Unity of Ummah: Dream or possibility?

وحدتِ امت:خواب یا امکان؟

:Share

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، جس نے حق کے کلمے کو بلند فرمایا، اور درود و سلام ہو انبیاء کے سردار (حضرت محمد ﷺ) پر، اور آپ کے آل و اصحاب پر، جو نیک اور برگزیدہ ہیں۔ اما بعد ۔۔۔
حضراتِ محترم
آج کی یہ اسپیس جس کاعنوان ہے یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے،محض ایک اجتماع نہیں بلکہ ایک فکری صداقت،ایک روحانی للکار،اورایک اجتماعی محاسبہ ہے۔آج جب ہم امتِ مسلمہ کی زبوں حالی پرگفت وشنید کیلئےجمع ہیں،تودراصل ہم اس قوم کی حالت زارپرماتم کرنے نہیں،بلکہ اس کے دردکا درماں ڈھونڈنے آئے ہیں۔آج کی اس فکری نشست،یہ علمی محفل،یہ بیداری کی شبِ دعا—میں صرف اس لئے اکٹھے نہیں ہوئے ہیں کہ امت کی زبوں حالی کاتذکرہ کریں کیونکہ ہم سب کوعملاًاس کاعلم ہے لیکن ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ یہ محض ایک رسمی اجتماع نہیں،بلکہ تاریخ کے زندہ سوالات کاجواب ہے،اورامت کی آہوں اور سسکیوں کاترجمان ہے۔آج جب ہم امتِ مسلمہ کی زبوں حالی پربات کرنے آئے ہیں،توہماری زبان فقط الفاظ ادانہیں کرے گی،بلکہ دل کی دھڑکنوں کابیاں دے گی۔آج ہماراموضوع فقط تجزیہ نہیں،بلکہ تجدیدِعہدہے۔ہمیں کہناہوگا،ہمیں سنناہوگا، ہمیں روناہوگااورپھر اٹھناہوگاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کورونانہ پڑے۔

حضراتِ محترم!
جب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں،تواسلام کاسورج افقِ عالم پریوں طلوع ہوتانظرآتاہے کہ جہالت کے اندھیرے چھٹنے لگتے ہیں،اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اسی تاریخ کے اوراق مزیدپلٹتے ہیں،جب ماضی کی خزاں دیدہ شاخوں میں بہارکی صدائیں سننے کوجی چاہتاہے،جب ماضی کی سنہری رُتیں حال کے خزاں رسیدہ دامن میں رنگ بھرنے کی تمنّاکرتی ہیں،تودل بے ساختہ اس دردکو محسوس کرتاہے جوامتِ مسلمہ کے حال پرروتاہے،اورعقل سوال کرتی ہے کہ آخروہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے اس عروج یافتہ قافلۂ نورکوذلت کی تاریکیوں میں دھکیل دیا؟

یادکیجیے!وہ دورجب اہلِ عرب کی سرزمین سے اُٹھنے والی صدائے توحیدنے قیصروکسریٰ کے محل لرزادیے،جب رُوم وایران کے جبّاروں کوجھکناپڑا،ان کی طاقت کاگھمنڈاورتکبرزمین بوس ہوا،جب بیت المقدس کے درودیوارنے بھی اسلام کے قدموں کی چاپ سنی،جب غرناطہ کی فضائیں علم وحکمت کی صداؤں سے گونجتی تھیں،جب بغدادکاقلم تلوارسے بلندمرتبہ رکھتاتھا۔یادکریں! وہ دور جب
؏ اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کااورہی اندازہے
مشرق ومغرب میں تیرے دورکاآغازہے
حضراتِ گرامی یاد کریں وہ لمحے جب
؏ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز
نہ کوئی بندہ رہانہ کوئی بندہ نواز۔
جب کعبہ گواہی دیتاتھاکہ یہ قوم وحدت کی علمبردارہے،جب اذان کی صداصرف مسجدتک محدودنہ تھی بلکہ تہذیبوں کاتعارف تھی۔ مگر آج؟آج وہی قوم
؏ دربدرٹھوکرکھارہی ہے،وہی جوکل کی امام تھی
چمن کوجن کے خون سے ملی تھی بادِبہار
مدینہ کی گلیوں سے نکلنے والی وہ آوازجس نے قیصروکسریٰ کولرزادیا۔وہ پیغام جس نے غلامی کوتوڑا،ظلم کومٹایا،جہالت کوعلم سے بدلااورپتھروں کے پجاریوں کووحدتِ ربّانی کاپرستاربنایا۔اندلس سے بغدادتک،قاہرہ سے سمرقندوبخاراتک،امت کے علم و عمل نے دنیاکوعلم،عدل،روحانیت، اور تہذیب کے نئے معیارات دیے۔مگرآج؟وہی امت،جسے”خیرامت”کہاگیا،پستی کے گڑھوں میں گرچکی ہے۔

مگرآج امت کاموجودہ حال کیاہے؟وہ قوم جوکل مکہ ومدینہ کی خاک سے اٹھ کرقیصروکسریٰ کی سلطنتوں کوزیرکرگئی،آج اس حال کوپہنچی ہے کہ اس کی قیادت مفلوج،اس کامعاشرہ پراگندہ،اس کی تہذیب مغرب زدہ،اوراس کادین محض رسوم ورواج میں قید ہوکررہ گیاہے۔آج وہی امت ٹکڑوں میں بٹی،گروہوں میں تقسیم،مفادات میں گرفتار،قیادت سے محروم،فکرسے بے بہرہ، اوروحدت سے عاری نظرآتی ہے۔سیاست کی بساط پرمہرے بن چکی قوم،جن کے فیصلے واشنگٹن،لندن اورپیرس کے ایوانوں میں ہوتے ہیں۔

آج جب ہم”امتِ مسلمہ کی زبوں حالی”پرگفتگوکرتے ہیں،توہمیں فقط آنکھوں سے بہتے آنسونہیں،دل سے اٹھتی سسکیاں سننی ہوں گی۔ہمیں تاریخ کی عدالت میں گواہی دینی ہوگی،اوروہ بھی سچائی کی۔امت کایہ زوال اچانک نہیں آیا،یہ صدیوں کی غفلت،فکری جمود،اخلاقی زوال،علمی انحطاط،اور روحانی بے حسی کانتیجہ ہے۔

اے اہل مجلس!یہ زوال نہ توآسمان سے نازل ہوا،نہ ہی کسی اتفاقی حادثے کانتیجہ ہے۔یہ صدیوں کی کوتاہی،غفلت اورخودفراموشی کاثمرہے۔وہی امت جو”اقْرَأْ”کی صداپراُٹھی تھی،آج علم سے محروم ہے۔
علامہ اقبال نے کیاخوب کہا:
؏وجودِزن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ
اسی کے سازسے ہے زندگی کاسوزِ دروں

حضراتِ گرامی قدر!
ہمیں اعتراف کرناہوگاکہ ہمارازوال اندرونی ہے،بیرونی سازشوں کااثرثانوی ہے۔ہم نے قرآن کوصرف تعویذبنایا،سیرتِ رسول کو صرف میلادتک محدودکیا،اجتہادکادربندکیا، اورتقلیدِجامدکوشعاربنایا ۔غورکریں کہ فکری جموداوراجتہادی جرأت کی کمی کی وجہ سے ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔امتِ مسلمہ کاسب سے بڑاالمیہ اس وقت فکری جمودہے۔
؏جمودِفکرونظرہے فسادکی جڑ
یہی ہے امتِ مسلمہ کی فکری مَذلت

ہم نے اجتہادکے دروازے بندکردیے،سوال اٹھانے کوجرم بنادیا،اورتقلیدِجامدکودین کالبادہ پہنادیا۔کون نہیں جانتاکہ اسلام کی روح اجتہاد، غورو فکر ، اورعقلی توازن میں پنہاں ہے،مگرآج ہم نے فتاویٰ کی مشینیں توبنالیں،مگراجتہادکے دربندکردیئے۔نئی نسل سوال کرے توگستاخ ٹھہرے،سوچے توبے دین۔آج ہم نے نہ فقط اپنی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کوتعلیم سے محروم کردیا ،بلکہ اپنی تہذیبی اساس سے بھی کاٹ دیا،رہی بات اپنے بچوں کی تو آج کل بچے کی پیدائش پرہی اس کانام کسی مغربی طرزِتعلیم کے اسکول میں رجسٹرکروانے کی فکرلاحق ہوجاتی ہے کہ اسکول کی عمرتک پہنچتے ہی اس کانام بھی اسکول داخلہ کی فہرست میں آجائے۔
؏جمودِفکروعمل،موت ہے زندگی کیلئے
چراغ بجھنے لگے توہواسے شکوہ نہ کر

آج ہماری درسگاہوں میں علم ہے،مگرہدایت نہیں۔ڈگری ہے،مگردانش نہیں۔تربیت ہے،مگرمقصدیت کافقدان۔آج ہمارے تعلیمی ادارے کردارسازی کی بجائے محض ڈگری سازی کے مراکزبن چکے ہیں۔ہمارے دینی مدارس میں منقولات کاطوفان ہے،مگرمعقولات کی پیاس باقی ہے۔ ہمارے جامعات میں جدیدسائنس کاشورہے،مگرروحانیت کی خاموشی ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے صرف ملازمت کے حصول کی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔ہمیں ایسے ادارے چاہییں جہاں سے غزالی،ابن خلدون،اوراقبال پیداہوں۔یونیورسٹیوں میں نصاب موجود ہے ،مگرنظریہ ندارد۔علم ہے، مگربصیرت غائب۔اسکولوں میں مغربی فلسفے پڑھائے جاتے ہیں،مگراپنی تہذیب اجنبی ہے۔ مدارس میں حافظ وقاری تونکل رہے ہیں،مگرامت کو فقیہ،مفکر، اور قائدکی بھی ضرورت ہے۔یاد رکھیں:
؏علم وہ جوروشنی بخشے دلوں کو
ورنہ ہرجاہل،کتابوں کابھی حافظ ہوگیا

امت مسلمہ کی سیاسی قیادت؟وہ توبکھرے ہوئے پتوں کی مانندہے،جنہیں ہواجدھرچاہے اڑالے جائے۔کہیں بادشاہت ہے توکہیں جمہوریت کالبادہ اوڑھے آمریت مسکرارہی ہے۔کہیں خلافت کانعرہ ہے مگرعمل میں استبداد۔اوراتحاد؟وہ خواب بن چکاہے۔اوآئی سی کے اجلاسوں میں قراردادیں توبہت منظورہوتی ہیں،مگرعملاًکوئی اقدام نہیں ۔غزہ،مقبوضہ کشمیر،میانمار، سوڈان—ہرجگہ مظلوم مسلمان لہوکی قسطیں دے رہے ہیں،اورامتِ مسلمہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔یادرکھئے!
؏علم اگرتجھ کونہ دے اپنے عمل کی دولت
توفقیرکیلئےزہرہے،سلطان کیلئےبھی

اسلام کاسیاسی نظام شورائیت،عدل،مساوات اوراحتساب پرمبنی تھا۔مگرآج؟ہرملک اپنی رَیاست،ہرریاست اپنے مفادمیں گم۔قومیں قومی مفادات میں الجھی ہیں،اورامت کے تصور کا جنازہ نکل چکاہے اورامت مسلمہ اجتماعی سیاسی انتشارمیں مبتلاہے۔
؏نہ کوئی سعدبن معاذ،نہ کوئی عمرباقی
ہے قیادت کی جگہ،دولتِ بے کارفقط

اخلاقی زوال اورروحانی بے حسی کایہ عالم ہے کہ امت کردارسے خالی ہوگئی ہے۔ہمارے بازارجھوٹ سے لبریز،عدالتیں انصاف سے خالی،اور معاشرے فحاشی ومادہ پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔سرسے لیکرپاؤں تک علمی انحطاط اورتعلیمی زوال میں ڈوبےہوئے ہیں لیکن اقتدارکیلئے غیرت اورحمیت تک کوگروی رکھ دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔
؏نہ دیانت نہ شرافت،نہ محبت باقی
یہی ہے امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی محرومی

آج امت سیاسی تقسیم اورقیادت کے بحران میں غرق ہے۔اس کے پاس نہ ابوبکر،عمر،عثمان وعلی توکیاصلاح الدین ایوبی،محمد بن قاسم اورٹیپوسلطان بھی تو نہیں رہے۔ہرملک، ہرقوم ،ہر نسل،اپنی علیحدہ شناخت میں قیدہے۔قیادتیں یاتوکرپشن کی آلودہ ہیں یامغرب کی غلام۔
؏ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیاخبرتھی کہ چلاآئے گاالحادبھی ساتھ
اوآئی سی ہویاعرب لیگ،سب بے جان ادارے ہیں۔صرف رسمی اجتماعات ہیں۔قراردادیں پاس ہوتی ہیں،تصاویرلی جاتی ہیں،مگرنہ عمل ہوتاہے نہ نتیجہ۔وحدتِ امت کافقدان ایک عذاب کی طرح ہم پرطاری ہے۔ہرمظلوم مسلمان تنہاہے۔فلسطین جل رہاہے،کشمیر سلگ رہاہے،شام اجڑچکا ہے ، اورہم فقط قراردادیں پاس کررہے ہیں:
؏اقبال بھی رویاتھااس حالِ زبوں پر
امت ہے کہ خوابِ غفلت میں ہے مدہوش ابھی تک

پھراب سوال یہ ہے کہ حل کیاہے؟اس امت کےدردکامداوااورراہِ نجات اسی وقت ممکن ہے جب ہم قرآن سے عملی وابستگی اختیار کریں۔سیرتِ رسول کوزندگی کے ہرشعبے میں نافذ کریں۔علم کومقصدِحیات بنائیں نہ کہ محض روزگارکاذریعہ۔اپنے کردارکو پیغمبرانہ شان دیں۔امت کے تصورکو قومی تعصب پرمقدم رکھیں۔امت کواپنے تعلق کورب سے جوڑناہوگا۔نمازکوروح بناناہوگا،قرآن کوہدایت،اورسیرتِ طیبہ کورہنمائی کامرکز۔ یادرکھیں:جب امت اپنی شناخت کھوبیٹھے،تواللہ اسے ذلت میں مبتلاکردیتاہے،تاکہ وہ پھرسے اپنی اصل کوتلاش کرے۔

ہمارے نصاب میں قرآن وسنت،جدیدسائنس،تاریخ،اورتہذیب کاتوازن ہو۔ہمیں غزالی اورنیوٹن،دونوں کے وارث بنانے ہوں گے۔ یونیورسٹیاں صرف ڈگری نہیں،شخصیت سازی کا مرکزہوں۔مدارس میں سائنسی بصیرت اورجامعات میں روحانی تربیت ہو۔فکرکی قیدیں توڑنی ہوں گی۔ہمیں قرآن کووقت کی زبان میں پڑھناہوگا۔ہمیں اختلاف کونعمت سمجھناہوگا، اور اجتہاد کوعلم کاشعوردیناہوگا۔ تجدیدِایمان اورتعلق باللہ کی رسی کومضبوطی سے تھامناہوگا۔ہرفردکوصادق،امین،محسن اورنیکوکاربنناہوگا۔گھرسے معاشرہ بنتاہے اورمعاشرے سے قوم۔ہمیں صبر،حلم، تواضع، سخاوت،اورعدل کواپنی شناخت بناناہوگا۔
؏ کردارکے غازی بنیں،نہ کہ گفتارکے بادشاہ

یاد رکھیے!وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جوعلم وعمل کی راہوں پرچلتی ہیں،جووقت کی نبض پہ ہاتھ رکھتی ہیں،جواپنے ماضی سے سبق سیکھتی اورحال کو تعمیر کرتی ہیں۔میری یہ بات یادرکھیں کہ قومیں مرجاتی ہیں،جب ان کے دلوں میں زندگی کی تمناختم ہوجائے،جب ان کے دماغ سوچنے سے انکارکردیں اوران کی روحیں جمودکاشکارہوجائیں۔لیکن جوقومیں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالناسیکھ لیں تویہ زندگی جوموت ہی کی امانت ہے،وہ سراٹھاکرجینے کاسلیقہ سکھادیتی ہے۔

یہ دنیاایمان،علم اورجہادسے بدلتی ہے،مگرجب امت ان تینوں کوچھوڑدے،تودنیااُسے بدل دیتی ہے۔آج ہمیں ازسرنوتعمیرِامت کابیڑا اٹھاناہوگا۔ یہ کام فردسے شروع ہوگا،دل کی اصلاح سے،نیت کی پاکیزگی سے،کردارکی مضبوطی سے۔یہ ذہن نشین رہے کہ زبان کا حسن قوم کے باطن کاآئینہ ہوتاہے۔آج ہماری زبانوں سے محبت،اتحاداورخیرکی بجائے نفرت،تفرقہ اور تعصب کی بوآتی ہے۔ہمیں اب وہی زبان درکارہے جودلوں کوجوڑ دے،وہی قلم درکارہے جوامت کے خوابوں کوتعبیردے،وہی فکردرکارہے جوزمانے کارخ بدل دے۔پھرمجھے اپنے مرشد اقبال یادآگئے:
دیارعشق میں اپنامقام پیداکر
نیازمانہ نئے صبح وشام پیداکر
میراطریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر
سیاسی بیداری اورقیادت کی اصلاح کیلئے امت کوباشعورووٹربنناہوگا۔ہمیں ایسی قیادت کولاناہوگاجوقرآن سے جڑی،سنت سے روشن،اورامت کی خدمت سے مزین ہو۔وحدتِ امت اور بین الاقوامی شعوراجاگرکرنے کیلئے قومیت،رنگ،نسل،زبان—سب بعد میں،امت پہلے۔ہمیں ایک پرچم تلے جمع ہوناہے، جولاالہ الااللہ کاہے۔
؏ شب تاریک سہی،مگرچراغ جلانالازم ہے
اب جورکے وہ خسارہ،جوبڑھے وہی مقدر

آئیے!ہم ایک ایساانقلاب برپاکریں جوپہلے دلوں کوبدلے،پھرمعاشروں کو،پھردنیاکو۔ایساانقلاب جوعلم سے ہو،عدل سے ہو،اخلاق سے ہو۔ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کوصرف ڈاکٹراور انجینئر بنانے کی فکر نہ کریں،بلکہ انہیں ابنِ سینا،ابنِ رشد،امام غزالی،اورابن تیمیہ جیسابنادیں۔انہیں علم کاپیاسا اورکردارکاپیکربنائیں۔
یادرکھیے!امت کازوال عارضی ہے،مگرشرط یہ ہے کہ ہم خودکوبدلنے کاارادہ کریں۔ قرآن کہتاہے:
(بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتاجب تک وہ خوداپنی حالت نہ بدلے۔)

آئیے ہم اپنے آپ کوبدلیں تاکہ ہماری قوم بدلے۔اوریہ دنیاپھرسے اسلام کی روشنی سے جگمگائے۔آج ہم یہاں صرف خطاب سننے نہیں،بلکہ تاریخ میں اپنے کردارکی تجدیدکیلئےجمع ہیں۔ہمیں خودوہ ابراہیم بنناہوگاجوباطل کے بت توڑے،وہ محمدبن قاسم بنناہوگا جوحق کیلئےسرزمینوں کوتسخیرکرے ، وہ صلاح الدین بنناہوگاجوبیت المقدس کوآزادکرائے،وہ طارق بن زیاد بننا ہوگاجومنزل کے حصول کیلئے اپنی کشتیاں جلاکراپنے لشکرکوپیغام دے کہ موت کے اندرہی وہ زندگی ہے جوفتح کاپیام لیکرآئے۔توآئیے،ہم آج یہ عہدکریں کہ:ہم خودکوبدلیں گے۔ہم قرآن سے جڑیں گے۔ہم علم کو ہتھیاربنائیں گے۔ہم کردارکواپنازیوربنائیں گے۔اورہم امت کوایک بارپھر”خیرامت”بنانے کاعزم کریں گے۔

لہٰذاہمیں اب وہ قوم بنناہے جوقرآن سے وابستہ ہو،سیرت سے روشنی لے،علم سے آشناہو،اخلاق سے مزین ہو،اورکردارمیں ممتاز ہو۔وقت کی یہ صداہمیں پکاررہی ہے:اُٹھو!وہ ابراہیم بنوجو باطل کے ایوانوں میں توحیدکی مشعل روشن کرے۔وہ محمدبن قاسم بنو جوظلم کی سرزمین پرعدل کاپرچم لہرائے۔وہ صلاح الدین بنوجو قبلۂ اول کوآزاد کرائے۔یہ دور،صاحبو،اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے۔کیاہم وہ چراغ جلانے کوتیارہیں؟کیاہم وہ آگ برداشت کرنے کوتیارہیں؟کیاہم اپنی راحت چھوڑکر،امت کادرداپناسکتے ہیں؟اگر جواب ہاں میں ہے تویادرکھو!
؏شبِ تاریک ہے،لیکن چراغ جلاناہوگا
لہوسے اپنے،یہ دیوارِظلم گراناہوگا

پس آئیے،ہرفردایک چراغ بنے۔ہردل میں ایمان کی آگ ہو،ہرہاتھ میں عِلم کاپرچم،اورہرقدم میں کردارکاوزن ہو۔تب جاکرامت کی قسمت بدلے گی،اورہماراکل سنورے گا۔امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کاشکوہ کرنے کے بجائے اب ہمیں اصلاحِ امت کاآغازکرناہوگا۔ ہرفرداپنے حصے کی شمع جلائے۔
شکوۂ ظلمت شب سے توکہیں بہترتھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ہرماں محمدبن قاسم پیداکرے،ہرباپ صلاح الدین ایوبی کی تربیت کرے،ہراستادامام مالک جیسا علم دے،اورہرقائدعمربن خطاب جیساعدل کرے۔ تب جاکرہم کہہ سکیں گے،ہم وہ امت ہیں جسے اللہ نے خیرِامت بنایا،جوامربالمعروف اورنہی عن المنکرکافرض اداکرتی ہے۔خدا کرے کہ وہ دن جلدآئے،جب امتِ مسلمہ کاسورج پھرسے طلوع ہو،اوردنیاایک بارپھراسلام کی روشنی سے جگمگا اٹھے اورامت مسلمہ کی جاری زبوں حالی کاخاتمہ ہو۔آمین
وَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمُ وَرَحْمَةُ اللّهِ وَبَرَكَاتُه
لیکچرفکروعمل کے پلیٹ فارم پر
بروزاتوار13جولائی 2025ء

اپنا تبصرہ بھیجیں