کملاہیرس نے اپنے انتخابی گڑھ ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے آنسوبہاتے ووٹرزکی موجودگی میں ٹرمپ کوکامیابی کی مبارکباددیتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کرنے کااعلان کردیااورٹرمپ ملکی تاریخ کے دوسرے صدر بن گئے ہیں جنہیں دومختلف اوقات میں دو بارصدرمنتخب کیاگیاہے۔ان سے پہلے گروور کلیولینڈنے1885سے1889تک یہ عہدہ سنبھالاتھاجس کے بعدکلیولینڈ کی دوسری مدت 1893سے لے کر1897کے درمیان تھی۔ تاہم ٹرمپ کادوسراصدارتی دورکیساہوگا؟ان کی خارجہ پالیسی کیاہوگی اوروہ کون سے ادھورے منصوبے ہیں جن کووہ مکمل کرنا چاہیں گے؟ساتھ ہی ساتھ اہم سوال یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے بارے میں خدشات کیااور کیوں ہیں؟
ان اہم سوالات کے جوابات ٹرمپ کی پہلی صدارت میں ایسے اشارے چھپے ہیں جن کی مددسے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ اس بار امریکاکی قیادت کیسے کریں گے۔تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ ٹرمپ اپنی صدارت وہیں سے شروع کریں گے جہاں یہ2020میں اختتام پذیرہوئی تھی۔ٹرمپ نے اپنی فتح کے موقع پرریاست فلوریڈا میں اپنے سیاسی کارکنوں کاشکریہ ادا کرتے ہوئے اپنےعزم کو دہرایاکہ”یہ ایک سیاسی فتح ہے جنہوں نے انہیں47ویں مرتبہ صدربننے میں کرداراداکیا۔انہوں نے اپنی مہم کے نعرے”آئیں امریکا کوپھرسے عظیم بنائیں”کا استعمال کرتے ہوئے کہاکہ اس فتح کے بعدہم امریکاکوایک بارپھرعظیم بنانے کے قابل ہوں گے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زیادہ ترغیرملکی اشیاپر10فیصدسے20فیصدتک ٹیرف لگانے کاارادہ رکھتے ہیں جبکہ چین سے درآمدات پرٹیرف میں60 فیصدتک اضافہ کرنے کامنصوبہ رکھتے ہیں۔بہت سے ماہرین اقتصادیات نے خبردارکیاہے کہ اس طرح کے اقدامات سے ایک بڑی تعداد میں امریکی صارفین متاثرہوں گے جنہیں مہنگی قیمتوں میں اشیاکی خریداری کرنی پڑے گی۔اپنی پہلی صدارتی مدت میں ٹرمپ نے چین پرغیرمنصفانہ تجارتی طریقوں اورانٹیلیکچوئل پراپرٹی کی چوری کاالزام لگاتے ہوئے بیجنگ کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کردی تھی لیکن چین کی بروقت پالیسیوں کی بناءپر ٹرمپ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اہم امریکی کانگریس میں رپبلکن اورڈیموکریٹ قانون سازوں کی تعداد بلاشبہ اس بات کاتعین کرے گی کہ آیااس مرتبہ ٹرمپ اپنی پالیسیوں کواس طریقے سے نافذکر سکیں گے جس طرح وہ چاہتے ہیں یانہیں۔
غورطلب بات یہ ہے کہ2017-2019میں سینیٹ اورایوان نمائندگان دونوں پرریپبلکنزکاکنٹرول تھالیکن اس وقت تجربے میں کمی کے باعث انہیں کانگریس میں ریپبلکنزکی اکثریت ہونے کے باوجوداپنی پالیسیاں منوانے میں مشکلات کاسامناہوا۔چونکہ ریپبلکنز نے انتخابات میں سینیٹ اورایوانِ نمائندگان کے ایوانوں کاکنٹرول حاصل کرلیاہے،اس لیے ٹرمپ انتظامیہ ممکنہ طورپرایسی قانون سازی کرے گی جس میں نہ صرف سرحد،سکیورٹی،سرحدی دیوارکی تکمیل اورٹیکس مراعات کیلئے فنڈنگ بھی شامل ہوگی بلکہ ٹرمپ ایسے لوگوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے اپنے منصوبے کیلئے کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جن کے پاس ملک میں رہنے کی قانونی اجازت نہیں ہے۔
پیوریسرچ سینٹرکے اندازوں کے مطابق2022میں امریکامیں تقریباًایک کروڑ10لاکھ غیرقانونی تارکین وطن تھے جبکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیاتھاکہ تارکین وطن کی تعداداس سے کہیں زیادہ ہے۔ماہرین نے خبردارکیاہے کہ تارکین وطن کی بڑے پیمانے پرملک بدری بہت مہنگی پڑسکتی ہے اوراس منصوبے پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔ایساکرنے سے امریکاکی معیشت کے بعض شعبوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن میں غیرقانونی تارکین وطن کلیدی کرداراداکرتے ہیں۔
امکانات ہیں کہ امریکاکی خارجہ پالیسی کے حوالے سےٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت ان کی پہلی مدت سے مشابہت رکھے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا کودنیاکے تنازعات سے دور رکھاجائے۔ان کایہ بھی کہناہے کہ وہ روس کے ساتھ مذاکرات یامعاہدوں کے ذریعے”گھنٹوں کے اندر”یوکرین جنگ ختم کردیں گے۔دوسری جانب ٹرمپ نے خودکواسرائیل کاحامی قراردیاہے اورانہوں نے اس بارے میں بہت کم بیانات دیے ہیں کہ وہ غزہ اورلبنان میں جاری جنگ کیسے ختم کریں گے۔
کچھ عرصے پہلے تک اقوام متحدہ کے انڈرسیکریٹری جنرل فارہیومینیٹیریئن افیئرزاینڈایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹرکے طورپرکام کرنے والے اور تنازعات کے ایک تجربہ کارثالث مارٹن گریفتھس کاکہناہے کہ میں ٹرمپ کی صدارت میں’امریکافرسٹ‘کی پالیسی دیکھ رہاہوں جوعالمی عدم استحکام کومزیدگہراکردے گی اوریوکرین میں جنگ بندکرنے کاعمل پیوٹن کی حوصلہ افزائی کاسبب بنے گاجوخطے میں مکمل امریکی پسپائی کامظہرہوگی۔
لیکن اس وقت یوکرین کی جنگ سے بھی زیادہ اہم مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ نے دنیاکے امن کوداؤپرلگارکھاہے۔یادرہے کہ گزشتہ برس7اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کے دائمی ظلم وستم سے نجات پانے کیلئے بالآخراپنے محدود وسائل کے ساتھ فدائی حملے میں1200سے زائداسرائیلی ماردئیے اورکئی سوافرادکویرغمال بناکراپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔اسرائیل کے جوابی حملے میں اب تک50ہزارکے قرب فلسطینی شہید اورایک لاکھ سے زائدزخمی ہوچکے ہیں،غزہ مکمل طور پرکھنڈرات میں تبدیل کردیا گیاہے اوراس جنگ کے شعلے لبنان سے ہوتے ہوئے شام اور ایران تک پہنچ چکے ہیں اور اسرائیل کی درندگی کی پیاس بجھنے کا نام تک نہیں لے رہی۔
مئی 2024 میں بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کوبتایاتھاکہ وہ اسرائیل کو8400کروڑروپے سے زیادہ کے ہتھیاربھیجنے کامنصوبہ بنا رہی ہے اوراس کے بعداس پرجلدہی عملدرآمدبھی کردیاگیا۔اس پیکج میں70لاکھ ڈالرمالیت کے ٹینک اورگولہ بارودبھی شامل تھا۔ امریکاکے واٹسن انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے آغازسے لے کراب تک امریکااسرائیل کوتقریباً18ارب ڈالر کی فوجی امدادفراہم کرچکاہے۔غزہ جنگ کے آغازکے بعدامریکاجس طرح اسرائیل کی مسلسل مددکررہاہے،اس کی وجہ سے امریکامیں رہنے والے مسلمان ووٹرزمیں ناراضگی پائی جاتی ہے اورٹرمپ نے اپنے سیاسی مخالفین کیلئےپائی جانے والی اس ناراضگی کواپنے حق میں خوب استعمال کیاجبکہ انتخابی مہم میں صدارت کے دونوں فریق نے اسرائیل کی بھرپور حمائت کابرملا اظہارکیااورٹرمپ نے تواسرائیل کوایران کی ایٹمی صلاحیت کوتباہ کرنے کامشورہ بھی دیا۔
حیرت کی بات تویہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں ان بیانات کے باوجود متعددمواقع پریہ دعویٰ بھی کیا کہ ملک میں بسنے والے عرب اورمسلم نژادافراکی بڑی تعداد انہیں ووٹ دے گی کیونکہ مُسلم برادری یہ بات جانتی ہے کہ کملا ہیرس اوراُن کی جنگ پسند کابینہ مشرق وسطیٰ پرحملہ کرکے لاکھوں مسلمانوں کوقتل کردے گی اورتیسری عالمی جنگ کاآغازکردے گی۔ 4نومبرکو یعنی ووٹنگ سے ایک دن پہلے،ٹرمپ نے ٹویٹرپرپیغام لکھا کہ”ہم امریکی سیاست کی تاریخ کاسب سے بڑااتحادبنارہے ہیں۔مشیگن کے عرب اورمسلم ووٹرزہمارے ساتھ ہیں کیونکہ وہ امن چاہتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے تمام عرب اوردیگرمسلم کیمیونیٹیزسے اپنے آئندہ صدارتی انتخاب میں ووت دینے کی بارباراپیل بھی کی تاکہ وہ صدربن کردنیامیں امن لانے کیلئے جاری جنگوں کوبندکرسکیں۔
یادرہے کہ مشی گن ایک ایسی ریاست ہے جہاں عرب اورمسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔اگرچہ15الیکٹورل ووٹ رکھنے والی اس بڑی ریاست میں مقابلہ سخت تھالیکن یہاں سے فتح ٹرمپ کی ہوئی جوظاہرکرتی ہے کہ اپنے بیانات اوروعدوں کی مددسے ٹرمپ یہاں کے ووٹرزکو قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔صدارتی انتخاب سے قبل ٹرمپ نے ڈیئر بورن نامی علاقے میں ایک حلال کیفے کادورہ بھی کیاتھا۔اِس علاقے کوامریکاکا”عرب دارالحکومت”بھی کہاجاتاہے کیونکہ یہ عرب کمیونٹی کامضبوط گڑھ ہے۔اسی طرح مشی گن میں منعقدہ ایک ریلی میں مسلم رہنماؤں کے ایک گروپ نے ٹرمپ کی حمایت کااعلان کرتے ہوئے اس امید کااظہارکیاتھاکہ ٹرمپ کی جیت سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوگا۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیاغزہ اورلبنان پراسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں امریکامیں بسنے والی مسلم کمیونٹی ڈیموکریٹک پارٹی سے ناراض تھی جس کافائدہ ٹرمپ نے خوب اٹھایااورآج ایک مرتبہ پھرتاریخی کامیابی کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں اگلے چاربرس امریکاسمیت دنیاکی تقدیرکے فیصلے کرنے جارہے ہیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ اِس وقت مسلم دنیاکی پوری توجہ”فلسطین”پرہے اوراُن کی خواہشات،سیاست،خدشات سب کامحورفی الوقت “فلسطین”ہی ہے ۔ مسلمانوں اورعربوں نے اچانک سے ہی ٹرمپ کوپسندکرنا شروع نہیں کردیاتاہم اُن کے پاس اس کے علاوہ کوئی اورراستہ بھی نہیں تھاکیونکہ ایک جانب کملاہیرس تھیں تودوسری جانب ٹرمپ۔کملاہیرس کی مخالفت کرنااورٹرمپ کاجیتنادوالگ چیزیں ہیں۔اسرائیل غزہ جنگ کے بعدامریکابھرمیں جومظاہرے ہوئے،وہ بائیڈن انتظامیہ کی خاموشی اوراس کے اسرائیل کاساتھ اورامداددینے پرہوئے تاہم اس سب کے باوجود(اس ضمن میں) ٹرمپ سے بھی زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہونی چاہییں۔ماضی میں وہ کُھل کراسرائیل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں امریکی سفارتخانے کویروشلم منتقل کردیاتھاجو کہ اس وقت بین الاقوامی طورپرایک متنازع مگراسرائیل میں مقبول اقدام قراردیاگیاتھا۔ٹرمپ کے دورِ اقتدارمیں ان کے یہودی نژاد دامادجیرالڈکشنزکاایک نئے”لارنس آف عریبیا”کاکرداربھی سب کے سامنے آچکاکہ کس طرح وہ سعودی ولی عہدکی دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں اہم تبدیلیاں رونماکروانے میں کامیاب رہاجس کے نتیجے میں کئی عرب ممالک نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے سفارتی تعلقات قائم کرلئے بلکہ اب تجارتی معاہدوں کی شکل میں مزیدقربتوں میں اضافہ بھی ہوگیاہے۔سعودی عرب نے بھی اسرائیل کواپنی فضائی حدودکوبطورراہداری استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔شنیدیہ بھی کہ سعودی عرب بھی باضابطہ طور پراسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے جارہاتھاجس کے بعدقوی امیدتھی کہ سعودی عرب کے اس عمل کے بعدمزیددرجن سے زائدممالک بھی اسرائیل کوتسلیم کرنے کاعندیہ دے چکے تھے کہ اچانک غزہ کی جنگ نے اس سارے عمل کو مؤخرکردیا۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیاامریکاکے مسلمان اورعرب ووٹرزکے پاس ٹرمپ کی بیان بازی پریقین کے علاوہ کوئی اورآپشن نہیں تھا اس لیے وہ ان کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ادھر دوسری طرف ٹرمپ کی انتخاب میں جیت کونتن یاہونے”عظیم ترین کامیابی” قراردیاہے جبکہ اسرائیلی صدرنے ٹرمپ کو”امن کاچیمپیئن”اوراسرائیلی اپوزیشن لیڈرنے انہیں”اسرائیل کاحقیقی دوست”قراردیا ہے۔انہوں نے اس بات کاامکان ظاہرکیاہے کہ بطور صدرٹرمپ اسرائیل کی عسکری اورسفارتی امدادجاری رکھیں گے اورشایداس میں اضافہ بھی کردیں لیکن اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ کی متوقع پالیسی پرایک رائے اوربھی ہے۔ٹرمپ نے اپنی فتح کے موقع پرپہلابیان یہ دیاہے کہ وہ “جاری جنگوں کوروکیں گے اورکوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے”۔
اسرائیلی میڈیامیں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ ٹرمپ نے نیتن یاہوکوکہاتھاکہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کاخاتمہ چاہتے ہیں لیکن ہم ٹرمپ کے بارے میں ایک بات جانتے ہیں کہ ان کے کسی بھی فیصلے یاقدم کی پیش گوئی کرناانتہائی مشکل ہے۔یادرہے کہ2020 میں امریکاکی ثالثی سے متحدہ عرب امارات اوربحرین نے اسرائیل کے ساتھ ایک تاریخی معاہدے پردستخط کیے جسے”ابراہیم ایگریمنٹ”کہاجاتاہے اوراس کے تحت ان مسلمان ممالک نے اسرائیل کے وجودکوتسلیم کیاتھااوراسی ضمن میں دیگرمسلمان ممالک سے بات چیت جاری تھی مگراسی دوران ٹرمپ کی صدارت کاخاتمہ ہوگیا۔
سفارتی اورسیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدارمیں شایدنیتن یاہوکوحماس،حزب اللہ اورایران کے خلاف کارروائیاں کرنے میں زیادہ چھوٹ حاصل ہوگی۔ایسے میں ایرانی جوہری تنصیبات پراسرائیلی حملہ بھی خارج الامکان نہیں قرار دیاجاسکتاتاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی ڈیل کی حمایت کریں جس کاحصہ سعودی عرب اوراسرائیل دونوں ہوں تاہم مشرق وسطیٰ کے معاملے میں ایک بڑا فریق ایران بھی ہے اورٹرمپ کے پہلے دورمیں ایران اورامریکاکے تعلقات مسلسل کشیدہ رہے تھے۔
ٹرمپ کے دورِحکومت میں امریکانے خودکوایران سے متعلق جوہری معاہدے سے الگ کرلیاتھا۔واضح رہے کہ یہ معاہدہ2015میں یعنی براک اوباما کے دورمیں ہواتھا۔اس معاہدے کے تحت ایران پرسے جوہری پروگرام کوروکنے کے بدلے میں سخت پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں تاہم ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت میں یہ معاہدہ ختم کرکے ایران پرایک مرتبہ پھربڑے پیمانے پرپابندیاں عائدکردی گئی تھیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے اپنے دوراقتدارمیں عرب دنیااوراسرائیل کے درمیان نئے تعلقات قائم کرنے میں بہت مددکی تھی۔اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے مغربی کنارے کے بڑے حصوں کوضم کرنے کامنصوبہ ملتوی کردیاتھااورتقریباً50 سال بعداسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے جواپنے آپ میں ایک بڑی بات تھی۔
ٹرمپ سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ کارروباری شخصیت بھی ہیں جوچیزوں کوبلیک اینڈوائٹ میں دیکھتے ہیں۔ٹرمپ مسلم ممالک کی داخلی سیاست ، ثقافت،خودمختاری اور بادشاہت جیسی چیزوں میں مداخلت نہیں کرتے۔دوسری طرف ڈیموکریٹس سعودی عرب پرپابندی لگانے،انسانی حقوق اور اقتدارمیں شراکت کی بات کرتے ہیں،جبکہ ٹرمپ یہ زبان بالکل استعمال نہیں کرتے اوریہی بات خطے کے مسلم لیڈروں کوبھاتی ہے۔جب ٹرمپ 2016 میں صدربنے توانہوں نے اپنے پہلے سرکاری غیرملکی دورے کیلئے سعودی عرب کاانتخاب کرکے سب کوحیران کردیاتھا۔اکثرامریکی صدور اپنے پہلے غیرملکی دورے پرکینیڈایامیکسیکوجاتے ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ خطے میں اب زیادہ ترمسلم دنیا”فلسطین”کاجھنڈااٹھائے تھک چکی ہے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ اس سے(یعنی فقط احتجاج سے)کچھ حاصل ہونے والانہیں کیونکہ اس پورے معاملے کاایک معاشی پہلوبھی ہے کیونکہ یہ پیسہ کمانے کی صدی ہے۔مسلم دنیااب سمجھتی ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت اوراسرائیل کی مخالفت کی وجہ سے یورپ سے تعلقات بہترنہیں بناسکتی۔دنیاموسمیاتی تبدیلی،سرمایہ کاری،علمی معیشت کے بارے میں بات کررہی ہے اوریہ صرف فلسطین کے مسئلے میں پھنس کررہ گئے ہیں۔مشرق وسطیٰ کی جدیدتاریخ بنیادی طورپرامن کی ناکام کوششوں کی تاریخ بن چکی ہے۔
اسرائیل اورفلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششوں کاآغاز1993میں اوسلوامن معاہدے سے ہواتھا۔اس کے بعددونوں کے درمیان کئی دہائیوں تک مذاکرات ہوتے رہے لیکن یہ خطہ امن کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکا،نہ تومقبوضہ علاقوں پرسے اسرائیل کا قبضہ ختم ہوااورنہ ہی دوالگ ریاستوں کی تشکیل ممکن ہوپائی لیکن اکتوبر2023کے بعداسرائیل غزہ جنگ نے مشرق وسطیٰ کو مکمل طورپرتبدیل کردیاہے اوراب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ وہ کام کرپائیں گے جس کی بہت سے لوگ اوران کے ووٹرزاُن سے توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
امریکی عرب ووٹرزکامانناہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعدیہ امکانات بڑھ جائیں گے اگرچہ اسرائیل اورحماس کااس جنگ کے خاتمے میں کردارانتہائی اہم ہوگا۔اگرآپ کویادہوتوٹرمپ پہلے ہی مشرق وسطیٰ سے امریکی فوجیوں کے انخلااورافغانستان میں جنگ کے خاتمے کاجیسے اعلانات کرکے ثابت کرچکے ہیں کہ وہ”جنگ”کے حق میں نہیں ہیں۔ہم سب ٹرمپ کے سابقہ دورکویاد کریں تویہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ٹرمپ ثالثی نہیں کریں گے بلکہ حل مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔وہ جانتے ہیں کہ امریکابہت طاقتورہے۔وہ ایک جارحانہ سیاست دان ہیں جوچیزوں کولٹکانے یامعاملات میں تاخیری حربے اپنانے میں یقین نہیں رکھتے۔ٹرمپ کوامریکاکی بالادستی پربہت اعتمادہے،جوان کی سیاست اورخارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ اگرایسا ہوا تواسرائیل سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کاہوگاکیونکہ حل صرف کمزوروں پرمسلط کیاجاسکتاہے۔