ابھی 76سال قبل جب پوری دنیامیں برطانوی شہنشاہیت کاڈنکابج رہاتھا،اس وقت برطانوی بڑے فخر سے کہاکرتے تھے کہ ہماری حدود سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا( گوآج اس کایہ حال ہے کہ وہاں کبھی کبھی سورج شرماتاہوادکھائی دیتاہے)۔اُس وقت ایک مسلمان یورپ و امریکاسے اس قدر خائف ومرعوب تھاکہ وہ سوچ تک نہیں سکتاتھا کہ وہ ان حکمراں اقوام کی سرزمین پراپنی بستیاں بسائے گااوران کواپنے مذہب کی طرف دعوت دے گا۔مسلمان ایک طرف ان کی سائنسی ترقی سے مرعوب تھے تودوسری طرف ان کی سامراجیت سے دم بخودلیکن آخرکاربرطانوی شہنشاہیت کاطلسم ٹوٹااورسارے مسلم آبادی والے ممالک ایک ایک کر کے آزاد ہوتے گئے۔دوسری عالم جنگ کے نتیجے میں ایشیا وافریقہ پرفرانس اوردیگر یورپی اقوام کی گرفت بھی ڈھیلی ہوئی اور سارے غلام ممالک آزادی کی نعمت سے ہمکنارہوتے گئے۔
گوایک طرف سوویت یونین کاعفریت وسط ایشیاپر اپناآہنی پنجہ گاڑے رہالیکن عالم اسلام کے اکثرحصوں میں ایک طویل نینداورقیامت کی بے ہوشی کے بعدبیداری اورترقی کی لہرپیداہوگئی تھی۔ مسلمان اعلیٰ عصری تعلیم کی طرف مائل ہونے لگے تھے اوراستعماریت کی تخریب کاریوں کی تلافی میں سرگرم ہورہے تھے۔ کچھ تواستعماریت کاشاخسانہ تھاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سے لے کرمزدورمسلمان یورپ وامریکاکی طرف ہجرت کررہے تھے اورکچھ تعلیم وغیرہ کیلئے نقل مکانی کررہے تھے۔
یہ رجحان20ویں صدی کے نصف اخیرمیں کافی شدت اختیارکرگیاجس کی وجہ سے دیکھتے دیکھتے یورپ وامریکامیں مسلمانوں کی تعدادبڑھنے لگی۔ نیز عالم اسلام میں پیداہونے والی بیداری کی وجہ سے مسلمانوں میں دینی دعوت کامزاج اورعلیحدہ شناخت کا تصورعام ہوتاگیا۔اس سے بھی مسلمانوں کو یورپ امریکاکی سرزمین پربہت سے ہمنواملتے گئے جن سے ان کی عددی طاقت میں اضافہ ہوتاگیا۔آج صورت حال یہ ہے کہ امریکامیں اسی لاکھ، فرانس میں ساٹھ لاکھ ،برطانیہ میں چوبیس لاکھ ،اس کے علاوہ کینیڈا، جرمنی اوریورپ کے دیگرملکوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعدادموجودہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے اندرہی یورپ کے قلب میں البانیہ،بوسنیاہرزیگوونیاجیسی مسلم ریاستیں اورمقدونیہ وبلغاریہ جیسی کثیرمسلم آبادی والی ریاستیں وجودمیں آچکی ہیں ۔چنانچہ یورپ وامریکاجہاں ہمیشہ سے عیسائی ویہودی کلچرموجودتھااب وہاں اسلام ایسی صورت حال اختیارکرگیاہے کہ اسے کسی بھی صورت میں نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔
نائن الیون کوامریکاپرحملوں کاایک مثبت پہلویہ رہاکہ مسلمان ایک بارپھرموضوع بحث بن گئے۔پینٹاگون اورڈبلیوٹی سی پرحملہ آوروں کامذہب، تہذیب اوران کی تعلیم پوری دنیا خصوصاًامریکاو یورپ کی عوام کی توجہ ودلچسپی کامحوربن گئی۔تاریخ میں پہلی بار بھاری تعدادمیں قرآن کریم کے نسخے امریکی و یورپی مارکٹوں میں کثرت سے بکے اورختم ہوگئے۔ یونیورسٹیوں میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پی ایچ ڈی کرنے والوں کا تانتا لگ گیااور یورپ وامریکاکے سیکڑوں اداروں نے اسلامک اسٹڈیزکے شعبے قائم کیے۔اسلام یورپ وامریکامیں پہلے ہی سے پنپ رہاتھا،ان حالات نے اسے کسی قدرمناسب آب وہواپہنچادی کہ اس کے پھلنے پھولنے کے ذرائع خودپیداہوگئے۔اس لیے آج یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مغرب میں اسلام سب سے زیادہ مقبول اورتیزی سے پھیلنے والامذہب بن گیاہے۔گومسلمانوں میں اکثرتعدادان کی ہے جوآبائی طورپرمسلمان ہیں اورمستقل وہیں سکونت اختیار کرلی ہے لیکن ان میں امریکی ویورپی مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی تعدادشامل ہے۔
مشرق سے مغرب کے خوف کی تاریخ کافی پرانی اورعیسائیت واسلام کی چشمک کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔عہد فاروقی ہی میں مسلمانوں نے عیسائیت ویہودیت کے سب سے بڑے مرکزیروشلم وشام وغیرہ کوفتح کرلیاتھا۔دوسری صدی ہجری میں مسلمان یورپ کے آخری مغربی سرے پراندلس میں اسلامی حکومت کاعلم لہراچکے تھے جس میں آج کاپورا اسپین اورپرتگال وفرانس کا بڑاحصہ شامل تھا۔وہ توفرانس کے کچھ جیالوں نے مسلمان فوجوں کا راستہ روک دیا تھاورنہ نجانے یہ طوفان کب کاپورے یورپ کواپنی لپیٹ میں لے چکا ہوتا۔بعد میں سلطان محمدفاتح نے قسطنطنیہ فتح کیاجوکہ روم کے بعد دنیاکاسب سے بڑاعیسائی مرکزتھااورصلیبی جنگوں کاحال توسب کومعلوم ہے جب اسلام وعیسائیت کی طویل ترین جنگ میں ایوبی حکمت و فراست نے عیسائیوں کو دھول چاٹنے پرمجبورکردیا۔اسلام اورعیسائیت کے درمیان اس طویل کشمکش نے تاریخی حیثیت اختیارکرلی۔صلیبی جنگوں کے گہرے زخم آج بھی اہل یورپ کے دل ودماغ میں اس قدرتازہ ہیں کہ عیسائی والدین،اساتذہ،میڈیا اورسیاست داں اسے اپنافرض سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے تئیں اپنے جذبات کواپنی نئی نسل تک بحفاظت پہنچائیں۔
صلیبیوں نے گوفوجی ودفاعی میدان میں اپنی شکست تسلیم کرلی لیکن ثقافتی وتہذیبی جنگ انہوں نے جاری رکھی۔عداوت ونفرت کی اس آگ کونام نہادمحققین اورمستشرقین نے خوب ایندھن فراہم کیااورمزعومہ تحقیق کے پس پردہ اسلامی تاریخ کومسخ کرنے اورمسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔اٹھارہویں صدی میں یورپ کے اندر برپا ہونے والے اقتصادی انقلاب نے انہیں مزیدوسائل سے مالامال کردیا جس سے مغربی حکومتوں نے خاطرخواہ فائدہ اٹھایا۔ذرائع ابلاغ کی ترقی کے بعد اس مشن میں کافی تیزی آگئی۔اسی دوران ایک اہم واقعہ یہ رونماہواکہ برطانیہ نے فلسطین میں جوکہ اس کی نوآبادیات تھاایک ناجائزاسرائیلی ریاست قائم کردی اوریہودیت وعیسائیت کی روایتی وتاریخی کشمکش کومسلمانوں کی طرف پھیردیا۔یہودیوں کو، جنہیں تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کے ہی دامن عافیت میں امن وسکون کی زندگی نصیب ہوئی،بڑے شدومدکے ساتھ یہ باورکرادیا گیاکہ مسلمان ہی ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
عالم عیسائیت اگرچہ فوجی محاذپراسلام کونہ مٹاسکالیکن اس کااندازہ تھاکہ وہ اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں،تہذیبی یلغاراورثقافتی جنگ میں مسلمانوں پرضرور غالب آئے گا۔لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ اسلام ہرمحاذاورہرمیدان میں عیسائیت کے مدمقابل کھڑا ہواہے۔سوویت یونین کے تاروپودبکھر جانے کے بعداگرکوئی سیاسی،اقتصادی،سماجی اوراخلاقی نظام ہے جوعیسائیت اورمغربیت کوچیلنج کرسکے تووہ صرف اورصرف اسلام ہے۔آج اسلام، مسلمانوں خصوصاعربوں کے خلاف نفرت وعداوت کاجوبازارگرم ہے وہ اسی”اسلامو فوبیا”(اسلام سے خوف کی بیماری)کاایک حصہ ہے۔اگرآج مغربی دنیااسلام سے خائف ہے تواس کایہ خوف بے بنیادنہیں۔اگروہ طالبان کی کمزورحکومت سے خائف تھی تومحض اس لیے کہ وہ ایک مضبوط تر سیاسی نظام کے قائل تھے ۔اگرآج سوڈان پرپابندیاں عائدہیں تومحض اس لیے کہ وہ ایک علیحدہ معاشی نظام کوفروغ دیناچاہتے ہیں۔اگرآج عالم عرب ،ایران،اوربرصغیرہندکی دینی تعلیم گاہیں اور ادارے مغربی ملکوں کوایک آنکھ بھی نہیں بھاتے تواس کے علاوہ اس کی اورکیاوجہ ہے کہ یہ ایک صالح اورتعمیری سماجی واخلاقی نظام کے نقیب ہیں۔
وہ دیکھ رہے ہیں کہ آج مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے۔روئے زمین کی مجموعی آبادی کاچوتھاحصہ مسلمانوں پرمشتمل ہے۔یہ دنیاکے ایک بڑے رقبے پرآبادہیں۔54ملین مربع میل کا ایک چوتھائی حصہ ان کے قبضے میں ہے اورروئے زمین کے سرسبزو شاداب خطے ان کی سکونت میں ہیں جنہیں تقریباتمام قدیم تہذیبوں کامرکزومحورہونے کاشرف حاصل ہے۔عالم اسلام زمین کے ایک اہم اوروسیع رقبے پرمشتمل ہے۔جنوبی خط استواسے پھیلتے ہوئے وسط ایشیامیں55خط عرض سے بھی زائدحصے اس کی قدرت وتصرف میں ہیں۔مختلف آب وہواکے تین منطقے مسلمانوں سے آباد ہیں۔منطقہ حارہ کامنتشرحصہ،منطقہ صحراویہ اورمنطقہ متوسطہ ان کی تگ وتازاوربودوباش کامرکزہے۔اسی لیے عالم اسلام کویہ امتیازحاصل ہے کہ اس خطے میں متنوع نباتات پائی جاتی ہیں اورزراعتی پیداوارکی نوع بنوع اقسام یہاں موجودہیں۔فوجی میدان میں اسلحہ کی طاقت کے اعتبارسے عالم اسلام گو بہت پیچھے ہے لیکن افرادووسائل کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔فوجی وسائل میں پہلے نمبرپر پٹرول ہے جس کی پیداوارکاتناسب عالمی پیداوار کے مقابلہ میں60 ٪ہے اورزیرزمین ذخائرعالمی ذخائرکے مقابلے میں80٪ سے بھی زیادہ ہیں۔
عالمی پیداوارکے مقابلہ میں عالم اسلام میں5 ٪لوہا،25 ٪تانبہ،40٪کروم کی معدنیات،56٪رانگا،23٪المونیم،10٪سیسہ،5 ٪فاسفیٹ اوردوسری بہت سی معدنیات پائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ اہم ترین آبی گذرگاہیں جوتجارت ودفاع وغیرہ میں نہایت اہم کردارادا کرتی ہیں وہ سب عالم اسلام میں واقع ہیں۔بحرابیض متوسط تین براعظموں کے درمیان رابطہ کاذریعہ ہے ۔جبل الطارق کادرہ بحر اٹلانٹک اوربحرمتوسط کے درمیان واقع ہے۔نہرسویز بحراحمرکوبحرمتوسط سے ملاتی ہے۔باب المندب کادرہ جوبحراحمراورخلیج عدن کے درمیان وصل کاکام دیتاہے۔ملاکاکادرہ جوجزیرہ سوماتراکوجزیرہ نماملایا سے الگ کرتاہے۔یہ سب تجارتی اورفوجی و حربی جگہیں ہیں جنہوں نے قدیم وجدیدتاریخ کے ہر دورمیں تجارتی راستوں اورفوجی حملوں کے نقطئہ نظر سے فیصلہ کن کردار اداکیاہے۔اس کے علاوہ عالم اسلام میں ترکی والجزائرسے لے کرافغانستان اوروسط ایشیائی ممالک تک جنگجو طاقت آزمااوربہادر افراد کی کمی نہیں ہے۔افغانستان جہاں تین سپرپاورز(برطانیہ،سوویت یونین اورامریکاسمیت اس کے47/اتحادیوں )کی افواج کے قبرستان اورذلت آمیز شکست آج بھی تاریخ کاحصہ بن چکی ہے۔
اس وقت دنیابھرمیں سب سے زیادہ مصائب میں مبتلا امت مسلمہ ہے جس پرچاروں طرف سے ابتلا کی بارش کردی گئی ہے لیکن ہمارے تمام دشمن نہ صرف اکٹھے مل کر مسلمانوں کو نیست ونابودکرنے کی عملی سازشوں میں شریک ہیں بلکہ ہمیں بھی ایک دوسرے کادشمن بنانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اورہم ایک دوسرے کاگلہ کاٹنے میں مصروف ہیں۔یوں تواس وقت امت مسلمہ کئی مسائل سے دوچارہے لیکن کشمیراورفلسطین دوایسی بڑی مقتل گاہیں بن چکی ہیں جہاں پچھلی سات دہائیوں سے انسانیت مسلسل چیخ وپکارکررہی ہے لیکن خودکومہذب کہلانے والی قومیں نہ صرف بہرے اور گونگے شیطان کاکرداراداکررہی ہیں بلکہ اس ظلم وستم میں برابرکے شریک ہیں۔اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ وہ اس بات کو جان گئے ہیں کہ اسلام جس کے معنی ہی سلامتی کے ہیں اوراس کے پیغام نے نہ صرف عربوں کے درمیان صدیوں کی منافرت کوختم کردیاتھابلکہ ان کواخوت اوربھائی چارہ کے ایسے رشتے کی لڑی میں پرودیاتھاکہ اس زمانے کی سپرپاورز”روم اورفارس”بھی ان پرحکومت کرنے سے عاجزتھے لیکن چندبرسوں میں اسلام کی تربیت سے آدھی دنیاکی قیادت و سیادت ان کے قدموں میں آن گری تھی اوراس زمانے کی سپرپاورزکوبھی زیرنگین ہوناپڑا۔
یہی وجہ ہے کہ آج مغرب کی پوری کوشش ہے کہ ہرقیمت پران مسلمان ریاستوں کے درمیان خانہ جنگی کاماحول پیداکیاجائے،ایک دوسرے کے گلے کاٹنے سے ان کوفرصت نہ ملے اوراس جنگی اخراجات میں الجھ کرنہ صرف معاشی طورپریہ کنگال ہوجائیں بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں مغرب اورامریکا کے اشارہ ابروپردم ہلاتے رہیں۔اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ زیر زمین بے بہاقیمتی خزانوں کامالک جن کوبنایا،انہوں نے اپنے رب کی طرف سے جاری اسلامی نظام کواپنانے کی بجائے اپنی بادشاہتوں کودوام بخشنے کیلئے مغرب اورامریکاکی غلامی کرلی اوراپنامن تن دھن ان کے تصرف میں دے دیا ۔ لیکن اچانک ایرانی انقلاب سے جب ان کودھچکاپہنچاتوفوری طورپرعراق اورایران کوایک دوسرے کے مدمقابل ایک خونریزجنگ میں مبتلاکرکے نہ صرف معاشی طورپراس خطے کے تمام اسلامی ممالک کے وسائل گ میں جھونک دیئے بلکہ اس بہتی گنگامیں اسلحے کی فروخت کے نام پراربوں ڈالر کھرے کرلئے ۔جب
ان ممالک کے درمیان جنگ ختم ہوئی توپھرایک اورافتادمیں مبتلاکرکے صدام کے ہاتھوں کویت پرحملے کی آڑمیںخودامریکابہادراپنے مغربی اتحادیوں سمیت حملہ آورہوگیا۔ اس بہانے سے نہ صرف کویت اورسعودی عرب سے بھاری تاوان وصول کیابلکہ خطے میں ایران کے مستقل خطرے کاہواکھڑاکرکے سیکورٹی کے نام پراپنے مستقل اڈے بھی بنالئے۔اپنے عزائم کومزید بڑھاتے ہوئے خلیجی ممالک میں دشمنی کاایک اوربیج بودیااور قطر کے ساتھ بائیکاٹ کامسئلہ کھڑاکرکے جہاں مسلم ممالک کے اتفاق کوبربادکیاوہاں دفاع کے نام پرایک مرتبہ پھراپنے اسلحہ سازکارخانوں کونیاخون مہیا کیاجبکہ اربوں ڈالرکی لاگت سے قطرکابحری اڈہ پہلے ہی امریکاکے استعمال میں ہے اورآج بھی”بلیوں کامنصف بندر”کیے مصداق اپناقبضہ جمائے بیٹھا ہے ۔
ہزاروں سال پرانی بابل ونینواکی تاریخ کے حامل عراق کوتاراج کرکے تاتاریوں کے مظالم کوبھی شرمندہ کردیاگیا۔ عرب ممالک میں بادشاہت کے نظام پرسب ہی معترض ہیں لیکن ان کے حکمرانوں کااستقبال”ریڈکارپٹ”پرکرتے ہوئے جمہوریت گنگ ہوجاتی ہے۔ جمہوریت کے علمبردارمغرب میں شخصی آزادیاں ایک چیلنج بن چکی ہیں،یہاں کسی بھی خاتون کوبرہنہ ہونے کااختیارتوہے لیکن اپنی مرضی سے اسکارف نہیں پہن سکتی۔مذہب کی توہین کرتے ہوئے لمحہ بھرکیلئے شرم محسوس نہیں کرتے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ فرانس کے وزیرتعلیم نے تمام تعلیمی اداروں میں سکارف اوربازوکو مکمل چھپانے پرپابندی عائدکردی ہے۔
کون نہیں جانتاکہ معمر قذافی کوامریکااورمغربی ممالک کے ساتھ اقتصادی روابط نہ رکھنے کی سزا دی گئی، بظاہرتولیبیا پریہ کہہ کرحملہ کیاگیاکہ وہاں کے عوام کوقذافی سے بچایاجارہاہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ معمرقذافی نہ یورپی ممالک اورنہ امریکاکواپنے اقتصادی معاملات میں مداخلت کی اجازت دیتے تھے بلکہ وہ عالمی منڈی میں تیل کے بدلے ڈالرکے مقابلے میں سونے کاسکہ چلانے کیلئے کوشاں تھے اورتمام تیل پیداکرنے والے ممالک کواس فارمولے پرقائل کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہورہے تھے۔قذافی کی کوشش تھی کہ وہ چین،ترکی اورایشیائی ممالک سمیت ان ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلق رکھیں جوامریکاکے اثرسے پاک تھے۔قذافی کے خلاف یہ بات اڑائی گئی کہ ان کی ایئرفورس بن غازی میں عوامی مظاہروں کے خلاف استعمال ہورہی ہے،الجزیزہ ٹی وی پر یہ خبربھی چلی کہ بن غازی میں بمباری کے نتیجے میں50ہزارلوگ مارے گئے،اگرچہ یہ خبرواپس لے لی گئی لیکن اس خبرکے نتیجے میں لیبیاکے اوپر نوفلائی زون قائم کردیاگیا۔بعدمیں اسی نوفلائی زون کوتوڑتے ہوئے بمباری شروع کردی گئی اورقذافی کے گھرپر بمباری کرکے ان کے ایک بیٹے کوبچوں سمیت شہیدکردیاگیا۔اس موقع پرپوری عرب اوراسلامی دنیادیکھتی رہ گئی اورکچھ نہ کرسکی۔یہ جہاں امریکا کی جانب سے لیبیاکے عوام کوبچانے کیلئے کھلی بدمعاشی اورجارحانہ مداخلت تھی وہاں تمام مسلمان ملکوں کے سربراہوں کوان کی اوقات بتادی گئی اوررہی مغرب کی خاموشی،آج ان کے ضمیروں پر بوجھ بن کرتازیانے برسارہی ہے۔اپنے اس جرم کااعتراف خودمجھ سے مغرب کے کئی دانشوروں نے کیا ہے۔
مغرب اورامریکاکامسلمان ممالک پرمکمل اجارہ داری کاخواب ابھی نامکمل ہی تھاکہ انہوں نے ساری دنیاپرقبضہ کرنے کرنے کیلئے ”ون ورلڈآرڈر”کا منصوبہ تیارکرتے ہوئے اپنےمدمقابل سپرپاورسوویت یونین سے گلوخلاصی کاپروگرام ترتیب دیتے ہوئے اسے افغانستان میں ایساالجھایاکہ وہ برسوں کی کمائی کوچندسالوں میں اپنے بھرپورزخموں کی تاب نہ لاتاہواعبرتناک شکست سے چھ ٹکڑوں کی تقسیم کاداغ اپنے ماتھے پرسجاکر واپس بھاگ گیالیکن یہاں قدرت کاتماشہ عجیب ہواکہ دنیامیں مسلم ممالک ریاستوں میں چھ اور ریاستوں کااضافہ ہوگیاجوپٹرول اورمعدنیات کی دولت سے مالامال ہیں۔ اب ان تمام معدنیات اورپٹرول سے استفادہ کرنے کیلئے یقیناًافغانستان اورپاکستان کی ضرورت تھی جس کیلئے درپردہ بہت کوششیں کی گئیں لیکن سوویت یونین کوافغانستان میں مسلمانوں ہی کی مددسے پارہ پارہ کرنے کے بعدامریکااوراس کے اتحادیوں نے اپنے سارے وعدے فراموش کرتے ہوئے جس طرح ساراملبہ پاکستان پرڈال کرعجلت میں بھاگ گیاتھابلکہ پاکستان پردباؤبڑھانے کیلئے اس کے ازلی دشمن بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کردی تھیں ،اس کے پیش نظریہ دونون ممالک امریکااورمغرب پراعتبارکرنے کیلئے تیارنہ تھے۔جس کیلئے پاکستان میں کمزورجمہوریت کوبھی فارغ کرتے ہوئے اس کا تختہ الٹ کر نہ صرف فوجی ڈکٹیٹرمشرف کوسامنے لایاگیابلکہ اس کے ناجائزعمل کوقانونی شکل دینے کیلئے پاکستانی عدلیہ کی طرف سے جائزسنددلوانے کیلئے اس فوجی آمرکوآئین میں تبدیلی کاحق بھی سونپ دیاگیا۔
دوسری طرف افغان طالبان کسی بھی طورپرغلامی کایہ طوق قبول کرنے کوتیارنہ تھے ۔اس ناکامی کے بعدنائن الیون کاپروگرام ترتیب دیکراس خطے پر قبضہ کرنے کاپلان تیارکرلیا گیا اور ثبوت کے طورپر اس پلان کے متعلق خودکئی امریکی دفاع اورتجزیہ نگاروں کی مفصل کتابیں اورویڈیوزبھی موجودہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ خودکو”جمہوریت کی ماں” کہنے والوں نے اپنے ہاتھوں پہلے الجزائراوربعدازاں مصرمیں جمہورکاگلاگھونٹ کرانسانی حقوق کے علم برداروں کی وہ تذلیل کی کہ تاریخ میں ان کی آئندہ نسلیں بھی اس بدنماداغ کو دھونہ پائیں گی اوراب اس پرمستزادیہ کہ برسوں خونخوارجنگ کی ہولناکیوں کے باوجودشرمناک اورعبرتناک رسوائی کے ساتھ افغانستان سے فرارہوناپڑا۔
1948میں اقوامِ متحدہ نے اس دن انسانی حقوق کے تحفظ اورآگاہی کیلئے48ممالک کی رضامندی سے30دفعات پرمشتمل عالمی منشورجاری کیاتھا-اس منشورکے تحفظ ،بہتری اورعمل درآمد کویقینی بنانے کیلئے ایک مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق بھی قائم کیاگیاتھا-انسانی حقوق کے اس عالمی منشورمیں بنیادی انسانی حقوق مثلاًانسانی آزادی،مساوی حیثیت،آزادانہ نقل و حرکت،آزادی اظہار،باوقارزندگی،سماجی تحفظ کاحق،مذہبی آزادی اورتشدد، ظلم وستم،غیرانسانی اورتوہین آمیزسلوک یاسزاکانشانہ نہ بنائے جانے کویقینی بنایاگیاہے-گوکہ اِس دن دنیابھرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آوازبلندکی گئی،لیکن کیاوجہ ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں نے کشمیرو فلسطین میں ہونے والی اندوہ ناک انسان دشمنی کوہمیشہ کی طرح پسِ پشت ڈالے رکھاہے۔اس کی یقیناًایک ہی وجہ ہے کہ امریکاسمیت مغرب اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ دیوالیہ کے کنارے پرپہنچاہواپاکستان ایک ایٹمی قوت کاملک ہے اورتیزی کے ساتھ اپنے اپنی ڈوبتی معیشت کوسنبھالادینے کیلئے خطے میں اپنی ترجیحات کی سمت کوتبدیل کرنے میں کوشاں ہے جہاں اس خطے میں امریکااورمغرب کی منافقانہ پالیسیوں کیلئے مزیدکوئی جگہ باقی نہیں رہی۔اب بھی وہ اسلام کی نشاط ثانیہ کے طلوع ہوتے ہوئے سورج کومادی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں غرق کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہاہے۔آج بھی ان کے تعلیمی اداروں میں یہ تحقیق جاری ہے کہ کس طرح وہ پاکستان کے ایک بہت بڑے اسلامی مفکرکے اسلامی سیاسی نظام کوناکام بنایاجائے جوامریکااورمغرب کے موجودہ سیاسی نظام کی موت بن سکتاہے۔
مغربی دنیااب تک مختلف ذرائع سے سیاسی،سماجی،فوجی اوراقتصادی سطح پرمسلمانوں پرحاوی رہی ہے لیکن ایک طرف مسلمانوں میں بیداری پیداہونے کے بعدانہیں یہ خوف لاحق ہوگیاہے کہ اگرعالم اسلام کوکچھ لائق اورژرف نگاہ قائدمیسرآگئے اور انہوں نے اپنی بکھری قوتوں کااستعمال کرناسیکھ لیا تو وہ دن دورنہیں جب مغرب کی قیادت کاطلسم چکناچور ہوکربکھرجائے گااور عالم اسلام قیادت وجہاں بانی کی نئی بلندیاں طے کرتاہوانظرآئے گا۔ دوسری طرف اہل مغرب کوخوداپنے ملکوں میں پیرتلے زمین کھسکتی نظرآرہی ہے،مسلمان پورے اسلامی تشخص اورتہذیبی شناخت کے ساتھ ہر میدان میں پورے یورپ وامریکامیں اپناوجود تسلیم کرارہے ہیں۔ان اسباب کے پیش نظراگریورپ میں”اسلام سے خوف” کی لہردوڑرہی ہے تویہ بے بنیاد نہیں۔