وادی گماں میں بسنے والو!اس گماں میں،اس دھوکے میں،فریب میں مت رہناکہ تم ہروقت باوضورہتے ہو،اچھے کپڑے پہنتے ہو، نمازیں اداکرتے ہو،نفلی روزوں کابھی اہتمام کرتے ہوتو رب کواس سے کچھ ملتاہوگا،اسے بندگی کرانے کی کوئی خواہش ہے،رب کی عزت میں کوئی اضافہ ہوتاہوگا اوراگرتم بغاوت کرتے ہوئے،فرائض نہیں اداکرتے تواسے کوئی نقصان ہوتاہو گا وہ رنجیدہ ہوتا ہوگا،وادی ٔگماں میں بسنے والو!ایسانہیں ہے،قطعی نہیں ہے۔ساری کائنات اس کے سامنے سجدہ ریزہوجائے تواس کی بڑائی بیان نہیں ہوسکتی اورساری کائنات باغی ہو جائے تواسے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اس کی نگاہ میں ساری دنیاکی قیمت ایک لنگڑے مچھرکے پرکے برابربھی نہیں۔بس حکم کی تعمیل کرتے چلے جاؤ،شکر کے ساتھ عاجزی کے ساتھ، اپنی تمام تربے بسی کے ساتھ،توبس تمہاراہی فائدہ ہے۔فلاح پاؤگے،مانتے چلے جاؤگے توامن پاؤگے،سکون وراحت پاؤگے۔ بغاوت کروگے توزندگی جہنم بن جائے گی ،سکون وقرارکھو بیٹھوگے،اعتبارجاتارہے گا،نفسانفسی مچے گی،کوئی کسی کی نہیں سنے گا،بس پھنس کے رہ جاؤگے اس تارِنفس میں اور دھوکے میں فریب میں۔بس ایک ہی راہ ہے:
تسلیم کرواس کی حاکمیت،رضاپرراضی رہو،اس کے گن گاؤ۔اسی کی مدحت ہے،وہی ہے سزاوارِحمدوثنا،نام اس کاہی بلندرہے گا۔ سب چلے جانے کیلئے ہیں، چلےجائیں گے۔کوئی نہیں رہایہاں پر،کوئی نہیں رہے گا،رہ ہی نہیں سکتا۔بس رہے گاتونام میرے اللہ کا،بس اسی کا۔بہت ہی اتھلاہے بندہ بشر، بہت ہی تھڑ دلابہت مکاروعیاربہت ہی شکوہ کرنے والا شکایت کرنے والا…….تھوڑی سی راحت پر پھول کرکپاہوجاتاہے اوررب کوبھول جاتاہے اور اگرتھوڑی سی تکلیف پہنچےتوبس ڈھنڈورچی بن جاتاہے۔سب کو بتانےلگتاہے دیکھو میرے سرمیں دردہے دیکھومجھے بخارہوگیادیکھومیں تکلیف میں ہوں،یہ ہوگیاوہ ہو گیاغضب ہوگیا۔بس میں ہی نظرآتاہوں رب کو۔
حضرت رابعہ بصری یادآگئیں کہیں سے گزررہی تھیں کہ ایک شخص کودیکھاجس نے سرپررومال باندھاہواتھا۔پوچھا:یہ تم نے سر پررومال کیوں باندھا ہوا ہے؟وہ بہت عاجزی سے بولا: میرے سرمیں دردہے اس لیے۔ تب رابعہ بصری بولیں:کیاتم نے کبھی شکرکا رومال باندھاہے؟حیران شخص نے وضاحت چاہی تورابعہ بصری نے فرمایا:اتنی راحتیں رب نے دیں تب توتم نے رومال نہیں باندھا کہ جس پرلکھاہوتا:مجھے رب نے راحت دی ہے اس لیے یہ رومال باندھاہواہے یہ شکرکارومال ہے اورسرمیں تھوڑاسادردکیاہوگیا کہ شکایت کارومال باندھے گھومتے ہو۔کبھی غورکیاہے ہم نے اِس پر؟ہم سب شکرکے رومال سے محروم ہیں اورشکایت کاپرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔بہت ناشکرے ہیں ہم بہت تھڑدلے بہت بے عقل… …..بصیرت نہ بصارت ۔ بہت بغاوت کرلی ہم نے، نتائج بھی دیکھ رہے ہیں۔پلٹ کیوں نہیں آتے اپنے رب کی طرف۔
ہاں یہ مجھے میرے ایک بابانے بتایاتھابہت پیارسے کہ اللہ جی اس بندے سے بہت خوش ہوتاہے جوپلٹ آئے،سہماسہماسا شرمسار، اس بات کاملال ہوکہ اتنے عرصے رب کاباغی رہا۔جب وہ شرمندہ شرمندہ سااپنے رب کے سامنے کھڑاہوتاہے تب رب کی رحمت جوش میں آتی ہے اوروہ اسے اپنی رحمت میں لپیٹ لیتاہے۔پلٹ آیئے۔یہ سب کچھ رب نے دیا ہے۔شکراداکیجیے اور شکریہ نہیں ہے کہ صرف نمازیں پڑھیں،تلاوت کریں،روزے رکھیں۔ یہ تورب کاحکم ہے اسے تواداکرناہی ہے،یہ آپ کااوررب کامعاملہ ہے۔شکریہ بھی ہے کہ آپ بے کسوں کی خبرگیری کریں۔وہ جوآپ کے محلے میں سفیدپوش ہیں ان سے سرجھکا کر ملیں،ان کے مسائل معلوم کریں اورپھراس طرح کہ ان کی عزت ِ نفس ذراسی بھی متاثرنہ ہوان کی اس خفیہ طریقے سے مددکریں کہ ان کوبھی پتہ نہ چلے۔ ہرمحلے میں کئی دوکانداروں کے ہاں ان سفیدپوشوں کے ادھارکاکھاتہ چل رہاہوتاہے،خاموشی سے ان کاادھار چکادیں اوردوکاندار کوبھی خوف خداکاواسطہ دیکراپنانام چھپانے کی درخواست کریں۔کبھی اگرراشن بھی دیناہے تومحلے کے دوکاندارکی ڈیوٹی لگادیں یاپھرخودشام کے اندھیرے میں خاموشی سے گھرکی دہلیزپراس طرح رکھ کرچلے آئیں کہ ہمسایہ کوبھی اس کی خبرنہ ہو۔کیاہمارے رب نے ہمیں عطاکرتے ہوئے کسی کورازداں بنایاہے؟
محلے میں اگرکوئی مریض ہے تورازداری سے اس کی ادویات کابندوبست کردیں۔اپنے عزیزواقارب میں ایسے حاجت مندآپ کومل جائیں گے۔جہاں ان کی خوشدلی سےعیادت کرناآپ کافرض ہے وہاں ان کی مشکلات کاادراک کرتے ہوئے ان کی عزت نفس کاخیال رکھتے ہوئے خودسے ہدیہ کی صورت میں ان کی کفالت کردیں۔میں آپ کویقین دلاتاہوں کہ ان شاء اللہ آپ ہر قسم کی ادویات استعمال کرنے سے محفوظ رہیں گے۔وہ بیٹی جوجہیزنہ ہونے کی وجہ سے اپنے بالوں میں چاندی لیے بیٹھی ہے اس کادردمعلوم کریں۔وہ جوبسترپرپڑاایڑیاں رگڑ رہا ہے اسے راحت وآرام کی چندگھڑیاں دیں ،وہ طالب علم جوچندروپوں کیلئےاپنی تعلیم چھوڑنے کاسوچ رہاہے،اس کاہاتھ تھامیں اوران کی خبرگیری کریں جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں،یہ جومال ودولت آپ کورب نے دیاہے اسے اس کی مخلوق کیلئےخرچ کرنا سیکھئے۔میں آپ کویقین دلاتاہوں کہ آپ اس خرچ کرنے کی راحت کوکبھی نہیں بھول پائیں گے۔وہ لمحے جو آپ نے کسی کے کام میں خرچ کیے وہ سرمایہ ہیں زندگی کا………وہ آنسوجوآپ کی آنکھوں سے کسی اورکیلئے برسا ، وہ انمول ہے اوروہی رب کو مطلوب ہے۔ دیکھئے پھرکہہ رہاہوں عبادت سے جنت اورخدمت سے خداملتاہے،انتخاب توآپ کاہے ناں۔
ہم سب بلاسوچے سمجھے بولتے رہتے ہیں۔ہمارے شرسے انسان محفوظ نہیں ہیں……..وہ انسان جوبولتے ہیں چیختے ہیں احتجاج کرتے ہیں لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ہم کسی کوبھی کسی وقت کچھ بھی کہہ دیتے ہیں……..وہ ایساہے فلاں ویساہے اورجس پرآپ نے الزام دھردیاہے بہتان لگادیاہے…….. زورآورہے تومقابلے پراترتاہے اورآپ پھرکھسیانی بلی بن جاتے ہیں اورکھمبانوچتے ہوئے پتلی گلی کی راہ لیتے ہیں اوراگرکوئی کمزورہے تویہ سماج اس کی زندگی اجیرن کردیتاہے۔بے آسراکے ساتھ آپ جوچاہیں سلوک کریں کوئی آپ کوروکنے والانہیں ہے؟خیریہ توہم روزدیکھتے ہیں اورکبھی خودبھی یہی کرتے ہیں۔ ہمارے شرسے انسان محفوظ نہیں ہیں توجانورکیامحفوظ ہوں گے۔وہ جانورجوبول نہیں سکتے احتجاج نہیں کرسکتے مظاہرہ نہیں کرسکتے،اخباری بیان جاری نہیں کرسکتے،عدالتوں کادروازہ نہیں کھٹکھٹاسکتے۔
ہم ہیں کہ جنگلوں کے باسیوں پرالزام پرالزام دھرتے چلے جاتے ہیں۔کبھی سناہے شیرنے کرپشن کی ہو،کسی گدھے کے سوئس اکاؤنٹ ہوں یاکسی جانور نے کسی دوسرے کوبیچ کھایاہو، ذخیرہ اندوزی کی یامنافع خوری کی ہو!کیاکسی شیرنےاپنے اقتدار کوطول دینے کیلئے اپنے بچوں کوبیچ کھایاہواور بعد میں بڑے فخرسے کہے کہ اس نے اپنے ہی جنگل کے اتنے جانوروں کوفلاں شکاری کے ہاتھوں فروخت کرکے اتنامال بنایا۔بے بس اورکمزورمرغی بھی اپنے چوزوں کوبچانے کیلئے مقابلے پراترآتی ہے،کہیں کچھ کھانے کونظرآجائے توکواہانک لگاکرسب ساتھیوں کوبلالیتاہے۔اس نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ چپکے سے سارامال خود ہضم کر لے اورکسی کوکانوں کان خبرتک نہ ہونے دے۔انسان……..جی ہم جواشرف المخلوقات ہیں،جوکچھ کرتے آئے ہیں،کررہے ہیں اورآئندہ بھی کرتے رہیں گے،کبھی آپ نے سناہے کہ جانوروں نے یہ کرتوت کئے ہیں؟وہ بے زبان جانورہیں توہم ان پر بہتان طرازی کرتے رہتے ہیں۔مجھے یقین ہوچلاہے کہ اب ان کاپیمانہ صبربھی لبریزہوگیاہے،کسی دن وہ ہمیں گھیرلیں گے اورجواب طلب کریں گے کہ بتاہم بے زبان تھے ہمیں یہ سب کچھ کیوں کہاگیا؟
جب دیکھویارلوگ کہتے رہتے ہیں:شہروں میں جنگل کاقانون رائج ہے۔امریکانے ساری دنیامیں جنگل کاقانون رائج کررکھا ہے۔ لاکھوں انسانوں کوگاجرمولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا،صدیوں کی تاریخ کے امین ممالک کھنڈربنادیئےگئے،کوئی کہنے والانہیں کہ ایساکیوں کررہے ہو؟ابھی کل ہی کی توبات ہےکہ اب ان دیکھے جرثومے کرونانےکیاتباہی مچائی کہ نیویارک کی ان شاہراہوں پر جہاں لاکھوں ڈالرکی گاڑیوں میں لوگ گھومتے تھے،دنیا بھر کے سیاح ان عالیشان ہوٹلوں ،پلازوں اورکروڑوں ڈالر کے نادراشیاءاورسازو سامان سے لدی ہوئی دوکانوں پر خریداری کواپنے لئے باعث افتخارسمجھتے تھے ، وہاں موت کاسناٹاچھا گیا، خودوہاں کا ایک نوجوان دنیابھرمیں امریکی ظلم وستم پرچیخ چیخ کر ان کی خاموشی کوجرم عظیم قرار دیتے ہوئے رب کے ہاں جھکنے اور توبہ کرنے کیلئے پکاررہاتھاکہ اگرہم نے ایسانہ کیاتویہ غیرمرئی سرکے بال سے بھی ہزاروں گناچھوٹاجرثومہ ہرذی روح کوخاک کردے گا۔
دنیامیں سب سے پہلے لاک ڈاؤن توسفاک وجابردرندہ صفت ہندومودی جنتانے متعارف کروایا۔مقبوضہ کشمیرکے لاکھوں جیتے جاگتے افرادکوایک لمبے عرصےتک نہ صرف گھروں میں بندکردیابلکہ مکمل لاک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام تعلیمی درسگاہوں، روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی ضروریات فروخت کرنے والے تمام اداروں،حتیٰ کہ زندگی کے سانسوں کوجاری رکھنے کیلئے ادویات کے سٹوروں کے علاوہ ہسپتالوں تک کو بندکردیاگیاتھا۔
اقوام عالم نے دیکھاکہ بدنصیب کشمیریوں کواپنے پیاروں کے جنازوں کوکندھادیناتودرکنارقبرستان میں تدفین کی اجازت بھی چھین لی گئی اوران کو گھروں کے دالانوں میں اپنےعزیزوں کودفن کرناپڑگیا۔تمام نوجوان بچوں کوزبردستی گھروں سے اغواء کرکے یاتوغائب کردیاگیا یا پھربھارت کی دوردرازجیلوں کی آ ہنی سلاخوں کے پیچھے بندکردیاگیااورآج تک نہ توکسی کاکوئی سراغ مل سکااور نہ ہی کسی عدالت میں اس کاریکارڈپیش کیاجاسکا ہے ۔امریکاومغرب جودنیامیں انسانی حقوق کے بڑے چیمپن بنتے تھے، اپنی معاشی مفادات کیلئے مجرمانہ خاموشی اختیارکررکھی ہے۔
ہمیں بارہابھارت کی ترقی،اس کی آزادخارجہ پالیسی اورجمہوری انتخابی عمل کاطعنہ دیاجاتاہے۔چلیں آج آپ کوبھارت کی سیر کروادیتاہوں جس کی گواہی خودان کے معاشی ماہرین کی زبانی بتا دیتاہوں:ان کے اپنے اسی بھارت کے53کروڑ68لاکھ شہری خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں جو دنیامیں کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔دنیابھرمیں96کروڑ30 لاکھ انسان بھوک کا شکارہیں جن میں21 کروڑسے زیادہ بھارتی ہیں جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہیں،اس کے9کروڑ23لاکھ بچے غذائی قلت کا شکارہیں جودنیامیں سب سے بڑی تعدادہے اوراسی طرح دنیا میں 58لاکھ40ہزاربچے ہرسال مر جاتے ہیں جن میں25لاکھ سے زائدتعدادبھارتی بچوں کی ہے جوکسی بھی ملک سے بہت زیادہ ہے۔دنیامیں ایک ارب21کروڑ16لاکھ 52ہزارانسانوں کوپینے کاصاف پانی میسرنہیں ہے جن میں سے41کروڑسے زائد بھارتی ہیں جوکسی بھی ملک سے کہیں زیادہ ہیں۔دنیاکے2/ارب60 کروڑ10لاکھ انسانوں کوصحت وصفائی کی سہولتیں میسرنہیں ہیں جن میں بھارتیوں کاحصہ62کروڑ65لاکھ سے زائدہے(بعض اداروں کے مطابق ایک ارب دس کروڑہے)جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔
دنیابھرمیں4کروڑ20لاکھ لوگ ایڈزکاشکارہیں جن میں سے61 لاکھ 90ہزاربھارتی ہیں جوکہ دنیاکے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔ بھارتی سرکارکے مطابق ان میں سے ہرسال5لاکھ سے زائدہرسال مرجاتے ہیں۔دنیابھرکے20کروڑٹی بی کے مریضوں میں سے47 لاکھ بھارتی ہیں جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہیں،ان میں سے5لاکھ کے قریب ہرسال مرجاتے ہیں جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔دنیامیں ہرسال5لاکھ 25ہزار6سوخواتین زچگی کی حالت میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں جن میں سے 98ہزاربھارتی خواتین ہیں جو کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔بھارت کے43کروڑافراداب بھی ناخواندہ ہیں جودنیامیں سب سے زیادہ ہیں۔اس کے5کروڑ بچےتعلیم سے اب بھی محروم ہیں اور3کروڑفٹ پاتھوں پررہتے ہیں جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔ ہر سال اس کے سوالاکھ انسان خودکشی کرتے ہیں اورایک لاکھ50ہزارخواتین جہیزنہ لانے پرقتل کردی جاتی ہیں۔جہاں43کروڑافرادناخواندہ ہیں، جہاں5 کروڑسے زائدبچے تعلیم سے محروم اور3کروڑسے زائدبچے فٹ پاتھوں پررہتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف عالمی اعدادوشمارکے مطابق مودی سرکارغربت دورکرنے کی بجائے اس نے ہتھیاروں کی خریداری پراب تک کاسب سے زیادہ خرچ کیاہے۔ہندوستان2023میں فوجی اخراجات میں عالمی سطح پرچوتھے نمبرپرتھا،کل$83.6 بلین تھا، جو2022کے مقابلے میں4.2فیصداور 2014 کے مقابلے میں44فیصداضافہ کے ساتھ نمایاں ہے۔2023میں دفاعی اخراجات بجٹ کا15فیصدتھےاور2024ءکے اخراجات میں اضافہ کاامکان بتایاجارہا ہے۔14لاکھ فوج،11لاکھ 55ہزارریزروفوج اور12لاکھ 93 ہزارپیرا ملٹری فوج کاخرچہ برداشت کیاجاتا ہے۔ان کومؤثربنانے کیلئے4300 ٹینک،8700آرمڈوہیکل،1260لڑاکا فوجی طیارے، ایک ایئرکرافٹ کیریئراور60ایٹم بم بھی ہیں۔ان سے بھی دل نہیں بھراتواسرئیل سے تین جدید ترین اواکس جنگی طیارے اورفرانس سے رافیل طیارے حاصل کرکے جنگی جنون کوتسکین پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس انتہائی پسماندگی کے علاوہ اقلیتوں کے ساتھ جوکچھ بھارت میں ہوتاہے،مہذب دنیامیں اس کاتصوربھی نہیں ہے۔20کروڑ اچھوت جانوروں سے بھی زیادہ بدترزندگی گزارنے پرمجبورہیں جن کوبنیادی انسانی حقوق دیناتودورکی بات انسان تک نہیں سمجھاجاتاہے۔23کروڑمسلمانوں کاحال تو اچھوتوں سے بھی بدترہے۔انتہاپسندہندوجماعتوں کے23لاکھ سے زیادہ جنونی کارکنہیں جنہوں نے پورے بھارت میں اقلیتوں کاجینادوبھرکیاہوا ہے۔ہندومسلم فسادات روزکامعمول ہیں۔سب سے پہلے انہوں نے سکھوں سے مل کرتقسیم کے وقت فسادات اورہجرت کے دوران10لاکھ مسلمانوں کاقتلِ عام کیا،بعدمیں تاریخی بابری مسجد اورہزاروں مسلمانوں کوشہیدکردیا،گجرات میں درندہ صفت وزیرِاعلیٰ نریندرمودی کی حکومتی سرپرستی میں5ہزارمسلمانوں کودن دیہاڑے شہیدکردیاگیاجس میں ڈھائی ہزارکوزندہ جلادیاگیا،ان کی املاک کولوٹااورجلایاگیااوران کاروائیوں پر فخرکرتے ہوئے اورمزید کرنے کاعہدکیاگیا۔اس قتلَ عام میں مودی نے سرکاری مشینری کاکھلےعام استعمال کیااورجس انسان دشمن نریندرمودی کی سرپرستی میں یہ ظلم وستم کامجرمانہ کھیل کھیلاگیا،اسے کوئی عبرتناک سزادینے کی بجائے دیوتاکامقام دے دیاگیا۔
جہاں ان فسادت اورظلم وستم میں ملوث سرکاری اداروں کے سپاہیوں کوفرض شناسی اوربہادری کے انعامات اورترقیوں سے نوازاگیاوہاں اب اس درندہ صفت مودی کوملک کاملک کاتیسری باروزیراعظم بنادیاگیا۔اس کے باوجودہم کس قدرآسانی سے انسان کے ہاتھوں ظلم وستم کوجنگل کے قانون سے تشبیہ دے دیتے ہیں۔کبھی جنگل دیکھاہے؟وہاں کے باسی دیکھے ہیں؟ کیاآپ کسی جنگل میں رہے ہیں؟پھر آپ یہ کس طرح کہہ دیتے ہیں،جنگل کا قانون۔جناب آپ کچھ نہیں جانتے۔جنگل میں قانونِ فطرت رائج ہوتاہے۔وہ بے زبان ہم جیسے شاطروچالاک عیارومکارنہیں ہوتے۔جو ہوتے ہیں وہ نظرآتے ہیں۔وہ ہماری طرح منافق نہیں ہوتے،دوغلے نہیں ہوتے،ہم جیسے کرتوت نہیں ہوتے ان کے۔میں آپ سے ہاتھ جوڑ کرالتماس کرتا ہوں خدا کیلئےیہ کہناچھوڑدیجیے،اپنے کرتوتوں کوبے زبانوں کے سرمت ڈالیے۔وہ معصوم ہیں انہیں کیوں گالی دے رہے ہیں آپ!انہیں توبخش دیجئے ۔مجھے آج زہرہ آپا کیوں اس قدریادآرہی ہیں؟
سناہے جنگلوں کابھی کوئی دستورہوتاہے
سناہے شیرکاجب پیٹ بھرجائے تووہ حملہ نہیں کرتا
سناہے جب کسی ندی کے پانی میں
پئے کے گھونسلے کاگندمی سایہ لرزتاہے
توندی کی روپہلی مچھلیاں اس کوپڑوسی مان لیتی ہیں
ہواکے تیزجھونکے جب درختوں کوہلاتے ہیں
تومینااپنے گھرکوبھول کر
کوے کے انڈوں کوپروں میں تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے
توساراجنگل جاگ جاتاہے
ندی میں باڑآجائے
کوئی پل ٹوٹ جائے توکسی لکڑی کے تختے پر
گلہری سانپ چیتااوربکری ساتھ ہوتے ہیں
سناہے جنگلوں کابھی کوئی دستورہوتاہے
خداوندِجلیل ومعتبرداناوبینامنصف واکبر
ہمارے شہرمیں اب جنگلوں کاہی کوئی دستورنافذکر