Why We Fail

ہم ناکام کیوں؟

:Share

بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن پرکچھ کہنایالکھنا آسان نہیں ہوتا،زبان وقلم کی ساری صلاحیتیں ناکافی لگنے لگتی ہیں۔ خصوصاًایسے موضوعات جن کاتعلق ہماری ذاتی یاملّی ناکامیوں سے ہو،وہاں ہماراخاص قومی مزاج خودپسندی اوررجحان راہ میں حائل ہوجاتاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسے دورمیں جب انسان مادی ترقی کی معراج پرپہنچ چکاہے،مسلم دنیاکے تصورکے ساتھ ہی ایک ایسی شکست خوردہ قوم کی تصویرابھرتی ہےجواپنے جوہرسے ناآشنا اورمغربی دنیاکی اسیرہے جس کاکوئی متعین مقصد ہے نہ متعین پالیسی اورنہ منزل۔آج کوئی بھی مسلم ملک جدید علوم وتحقیقات کے میدان میں کسی قابل ذکر مقام پرنہیں کھڑا۔دنیابھر میں مسلمان عالمی دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔کہیں مسلمانوں کاوجودزنجیروں میں جکڑاہواہےتوکہیں وہ نفسیاتی غلامی کاشکار ہے کہ اندھی تقلیدسے آگے کچھ بھی سوچنے سے قاصرہے۔یہ ہماری موجودہ ملکی صورتحال کی ایک جھلک ہے۔”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی”

اپنی خامیوں اورکمزوریوں کااعتراف بڑے ظرف کاکام ہوتاہے اوراگراحتساب اوراصلاح کےجذبےکےساتھ ہوتورب کی عظیم نعمت اورکامیابی کی طرف پہلا قدم ثابت ہوسکتاہے۔یہاں ٹھہرکریہ بات سوچنےکی ضرورت ہے کہ بحیثیت امت محمدﷺہمارے سامنے کامیابی کاتصورکیاہے؟اس وقت امت مسلمہ جن بے دین تہذیبوں کے درمیان موجودہے،ان کے سامنےتوکامیابی کا تصور ”زیادہ سے زیادہ خوشیوں کے حصول اورقول وعمل کی آزادی”سے زیادہ کچھ نہیں ہے جبکہ اسلامی الہامی نقطہ نظرکےمطابق کامیابی اورفلاح اللہ کی زمین پراللہ کی خلافت کی ذمہ داری اداکرتے ہوئے انسانی زندگی کوتابع امررب کرنااورپوری دنیاپرقرآن کا نظام نافذ کردیناہے۔”اسی تصورکے تحت امت مسلمہ نے پہلے بھی دنیاکی امامت کامنصب حاصل کیاتھااوراب بھی اسلام کے غلبے کاراستہ یہی ہے۔

کامیابی کاراستہ،ترقی وخوشحالی کاراستہ،پستی سے نکل کرعروج کی طرف سفرکرنےکاراستہ،چندمہینوں یاسالوں کانہیں بلکہ قوموں کے عروج کاسفر صدیوں پرمحیط ہوتاہےاوراپنے افرادکی اتنی ہی جدوجہداورپیہم عمل کامتقاضی ہوتاہے۔ایک مشہور چینی کہاوت ہے:تمہارامنصوبہ اگرسال بھر کیلئےہے توفصل کاشت کرو،دس سال کیلئےہےتودرخت لگاؤاوراگردائمی ہےتوتربیت یافتہ افرادتیارکرو۔اس لحاظ سے معاشرے کی تعمیرکیلئےفردکی تعمیرکاکام جتنااہم ہے،اتناہی نازک بھی ہے جس کیلئےایک ایسے لائحہ عمل اورمربوط نظام تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے فردکی تعمیرعین مطلوبہ خطوط پرممکن بنائی جاسکے۔اس حوالے سے ایک موقع پر نیلسن منڈیلا نے کہا تھا:ہم دنیاکوتبدیل کرنے کیلئےسب سے زیادہ طاقتوراسلحہ کےطور پر تعلیم کو استعمال کرسکتے ہیں۔

کسی بھی قوم بلکہ تہذیب کی بقاءواستحکام کیلئےتعلیم کی اہمیت بنیادی ستون کی سی ہوتی ہے۔لہٰذایہاں علم سےمرادمحض حرف شناسی نہیں ہے بلکہ علم کاصحیح ترین تصورمعرفتِ الٰہی،معرفتِ کائنات،معرفتِ انسان اورمقصدزندگی کی صحیح معرفت پرمبنی ہے جس کاماخذ قرآن ہے۔اسی علم سے مستفید ہونے والی نسل رب العالمین،کائنات اوراس کے اندرانسان کی صحیح حیثیت کو پہچان کرجب اپنی صلاحیتیں اورتوانائیاں مقصدِ زندگی کی طرف لگائے گی تویقیناًکامیابی اورترقی کی معراج حاصل کرکے رہے گی۔اگریہ بات ذہن نشین رہے کہ اس تعلیمی فارمولے پردمشق،بغداد، قاہرہ،قرطبہ اورسمرقند کے تعلیمی مراکزنے کام کیاتھااور اپنے زمانے کی امامت کامنصب سنبھالاتھاتوہماری نگاہیں کسی مغربی نظام تعلیم سے مرعوب نہ ہوں۔مگرالمیہ یہ ہے کہ خودوطن عزیزمیں سیکولراورلبرل تعلیمی فلسفہ ایک بڑامعیاربن کرابھراہے جبکہ اس بے دین”کوالٹی ایجوکیشن”کے اثرات تمام دنیاپراس صورت میں رونما ہوئے ہیں کہ نفس پرستی اور دولت پرستی کے جذبات نسل انسانی کا خاصہ بن گئے۔ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرگیامعاشرتی جرائم میں ہوش ربا اضافہ ہوااوربدترین اخلاقی گراوٹ نے احترام انسانیت کوپامال کردیاہے ۔غرض کوئی تعمیری پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ہاں یہ ضرورہواکہ انسان کواپنے قول وفعل کی مکمل آزادی مل گئی اورزیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹنے کیلیے تمام ذرائع جائز قرارپاگئے ہیں۔

اس وقت ہمارے ملک کایہ حال ہے کہ حاجیوں کی تعدادکے لحاظ سے پاکستان دنیامیں دوسرے نمبرپراورعمرہ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نمبر پرہے جبکہ دنیابھرمیں ایمانداری کے انڈکس کے مطابق پاکستان کا160نمبرہے،ورلڈجسٹس پراجیکٹ کی سالانہ رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کو قانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر139 ممالک میں سے130ویں نمبرپررکھاگیاہے۔

1500یونٹ کو500یونٹ لکھنے والارشوت خورمیٹرریڈر،خالص گوشت کے پیسے وصول کرکہ ہڈیاں بھی ساتھ تول دینے والا قصائی،خالص دودھ کانعرہ لگاکرملاوٹ کرنے والادودھ فروش،بے گناہ کی ایف آئی آرمیں دومزید ہیروئین کی پڑیاں لکھنے والا انصاف پسندایس ایچ او،گھربیٹھ کرحاضری لگواکر حکومت سےتنخواہ لینے والا مستقبل کی نسل کامعماراستاد،کم ناپ تول کرپورے دام لینے والادوکاندار،100روپے کی رشوت لینے والاعام معمولی سا سپاہی ،معمولی سی رقم کیلئےسچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ ثابت کرنےوالاوکیل،سوروپے کے سودے میں دس روپے غائب کردینے والابچہ،آفیسرکیلئے رشوت میں سے اپناحصہ لے جانے والامعمولی سا چپڑاسی،کھیل کے بین الاقوامی مقابلوں میچ فکسنگ کرکےملک کا نام بدنام کرنےوالاکھلاڑی،ساری رات فلمیں دیکھ کرسوشل میڈیاپرواہیات اورجھوٹ پرمبنی پروپیگنڈے کوآگے بڑھانے والااورفجرکواللہ اکبرسنتے ہی سونے والانوجوان،کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے دس لاکھ کی سڑک بنانے والاایم پی اے اورایم این اے،لاکھوں غبن کرکے دس ہزارکےہینڈپمپ لگانے والا جابرٹھیکدار،ہزاروں کاغبن کرکے چندسومیں ایک نالی پکی کرنے والاضمیرفروش کونسلر،غلہ اگانے کیلئےبھاری بھرکم سود پہ قرض دینے والا ظالم چودھری،زمین کے حساب کتاب و پیمائش میں کمی بیشی کرکے اپنے بیٹے کوحرام مال کامالک بنانے والا پٹواری اور ریونیوآفیسر،ادویات اورلیبارٹری ٹیسٹ پرکمیشن کے طورپرعمرہ کرنے والے ڈاکٹر،اپنے قلم کوبیچ کرپیسہ کمانے والا صحافی،منبررسول پربیٹھ کردین کے نام پرچندے اورنذرانے والےمولوی اورپیرصاحبان۔۔۔۔جب ہرکوئی کشتی میں اپنے حصے کاسوراخ کررہاہوتوپھریہ نہیں کہناچاہئے کہ “فلاں کاسوارخ میرے سے بڑاتھا”،اس لئے کشتی ڈوب گئی۔سبھی قصوروارہیں اور ہرکوئی سوشل میڈیاکوبغیرتحقیق کےبے تحاشہ استعمال کرکے خودکوبری الذمہ سمجھتا ہےاس دورمیں اگرہم پرنئے اور پرانے پاکستان کی گردان کرنے والے سیاستدان مسلط ہیں،تویہ ہمارے اعمال کی سزانہیں تواورکیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں