اسرائیل میں یحییٰ سنوارکو7/اکتوبر2023کواسرائیل پرہونے والے حملوں کا”ماسٹرمائنڈ”قراردیاجاتاتھااورماہرین کے مطابق اسمعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد اُن کی تقرری اسرائیل کے خلاف بغاوت کاایک جرات مندانہ پیغام تھا۔اسرائیلی استعماری فوج نے حماس کی دیگرشخصیات کے ساتھ ان کانام بھی اپنی انتہائی مطلوب افرادکی فہرست میں شامل کررکھاتھا۔گذشتہ دنوں غیرتصدیق شدہ ذرائع سےسوشل میڈیا پرشدیدزخمی حالت میں زمین پر لیٹے ہوئے ایک شخص کی تصویرگردش کر رہی تھی اوراسرائیلی حکام اس کی شناخت کی تصدیق کرتے ہوئے تذبذب کاشکارتھے۔ بعد میں اسرائیلی فوج نے ڈورن کی مدد سے بنائی گئی ایک ویڈیوشیئرکی جس میں اس کے مطابق حماس کے سربراہ کی زندگی کے آخری لمحات دکھائے گئے تھے۔اس ویڈیو میں ایک شخص کاچہرہ نقاب سے ڈھکاہواتھااوروہ اپنے اطراف سے ڈرون کوہٹانے کی کوشش کررہے تھے۔جونہی اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے یحیٰی یحیٰی سنوارکی رفح شہر میں شہادت کی تصدیق کی توجہاں اسرائیل میں جشن کاسماں شروع ہوگیاوہاں غزہ کے علاوہ دنیابھرکے مسلمانوں میں دکھ کی ایک لہردوڑگئی کہ ایک اورشہادتِ حق کی گواہی دینے کیلئے یحیٰی سنوارجیسامردِ مجاہدبھی سرخروہوگیا۔کچھ ہی گھنٹوں کے بعداسرائیلی وزیرِ دفاع یوآف گیلنٹ اورنیتن یاہونے بھی یحیٰی سنوارکی ہلاکت کاباقاعدہ اعلان کردیا۔
حماس کے سیاسی بیوروکے رُکن خلیل الحیانے یحیٰی سنوارکی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ”یحیٰی سنوارکی تحریک فلسطینی مٹی پرفلسطینی ریاست کے قیام تک جاری رہے گی اوراس کا دارالحکومت یروشلم ہوگا۔یحیٰی سنواراورحماس کے دیگر رہنماؤں کاخون ہمیں روشنی دیتارہے گا۔”انہوں نے یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کاحوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ”قابضین”کے یرغمالیوں کواس وقت تک رہانہیں کیاجائے گاجب تک غزہ پرجارحیت ختم نہیں ہوتی،اسرائیل کامکمل انخلانہیں ہوجاتااورہمارے قیدیوں کورہانہیں کردیاجاتا۔
یحیٰی سنوارکی موت پرغزہ میں صدمے کی سی صورتحال نظرآتی ہے۔امّ محمد کوشمالی غزہ میں اپناگھرچھوڑناپڑاتھااوراب وہ الاقصیٰ ہسپتال میں رہتی ہیں ۔ام محمدنے عالمی میڈیاسے اپنے صدمے کااظہارکرتے ہوئے کہا”کچھ دنوں پہلے میں نے خیموں میں لگی آگ کودیکھاتھااوراس کی تکلیف اپنے دل میں محسوس کی تھی اورآج پھرہم یحیٰی سنوارکی شہادت کی خبرکے سبب اس تکلیف سے گزررہے ہیں۔”غزہ کے ایک اوررہائشی کے مطابق:یحیٰی سنوارغزہ میں تنازع شروع ہونے کے ایک برس بعد مارے گئے ہیں ان کی شخصیت کے حوالے سے لوگوں کی رائے مختلف ہوسکتی ہے لیکن یہ تسلیم کرناضروری ہے کہ جس وقت انہیں شہیدکیا گیاوہ پوری طرح مسلح تھے اورانہوں نے اسرائیلی فورسزسے بہادری کے ساتھ مقابلہ بھی کیا۔وہ کسی انٹیلی جنس آپریشن میں نہیں مارے گئے جیساکہ اسرائیلی فوج دعویٰ کررہی ہے”۔
انس الجمال نامی سماجی و سیاسی کارکن یحیٰی سنوار کی موت پر لکھتے ہیں کہ”یہ وہ اختتام نہیں ہے جو نیتن یاہو چاہتے تھے۔ نیتن یاہو نہیں چاہتے تھے کہ یحیٰی سنوار اپنا عسکری لباس پہنے ہوئے اور رفح میں اگلے مورچوں پر قابض فوجیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے کسی ہیرو کی طرح نظر آئیں۔نیتن یاہو نہیں چاہتاتھاکہ یحیٰی سنوارکسی جھڑپ میں اچانک مارے جائیں۔وہ توچاہتا تھاکہ یحیٰی سنوارکوماراجائے اورتصویرمیں وہ خودیحیٰی سنوارکومارنے کاحکم دیتے ہوئے نظرآئیں۔نیتن یاہو ان فوجیوں کا احتساب کریں گے جنھوں نے یحیٰی سنوار کی تصویر لیک کی اور اب یہ تصویر فلسطینی افراد کیلئے فخر کا ذریعے بنے گی۔ان کامزیدکہناتھاکہ’اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کوعلم ہوناچاہئے کہ فلسطینی موت سے بالکل نہیں ڈرتے کہ ہم نے ہرلمحے موت کواپنی جیتی جاگتی زندگی میں نہ صرف دیکھاہے بلکہ اپنے پیاروں کوبڑی بہادری کے ساتھ مسکراتے ہوئےموت سے بغل گیر ہوتے دیکھا ہے تاہم ہم نارمل زندگی کی طرف لوٹناچاہتے ہیں تاکہ ہمیں کچھ سُکھ مل سکے۔ہم اس جنگ سے اب تھک چکے ہیں۔عمرنامی غزہ کے ایک اوررہائشی کہتے ہیں کہ”ہراس فلسطینی کی طرح جس نے اپنی زندگی قربان کی ہے،غزہ یاغربِ اردن میں،ہم خداسے یہی دعاکرتے ہیں کہ یہ جنگ اب ختم ہوجائے”۔
اس حوالے سے بیداع الاولاکی سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں کہ: ’وہ جنگ کے دوران رفح میں تُکّے میں شہید ہوئے، نہ کہ کسی آپریشن میں۔ وہ لڑے اور فرار نہیں ہوئے، ان کے گردن میں کوفیہ لپٹا ہوا تھا اور ہاتھ میں بارود تھا۔انہوں نے ماتھے اورسرپر گولیاں کھائیں،نہ کہ پیٹھ پریاہاتھوں پر،وہ آگے بڑھتے ہوئے شہیدہوئے”۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پراسرائیل سے شیئرکی گئی اورمقامی میڈیاپرنشرکی گئی ویڈیوزمیں اسرائیل کے شہرکریات بیالیک کی سڑکوں پرلوگوں کو یحیٰی سنوارکی موت کاجشن مناتے ہوئے دیکھاجاسکتاہے۔اسرائیل میں جشن منانے والے کچھ افرادنےاپنے گھروں کی بالکونی میں لاؤڈسپیکرز پر اسرائیل کاقومی ترانہ لگایاہواتھااورکچھ لوگ اپنی کاروں کاہارن بجاکریحیٰی سنوارکی موت کی خوشی منارہے تھے۔ایک اورویڈیومیں اسرائیلی فوج کے اہلکاروں کوسڑکوں پرموجودڈرائیورزکومٹھائی کھلاتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔اسرائیلی علاقے اشدودمیں ایک رہائشی علاقے میں لوگوں کوحماس کے سیاسی بیوروکے سربراہ کی موت پرتالیاں اور سیٹیاں بجاتے ہوئے دیکھاگیا۔شمالی اسرائیل میں گلیل کے ساحل کے قریب سڑکیں بلاک دیکھی گئیں کیونکہ وہاں سینکڑوں لوگ یحیٰی سنوارکی موت کی خبرسُن کرناچ رہے تھے اوراسرائیلی جھنڈے لہرارہے تھے۔
وہاں موجود ایک یہودی اپنی نفرت کااظہارکرتے ہوئے کہہ رہاتھاکہ”یحیٰی سنوار ایک بُرے آدمی تھے اوران کا آخری وقت آن پہنچاتھا۔ان کی موت ہم سب یہودیوں کیلئے ایک تحفہ ہے ۔حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کے خاندانوں نے یحیٰی سنوارکی موت کاخیرمقدم توکیالیکن ان کاکہناتھاکہ ان کے یرغمال بنائے گئے اہلخانہ کوواپس لانے کیلئے کوششوں کوتیزکیاجاناچاہیے۔اینیوزنگواکرنامی شخص نے اسرائیل کے مقامی میڈیاکوبتایاکہ”ہم نے قاتل یحیٰی سنوارسے حساب برابرکرلیاہے لیکن ہمیں مکمل فتح اس وقت تک نہیں ملے گی جب تک ہم اپنے پیاروں کی زندگیاں نہیں بچاتے اورانھیں گھرواپس نہیں لے آتے”۔
مقبوضہ غرب اردن کے شہررام اللہ میں مرادعمرنامی شخص نے خبررساں ادارے رائٹرزکوبتایاکہ:”یحیٰی سنوارکی شہادت سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوجائے گی۔اس کے بعدغزہ میں لوگوں کے پاس زیادہ آپشن نہیں بچیں گے اوراس سبب جنگ اورطول اختیارکرجائے گی”ادھرامریکی اوراسرائیلی کہتے ہیں کہ جویہ سمجھتے ہیں کہ یحیٰی سنواراورحماس کے بغیرغزہ میں آج ایک نئے دن کاآغازہواہے،یہ ان کی غلط فہمی ہے اوریہ صرف سیاسی نعرے ہیں۔ جنگ جاری رہے گی اورایسے نہیں لگتاکہ یہ کبھی ختم بھی ہوگی”۔حبرون سے کچھ میل فاصلے پرمقیم اعلیٰ الہشلامون کہتے ہیں کہ: میرے خیال میں جب بھی کوئی مرتاہے تواس کی جگہ کوئی اورلے لیتاہے جوپچھلے شخص سے زیادہ ضدی ہوتاہے۔یحیٰی سنوارایک ضدی شخص تھے اورہمیں امیدہے کہ ان کی جگہ بھی کوئی ان کے جیساہی شخص یاپھران سے زیادہ ضدی شخص لے گا۔
اردن کی سرحداسرائیل سے ملتی ہے اوراس کے دارالحکومت عمان میں ہزاروں افراد یحییٰ یحیٰی سنوار کی موت کی مذمت کرنے اورحماس سے یکجہتی کا اظہارکرنے کیلئے سڑکوں پرنکل آئے تھے۔ ایک احتجاج کرنے والے شخص نے عالمی میڈیاسے بات کرتے ہوئے متنبہ کیاکہ”یحیٰی سنواراورمزاحمت نظریات کانام ہے اورایک نظریہ کبھی مرتانہیں۔لاشیں گرتی ہیں، نظریات نہیں مٹتے۔اس لئے یحیٰی سنوارکی شہادت سے صورتحال مزیدخراب ہی ہوگی۔جمعے کی صبح اسرائیل کے مقامی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اردن کی طرف سے اسرائیل میں دراندازی کی کوشش کی گئی تھی اور اس واقعے میں دو فوجی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اردن کی فوج نے اس معاملے پر جاری ایک بیان میں کہا کہ: میڈیا میں چلنے والے اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اردن کی فوج نے اردن کی مغربی سرحد عبور کی۔ادھر دوسری طرف عراق میں اسماعیل ہنیہ کی موت پربھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے لیکن یحیٰی سنوارکی موت کے بعدجومظاہرے یہاں ہوئے وہ ماضی کے مقابلے میں کافی بڑے تھے
عراقی رُکنِ پارلیمان رئیس المالکی نے کہاکہ:”یحیٰی سنوارکی موت کامنظر اُتناہی تکلیف دہ تھاجتنی لاکھوں فلسطینیوں کی اموات اور ہزاروں بھوکے افرادکی نقل مکانی”۔عراقی صحافی وبلاگراحمد الشیخ ماجدنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پرایک پوسٹ میں لکھاکہ”یحیٰی سنوارنے وہ زندگی گزاری ہے جس کاوجودصرف شاعری میں ہی نظرآتاہے۔عراق میں موجود ہم سب جانتے ہیں کہ اس سب کی وجہ کیاہے اورہم بلیک میلرزاورشیروں میں فرق بھی جانتے ہیں۔ یحیٰی سنوارعربوں کاوہ شیرہے جس کی دھاڑاس کی شہادت کے بعدبھی دشمنوں کوکوفزدہ رکھے گی”۔مصر میں واقع جامع الاظہر نے یحیٰی سنوارکانام لیے بغیران کی موت کو”فلسطینی مزاحمت میں ہیروکی شہادت”قراردیا۔ایکس پرجاری ایک بیان میں جامع الاظہرکاکہناتھاکہ نوجوانوں کے ذہنوں میں”فلسطینی مزاحمت کا نشان”سمجھے جانے والے افرادکی ساکھ کومسخ کرنے کی کوشش کوناکام بناناہوگا۔بیان میں مزیدکہاگیاکہ اس کو”دہشتگردی”نہ قراردیاجائے بلکہ”مزاحمت”اپنی سرزمین کادفاع کرنااورمرجاناایک ایسارُتبہ ہے جس کی برابری ممکن نہیں”۔
مصری سیاستدان اورسابق صدارتی امیدوارحمدین صباحی نے یحیٰی سنوارکی موت کے بعدایک تقریب میں شرکت کی اورکہاکہ: “آپ ہیروکی طرح جئے اورشہادت کے رُتبے پرفائزہوگئے۔آپ غزہ کے دیگرلوگوں کی طرح کسی ہیروکی طرح شہیدہوئے۔آپ کسی ٹنل میں نہیں چھپے،قیدیوں کے پاس پناہ نہیں لی بلکہ جب آپ کادشمن سے سامناہواتوآپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کامقابلہ کر رہے تھے”۔
مصری اخبار الاحرام الشروق کے سابق ایڈیٹراِن چیف عبدالعظیم حمادنے حماس کے سیاسی بیوروکے سربراہ کی موت پرافسوس کا اظہارکرتے ہوئے لکھاکہ”ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل مزاحمت کے تمام مراکز کوختم کرناچاہتاہے تاکہ خطے میں اسرائیل کی بالادستی کی راہ ہموارہوسکے” ۔مصری میڈیاکی ایک اورشخصیت محمودسعدنے یحیٰی سنوارکی موت پرفلسطینی شاعر کی شاعری ایکس پرشیئر کی جس کے اردومیں لفظی معنی یہ ہیں: “اگرمیں مرجاؤں تومیری ماں،تم رونامت۔میں مروں گاتاکہ میراملک زندہ رہ سکے”۔احمدموسیٰ نامی ایک اورمصری شخص نے سوشل میڈیاپر اسرائیلی وزیرِاعظم کو”جنگی مجرم”قراردیا۔
کچھ بلاگرزاورسیاسی کارکنان کاکہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یحیٰی سنوارکی لاش کی تصاویرنے چی گویراکی موت کے بعد کی تصاویرکوبھی پیچھے چھوڑدیا۔چی گویراارجنٹینامیں پیداہونے والے انقلابی تھے جوگذشتہ صدی کے دوسرے حصے میں”دنیا بھرمیں انقلابی تحریکوں کی علامت”بن کرسامنے آئے۔انہیں جب1967 میں بولیویامیں ماراگیاتوان کی لاش کی تصویردُنیابھرمیں پھیل گئی تھی لیکن یحیٰی سنوارکی شہادت کی تصاویرنے توایک ایسے نظریہ کونئی زندگی عطاکی ہے جس کوہرنوجوان اپنے لئے مشعل راہ سمجھے گا۔دوسری جانب کچھ لوگوں نے حماس کے سیاسی بیوروکے سربراہ کی موت کاموازنہ صدام حسین کی موت سے کرنے کی کوشش کی کہ صدام حسین کوامریکی فوجیوں نے ایک”ٹنِل کے اندر”پکڑاتھاجبکہ یحیٰی سنوار” ہاتھ میں اسلحہ پکڑے ہوئے،بہادری کے ساتھ دشمن کامقابلہ کرتے ہوئے شہیدہوگئے۔
یحییٰ سنوارکی شہادت کے بعد اب یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ اس تنظیم کااگلاسربراہ کون ہوگا؟حماس کے ایک عہدیدار کا کہناہے کہ تنظیم سکیورٹی وجوہات کی بناپراپنےنئے سربراہ کی شناخت خفیہ رکھے گی۔2003میں حماس کے اس وقت کے سربراہ شیخ احمدیاسین اوران کے جانشین عبدالعزیزالرنتيسی کواسرائیل نے شہیدکردیاتھا۔اس دورمیں بھی حماس نے اپنے سربراہ کانام ظاہرنہ کرنے کافیصلہ کیاتھا۔امکان ہے کہ حماس کے نئے سربراہ کاانتخاب مارچ2025میں کیاجائے گااورتب تک یہ تنظیم پانچ رکنی کمیٹی چلائے گی۔اس کمیٹی میں خليل الحیہ،خالد مشعل،زاہرجبارين اورشوریٰ کونسل کے سربراہ محمددرویش شامل ہیں جبکہ پانچویں رکن کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے۔دوسری جانب متعددحلقوں میں یحییٰ سنوارکے نائب اورحماس کے سینیئر عہدیدارخلیل الحیہ کواس عہدے کیلئے ایک مضبوط امیدوارسمجھاجارہاہے۔
حماس کے اہلکارکے مطابق خلیل الحیہ نے سیاسی وخارجی امورکی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔وہ غزہ کے معاملات کی براہِ راست نگرانی کررہے ہیں۔نتیجتاًوہ اس تنظیم کے قائم مقام سربراہ کی طرح کام کررہے ہیں۔یرغمالیوں کے معاملے پر انھوں نے کہا کہ حماس کے پاس یہ صلاحیت اور افرادی قوت ہے کہ وہ ان کا تحفظ یقینی بنا سکے۔ انھوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ جون سے بہت کم بات چیت ہوسکی ہے۔
غزہ سے باہرموجودحماس کی قیادت میں خلیل الحیہ ایک انتہائی سینیئرعہدیدارہیں۔قطرمیں مقیم خلیل الحیہ اِس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کیلئے ہونے والے مذاکرات میں حماس کے وفدکی قیادت کررہے ہیں۔خلیل الحیہ غزہ کی صورتحال کے بارے میں گہری معلومات،رابطے اورتفہیم رکھتے ہیں۔یحییٰ سنوارکی شہادت کے بعداب آئندہ آنے والے دنوں میں حماس کے رہنماایک بارپھراکٹھے ہوں گے تاکہ اُن کے جانشین کاانتخاب کرسکیں۔یادرہے یحیٰی سنواررواں برس ہی تہران میں سابق حماس رہنمااسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعدتنظیم کے سربراہ بنے تھے۔
جولائی2024کے بعدسے غزہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات تعطل کاشکارہیں۔اسرائیل اورمغربی میڈیادنیاکویہ تاثردینے میں کامیاب رہاہے کہ سنوار کی قیادت جنگ بندی معاہدے کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ تھی۔گذشتہ دنوں عالمی میڈیانے رپورٹ کیاتھا کہ یحییٰ سنوارسفارتی ذرائع سے غزہ کے مسئلے کے حل کی بجائے عسکری حل پرزیادہ زوردیتے تھے۔حماس کے ایک سینیئر عہدیدارنے متنبہ کیاہے کہ یحییٰ سنوارکی شہادت کے باوجود جنگ بندی کوقبول کرنے اوراسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کیلئے حماس کی شرائط میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔حماس جنگ بندی کے عوض غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا،انسانی امدادکی بلا روک ٹوک غزہ آمد اور جنگ زدہ علاقوں کی تعمیر نو کا مطالبہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان شرائط کو اسرائیل نے یکسر مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ حماس کو ہتھیار ڈال دینے چاہییں۔
نیتن یاہوکی جانب سے حماس سے ہتھیارڈالنے کے مطالبے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں حماس کے عہدیدار نے کہاکہ”ہمارے لیے ہتھیارڈالناناممکن ہے۔ہم اپنے لوگوں کی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں اورہم ہتھیارڈالنے کوقبول نہیں کریں گے۔ ہم آخری گولی اورآخری سپاہی تک لڑیں گے،جیساکہ سنوارنے کیااورکہاتھا۔سنوارکی شہادت کئی دہائیوں میں تنظیم کوپہنچنے والے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک ہے۔اگرچہ ان کا متبادل لاناایک چیلنج ہے لیکن حماس کی1990کی دہائی سے قیادت کے نقصانات برداشت کرنے کی تاریخ رہی ہے۔
اگرچہ اسرائیل حماس کے زیادہ تررہنماؤں اوربانیوں کوشہیدکرنے میں کامیاب رہاہے لیکن تحریک نئے رہنماؤں کوتلاش کرنے کی اپنی صلاحیت میں لچکدارثابت ہوئی ہے۔اس بحران کے دوران غزہ میں قیداسرائیلی یرغمالیوں کی قسمت کے حوالے سے یہ سوال اب بھی موجودہیں کہ ان کی حفاظت اورسلامتی کاذمہ دارکون ہوگا۔اس تناظرمیں یحییٰ سنوارکے بھائی محمدسنوار ایک اہم شخصیت کے طورپراُبھرے ہیں۔خیال کیاجاتاہے کہ وہ حماس کے باقی ماندہ مسلح گروہوں کی قیادت کررہے ہیں اورغزہ میں تحریک کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں۔
ایک طرف حماس کواس سخت لمحے کاسامناہے تودوسری طرف غزہ میں جنگ جاری ہے۔گزشتہ ہفتے شمالی غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں درجنوں افراد شہید ہوگئے تھے۔اسرائیل کادعوی ہے کہ حماس یہاں دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کررہی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یحٰیی سنورکی شہادت حماس کیلئے بڑا دھچکا ہے۔ اگست میں اسماعیل ہانیہ کی موت کے بعد حماس نے انھیں منتخب کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا تھا کہ حماس اسرائیل کے سامنے جھکنے والی نہیں ہے اورحماس نے وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور اس کے تمام اتحادیوں کوگزشتہ ایک سال کے اندر بھرپورمقابلہ کرکے نہ صرف حیران وپریشان کردیاہے بلکہ اپنے اس مضبوط عزم کااظہاربھی کیاہے کہ آئندہ آنے والے وقت میں ان تمام فراعین کوغزہ کے میدان میں ہی دفن کرکے رہیں گے۔ان شااللہ