عام طورپرہیومن کاترجمہ انسان کرکے یہ سمجھاجاتاہےکہ انسان توبس انسان ہی ہوتاہے،چاہے مشرق کاہویامغرب کامگریہ معاملہ اتناسادہ نہیں بلکہ پیچیدہ ہے۔درحقیقت ہرتہذیب(نظام زندگی)کاایک اپنامخصوص تصورانفرادیت ہوتاہے۔اس تصورانفرادیت کے تعین کی بنیاداس سوال کاجواب ہےکہ”میں کون ہوں؟”(زندگی کامقصدکیاہے،خیرکیاہےشرکیاہے وغیرہ جیسے سوالات کاجواب اسی بنیادی سوال کے جواب سے طےپاتے ہیں)۔ بالعموم تاریخی طورپراس سوال کاجائزمقبول عام جواب یہ رہاہےکہ “میں عبد(مسلمان) ہوں”اورطویل عرصےتک اسی تصورانفرادیت کوانسانیت کاجائزاظہارسمجھاجاتارہاہے۔اگرچہ پچھلےادوارمیں اس کے برعکس جواب دینے والے افراداورمعاشرے بھی موجودرہے ہیں البتہ اکثریت معاشرے (جیسے تمام مذہبی معاشرے)اسی مذہبی تصور انفرادیت پرمبنی تھے۔
سترھویں اور18ویں صدی عیسوی کےیورپی معاشروں میں تحریک تنویرکے زیراثراس سوال کاایک اورجواب عام ہوناشروع ہوا (جوآج ان معاشروں میں بہت راسخ ہوچکا)جس کے مطابق”میں عبدنہیں بلکہ آزاد اورقائم بالذات ہوں”(اس تصور ذات کی ابتداء ڈیکارٹ کے جملے”میں سمجھتاہوں اس لئےلگتاہے”سے ہوتی ہے،جس کے مطابق کائنات کی واحد ہستی جواپنےہونےکاجواز خود اپنےاندررکھتی ہےنیزجوہرقسم کے شک وشبہ سے بالاتراور منبع علم ہے وہ اکیلی ذات”میں”یعنی ہوں)۔اس آزاداورقائم بالذات تصورذات کوتنویری فکرمیں “ہیومن”کہاجاتاہے۔ہیومن اپنی بندگی کی نفی اورصمدیت کادعویٰ کرتاہے،دوسرے لفظوں میں ہیومن “اللہ کا باغی”تصورذات یاانسان ہے۔
مشہورمغربی فلسفی فوکوکہتاہےکہ”ہیومن”انسانی تاریخ میں پہلی بارسترھویں صدی میں پیداہوا۔۔۔۔۔ان معنی میں نہیں کہ اس سے قبل دنیامیں انسان نہیں پائےجاتےتھےاورنہ ہی ان معنی میں کہ یہ کوئی زیادہ عقل مندانسان تھااورپہلےکےانسان جاہل وغیرہ تھے بلکہ ان معنی میں کہ اس سے قبل کسی انسانی تہذیب اورنظام فکرمیں آزادی کوانفرادیت کے جائزاظہار کامقصدسمجھااورقبول نہیں کیا گیا(گویایہ کفروالحادکی ایک جدید شکل تھی)۔ اس سے قبل انسانیت کیلئے لفظ”مین کائنڈ”(اللہ کی رعایاومخلوق)استعمال کیاجاتا تھا، ہیومینیٹی کاتصورسترھویں صدی میں وضع کیاگیا۔ہیومن ازم کا ڈسکورس درحقیقت اسی تصورہیومن سےنکلتاہے جس کے مطابق انسانیت کی بنیادی صفت آزادوقائم بالذات ھوناہےاورعقل کامطلب اس انسانی آزادی میں اضافے(یعنی انسان کوعملاًقائم بالذات بنانے )کوبطورمقصدحیات قبول کرناہے۔ہیومینیٹی جدید مغربی الحادکانہایت کلیدی تصورہے اور تنویری فکرسے برآمدہونے والے مختلف مکاتب فکر(مثلا لبرل ازم،سوشل ازم،نیشنل ازم وغیرہم)اسی تصورھیومینیٹی کے مختلف نظرئیے،تعبیرات وتوجیہات ہیں۔
جولوگ تصورذات کےتعین میں ایمانیات کی بنیادی اہمیت سے ناواقفیت کی بناپریہ کہتے ہیں کہ’انسان توبس انسان ہے”وہ انتہائی سطحی بات کرتے ہیں (زندگی کامقصد،خیروشر،علم،حق اورعدل کےتصورات،معاشرتی وریاستی نظم کی تشکیل وغیرہم اس سوال کاجواب تبدیل ہونے سے یکسرتبدیل ہو جاتےہیں)۔آسان مثال سے سمجھئےکہ حضرت عیٰسؑی بطورایک معین شخصیت مسلمانوں اور عیسائیوں میں مشترک ہیں(کہ دونوں تاریخی طورپرایک ہی مخصوص شخصیت کوعیسٰیؑ مانتے ہیں)مگران کے درمیان چودہ سو سال سے وجہ اختلاف”تصورعیسٰیؑ”ہےنہ کہ”شخصیت عیسٰیؑ”(یعنی ایک کے یہاں عیٰسؑی ابن اللہ ہیں جبکہ دوسرے کے یہاں عیٰسؑی رسول اللہ)۔ اگرکوئی یہ کہے کہ”عیٰسؑی توبس عیسٰی ہیں،مسلمان اورعیسائی بلاوجہ دست وگریباں ہیں” تویقینًاوہ ایک غیرعلمی بات کرے گا۔اسی طرح ہیومن کوبھی انسان کہنااورمسلمان کوبھی انسان کہناایسی ہی کنفیوژن کاشکارہوناہے،ظاہرہے وہ انسان جوخودکو اللہ کابندہ اوروہ جوخودکواللہ سمجھتاہے بھلاکیسے یکساں زندگی(معاشرہ وریاست)تعمیرکرسکتے ہیں؟
یہ آپ سے کہیں گےکہ”پہلے ہیومن(انسان)بنوبعدمیں مسلمان”(یہ سیکولروں کی عوام الناس کوپھانسنےکی ایک دیرینہ خوشنما دلیل ہے)۔آپ ان سے پوچھئےکہ”اچھابتاؤمسلمان ہونےسےقبل انسان ہونےکاکیامطلب ہے؟”دیکھئے مسلمان ہونےکامطلب یہی ہے ناکہ “میں اصلًاوحقیقتًااللہ کابندہ ہوں۔”بتائیےکیامیری اس حقیقت سےماوراءاورماقبل بھی میری کوئی ایسی حقیقت ہےجس کاآپ مجھ سے اقرار کروانا چاہتے ہیں؟
ہم نے انسان کو نطفہٴ مخلوط سے پیداکیاتاکہ اسے آزمائیں توہم نے اس کوسنتادیکھتابنایا۔(اور)اسے رستہ بھی دکھادیا۔(اب)وہ خواہ شکرگزارہوخواہ ناشکرا۔(انسان:2-3)
دراصل یہ بات کہنے والوں کی عظیم ترین اکثریت کواس بات کامطلب ہی معلوم نہیں ہوتا۔”میں کون ہوں”فی زمانہ اس کےدوغالب جواب ہیں۔ ایک یہ کہ میں اللہ کابندہ(مسلمان)ہوں،دوسرایہ کہ میں آزادوقائم بالذات ہوں۔مسلمان ہونےسےقبل انسان ہونےکی دعوت کااصل مطلب اسی بات کااقرارکرواناہےکہ”میں اصلاً آزادہوں”۔پھریہ جوخودکومسلمان وغیرہ سمجھاجاتاہےتویہ اس آزاد ہستی کے اپنے ارادے کے تحت اختیارکردہ اپنی ذات کے بارے میں کچھ تصورات ہیں جواصل حقیقت نہیں،اصل حقیقت میراوہ ارادہ ہےجو حقیقت تخلیق کرتاہے۔
اوراللہ ہی نے تم کوتمہاری ماؤں کے شکم سے پیداکیاکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔اوراس نے تم کوکان اورآنکھیں اوردل(اوراُن کے علاوہ اور)اعضابخشے تاکہ تم شکرکرو۔(النحل:78)
یہ بات اچھی طرح،جی بہت ہی اچھی طرح،سمجھناچاہئے کہ انسان ہونامیری اصل نہیں بلکہ”اللہ کابندہ”ہونے کی ممکنہ صورتوں میں سے بس ایک صورت ہے۔میرے وجودیعنی” ہونے “کی امکانی صورتیں یہ تھیں کہ میں درخت ہوتا،جانورہوتا،پہاڑہوتا،پتھر ہوتایاپھرفرشتہ وجن،مگرمیں کچھ بھی ہوتااپنے وجودکی ہرامکانی صورت میں اللہ کابندہ(مخلوق)ہی ہوتا۔اس کائنات میں میرے وجودکاایساکوئی امکان نہیں جہاں میں اصلاًاللہ کے بندے کےماسواءکچھ اوربھی ہوتا۔انسان ہونامیری اصل نہیں بلکہ میرے لئے ایک حادثہ ہے،ان معنی میں کہ اللہ نے جس حال میں چاہامجھے پیدا کیااوروہ مجھے انسان بنانے پرمجبورنہ تھا،یہ محض اس کا فضل ہے۔پس یہ سوال کہ”اصلاًمسلمان ہویاانسان”تواس کابالکل واضح جواب یہ ہےکہ اصلاً اورحقیقتًامیں اللہ کابندہ (مسلمان) ہوں،انسان حادثاتی طورپرہوں۔میں لازم”اللہ کے ساتھ ہونا”ہوں،نہ کہ اس سے ماوراءکوئی ہستی۔اپنے انسان ہونے کوڈیفائن کرنےکا اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسراحوالہ نہیں،سوائےاس کے کہ میں خود مختاریت کادعویٰ کروں۔
“میں کون ہوں”اس سوال کاجواب میں جونہی اللہ کے حوالےکےبغیردینے کی کوشش کرتاہوں میں لازماًخودکواللہ سے ماوراءو ماقبل وجودفرض کرلیتا ہوں اوریہی الحادکی بنیادہے۔اللہ کاوجود میرے شعور انسانیت سے ماقبل ہے،لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ اسی بات کااقرارہے۔ “مسلمان بننے سے قبل انسان بنو”اسی کلمے کاانکارہے۔(لاالہ الاالانسان)، پھرجب یہ واضح ہوچکاکہ”میری اصل انسان ہونانہیں بلکہ اللہ کابندہ(مسلمان)ہوناہے”تومناسب معلوم ہوتاہے کہ اب ایمان اورکفرکی حقیقت بھی واضح کردی جائےنیزیہ بھی کہ اللہ کابندہ ہونا کیوںکرمسلمان ہونے کےہم معنی ہے۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا۔فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا۔قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا۔وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا
اورانسان کی اوراس کی جس نے اس(کے اعضا)کوبرابرکیا۔پھراس کوبدکاری(سے بچنے)اورپرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی۔کہ جس نے(اپنے) نفس (یعنی روح)کوپاک رکھاوہ مرادکوپہنچا ۔اورجس نے اسے خاک میں ملایاوہ خسارے میں رہا۔(الشمس:7-10)
جان لیں کہ اصلاًوحقیقتًاہرانسان اللہ کابندہ ہی ہے،چاہے وہ اس کااقرارکرے یاانکار،کسی انسان کااس حقیقت سےانکارکرناکائنات میں اس کے حقیقی مقام کوبدل نہیں سکتا۔اگروہ زبان ودل سے اس حقیقت کااقرارکرلےتومؤمن ومسلم کہلاتاہےاوراگرانکارکرے تو کافر۔خوب جان رکھوکہ کافرکفرکرکے کسی نئی حقیقت کودریافت نہیں کرتابلکہ اپنی حقیقت کاانکارکرتاہے،اسی لئے تو”کافر” (حقیقت کوچھپانےو جھٹلانے والا)کہلاتاہے۔پھرجب یہ واضح ہواکہ اصلاًمیں بندہ ہوں تواب سوال پیداہوتاہےکہ بطورانسان میں بندہ کیسے بنوں؟ تواس کاجواب ہے:
“یعنی اظہار بندگی کاواحداورمعتبرطریقہ تمہارے رب کے نزدیک صرف اسلام ہے نیز”اورجوشخص اسلام کے سوا کسی اوردین کاطالب ہوگاوہ اس سے ہرگزقبول نہیں کیاجائے گااورایساشخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا(العمران:85)۔
یعنی جس کسی نے اپنی انسانیت کے اظہارکیلئےاسلام کےعلاوہ کوئی طریقہ اختیارکیاتوایسے طریقے سے ظاہرکی گئی انسانیت رب کےیہاں مقبول نہ ہوگی، چنانچہ میری انسانیت معتبرتب ہو گی جب میں اسے بندگی کےاظہارکاذریعہ بناؤں اوربندگی کے اظہار کاطریقہ جاننےکامعتبرطریقہ صرف وہ پیغام ہے جسےاللہ نےاپنے آخری رسولﷺ پرنازل کیا۔اس ایک طریقے کے حوالے کے سواءاظہاربندگی کےسب طریقےمردودہیں۔
جب یہ واضح ہواکہ میں اللہ کابندہ ہوں،تواللہ کایہ بندہ میں تنہائی(پرائیویٹ لائف) میں بھی ہوں اورلوگوں سے تعلقات قائم کرنے کےبعد(پبلک لائف میں)بھی۔یہ عقلی مخمصہ کسی طورقابل قبول نہیں ہوسکتاکہ تنہائی میں بطورانسان تومیں اورمیری بیوی اللہ کےبندے ہیں لیکن جونہی ہم تعلق قائم کرلیتےہیں توہم اللہ کےبندےاوراس کے حکم کی اطاعت کےپابند نہیں رہتے۔ایسی بات صرف ایساہی انسان قبول کرسکتاہے جو عقلی طورپرقلاش ہوچکاہو۔میں اگرواقعی اللہ کابندہ ہوں تواپنی زندگی کی ہرحیثیت میں ہوں۔اپنے سے باہرکسی غیرکومخاطب کرنےکی میرےپاس اس کے سواءکوئی بنیادوحوالہ ہی نہیں نیزنہ ہی اللہ کے نازل کردہ پیغام سے باہر میرے پاس حقوق کےتعین کاکوئی ایسادائرہ ہے کہ جس میں خودکورکھ کرمیں کسی سے ہم کلام ہوسکوں۔میں جب بھی کسی کو خطاب کرتاہوں تواس بنیادپرکرتاہوں کہ اس بابت اللہ کاحکم مجھ سےکیاتقاضاکرتاہے،میں جب بھی کسی غیرمسلم کوخطاب کرتا ہوں تواسی حق کی طرف دعوت دیتاہوں نہ کہ اس سےماوراء حقوق کی کسی تفصیلات کےفریم ورک میں ان سے مکالمہ کرتاہوں چنانچہ میں کسی غیرمسلم کاحق زندگی اس لئےنہیں مانتاکہ”ہرانسان کوبطورمجرد انسان “کچھ ایسے فطری حقوق حاصل ہیں جن کی پابندی مجھ پرلازم ہے، ہرگز بھی نہیں بلکہ ایسا اس لئے مانتاہوں کیونکہ یہ اللہ کاحکم ہے اورجس کی پاسداری مجھ پرلازم ہے۔حق کےتعین کاحق نہ تومیں اپنی ذاتی زندگی میں رکھتا ہوں اورنہ اجتماعی میں،”مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ “کے اقرارکایہی مطلب ہے۔
اب یہ جو”مسلمانیت”کے بجائے”انسانیت”کاحوالہ دیتے ہیں مناسب معلوم ہوتاہےکہ ایک مرتبہ ان کی اصل بات،جس کاخودان میں سے بہت سوں کوبھی ادراک نہیں،آپ کے سامنے رکھ دی جائے۔میں اپنے انسان ہونےکےبارےمیں مختلف بنیادی حوالےرکھ سکتا ہوں،مثلاًایک یہ کہ میں اصلاًوسب سے پہلےراجپوت ہوں،یایہ کہ میں اصلاًپنجابی ہوں،یایہ کہ میں اصلاًپاکستانی ہوں،یایہ کہ میں اصلاًمزدوریاسرمایہ دارطبقےکانمائندہ ہوں،یایہ کہ میں اصلاًمسلمان،ہندویاعیسائی ہوں۔اپنی ذات کے ادراک کیلئےمیں جوبھی حوالہ اختیارکرتاہوں،اسی کی بقاو غلبےکیلئےجدوجہدکرنےکااخلاقی جواز رکھتاہوں۔
اب یہ آپ سےکہیں گےکہ تم اصلًایہ سب نہیں ہوبلکہ یہ سب توتمہاری اصل کااظہارہیں۔اب آپ ان سےپوچھئے کہ بتاؤپھراصل میں “میں کیا ہوں ؟ “تویہ آپ سےکہیں گےکہ اصل میں تم ایک آزادوخودمختار(قائم بالذات)ہستی ہوجسے یہ حق ہےکہ وہ اپنے ارادے سےخیرکومتعین کرے۔پس مسلمان ہونایہ اصل نہیں بلکہ صرف اپنےارادے کےتحت ایک خیرکوڈیفائن کرلیناہے۔یہ واحدخیرنہیں بلکہ خیرکےلاتعدادتصورات میں سےبس ایک ہے۔یعنی اللہ کاحوالہ چھوڑدو،زمین پراپنےارادےسےبنائےہوئےخیرکےحوالوں کو اپناؤ،اسی کیلئےجدوجہدکرو۔یہ ہےان کےنزدیک انسان ہونےکااصلی معنی،جس کایہ شعوری یاغیرشعوری طورپراقرارکروانا چاہتے ہیں۔
ہیومن رائٹس”ہیومن”کے حقوق ہیں۔ہیومن کاعقیدہ یہ ہےکہ انسان ایک خودمختاروقائم بالذات وجودہے۔انسان کےبارےمیں ایسا عقیدہ رکھنے والےکوملحدکہاجاتاہے۔اس ملحدکا مفروضہ ہے کہ اصول عدل کےادراک کیلئےلازم ہے کہ ہرشخص اپنے مذہب سے انکار کرکےپہلےخودکوقائم بالذات وجودفرض کرے،یعنی”عدل کیاہے”اس کاجواب معلوم کرنےکیلئے ضروری ہےکہ ہرشخص پہلے ملحدہوجائے(لاک سے لے کررالزتک سب ہیومنز کایہی مانناہے)،ظاہرہےاس الحادی پس منظرکےساتھ جواصول عدل اورحقوق کی تفصیلات طےکی جائیں گی وہ الحادی ہی ہوں گی۔اس ملحد (ہیومن )کااصرارہے کہ عدل وانصاف انہی حقوق کانام ہے جوہم ملحدین نےطےکئےہیں نیزدنیاکاہرمذہب وروایت اسی قدرحق ہے جس قدریہ ان اصولوں کی تصدیق کرتےہوں لہذادنیاکے تمام مذاہب و روایتوں کےحامل انسانوں پرلازم ہےکہ وہ انہی اصولوں کےمطابق فیصلےکریں۔اگرکوئی مذہب یافکران الحادی اصولوں کےطے کردہ حقوق کومعطل کرنےکی بات کرےتویہ اسےجبروظلم قراردیتےہیں لیکن خودیہ ملحدین دنیاکےسب مذاہب اورروایتوں کےطے کردہ حقوق معطل کرکےان پربالجبراپنے اصول مسلط کرنےکی کوشش میں رہتےہیں چونکہ ہیومن رائٹس الحادی فریم ورک کے طےکردہ اصول ہیں لہذاہیومن رائٹس کےفروغ سےالحادہی کاغلبہ ہوتاہے۔
آخری بات عقیدےکےجن چند اسباق کایہاں ذکرکیاگیاانہیں خوب اچھی طرح سمجھ رکھناچاہیےکیونکہ جدیدالحادنے عقیدوں میں جو اجاڑپیداکیاہے اس کاسبب اسی نوع کےخوشنمادعوے و اصطلاحات ہیں جنہیں دھرادھراکرلوگ خودبھی گمراہ ہوتےہیں اور دوسروں کوبھی گمراہ کرنے کاباعث بنتے ہیں۔اوپرجوتفصیلات پیش کی گئیں یہ سیکولرحضرات کےاس مقدمےکورد کرنے اوراس کی غلطی واضح کرنےکیلئےپیش کی گئیں کہ معاشرے وریاست کی بنیاد اس قدرپررکھناچاہئےجوسب انسانوں میں مشترک ہو،چونکہ ہم اصلاً انسان ہیں نہ کہ مسلمان ہندووغیرہ،تومعلوم ہوا کہ مذہب انسانوں کی بنیادی صفت اورقدرمشترک نہیں۔اسی کلیدی دلیل(پہلےو اصلاً انسان ہویامسلمان وہندو)کی بنیادپریہ لوگ مذہب کواجتماعی زندگی سےبےدخل کرنےکا مقدمہ کھڑا کرتےہیں۔یہ جو کچھ کہاگیا اسےسمجھ لیاجائےتوسیکولرڈسکورس کی بنیادی غلطی واضح ہوجائےگی۔
اُسے(اللہ نے) کس چیزسے بنایا؟نطفے سے بنایاپھراس کااندازہ مقررکیا۔پھراس کیلئےرستہ آسان کردیا۔پھراس کو موت دی پھر قبرمیں دفن کرایا۔پھرجب چاہے گااسے اٹھاکھڑاکرے گا۔
(عبس:18-22)
اب آئیے ان تمام دلائل کے بعداپنے ارضِ وطن کے حالات پرایک نگاہ دوڑاتے ہیں:
سوال یہ ہےکہ معاشرے کی موجودہ ذہنیت کوکیسےبدلاجائے۔پاکستان میں سول سروس برطانوی دورکی میراث ہے۔اسے برطانوی راج کےنفاذ کیلئے انگریزوں نے تیارکیاتھاجوخودکوہرحال میں عوام سے برترخیال کرتی تھی لیکن نہ توہم اس نظام میں اصلاح کر سکےاورنہ ہی سیاستدانوں کاکوئی لائق تحسین کرداررہاہے۔موجودہ پاکستان اقتصادی لحاظ سےعالمی سطح پرمقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں،یہاں تک کہ خطے میں بھی تمام معاشرتی اشارے میں مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔شہریوں کیلئے اشرفیہ کےاستعمال کردہ الفاظ توہین آمیزہیں۔ریاست اورشہریوں کے مابین ایک اچھی طرح سے طے شدہ معاشرتی معاہدہ کی ضرورت ہے جوحکم رانوں،مالکوں اورشہریوں کیلئےیکساں پابند ہو۔
پاکستان میں اکثریہ دہائی دی جاتی ہے کہ ملک پرزیادہ عرصہ فوج نے حکمرانی کی لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ملک کی ترقی کازیادہ دورانہی فوجی حکم رانوں کے دورکوگناجاتاہے۔چین کی کامیابی کاایک عنصریہ ہے کہ حکمرانی میں زیادہ ترافراد ماہرہیں۔یہاں تک کہ چین کے موجودہ صدرکیمیکل انجینئر ہیں۔برطانوی راج میں میرٹ پرسختی سے مشاہدہ کیاگیا۔اب ہمارے پاس تمام سرکاری ملازمین کیلئےسیاسی تقرریوں اورسیاسی مجبوریاں ہیں۔ہم میں سے بیشتر لوگ اس تصورکی پیروی کرتے ہیں کہ معاشرہ میں عزت کامعیارڈالرکے حصول میں ہے اوراس خواہش میں جائزوناجائزکی کوئی تمیزنہیں رکھی جاتی اورڈالرکی تلاش میں سرکاری ملازمین بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔”ڈالرکی تلاش”کے بعد کیسے اہلیت،دیانت،انصاف کی محنت اور میرٹ کے فیصلوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔لہذاہمیں معاشرے کی ذہنیت کوبھی بدلنے کی ضرورت ہے۔
زمینی حقائق کوسمجھنےکی کوشش کیجئے۔غیبی مددنہ اسپین کے وقت آئی،نہ خلافت عثمانیہ کوبچانے کیلئےآئی،نہ اسرائیل کا قیام روکنے کیلئےآئی،نہ بابری مسجد کے وقت آئی،نہ عراق اور شام کے وقت آئی,نہ میانمارکے وقت آئی،نہ گجرات کے وقت آئی،نہ کشمیرکیلئےآئی۔پھربھی گھروں اورمسجدوں میں بیٹھ کرغیبی مددکی صدائیں دی جارہی ہیں؟غیبی مددجنگ بدرمیں آئی جب 1000کے مقابلے میں313میدانِ جنگ میں اُترے۔غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللّٰہ کے محبوبﷺنے پیٹ پر2پتھرباندھے اورخودخندق کھودی اورمیدانِ جنگ میں اُترے ۔غیبی مددافغانستان میں آئی جب بھوکے پیاسے مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں میدانِ جنگ میں اُترے۔
دنیاکاقیمتی لباس پہن کر،مال وزرجمع کرکے،لگژری ایئرکنڈیشنڈگاڑیوں میں بیٹھ کر(انہی کافروں کی بنائی ہوئی مصنوعات زیر استعمال لاکر)،جُھک جُھک کرلوگوں کے ہاتھ چومنے کی خواہش لے کر،لوگوں کی واہ واہ کی ہنکارکی خواہشات لئے مسجدوں کے منبروں پربیٹھ کربددعائیں کرکے غیبی مددکے منتظر ہیں؟طاغوت کے نظام پرراضی اورپھرغیبی مددکے منتظر؟؟؟؟؟ اللہ کی زمین پر اللہ اوراُس کے محبوبﷺکے نظام کے نفاذکی جدوجہدکی بجائے صرف نعت خوانی,محفلِ میلادیاتسبیح کے دانوں کودس لاکھ بیس لاکھ گھماکرغیبی مددکے منتظرہیں؟ آفاقی دین کو چند جزئیاتِ عبادت میں محصور ومقید کرکے غیبی مددکے منتظر ہیں؟
خودکواوردوسرے مسلمانوں کومجاہدبنانے کی بجائے مجاوربناکر،خوب پیٹ بھرکرفربہ جسم لئے غیبی مددکے منتظرہیں؟جہادفی سبیل اللّٰہ اورجذبہ شہادت سے دُوررہ کراوردُوررکھ کرمسلمانوں پر ہونے والے ظلم وجبراورمصائب ومشکلات دیکھ کراللہ دشمن کوغرق کردے،اللّٰہ دشمن کوتباہ وبربادکردے ۔ یا اللہ مظلوموں کی مددفرما۔یا اللہ دشمنوں کوہدایت عطافرمادے اوراگراُن کے نصیب میں ہدایت نہیں توانہیں غرق کردے جیسی بددعاؤں پراکتفاء کرکے سکوت اختیارکرلینے اورسکون سے نوالہ ترحلق سے نیچے اُتارکرپھردوبارہ پیٹ بھرکرگہری نیند سونے والے غیبی مددکے منتظرہیں؟یعنی سب کچھ اللّٰہ کے ذمہ لگاکراورخودکنارہ کشی اختیارکرکےغیبی مددکے منتظرہیں؟
میدان جہادمیں اُترنے سے ڈرتے اورکتراتےہوئے آسمانوں سے فرشتوں کے نازل ہوکرمسلمانوں کی غیبی مددکے منتظرہیں؟ایسی صورت میں غیبی مدد نہیں صرف عذاب ہی آئے گاجو ہم ناعاقبت اندیش حکمران،بداندیش افسران،ذخیرہ اندوزی،ناجائزمنافع خوری،جھوٹ،کم تولنا،ملاوٹ،خودغرضی ودیگرمعاشی ومعاشرتی برائیوں کی شکل میں بھگت بھی رہے ہیں!خواب غفلت سے بیدارہوں،علم،کرداروجہد مسلسل سے اپنے مہربان رب سے رجوع کریں اورمددطلب کریں تب جاکرآپ اشرف المخلوقات کامطلب سمجھ سکیں گے کہ”میں کون ہوں”۔