۔اُس نے تڑپ تڑپ کروہیں جان دے دی۔”(بحوالہ:اُردوڈائجسٹ2016)
ایک کانوائے کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آنے والے ایک نوجوان نے دورانِ راہ جوکچھ دیکھاوہ اس طرح بیان کرتاہے: راستے میں اِکادُکامسلمان عورتیں ملتی گئیں،انہیں بھی ساتھ لیتے آئے۔سکھوں اورہندوؤں نے اپنی درندگی کاجی بھرکرمظاہرہ کیا تھا۔ہوشیارپورسے نکلتے وقت ایک عورت زخمی حالت میں پڑی ملی۔والدصاحب نے اٹھایاتواس کی ٹانگیں اورسینہ کٹے ہوئے تھے۔ایک مشہورخاندان کی نوجوان خاتون تھی۔اباجی کومعلوم ہوا توضبط نہ کرسکے۔اس خاتون نے صرف اتناکہا”آپ جائیے چاچا جی،غم نہ کریں!اتناسب کچھ ہوجانے پرپاکستان توبن گیا۔مجھے خوشی ہے میں امت کے کسی کام توآئی”۔’’نہرعبورکرکے ہم سب شدت تاثرسے کانپ رہے تھے کہ ایک طرف سے کراہنے کی آوازآئی۔ایک بزرگ ڈاکٹرنصیرالدین آگے بڑھے۔انہوں نے پوچھاکون ہے؟نسوانی آوازآئی۔وہ فوراًلپکے۔ایک خاتون خون میں لت پت پڑی تھی۔پانی پلاکرمرہم پٹی کرنے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔اس خاتون نے مرتے وقت صرف اتناکہا’’شام چوراسی کی جنگ میں میرے والداورسات بھائی،چچااوران کے چارلڑکے شہید ہو گئے ۔ تین بہنیں لڑتے لڑتے اوراپنی عزت بچاتے ہوئے نہرمیں ڈوب گئیں۔والدہ کوانہوں نے قتل کردیا۔میں چھپ گئی،انہوں نے مجھے ڈھونڈنکالاجب قریب آئے تومیں نے چھرے اورٹوکے سے دوکوزخمی کردیا۔انہوں نے جھلّاکرمیرایہ حشرکیاہے ۔آخری سانس لینے سے پہلے اِس مظلوم خاتون نے کہا’’پاکستان کومیراسلام پہنچادیجئے‘‘۔
جالندھرکے مسلمانوں نے جس بے جگری، دردمندی اورزبردست قربانی سے تحریک پاکستان کیلئےکام کیاوہ تاریخ پاکستان کاروشن باب ہے۔انہوں نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقراررکھنے کیلئے تحریک پاکستان کوتاریخی قربانیوں سے ہمکنارکیا۔ جالندھرکیمپ کے واقعات بڑے دلدوزتھے۔ مجھے یادہے ایک خاتون آخری دموں پرتھی۔اس سے معلوم ہواکہ ہم لوگ کانوائے پرپاکستان جارہے ہیں تواس نے باباجی کوبُلاکر کہا،’’یہ میرے زیورات ہیں۔خاندان کے سارے مردشہید ہوچکے ہیں۔ان زیورات کوقائداعظم تک پہنچادیں۔شایدپاکستان کے کام آ جائیں‘‘(بحوالہ:اُردوڈائجسٹ اگست 2016 )۔
مشرقی پنجاب میں خون کاجوسیلاب آیااس کاکچھ اندازہ’’لندن ٹائمز‘‘کے نامہ نگارآین مورسن کی ذاتی مشاہدات پرمبنی ان تین رپورٹوں سے لگایاجا سکتا ہے جواُس نے اگست اورستمبر1947ء کوجالندھراورامرتسرسے اپنے اخبارکوارسال کی تھیں۔پہلی رپورٹ میں وہ لکھتاہے’’سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کروانے میں سرگرم ہیں۔و ہ ہرروزبے دردی سے سینکڑوں افرادکوتہِ تیغ کرتے ہیں اورہزاروں کومغرب کی جانب بنوکِ شمشیر بھگا دیتے ہیں۔وہ مسلمانوں کے دیہات اورگھروں کونذرآتش کررہے ہیں۔ اس ظلم وتشددکوسکھوں کی اعلیٰ قیادت نے منظم کیاہے اوریہ خوفناک کام بڑے معین طریقے سے علاقہ بہ علاقہ کیاجارہاہے‘‘۔ دوسری رپورٹ میں لکھتاہے’’امرتسرمیں 8اگست کے بعدمسلمانوں کے محلوں کے محلے دھڑا دھڑ جلناشروع ہوگئے تھے اور لوگ پناہ کیلئےبھاگناشروع ہوگئے۔13اور14اگست کوپوراامرتسرشعلوں کی لپیٹ میں آچکاتھا۔15اگست کو امرتسر میں ہندوستان کا ’’یوم آزادی‘‘بڑے عجیب طریقے سے منایاگیا۔سہ پہرکوسکھوں کے ایک ہجوم نے برہنہ مسلمان عورتوں کاجلوس امرتسرکے گلی کوچوں میں نکالا۔ان کی آبروریزی کی اورپھربعض کوکرپانوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعض کوزندہ جلادیا۔‘‘تیسری رپورٹ میں وہ مسلمانوں کے ایک بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں ایک خبران الفاظ میں بجھواتاہے’’اس قافلے میں20ہزارسے زائد افرا دتھے اوران میں سے اکثرپیدل ہی پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ایسے ہی کئی اورقافلے مشرق سے مغر ب کی طرف رواں دواں تھے۔آبلہ پا،تھکان سے چور،بھوکوں کے مارے، سفر کی صعوبتوں سے نڈھال‘‘۔دوماہ بعد وہ لکھتاہے’’70لاکھ سے زائد مہاجرین گرتے گراتے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔وہ بالکل بے سروسامان تھے۔ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوااورکچھ نہ تھااور ان کپڑوں کی بھی اکثردھجیاں اُڑی ہوئیں تھیں۔یہ وہ دردکشانِ بلاتھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل، لاشوں کی قطع وبریدی اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔راستے میں ہرقدم پرموت ان کی گھات میں تھی۔ان میں سے ہزاروں بھوک وبیماری سے راستے ہی میں جاں بحق ہوگئے یاسکھوں کے خون آشام جتھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا۔بہت سے پاکستان کی سرحد پر پہنچتے ہی ابدی نیند سوگئے‘‘(بحوالہ:خونِ مسلم ارزاں ہے۔ازڈاکٹرسعیداحمدملک)
پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کی ٹرینوں پربھی جابجاحملے ہوتے رہے۔اکثرٹرینوں کے سارے کے سارے مسافر فناکے گھاٹ اتاردیئے جاتے،نوجوان لڑکیاں اغواکرلی جاتیں اوران کی زندگیاں موت سے بدترہوجاتیں۔اس ضمن میں بے شمار واقعات میں سے صرف دوکاتذکرہ کیاجاتاہے۔پہلے واقعہ کا راوی گنڈاسنگھ والاریلوے سٹیشن کااسسٹنٹ ریلوے ماسٹر خود ہے۔وہ کہتاہے: “ایک مہاجرٹرین فیروزپورکی طرف سے قصورآرہی تھی۔گنڈاسنگھ والاسٹیشن پہنچ کررُکی۔مجید یزدانی صاحب پلیٹ فارم پراس کا استقبال کررہے تھے ۔ گاڑی رُکی توانہوں نے دیکھاکہ سب بوگیاں خون سے لت پت ہیں اورڈبوں میں لاشوں کے انبارلگے ہیں۔یہ منظراس زمانے کامعمول تھا۔آگے ایک اورقسم کامنظرآرہاتھا۔سب بوگیوں میں جھانکتے ہوئے جب وہ آخری بوگی کے قریب پہنچے تووہاں بچوں کے رونے پیٹنے اورکراہنے کی درد ناک آوازوں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔جھانک کردیکھاتوایک روح فرسا منظران کے سامنے تھا۔اس بوگی میں ایک سال سے پانچ سال تک کی عمرکے بے شمار بچوں کی زندہ لاشیں خون میں لت پت کلبلا رہی تھیں۔ان بچوں کوذبح نہیں کیاگیاتھابلکہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کرزندہ لاشوں کی صورت میں پاکستان کی طرف دھکیل دیاگیا۔ کیااس سے زیادہ بہیمیت اوردرندگی کی مثال کہیں تاریخ میں مل سکے گی‘‘(بحوالہ:جدوجہدآزادی میں پنجاب کا کردار.ازڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار)۔
اس نوع کادوسراواقعہ یوں ہے کہ نومبر1947ءکوایک شام واہگہ ریلوے اسٹیشن پراہل لاہورکاایک جم غفیراس گاڑی کے استقبال کیلئےموجود تھاجو مہاجرین کولے کرکالکاسے چلی تھی اوربراستہ امرتسرپاکستان پہنچ رہی تھی۔خاصے انتظارکے بعددھندلائے ہوئے اُفق پرایک سیاہ دھبہ منتظرلوگوں کی سمت بڑھتاہوانظرآیا۔یہ ریل کاانجن تھا۔خوشی کی ایک لہرہجوم میں پھیل گئی۔وہ پانی کے مٹکوں اورکھانے کے طباقوں کاجائزہ لینے لگے جوانہوں نے پاک وطن میں آنے والے مہاجربھائیوں کیلئےتیارکررکھے تھے۔ جوں جوں گاڑی نزدیک آتی گئی لوگوں کاجوش وخروش بڑھتاگیا۔انہوں نے نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اورپاکستان زندہ بادکے نعرے لگائے لیکن گاڑی سے ان کے نعروں کاکوئی جواب نہ آیا۔گاڑی اسٹیشن کی حدودمیں داخل ہوئی اورہلکی رفتار سے چلتی پلیٹ فارم پرآرُکی،مگرگاڑی کاکوئی دروازہ کھلانہ اس میں سے کوئی ذی روح برآمدہوا۔لوگوں کے دل انجانے اندیشے سے دھڑک اُٹھےاور جب انہوں نے کھڑکیوں سے ڈبوں کے اندرجھانکاتوان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔کرپانوں سے کٹے ہوئے گلے،گولیوں سے چھلنی سینے،جسم سے علیحدہ ہوئے بازو،پھٹے ہوئے پیٹ،ظلم وتشددکی المناک داستان سنا رہے تھے۔پھر نوجوانوں نے گاڑی کے ڈبے آپس میں تقسیم کرلئے اورخون میں لت پت،کٹی پھٹی اوپرنیچے پڑی لاشوں کوعزت واحترام کے ساتھ آبدیدہ آنکھوں سے ہدیہ عقیدت پیش کرتے اتارنے لگے۔(بحوالہ:1947ءکے مظالم کی کہانی خودمظلوموں کی زبانی ۔ازحکیم محمد طارق محمودچغتائی)۔
لند ن کے اخبار’ڈیلی میل‘کے نمائندہ خصوصی مسٹررالف نے انہی ایام میں کراچی سے دہلی تک کاسفرکیا۔اس نے27اگست: 1947کے’ڈیلی میل ‘ میں لکھا: “میری کہانی صرف وہ لوگ سُن سکتے ہیں جوبہت بڑادل گردہ رکھتے ہوں۔جب میں کراچی سے براستہ لاہورعازم دہلی ہواتو کراچی سے لاہور تک راستے میں سفاکی کاکوئی منظرنظرنہ آیا،اورنہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی۔لاہورپہنچ کرمشرقی پنجاب میں ہونے والی دہشت وبربریت کے آثار نمایاں نظرآنے لگے کیونکہ اسی دن لاہورمیں خون سے لت پت ریل پہنچی تھی،یہ ریل 9ڈبوں پرمشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزارمسافرسماسکتے تھے۔اس ریل کے مسافروں کوبٹھنڈاکے جنکشن پربے دریغ تہِ تیغ کردیا تھا۔ہماری گاڑی اتوارکی صبح دہلی کیلئےروانہ ہوئی۔پاکستان کی سرحدعبورکرنے کے بعدجابجاایسے مناظربکھرے پڑے تھے جو لاہورکی لُٹی پٹی ٹرین سے کہیں زیادہ ہولنا ک اوردہلادینے والے تھے۔گدھ ہرگاؤں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹری پر اکٹھے ہو رہے تھے،کتے انسانی لاشوں کوبھنبھوڑرہے تھے اورفیروزپورکے مکانات سے ابھی تک شعلے اُٹھ رہے تھے۔ جب ہماری ریل بٹھنڈاپہنچی تومجھے ریل سے ذرا فاصلے پرانسانی لاشوں کا ایک ڈھیرنظرآیا۔میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دو سپاہی وہاں مزیدلاشوں سے لدی بیل گاڑی لائے جولاشوں کے ڈھیرپر ڈال دی گئی۔اُس ڈھیرپرایک زندہ انسان کراہ رہاتھا۔سپاہیوں نے اسے دیکھالیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیرپرپھینک کرسسکتے اورکراہتے انسان کووہیں چھوڑکرچلتے بنے‘‘۔وہ مزید لکھتاہے:’’فیروزپورسے ہجرت کرتے ہوئے ایک لُٹاپِٹا قافلہ جب ایک جگہ سستانے کیلئے رُکاتواچانک سکھوں نے حملہ کردیا۔ ایک عورت کی گودمیں پانچ چھ ماہ کابچہ تھا۔ایک وحشی درندے نے وہ بچہ ماں کی گود سے چھین کرہوامیں اچھالااور پھراس کی کرپان ننھے معصوم کے سینے میں ترازوہوگئی اوراس کاپاکیزہ خون اس وحشی درندے کے کراہت آمیزچہرے پرٹَپ ٹَپ گرنے لگا ۔بچے کے تڑپتے جسم کوماں کے سامنے لہراکر درندے نے کہا’لو!یہ ہے تمہاراپاکستان‘۔جب ماں نے اپنے جگرگوشے کونوکِ سناپہ سجے دیکھاتواس کادل بھی دھڑکنابھول گیااوراس نے بھی وہی دم دے دیا‘‘۔ڈیلی میل کایہ نمائندہ خصوصی آگے چل کرلکھتا ہے:’’بٹھنڈاسٹیشن پرہم نے جوآخری نظارہ دیکھاوہ انتہائی کریہہ،گھناؤنااورانسانیت سوزتھا۔جونہی ہماری ٹرین چلی،ہم نے دیکھا کہ چارسکھ چھ مسلمان لڑکیوں کو انتہائی بے دردی سے زدوکوب کرتے ہوئے ان کی سرعام عصمت دری کررہے ہیں۔دولڑکیوں کوتوانہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ذبح بھی کرڈالا۔‘‘ (بحوالہ:خون مسلم ارزاں ہے۔ازڈاکٹرسعیداحمد ملک)
امرتسرکی صورتِ حال بھی باقی جگہوں سے کچھ مختلف نہ تھی۔ہرطرف قتل وغارت،آتش زنی اورلُوٹ مارکابازارگرم تھا۔15/ اگست کی صبح نو بجے کے قریب تقریباً5سوبلوائیوں نے ہندو، سکھ پولیس اورفوج کے ساتھ مل کرکوچہ رنگریزاں پرحملہ کردیا اوراس کے تمام مسلمان باسیوں کوتہِ تیغ کردیا ۔دوسرے دن جب ایک مجسٹریٹ کے ساتھ اس محلے کامعائنہ کیا گیاتوگلی کوچوں میں لاشوں کے سواکچھ نہ تھا۔مکانوں کے اندرجھانکاتووہ بھی لاشوں سے اَٹے پڑے تھے۔ایک مسجد کے اندرنظرڈالی تووہا ں بھی متعددلاشیں نظرآئیں مگروہ سب نوجوان لڑکیوں کی لاشیں تھیں۔امتِ مسلمہ کی ناموس کی 46برہنہ لاشیں۔ان کے گلے کٹے ہوئے تھے۔ان کی حالت بتارہی تھی کہ ذبح کرنے سے پہلے ان کی عصمت دری کی گئی تھی۔دیہات سے آنے والے لوگوں نے بتایاکہ کپورتھلہ اورپٹیالہ کے ریاستی فوجی موٹرگاڑیاں لے کرآتے اورہماری نوجوان لڑکیوں کوزبردستی اٹھاکرلے جاتے۔ کچھ عورتیں جان بچاکردروازہ مہان سنگھ سے شریف پورہ کی طرف آرہی تھیں۔انہیں بلوائیوں اورہندوسکھ فوجیوں نے دن دیہاڑے سڑک پر سے اُٹھالیا ۔ کوئی نہیں جانتاکہ اُمتِ مسلمہ کی ان بیٹیوں کاکیابنا۔
اسی طرح3ستمبر1947ءتک دہلی کے نواحی دیہات میں بھی فساد ات شروع ہوچکے تھے اورجلدہی دہلی شہربھی ان کی لپیٹ میں آگیایعنی اب دہلی میں بھی مسلمانوں کاقتل عام شروع ہوچکاتھا۔گلی گلی،محلے محلے مسلمانوں کی لاشیں بکھری ہوئی نظرآتیں۔5/ ستمبرکوقرول باغ میں امتحانی ہال کے باہران تمام مسلمان بچوں کوقتل کردیاگیاجومیٹرک کاامتحان دینے آئے تھے ۔ہرطرف مسلمان قتل کئے جارہے تھے،سامان لوٹاجارہاتھااورمکان جلائے جا رہے تھے۔سبزی منڈی کے علاقے میں ولبھ بھائی پٹیل کے اشارے پر گورکھافوج نے3ہزارمسلمانوں کو انتہائی بیدردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتاردیا۔ایک عینی شاہدنے بتایاکہ 9ستمبر تک دہلی کے واٹرورکس اورفیروزشاہ کوٹلہ کے درمیان کم ازکم10ہزارلاشوں کاڈھیرلگ چکاتھاجوٹرکوں میں بھربھرکروہاں لائی گئیں تھیں۔شام کوسات بجے ان تمام لاشوں کوپٹرول ڈال کرجلادیاگیا۔اس جلتے ہوئے انسانی جسموں کے الاؤکی روشنی دورتک دیکھی جاسکتی تھی۔چاراورچودہ ستمبر کے درمیان بیس سے پچیس ہزارتک مسلمان مارے جاچکے تھے۔ایک مسلمان جوجان بچاکرپاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگیا،وہ اپناچشم دیدواقعہ بیان کرتے ہوئے کہتاہے کہ ایک جگہ اس نے دیکھاکہ ہندوبلوائی ایک ڈھیرکے گردخوشی سے ناچ رہے تھے۔کیاہم سوچ سکتے ہیں کہ یہ ڈھیرکس چیزکاتھا؟یہ مسلمان عورتوں کے جسموں سے کاٹے ہوئے پستانوں کاڈھیر تھا۔(بحوالہ:خونِ مسلم ارزاں ہے۔ازڈاکٹر سعید احمدملک)
1947ءکے قتل وغارت گری کی داستان بہت لمبی ہے۔ایک اندازے کے مطابق کم ازکم دس لاکھ مسلمانوں کوصفحۂ ہستی سے مٹا دیاگیا۔1941ءکی مردم شماری کے مطابق پٹیالہ، کپور تھلہ،فریدکوٹ،جنڈاورنابھہ کی ریاستوں میں8لاکھ33ہزارمسلمان آبادتھے۔ان میں سے اکثرکواگست ستمبر 1947 میں نیست ونابودکردیاگیا۔صرف پٹیالہ سے ڈھائی لاکھ مسلمان غائب ہوگئے جن کاکوئی نام ونشان نہیں۔کپورتھلہ میں شایدہی کوئی مسلمان زندہ بچاہو۔یادرہے کہ ریاست کپورتھلہ میں مسلمان اکثریت میں تھے اور1941ءکی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد 2لاکھ 13ہزار7سو54 تھی۔ 15ستمبر1947ءکے روزایک لاکھ مسلمان مہاجرین کاایک قافلہ اردیسہ سے روانہ ہوا۔اتنی بڑی تعداد کوختم کرناآسان نہ تھا۔لہذاپہلے انہیں بھالوں، کرپانوں اوربندوقوں سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہزاروں مسلمان مارے گئے لیکن پھربھی ہزاروں زندہ بچ گئے۔چنانچہ ہندوسکھ فوجیوں کے ٹرک بھیجے گئے جوفوجی اندازمیں منظم طریقوں سے ڈیڑھ گھنٹے تک مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے رہے۔ایک لاکھ کے قافلے میں سے صرف چندہزاربچ کرپاکستان پہنچ سکے۔96ہزارمسلمان قتل کردیئے گئے۔(بحوالہ:خونِ مسلم ارزاں ہے۔ازڈاکٹرسعید احمد ملک)َ
دوستو!تحریک پاکستان صرف انہی چند واقعات کانام نہیں۔یہ توان ہزاروں میں سے چند ایک ہیں جوکتابوں میں درج ہیں۔ان کے علاوہ ہزاروں اور بھی ہیں جوسنے اورسنائے توگئے لیکن کسی رسالے یاکتاب کاحصہ نہ بن سکےاوران کے علاوہ ہزاروں وہ ہیں جومرنے والے اپنے سینوں میں اپنے ساتھ ہی لے گئے کہ انہیں اِن کوکسی کوسنانے کی مہلت ہی نہ ملی۔ان واقعات کوپڑھ اورسُن کرپہلاسوال جوذہن میں اُبھرتاہے وہ یہ ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کس مقصدکیلئے اس قدرجانی قربانیاں دیں،اپنی عزتیں اور عصمتیں لُٹوائیں اوراپنامال واسبا ب اورگھربارچھوڑا؟کیایہ سب کچھ کسی سیکولر معاشرے کے قیام کیلئے تھا؟یاکیا یہ سب کچھ کسی معاشی تحفظ اورترقی کیلئے تھا؟اوراگرایساتھاتوکیامجوزہ پاکستان میں ہندوستان کی نسبت زیادہ دودھ اور شہدکی نہریں بہہ رہی تھیں؟کیایہاں معاشی ادارے،زمینیں،کانیں،دوکانیں اورکارخانے ہندوستان کی نسبت زیادہ تھے؟اوروہ روزگارکے متلاشیوں کو ڈھونڈرہے تھے؟کیا’پاکستان کا مطلب کیا؟لاالہ الا اللہ!‘کے نعرے کے سوا کسی اورنعرے پراس قدرتعداد میں مسلمانانِ ہند لبیک کہہ سکتے تھے؟ کیامال،معیشت،سیکولرازم،نیشنل ازم وغیرہ کے نام پرکروڑوں لوگوں کا کوئی گروہ،اوروہ بھی پسماندہ ترین،اتنی قربانیاں اوراتناجوش وخروش دے اوردِکھاسکتاہے؟نہیں!ہرگزنہیں!اتنی قربانیاں کوئی گروہ صرف اپنے وطن اوراپنے مذہب کی حرمت اورتحفظ کی خاطر ہی دے سکتاہے!یقیناًیہ صرف اپنے لئے ایک الگ وطن کے حصول،کہ جہاں وہ اکثریت میں ہوں اور کسی کے غلام نہ ہوں،جہاں امن وامان ہو،عزت وآبروکاتحفظ ہو،انسانی رواداری اورانصاف ہواورکہ جہاں وہ اپنی زندگیاں اور اپنے تمام سیاسی،سماجی،معاشی اورحکومتی معاملات اپنے مذہب کے اصولوں اورہدایات کی روشنی میں چلاسکیں،کااعلیٰ وارفع مقصداورعز م ہی ہوسکتاتھاجس کی خاطرمسلمانانِ ہنداتنی بڑی تعداد میں اپنی جانوں،عزتوں اورمال واسباب کی قربانی دے گذرے ،اوردے کربھی راضی رہے۔نہ کوئی شکوہ،نہ کوئی پچھتاوابلکہ فخر۔
تودوستو!اب سوال یہ ہے کہ آج جب کہ قیام پاکستان کے بعدپیداہونے والی تیسری نسل بھی جوان ہوچکی ہے،کیاہم وہ مقصدحاصل کرسکے ہیں؟کیایہ وہی پاکستان ہے اورویساہی پاکستان ہے جس کاخواب ہمارے آباؤاجدادنے دیکھاتھا؟اورکیاہم نے ان کے خوابوں کاپاکستان بناکران کی پاکستان کیلئے دی گئی جان ومال اورعزتوں کی قربانیوں کاوہ قرض چکادیاہے جووہ جاتے ہوئے ہمارے ذمہ کرگئے تھے؟اگرنہیں توکیایہ ان شہیدوں کے خون سے غداری نہیں؟اورکیااس غداری پرگردنیں کٹے،اعضاءبریدہ ہمارے باپ،بھائی ،بیٹےاورپیٹ پھٹی،پستان کٹی اور عِصمت لُٹی ہماری مائیں،بہنیں اوربیٹیاں، اور نیزوں،تلواروں،کرپانوں اوربرچھیوں میں پروئے معصوم بچے ہمیں معاف کردیں گے؟
نظراللہ پہ رکھتاہے مسلمان غیور
موت کیاشے ہے،فقط عالم معنی کاسفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیساسے نہ مانگ
قدروقیمت میں ہے خوں جن کاحرم سے بڑھ کر