Waiting For Halaku Khan

ہلاکوخان کاانتظار؟

:Share

ایک طاقتوراورمرکزکی محافظ فوج معتصم بااللہ کاخواب تھا۔ایک ایسی فوج جووسیع وعریض عباسی سلطنت کواپنے رعب و دبدبے سے قائم رکھے،سب کومرکزکا باجگزاربنائےاوردلوں میں پیداہونے والی نفرتوں کوزوربازوسے کچل دے۔اب تک عباسی خلافت اپنے دواجزائےترکیبی عرب اورایران سے سپاہیوں کوبھرتی کرتی یاپھرانہیں علاقوں کے لوگوں کی طاقت،ہمت بلکہ علم ودانش پربھی انحصارکرتی لیکن اپنے باپ ہارون اوربھائی مامون سے مختلف یہ شخص طاقت واقتدارکو بزورشمشیرنافذکرنے کا قائل تھا۔باپ نےاس کوعلم کی طرف راغب کرنے کیلئے ایک غلام اس کےساتھ لگارکھاتھا جس کے پاس کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی جواسے پڑھاتارہتالیکن کچھ عرصےبعداس غلام کاانتقال ہوگیاتوہارون الرشیدنےکہامعتصم تمہاراغلام مرگیاتواس نےجواب دیاکہ غلام بھی مرگیااورکتاب سے بھی مجھے چھٹکارا حاصل ہوگیا۔ہارون نے یہ جواب سناتوکہااسے پڑھانےلکھانے کی ضرورت نہیں کہ نہ اس کارجحان اس طرف ہے اورنہ ہی یہ اس قابل۔علم کیلئے میرے بیٹےمامون اورامین ہی بہترہیں۔

یوں اپنے باپ کی عین پیشن گوئی کے مطابق وہ بادشاہ بننے تک علم کی دولت سے بہت حدتک محروم ہی تھا۔ایسےکم علم لوگوں کاایک خاصاہوتاہے کہ وہ اقتدارمیں آتے ہی کچھ ایسے انوکھےاورنرالے کام ضرورکرتےہیں کہ ان کی طرف لوگوں کی توجہ کھینچ آئے۔کبھی کبھی وہ ان غیرمقبول اورانوکھے نظریات رکھنے والے اصحاب کواس لیے بھی پذیرائی دیتے ہیں کہ ایساکرنےسے ان کی جہالت پردے میں چلی جاتی ہے۔معتصم نے بھی ایساہی کیااسی کے دورمیں مسلم امہ میں پہلی دفعہ روشن خیالی کی سرکاری سرپرستی شروع ہوئی۔مسئلہ خلق قرآن اس کے دورکی اختراءتھی اوراس کی سرپرستی یوں کی گئی کہ تمام حکام کواحکام بھجوائےگئےکہ بچوں کامروجہ نصاب تبدیل کرکے کہاگیاکہ اس میں شامل کیاجائےکہ قرآن مخلوق ہے۔

اس راستے میں جواللہ کانیک بندہ،عالم،فاضل یا فقہیہ آیااس کاراستہ اس طاقتورفوج سے روک دیاگیاجسے معتصم نے اقتدارمیں آتے ہی ترک غلاموں پرمشتمل ترتیب دیاتھا۔اکثرکے سرقلم کردئیے گئے،اوربہت سے جیل خانوں کی تاریکیوں میں دم توڑگئے۔یہ فوجی سیکورٹی کےنام پرگھوڑوں پرسوار زناٹے بھرتے بازاروں میں گھومتے،لوگوں کواذیتیں دیتے اورراہ چلتوں کوعبرت کانشان بناتے۔یہی وہ دورتھاجب اہل بغدادنے معتصم سے کہاآپ ان اجڈاورگنوارترک فوجیوں کوروکیں ورنہ ہم آپ کے خلاف خروج کریں گےتووہ زورسے مسکرادیااورکہا تم کس سے لڑوگےہتھیارتوسارے شاہی فوج کے پاس ہیں۔بےبس اورنہتے اہل بغدادنے کہاہم آہ سحرگاہی کے تیروں سے تیرامقابلہ کریں گے۔ان آہ سحرگاہی کے تیروں میں سے ایک تیراحمدبن حنبل بھی تھے جولوگوں کی دعائے نیم شبی کے نتیجے میں اسلام کی اس بے لگام روشن خیالی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔یقیناًآپ کی نظروں سے امام حنبل کے متعلق”عزیمت یارخصت میں فرق”کے عنوان سے میرا خصوصی آرٹیکل ضرورگزراہوگا کہ کس طرح ان کوجیل،کوڑے، بازاروں میں گھسیٹنا،مارمارکرپورا بدن لہولہان کردینا۔کیا کچھ نہ ہوا لیکن اس مردحر کے پایۂ استقلال میں لرزش تک نہ آئی۔

لیکن اس طاقتوراورمرکزپرست فوج نےاوٓل اوٓل توتمام علاقے میں اپنی طاقت بزورشمشیردکھانے کیلئے ظلم کابازارگرم کردیا لیکن تاریخ اس بات پرشاہدہےکہ پھریہ مضبوط اورمستحکم فوج اس قدرمستحکم ہوگئی کہ انہوں نے خلیفہ کاحکم تک سننے سے بھی انکارکردیا۔جس علاقے کے لوگوں یاحاکم کوچاہتی غداراورخلافت کاباغی تصور کرتی اورایکشن کردیتی۔کتنے ہی خلیفہ ایسے تھے جنہیں اس فوج نے تخت سے اتارااوراپنی مرضی کاخلیفہ مقررکیا۔ بعض کوتواس قدرسیکورٹی رسک سمجھاگیاکہ ان کو قتل کردیاگیا۔

طاقتور،فوج،روشن خیال درباری اشرافیہ اورمرکزکی مضبوطی اوراستحکام یہ تین ایسےتحفےتھےجومعتصم نے عباسی خلافت کوپیش کیے اوراس کے زوال کی بنیادرکھ دی اورپھردیکھتے ہی دیکھتے پوری امت مسلمہ پرحکمرانی کرنے والی عباسی خلافت کے ٹکڑے ہونے لگےجنوبی ایران میں یعقوب صفارکی سربراہی میں صفاری حکومت قائم کردی گئی۔جازندران کے علاقے میں علوی سیدوں نے طبرستانی حکومت کااعلان کردیا۔ مصر میں ایک ترک احمد بن طولون نے دولت طولونیہ کے نام پر مصراورشام میں خودمختاری حاصل کرلی۔موصل اورحلب میں عربوں کے صمرانی قبیلے نے آل صمدان کے نام سے سلطنت کی بنیادرکھ دی۔گورگان کے علاقوں میں دولت زیاریہ اورمصرکے کچھ علاقوں میں دولت شیدیہ قائم ہوگئیں اورطاقتورفوج بغداد تک محدود ہوگئی اورروشن خیال مذہبی افکاربھی اسی دربارمیں زیر بحث آتے رہے۔یہی مضبوط مرکزجس کولوگوں کی فلاح کی بجائے طاقتورفوج سے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ایک تاتاریوں کے گھوڑوں کی سموں کےنیچے یوں کچلاگیاکہ دجلہ اورفرات کاپانی کئی دن تک خون سے رنگین ہوگیا،علم وادب کے مراکزجلاکرخاکسترکردئیےگئےاورلاکھوں کتابوں کی راکھ بستیوں میں اڑتی رہی۔

آہ سحرگاہی کےتیروں سےجنگ کرنے والوں پروہ قیامت ٹوٹی کہ بازاروں میں مسلمانوں کاخون اس قدر تھاکہ گھوڑوں کی ٹانگیں بھیگتی تھیں۔ایسے میں ہلاکوشہر میں داخل ہواتوایک عورت نے جسے اپنی آہ سحرگاہی اوربددعاپریقین تھا،اس نے ہلاکوکےگھوڑے کی لگام تھام کرکہا:میں تمہیں بددعا دیتی ہوں کہ اللہ تم پراپنا عذاب نازل کرے۔ہلا کومسکرایااوربولا اے عورت اللہ کاعذاب تومیں خودہوں جوتم لوگوں پرنازل ہواہے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ معتصم کوآہ سحرگاہی کے تیروں سے ہلاک کرنے والے اپنے نہتے ہاتھوں کوتلواراورسینوں کوڈھال بنالیتےتوہلاکوکواس عورت کی بددعاپر ہنسنےکاموقع نہ ملتا۔ قومیں جب ایسی طاقتورفوج،اس طرح کی روشن خیالی اورلوگوں کے دکھوں اورمصیبتوں سے بےنیازمضبوط مرکزکی خواہش پر صرف بددعااورآہ سحرگاہی تک محدود ہوجاتی ہیں توپھرہلاکوکاقول سچ ثابت ہوتاہےاوراس کی گواہی سید الانبیاءکی مسند احمد کی یہ حدیث دیتی ہے:اللہ عام لوگوں پرخاص لوگوں کےعمل کے باعث اس وقت تک عذاب نہیں کرتاجب تک ان میں یہ عیب پیدا نہ ہوجائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اورانہیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگرنہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تواللہ عام اورخاص سب پرعذاب نازل کرتاہے۔

انتخابات کی آمدآمدہے اوراب یہ قوم نے فیصلہ کرناہے کہ وہ بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں آناپسند کرتے ہیں یاکسی ہلاکوخان کے منتظر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں