پاکستانی انتخابات اب چنددنوں کی مسافت پرہیں اورقوم اگلے پانچ سال پنے ہاتھوں سے اس جمہوری فصل کاٹے گی جس کی اپنے ووٹوں سے آبیاری کی ہوگی۔انتخابات میں حصہ لینے والوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ 2700امیدوارمختلف مقدمات میں ملوث ہیں۔ان میں 1270کاتعلق صوبہ پنجاب،775صوبہ سندھ، 235 خیبرپختونخواہ ،115کاتعلق بلوچستان اور 5کاتعلق وفاقی دارلحکومت اسلام آبادسے ہے۔ ان امید واروں کوبینک ڈیفالٹ، کرپشن،ریپ،قتل،بھتہ خوری،منی لانڈرنگ، دہری شہریت اورانسانی اسمگلنگ جیسے سنگین مقدمات کاسامناہے۔ مقدمات میں سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کے 588،دوسرے نمبرپرمسلم لیگ ن کے 485، تیسرے نمبرپر تحریک انصاف کے 401امیدوار جبکہ 770آزاد امیدوار ہیں،135امیدوارایم کیوایم سے، 122پاک سرزمین سے،120عوامی نیشنل پارٹی۔69جمعیت العلماء اسلام ف، 49جماعت اسلامی،25تحریک لبیک پاکستان،52نیشنل پارٹی ،19وطن پارٹی،31پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پرانتخاب لڑرہے ہیں۔ 70٪امیدواروں پر800ارب روپے کی خردبردمیں ملوث ہونے کا الزام ہے۔122امیدواردہری شہریت کے داغدارہیں،ان میں بڑے بڑے سیاسی لیڈروں،سابق حکمرانوں اورجبہ ودستاروالوں کے نام نامی شامل ہیں۔
26ہزارامیدواروں میں دس فیصدسے زائدداغدارانتخاب میں حصہ لینے اورملکی آئین 62اور63کی دفعات کاامتحان لینے کیلئے جمہوریت کاگرز تھامے انتخابی میدان میں ہیں، ان داغداردس فیصدمیں وہ نام زیادہ ترشامل ہیں جن کی کامیابی یقینی ہے۔وہ پارٹیوں کے قائداورسرکردہ کہلاتے ہیں اوریوں مچھلی کے سرمیں سڑاندکے حامل ہیں۔یہ سب امیدوار کیامقدمات سے پاک پوترہونے تک انتخابات کیلئے اہل قراردیئے جائیں گےشائد نہیں کیونکہ یہ ملزم ہیں،ابھی تک مجرم ثابت نہیں ہوئے ہیں اورالزمات لگانے والے افراد کسی غلط فہمی کے شکاربھی قراردیئےجاسکتے ہیںجیساکہ آصف زرداری کے خلاف غلط فہمی کامعاملہ این اے 213کے کاغذات پراعتراض کے بعدہوا۔قائداعظم محمدعلی جناح نے قیام پاکستان کے مرحلے پرتاریخی جملہ کہاتھاکہ ان کی جیب میں کچھ کھوٹے سکے ہیں،انہوں نے ان کھوٹے سکوں کومہارت کے ساتھ استعمال کرکے ہندوؤں اورانگریزوں سے پاکستان تو حاصل کرلیامگرقیام پاکستان کے بعدان کھوٹے سکوں نے پاکستان کے قیام کی راہ کھوٹی کرنے کے ساتھ ان کی کھوٹ سے آشنا رہنماؤں کاصفایاکرنا شرتوع کردیامگران پر نظریہ سے انحراف کاالزام توعائدکیاجاسکتاہے ،اقتدارکی ہوس کامریض توقراردیاجاسکتاہے،سازشی اذہان کا ٹولہ توبتایا جا سکتاہے مگران کے دامن پرکرپشن سمیت وہ الزام نہیں لگائے جاسکتے جوہولناک اور شرمناک ہیں۔
پاکستان کے متنازعہ لیڈرذوالفقارعلی بھٹوجنہوں نے بظاہرنظریہ پاکستان سے اس طرح انحراف تو کیا کہ پاکستان جواسلام کے نام پربنایاگیا،انہوں نے وہاں اسلامی سوشلزم کانعرہ لگایالیکن ان پربھی کرپشن کاالزام نہیں لگا۔جماعت اسلامی کے صالح اورباصلاحیت ممبرقومی اسمبلی پروفیسر غفور نے ایک انٹرویومیں کہاتھاکہ ذوالفقارعلی بھٹوکرپٹ نہیں ہیں مگران کے دورمیں ان کی ٹیم پر کرپشن وائرس کاحملہ ہواہے اورپھریہ مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی۔1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے 62اور63کی آئین کی شق کے ذریعے اس وائرس کاعلاج کرناچاہا،ان مریضوں کی فہرستیں بھی شائع ہوئیں اورخیال تھاکہ یہ بچ کرنہیں جائیں گے اورسیاست کے میدان سے ہمیشہ کیلئے نااہل ہوجائیں گے مگرافسوس صدافسوس ایسانہ ہوسکا۔جنرل ضیاء الحق کے دورمیںپہلی مرتبہ اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے مجلس شوریٰ کاقیام عمل میں لایاگیاجس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کونہائت عزت دی گئی لیکن مجلس شوریٰ کے شوربے میں کئی بدنام زمانہ سیاستدان اوپرہی تیرتے رہے اورعلماء نے بھی کماحقہ ساتھ نہیں دیااورآج وہی علماء اورسیاستدان شب وروزاسی جنرل ضیاء الحق کے خلاف دشنام کاعلم بلندکئے ہوئے ہیں اور 62اور 63شقوں کاکھلم کھلا مذاق اڑارہے ہیں۔
ایک مجلس میں مرحوم ضیاء الحق سے سوال کیاگیاکہ جناب ان بدعنوانوں کے خلاف کیاکاروائی ہورہی ہے توان کاجواب تھا،سب تائب ہوگئے ہیں اورانہوں نے معافی مانگ لی ہے۔یہ نہیں بتایاکہ انہوں نے رب سے معافی مانگی ہے یاحکومت وقت کوکوئی تحریری معافی نامہ جمع کروایاتھا۔یہ تائب زدہ ٹولہ ملک پرپھرسے نئے نظام کے نام سے مسلط ہوگیا ۔ اب عدالتی احتساب کودوردورہ ہے ،پھرتائبین کی کتاب کھول دی گئی توبدعنوان عناصرکابیڑہ پارہوجائے گا،کچھ احباب ایساہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔عمران خان جواخلاقی بحران کے مریض ہیں ان پرنظرکرم بتارہی ہے کہ ملک وقوم کومالی کرپشن سے نکال کراخلاقی کرپشن میں دھکیلاجارہاہے جوریحام خان کے جھانسے میں پھنس گیاوہ اگرملک کاوزیراعظم بنادیاگیاتوپتا نہیں کس کس کے خوبصورت جال میں پھنس کرملک کابھٹہ بٹھادے گا۔آج مجھے مرحوم جنرل حمیدگل شدت سے یادآرہے ہیں جنہوں نے عمران خان کو ریحام سے شادی کرنے سے نہ صرف منع کیاتھابلکہ اس کی وجوہات سے بھی آگاہ کیاتھا لیکن جب عمران نے ان کی یہ بات نہیں مانی تومرحوم نے بڑے دکھ سے مجھے یہ کہاتھاکہ اس شخص نے یعنی عمران خان نے مجھے تیسری مرتبہ دھوکہ دیاہے،اب توشرعی طورپربھی اس پربھروسہ یایقین کرناممکن نہیں رہا۔یادرہے کہ اس سے قبل جنرل حمیدگل مرحوم ارض وطن میں نرم اورسبزانقلاب کیلئے کراچی سے عبدالستارایدھی،جماعت اسلامی اور عمران خان کے اتحاد کیلئے کوشاں تھے جس کیلئے عمران خان نے بہت سے وعدے وعیداوراپنے بھرپورتعاون کایقین دلایاتھامگروقت آنے پرعمران خان نے نہ صرف وعدہ خلافی کی بلکہ عبدالستارایدھی مرحوم کو پاکستان کوخیرآبادکہناپڑااورپھرکئی مہینوں کی کوششوں کے بعدان کوواپس پاکستان جانے پررضا مندکیاگیاجس میں راقم کی بھی ازحدکوششیں شامل تھیں۔
پاکستان میں عام انتخابات میں صرف چنددن باقی رہ گئے ہیں اورتمام جماعتوں کے رہنمااورامیدوار سرگرمی سے انتخابی چلا رہے ہیں، جس کے دوران بعض اوقات وہ اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کر لیتے ہیں۔ عمران خان نے گذشتہ ہفتے ایک جلسے کے دوران اپنی حریف جماعت مسلم لیگ ن کے حامیوں کو ”گدھا،بیوقوف اورجاہل”کہا تھا جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی ۔تحریکِ انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک اور مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق پر بھی الزام ہے کہ انھوں نے جلسوں میں نازیبا زبان استعمال کی ہے۔مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی تھی کہ وہ عمران خان کی تقاریر پر پابندی عائد کرنے کا حکم دے جس پر الیکشن کمیشن نے عمران خان کوجواب کیلئے طلب کرلیامگرعمران خان خودعدالت میں جانے کوشائداپنی توہین سمجھتے ہیں اسی لئے انہوں نے الیکشن کمیشن میں اپنے وکیل بابر اعوان کو بھیج دیاجوخودبھی اپنی زبان کے معاملے میں نہائت غیر محتاط ہیں اوراپنی انہی حرکتوں کی بنا پرسابق چیف جسٹس افتخاراحمدپرپھبتی کسنے سپریم کورٹ میں معافی بھی مانگ چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن میں سندھ کے رکن عبدالغفار سومرو کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے جب معاملے کی سماعت کی تو بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ایسا صرف عمران خان ہی نہیں کر رہے اوربھی کئی سیاستدان ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں ۔بابر اعوان نے کمیشن کے سامنے جواب دینے کی بجائے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی ویڈیو چلا کر دکھائی جس پر اس پر انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے نوٹس کا جواب دیں ،جب بڑے رہنما ایسی زبان استعمال کرتے ہیں تودنیامیں اچھاتاثرنہیں جاتا۔عمران خان ایسی زبان استعمال نہیں کرسکتے جس پربابراعوان نے عمران خان کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائی کہ وہ آئندہ ایسی زبان استعمال نہیں کریں گے جس کے بعد سماعت عام انتخابات کے بعد تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔
جنرل ضیاء الحق کی رفقاء سمیت شہادت کے بعدچیف آف آرمی سٹاف اسلم بیگ کی مددسے جب بے نظیربھٹو1988ء میں وزیراعظم بنیں تو اس وقت بھی مرحوم جنرل حمیدگل نے بے نظیربھٹوکو اپنے شوہرآصف علی زرداری کو”کارحکومت” سے دوررکھنے کامشورہ دیالیکن موصوف نہ صرف اپنی اہلیہ کے ساتھ حکومت کااہم حصہ بنتے ہوئے وفاقی وزیربرائے سرمایہ کاری مقرر ہوئے بلکہ پہلی مرتبہ ٹین پرسنٹ کرپشن کی اصطلاح بھی ایجاد ہوئی مگریہ الزام بے نظیربھٹو پر نہیں بلکہ ان کے شوہرنامدارزرداری پرتھا۔ان دنوں یہ مشہور تھا کہ وزیراعظم کے دفترکی ہرفائل ان کی دسترس میں ہوتی تھی اوراس چرچے سے خودبے نظیربھٹواکثرپریشان ہواکرتی تھیں مگر مشرقی روایات کی حامل بیوی اپنے شوہرکے حوالے سے یہ کڑوے گھونٹ پیتی رہیں اوریہی وجہ ہے کہ جب یہ مشرف کے دورمیں این آراوکے معاہدے کے تحت بے نظیربھٹو واپس پاکستان آئیں توانہوں نے سختی سے زرداری کوپاکستان سے باہررہنے کاکہا۔
اسی طرح جب سرکاری طورپرآئی جے آئی سیاسی اتحادتشکیل دیاگیاتواس وقت بھی جنرل حمیدگل مرحوم نے نوازشریف کووزیراعظم بنانے کے بعد یہ مشورہ دیاکہ وہ اپنے تمام اثاثے قوم کے سامنے ظاہرکریں توانہوں نے جنرل حمیدگل مرحوم کواپنے والد میاں محمدشریف کویہی مشورہ دینے کی درخواست کی جس پرمرحوم جنرل حمیدگل نے دوگھنٹے کی ملاقات میں ان کوہرطرح سے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن میاں شریف اس پرآمادہ نہ ہوئے اوریوں شریف خاندان اپنادامن بچانے کی بجائے جھولیاں بھرنے میں مصروف ہوگیا۔پھرپرویزمشرف کے دورِ حکمرانی میں کرپشن نے جدیدراہ اپنائی،”جوان کوہوا،اس کی جھولی بھردی گئی”اورایم کیوایم سمیت ان کے تمام یاروں کے وارے نیارے ہوگئے۔مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ ایم ایم اے جوپرویزمشرف کی میاؤں میاؤں کرنے والااتحادتھا،اس نے بھی خوب قیمت وصول کی اورحضرت مولویوں کے دامن اسی طرح ترہو گئے جس طرح جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ہواتھا۔
2008ء میں بے نظیرکے سانحہ کے ساتھ ہی ملکی سیاست نے نیاٹریک اختیارکرلیا ۔قرآن کی زبان تمہیں کثرت نے ہلاک کردیاکاعملی نمونہ دیکھنے میں آنے لگا۔آصف زرداری تقدیرکے ہاتھوں بادشاہ گرہوگئے اوریوں پھروہ کچھ ہواکہ خیرکی دنیاہی اجڑگئی اورکرپشن کے درودیوارتک چلا اٹھے۔ کرپشن سوفیصدکوچھونے لگی اورایک نئے مرض نے بھی جنم لیا وہ جاگیرداری اورسرمایہ داری میں آگے نکلنے کاہے۔زرداری اورشریفوں میں اس کی دوڑلگی کہ کون کس کواس میدان میں مات دیتاہے۔2013ء کے انتخابات میں نوازشریف وزیر اعظم بنے توغریب ملک اورقوم کے غم خوارکہلانے والے نوازشریف کے جاتی محل کارقبہ 1700ایکڑپرمحیط ہوگیااورپانامالیکس کے چرچے ہی بلندنہ ہوئے بلکہ ملی حمیت کی فروخت کے بھی ٹینڈر کھول کررکھ دیئے گئے۔دوست دشمن قرارپائے تودشمن کوسجن مال کی خاطربنالیاگیا۔اب سیاست کامطلب”ریاست اپنی ہوئی” ہوگیا۔ آصف زرداری بھی مبینہ طور پر دولاکھ ایکڑزرعی زمین،120/ارب روپے،ان گنت فیکٹریاں، فرانس،دبئی اوریورپ کے علاوہ امریکامیں بھی کئی محلات کے مالک بن گئے۔
اسی طرح نوازشریف شرافت کی سیاست کے دعویدارکہلاتے ہوئے اتنے اثاثوں کے مالک بن گئےکہ خودانہیں بھی یادنہ رہاکہ یہ پراپرٹی کہاں سے آئی اورکون سے ذرائع سے آئی اب 2018ء کے انتخاب کامرحلہ ہے اورکاغذاتِ نامزدگی بتارہے ہیں کہ ان میں گیارہ فیصدمقدمات میں مطلوب ہیں اوریہ گیارہ فیصدوہ ہیں جواسی فیصدکامیاب ہوں گے اور یوں عدالت کااحتساب منہ دیکھتارہے گا اوربھنائے ہوئے قوم کوبتائے گاکہ کون لوگ جمہوریت کی سیڑھی لگاکراقتدارکی گدی پرآن بیٹھے ہیں اوریہ بھی کوئی بعیدنہیں کہ نئے منتخب شدہ عدالت پرپارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پرجج صاحبان کے اختیارکم کرکے اپناہمیشہ کیلئے بچاؤ کرلیں۔جمہوریت کے نام پربلیک میل ہونے کی ضرورت نہیں،62اور63کا بے رحمانہ استعمال اور بلاامتیازکاروائی ہی ملک کوترقی کی راہ پرڈال سکتی ہے۔اگرایسانہ کیاگیاتوکہیں گرم انقلاب ملک میں آجائے اورعوام اس کاکھلی بانہوں سے استقبال کریں اور پھربہت کچھ ہوجائے۔اگرلٹیروں کوتائب کرکے کھل کھیلنے کاموقع اس مرتبہ بھی دیاگیاتویادرکھیں ”امروزکہ کچھ نہ ہوگا،درست ثابت ہوگا”اورقوم مایوس ہوکرپکاراٹھےگی کہ
مرے وطن کی سیاست کاحال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
Load/Hide Comments