Too Sad To Turn Off The Lamp

بہت اداس تھامنظرچراغ بجھنے کا

:Share

پہلامنظرملاحظہ کیجئے!
یہ16دسمبر1971ءکابڑاہی تکلیف دہ دن ہے،صبح کاوقت ہے،سورج ڈھاکہ ایئرپورٹ کی شکستہ دیواروں سے اوپراٹھ رہا ہے،ہوائی اڈے پرتباہی کاعالم ہے، ٹوٹے ہوئے رن وے پرچندفوجی کھڑے ہیں،آسمان پرایک نقطہ ابھرتاہے،یہ نقطہ پھیلتا پھیلتاہیلی کاپٹرکی شکل اختیارکرلیتاہے،ہیلی کاپٹر ایئرپورٹ کاایک چکر کاٹتاہوارن وے کے ایک محفوظ کونے پرآہستہ سے اترجاتاہے،پنکھے کی ہواسے فوجی وردیاں پھڑپھڑاتی ہیں،دروازہ کھلتا ہے،بھارتی فوجی وردی میں ملبوس ایک سکھ جرنیل باہرنکلتاہے۔رن وے پرکھڑاپاکستانی جرنیل آگے بڑھ کراس کااستقبال فوجی اندازکے سلیوٹ سےکرتاہے،دونوں ایک اعلیٰ لگژری کارکی طرف بڑھتے ہیں جہاں کارکے پچھلے دونوں دروازے کھول کرکھڑے چاک وچوبندفوجی منتظرہیں۔ فوجی بوٹوں کی دھمک کے ساتھ مشینی اندازمیں سلیوٹ کے ساتھ جرنیلوں کوبیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔کاررن وے پردوڑتی ہے اوردوڑتے دوڑتے گردوغبارمیں گم ہوجاتی ہے۔اس کارمیں بھارت کی فاتح فوج کاجرنیل جگجیت سنگھ اروڑا اور پاکستانی فوج کامفتوحہ جرنیل امیرعبداللہ خان نیازی عرف ٹائیگرنیازی سوارہیں۔

اب دوسرامنظرملاحظہ کیجئے!
صبح کے نوبج کردس منٹ ہوئے ہیں۔ڈھاکہ ریس کورس گراؤنڈکے درمیان میں لکڑی کی ایک سادہ سی میزپڑی ہے اورمیز کے گردصرف دو کرسیاں دھری ہیں۔گراؤنڈمیں ہزاروں بنگالی جمع ہیں،بنگالیوں کے آگے پیچھے بھارتی فوج کے سینکڑوں جوان کھڑے ہیں۔کارگراؤنڈمیں داخل ہوتی ہے،عین میزکے سامنے کاررکتی ہے،دوجوان آگے بڑھ کر دروازے کھولتے ہیں، دونوں جرنیل باہرنکلتے ہیں،جونہی سامنے پڑی کرسیوں پربیٹھتے ہیں تودونوں کے سٹاف آفیسرزان کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں،میزپرایک فائل رکھی جاتی ہے،دونوں جنرل باری باری اس فائل کے کھلے صفحے کی تحریرکے آخرپرآمنے سامنے دستخط کرتے ہیں۔ جنرل نیازی کھڑے ہوتے ہیں،ہولسٹرسے اپناپستول نکالتے ہیں خالی کرتے ہیں، گولیاں اورپستول جنرل اروڑاکے حوالے کرتے ہیں۔بھارتی فوج کاایک جوان آگے بڑھتاہے اورجنرل نیازی کے سینے پرلگے سارے تمغے اور کندھوں پرجمے رینکس اتارلیتاہے۔لگژری کارمیں آنے والےجنرل نیازی تھکے قدموں کے ساتھ اپنی جیپ کی طرف بڑھتے ہیں،گراؤنڈ میں ہزاروں بنگالی ان پرگالیوں کی بوچھاڑکردیتے ہیں،وہ چہرہ چھپاتے ہوئے تیزی کے ساتھ جیپ میں پناہ گزیں ہوجاتے ہیں۔بھارتی جوان غضب ناک بنگالیوں کے مجمع سے بچاکرٹائیگرنیازی کی جیپ کواپنی حفاظتی تحویل میں لے کراگلی منزل کوروانہ ہوجاتے ہیں۔فلم ختم ہوجاتی ہے۔

یہ فلم بھارتی ٹیلیویژن نے سینکڑوں مرتبہ اسی طرح دکھائی جس طرح فاسق کمانڈومشرف کے دورمیں ہماراایک ٹیلیویژن چینل پاک بھارت کے درمیان دوستی”آشا اورامن”کی تلاش کیلئے چلاتارہا۔پاکستان میں ایسے صرف دومواقع آئے،ایک موقع 16دسمبرکی شام کوآیاجس کے ساتھ یہ خبرنشرہوئی”دومقامی جرنیلوں نے جنگ بندی کامعاہدہ کرلیااوردوسری باریہ فلم بھٹو نے20دسمبر1971ءکومارشل لاءایڈمنسٹریٹرکاحلف اٹھانے کے بعدچلوائی لیکن آرمی اورعوام کی طرف سے اتناشدید ردِّعمل آیاکہ اس پرتاحیات پابندی لگادی گئی۔

اب تیسرامنظربھی ملاحظہ کیجئے!
20دسمبر1971ءکویحییٰ خان کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عبدالحمیدنیشنل ڈیفنس کالج میں داخل ہوتے ہیں۔جونیئر آفیسرزانہیں دیکھتےہی غصے سے بے قابوہوجاتے ہیں،ان کی آنکھوں میں گویاخون اترآیاہو،انہیں گالیاں دی جاتی ہیں اور وہ بے بسی کے ساتھ ان جونیئر آفیسرزکودیکھتے ہیں اورچپ چاپ ہال سے باہرنکل جاتے ہیں۔

اب چوتھامنظرملاحظہ کیجئے!
دس اپریل1974ءکوٹائیگرنیازی بھارت کی قیدسے چھوٹتے ہیں،واہگہ سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اورچندروزبعد وہ افواجِ پاکستان کے کمانڈرانچیف سے شکوہ کرتے ہیں کہ”میں فوج کالیفٹیننٹ جنرل ہوں،میری گاڑی پرپاکستانی جھنڈانہیں لگایاجاتا،یہ رولزکی خلاف ورزی ہے”!

اب پانچواں منظرملاحظہ کیجئے!
نواگست1980ءکوآغامحمد یحییٰ خان کاتابوت باہرنکلتا ہے،تابوت پرپاکستانی جھنڈالپٹاہے،جنازہ ہوتاہے،تابوت کوسلامی دی جاتی ہے،بینڈبجتاہے اورپورے فوجی اعزازات کے ساتھ انہیں دفن کردجاتاہے!

اب چھٹامنظرملاحظہ کیجئے!
بھٹوصاحب تمام سیاسی جماعتوں کوساتھ ملاکرملک کاایک آئین بناتے ہیں جس میں خودہی اپنے اقتداراوراختیارات کودوام دینےکیلئے کچھ آئینی ترامیم بھی منظورکروا لیتے ہیں۔پوری تحقیق اورتسلی کے بعد چھٹے نمبرکے جونیئرجرنیل ضیاءالحق کوفوج کاکمانڈرانچیف مقررکرتے ہیں اوراسی اسمبلی کے فلورپربڑے تیقن کے ساتھ پاکستان میں فوجی مارشل لاءکوہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کااعلان کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اسی جرنیل کے ہاتھوں نہ صرف اقتدارسے فارغ کردیئے جاتے ہیں بلکہ دنیابھرسے رحم کی درخواستیں موصول ہونے کے باوجوداسی جرنیل کے حکم سے پھانسی کے تختے پر جھول جاتے ہیں۔جنرل ضیاءالحق کے دورِاقتدار میں سرخ ریچھ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان پردھاوابول دیتاہے۔اس کواپنی طاقت کا اس قدرگھمنڈہوتاہے کہ وہ گرم پانیوں تک رسائی کوچنددنوں کاکھیل سمجھتا تھالیکن دنیاکی اس سپرطاقت کواس کی بڑی بھاری قیمت اداکرناپڑی اورافغان مجاہدین اورپاکستان کی بے پناہ قربانیوں سےاسی ملک سے دنیاکی چھ نئی مسلم ریاستیں معرضِ وجودمیں آئیں۔جنرل ضیاءالحق جواس خطے میں ایک نئے اورانتہائی مضبوط اسلامی بلاک کاخواب دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کاطیارہ فضامیں تباہ کردیاجاتاہے اورچنداہم امریکی شخصیات کے ساتھ ساتھ پاک افواج کے کئی جنرل موت کی آغوش میں پہنچادیئے جاتے ہیں اورپاکستاان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک اہم ادارے کواتنے بڑے ناقابل تلافی نقصان سے دوچارکردیاجاتاہے

ساتواں منظرملاحظہ کیجئے!
پاکستان میں یکے بعددیگرے دوسیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہوتی ہیں لیکن کوئی بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پاتی۔ملک کی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن)جودوتہائی اکثریت کے ساتھ ملک میں حکومت کررہی ہوتی ہے،اس کے اپنے ہی مقررکردہ فوجی چیف سے سخت اختلافات شروع ہوجاتے ہیں جس کا جوہری سبب کارگل کی وہ جنگ بتایاجاتاہے جس میں بھارتی سیناکولگے زخم آج تک مندمل نہیں ہوسکے جبکہ نوازشریف حکومت بھارتی بنئے کے ساتھ ایک خوشگوارسیاسی تعلقات بحال کرنے کی شروعات میں مصروف تھی۔سول حکومت کی ملک کے سب سے بڑے دفاعی ادارے کے سربراہ کواچانک تبدیل کرکے اس کے جہازکوسری لنکاسے واپسی پرملک میں اترنے کی اجازت نہ دیکرتین سوزائد مسافروں کی جانوں کوداؤپرلگادیاگیالیکن نوازشریف کی غلط پلاننگ ہی ان کے گلے پڑگئی۔فوج نے اپنے جرنیل کوبچاتے ہوئے اپنی کارکردگی کامظاہرہ کرتے ہوئے ادارے کوبھی کسی بڑی تباہی سے محفوظ کرلیالیکن اس کے جواب میں ایک دفعہ پھرفوجی کمانڈوجنرل پرویزمشرف اوراس کے ساتھی منتخب حکومت کومعزول کردیتے ہیں اورمنتخب حکمرانوں کوجلاوطن کردیا جاتاجاتاہے اورگیارہ سال اس ملک کے نہ صرف تمام اداروں کوتباہ بربادکردیابلکہ اپنے ناجائزاقتدارکودوام بخشنے کیلئے ملک کی خودمختاری کوبھی امریکاکےہاتھوں فروخت کردیتاہے۔اس ملک کے ہزاروں بیٹوں اوربیٹیوں کوعافیہ بیٹی کے ہمراہ ڈالروں کے عوض امریکاکے ہاتھ فروخت کردیاجاتاہے اوراسی ترقی یافتہ دورمیں افغان سفیرملاضعیف کو بھی قصر سفیدکے فرعون کی سپاہ کے حوالے کردیاجاتاہے جواسے گھسیٹ کرپہلے سے منتظراپنے جہاز میں لادکراپنی منزل کوروانہ ہوجاتاہے اورتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی غیرملکی سفیروں کوہرقسم کی امان کاحق حاصل ہوتاتھالیکن اقتدارکے اندھے جوش نے ان تمام روایات کواپنے پاؤں تلے روند کرایک بدترین مثال قائم کرنے کاآغازکردیتے ہیں۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے آخری وقت تک اپنے اقتدارکودوام کی سازشیں کرنے والابالآخر اقتدارکی انہی غلام گردشوں کاشکار ہوکراپنےانہی مخالفین جن کے بارے میں کئی باراعلان کرچکاہوتاہےکہ یہ جلاوطن کبھی بھی ملک میں واپس نہیں آسکتے۔

این آراوکی سہولت کے بعدتمام جلاوطن انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے جونہی وطن عزیزمیں اپنے استقبالی جلوس میں ایک خوفناک خودکش حملے میں اس کے سینکڑوں جیالے راہ عدم کاشکارہوگئے اورمعاملہ یہی نہیں رکابلکہ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کی واپسی پراپنے استقبال کیلئے آنے والوں کا شکریہ اداکرنے کیلئے جونہی گاڑی سے سرباہرنکالا،عین اسی وقت ایک خود کش حملے کے ساتھ ہی ایک سنسناتی گولی کاشکارہوکرخون میں لت پت ہسپتال توپہنچائی جاتی ہیں لیکن اس وقت بہت تاخیرہوچکی ہوتی ہے اوروہ اپنی جان دیکراپنی پارٹی کونئی زندگی عطاکر گئیں لیکن اس کے حامیوں کے ساتھ شرپسندوں نے اربوں روپے کی ملکی املاک کوجلاکرخاکسترکردیالیکن اللہ کاشکرہے کہ ملک ٹوٹنے سے بچ گیااور محترمہ بے نظیربھٹوکی سفاکانہ موت کے بعدعوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے بعدان کی جماعت ملک کے انتخاب میں اکثریت حاصل کرنے کے بعدمرکزکے علاوہ ماسوائے پنجاب کے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔جس کے بعددوبڑی سیاسی جماعتوں نے مشترکہ گٹھ جوڑسے کمانڈومشرف کابسترگول کرنے کاکامیاب منصوبہ بناتے ہوئے اسے مسنداقتدارسے فارغ کردیااورخوداپنے ہاتھوں سے ان سب کوسنگین ترین مقدمات میں منحوس”این آراو”دینے کے باوجود آخری گارڈ آف آنرکے بعدملک سے رخصت ہوجاتاہے اوراس ملک کوان کے حوالے کردیتاہے جن کے خلاف ملک کی اعلیٰ عدالت میں کرپشن کے کئی مقدمات زیرِسماعت تھے۔لیکن افسوس تواس بات کاہے کہ بظاہرجمہوری حکومت کادعویٰ کرنے والے کمانڈومشرف سے کہیں زیادہ شاہ کے وفادارنکلے اورملک کوہزاروں میل دورسے ظالم امریکاکی مکمل کالونی بنانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔

اب آٹھواں منظرملاحظہ کیجئے!
پاکستان کی سات دہائیوں پرمحیط تاریخ مختلف حادثات وسانحات سے بھری پڑی ہے تاہم کچھ واقعات ایسی بھی ہیں جو ہم شایدکبھی بھلانہ پائیں۔ پشاور کی سڑکوں پرچیختی چنگھاڑتی سائرن بجاتی ایمبولنسوں کااژدہام جہاں قیامت صغریٰ کاسماں پیش کررہاہے وہاں پوری قوم بلکہ پوری دنیاغم واندوہ اور شدیدصدمے اور سکتے کی حالت میں گم صم اپنے رب کے حضور گڑگڑاکر رحم وکرم کی فریادکررہی ہے۔یہ دلدوزخبرسنتے ہی ننگے سراور پاؤں ماں باپ اپنے پیاروں معصوموں کودیوانوں کی طرح ڈھونڈنے کے لئے سڑکوں پر دوڑرہے ہیں کہ وہ آنے والی قیامت صغری ٰکواپنے سینے پرروک کر اپنے بچوں کو بچالیں۔

ہرسال16دسمبراپنی دلخراش یادوں سے ہم دل جلوں کواشکبارکرنے کیلئے کیاکم تھاکہ ایک اورقیامت صغریٰ نے بھی اس میں اپناایساحصہ ڈال دیاکہ زندگی بھراس دردکی ٹیسیں ہمیں تڑپاتی رہیں گی کہ پھولوں کے شہرپشاورمیں پھولوں کومسل کررکھ دیاگیا ،وہ جواپنے ہاتھوں میں قلم اور کتاب تھامے اپنے نبیﷺکے احکام کی تعمیل میں علم حاصل کررہے تھے،ان کواتنی بھی مہلت نہ ملی کہ اپنی ماں سے یہ کہہ سکیں کہ دیکھ اماں! میرے لباس پراس لہورنگ روشنائی ہم سب کی عقبیٰ وآخرت کی نجات کاوسیلہ بن گئی ہے۔دل دردسے پھٹتاجارہاہے بلکہ دردجیسالفظ بھی ماتم کررہاہے،ایک ایسازخم ہے جس کامداواہوتا نظر نہیں آتا،جسم تھرتھرا رہاہے،ہاتھوں کی لرزش اورکپکپاہٹ نے دماغ کوماؤف کردیاہے۔وہ تمام مناظرمیراتعاقب کررہے ہیں۔ قیامت خیزمناظر،ماؤں کی چیخ وپکار،اسکول کی دیواروں کے باہرکسی اچھی خبرکے منتظر اور بے چین باپ دکھائی دے رہے ہیں۔کیاکروں میرابراحال ہوگیاہے،سانس لینا مشکل ہوتاجارہاہے۔پھرسوچتاہوں ہزاروں میل دوربیٹھے مجھ جیسے لوگوں کایہ حال ہے توان کادردکیاہوگاجن کے گھروں کے یہ معصوم چراغ اس بیدردی سے بجھادیئے گئے ۔ مجھے وہ قیامت خیزمنظربھی یادہے۔پشاورمیں واقع آرمی پبلک اسکول(اے پی ایس)پرکالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے حملہ کردیااوروہاں موجودطلبہ اوراساتذہ کونہ صرف یرغمال بنایابلکہ ان پر فائرنگ کرکے طلبہ سمیت140سے زائدافرادکو شہیدکر دیا۔پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی تڑپ اٹھا:”دشمن نے یہ حملہ میرے قلب پرکیاہے،ان سب کوواصل جہنم کرناضروری ہوگیا ہے”۔

پشاورکے معصوم شہدا نے اپنے خونِ دل اورجان سے پائے رسول ﷺکے نقوش کوایسااجاگرکیاکہ ہرکسی کواب اپنی منزل آسان دکھائی دے رہی ہے۔ان نونہالوں کی للہیت،اخلاص نیت اوربے لوث ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبورکرلئے ہیں جس کی تمناانبیاء،اصحابہ اورصالحین نے ہمیشہ کی۔ان معصوم عظیم شہدا کاخون پاکستان کی ان بنیادوں میں جاکراپنے آباؤ اجدادمیں جاکرجذب ہوگیاہے جنہوں نے اس ملک کوکلمہ کی بنیادپروجود میں لانے کیلئے اپنی جانیں قربان کی تھیں اورمیرا وجدان،ایقان اورایمان اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ ان کی قربانیاں اب تاقیامت تک کفر وگمراہی کے ان تاریک جزیروں پر ایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اورکوندتی رہے گی جنہوں نے یہ ناپاک منصوبہ تیار کیا۔ملک میں جاری دھرناختم کردیاگیااور”ضرب عضب”آپریشن کابھرپور آغازکردیاگیاجس کاتسلسل”ردّالفساد”جاری وساری ہے اوراللہ کاشکرہے کہ آئے دن دہماکوں سے ملک کونجات مل گئی ہے۔

اب 9واں منظرملاحظہ کیجئے:
اچانک ایک عالمی سازش کے تحت بین الاقوامی میڈیامیں پاناماکاایساشوراٹھتاہے جس میں درجنوں ممالک کے افرادکے بھاری بھرکم ان خفیہ اکا ؤ نٹس کابھانڈہ بیچ بازارمیں پھوڑدیاجاتاہے جس میں پاکستان کے349/افرادکے نام بھی لئے گئے اور سب سے بڑانام ملک کے وزیراعظم نواز شریف کا تھا جن کے خلاف عدالتی کاروائی کاآغازکردیاگیا۔ایک بھرپورتحقیق کے بعد بظاہرانہیں اپنے بیٹے کی کمپنی میں تنخواۃ ڈکلئیرنہ کرنے کی پاداش میں گھر جانا پڑگیالیکن کچھ دیگر کرپشن کےمقدمات میں انہیں بھاری جرمانے کے ساتھ قیدوبندکی سزائیں سنادی گئیں۔موصوف جیل کی صعوبتیں برداشت نہ کرپائے اوربعدازاں ایک خطرناک جان لیوابیماری کے علاج کیلئے برطانیہ اپنے بیش بہاقیمتی محل میں جابسے اوراب قوم کے دردمیں دنیاکے مختلف ممالک کے تفریحی دوروں پرہیں جبکہ ملک کیلئے معاشی بدحالی اورسیاسی ابتری کی بناءپر سانس لینابھی محال ہوچکاہے اور ایٹمی صلاحیت کاملک دیوالیہ کی حدوں کوچھورہاہے۔

اب10واں منظرملاحظہ کیجئے:
عالمی منظرنامے میں پاکستان اس مقام پرکھڑاہے جہاں دہشتگردی کی طویل اورکٹھن جنگ سے نبردآزماہے۔سترہزارسے زائدپاکستانیوں کی جانوں کی قربانی دینے اورکامیابی سے دشمن کواپنے ملک سے ماربھگانے کے بعداب گوادراورسی پیک کے ذریعے اس خطے کوپوری دنیاکامرکزو محوربناچکا ہے ۔عالمی طاقتیں جہاں گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنےاور پاکستان کے راستے اپنے لئے راہداری حاصل کرنے کی متمنی ہیں،وہیں پاکستان کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ مستقبل کی اس ریجنل پاورکوکیسے ایک مرتبہ پھرپیچھے دھکیل کراپنے لئے جگہ بنائی جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ایک مرتبہ پھرسرجیکل اسٹرائیک کاڈرامہ کھیلالیکن جواب میں منہ کی کھانی پڑی اورعالمی رسوائی اورجگ ہنسائی کے سواکچھ حاصل نہ ہوا۔

ساڑھے تین سال کی حکومت جن بسیاکھیوں پرچل رہی تھی،انہوں نے مزیدسہارادینے سے انکارکردیااوراپوزیشن نے آئینی عدم اتحادتحریک کے ذریعے ان کوگھر بھیج کراقتدارخودسنبھال لیا۔جب سے یہ تبدیلی آئی ہے،ملک میں عجیب قسم کافساد جاری ہے اورملک کی معاشی طورپرچولیں ہلادی گئیں ہیں لیکن ملک کی سلامتی کیلئے عوام بے حدپریشان ہے۔

اب 11واں منظرملاحظہ کیجئے !
میں اپنے پوتے کے سامنے دنیاکانقشہ بچھائے بیٹھاہوں۔میں پانیوں میں گھرے ایک جزیرے کے اردگردپنسل پھیرتا ہوں،پنسل گھماتاہواکراچی کے ساحل پرلاکرکہتاہوں”بنگلہ دیش اکیاون(51) سال پہلے پاکستان کا حصہ تھا،پاکستان شروع ہی یہاں سے ہوتاتھا۔ دراصل قیام پاکستان کے بعدمحمدعلی جناح جلدہی ہم سے رخصت ہوگئے۔ان کی رخصتی کے آخری لمحات میں ان کی شکستہ ایمبولینس کراچی کی سڑک پرخراب کھڑی رہی اورکسی کویہ علم نہ ہوسکاکہ اس میں بانی پاکستان اپنی بہن کے ساتھ آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ان کے ساتھی لیاقت علی خان کوایک سازش کے تحت راولپنڈی کے اجتماع میں گولی مار کر شہید کردیاگیااورقاتل اکبرخان کووہی گولی مارکرقصہ تمام کردیاگیااورگولی مارنے والاپولیس افسرنجیب خان کوعہدہ پرترقی دے دی گئی۔اس عمل کے بعدیہ عقدہ آج تک نہیں کھلاکہ اس سازش کے پس پردہ کون سے چہرے تھے۔

ایک بیوریو کریٹ غلام محمد کوگورنرجنرل بناکرکچھ عرصے کیلئے خواجہ ناظم الدین کووزیراعظم کاقلمدان سونپ دیااوران کوجلدہٹاکرمحمدعلی بوگرہ کووزیر اعظم بناکراقتداراعلیٰ سے بنگال کی نمائندگی ختم کردی گئی جہاں سے مایوسی میں اضافہ ہوالیکن 1956ءکے آئین سے بنگالیوں کی خوشی اس وقت کافورہوگئی جب 1958ءمیں مارشل لاءنے بنگال کی سیاسی قوتوں کوپھر سے مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا۔فوج کے سینئررینکنگ میں صرف دو بنگالی افسرتھے جن میں ایک کرنل اورایک میجر جنرل تھالہذا بنگالی یہ سوچنے پرمجبورہوگئے کہ فوجی حکومت کی موجودگی میں اقتدار تک ہماری کبھی رسائی نہیں ہوسکتی۔اس پر مستزادون یونٹ کے قیام کااعلان کرکے آبادی کے تناسب کوختم کرنے کیلئے مشرقی پاکستان کے56% ووٹوں کو44 % کے برابرقرار دےدیاگیاجس کے بعدمغربی پاکستان کی نوکرشاہی نے سول اورملٹری بیوروکریسی سے ساز بازکرکے قومی اداروں پراپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے ہرضلع کاڈی سی اورایس پی مغربی پاکستان سے مقررکرنا شروع کردیا۔یہی وجہ ہے جب ایوب خان کے خلاف مادرِملت فاطمہ جناح انتخابی میدان میں اتریں تومشرقی پاکستان کی جمہوری قوتیں اورعوام آپ کے ساتھ کھڑی ہوگئی لیکن ایوب شاہی الیکشن میں جعلی نتائج جاری کرکے محترمہ کوہرادیا جومشرقی پاکستان کی جمہوری قوتوں اورعوام کیلئےبہت بڑادھچکاتھا۔بنگالی سپیکرقومی اسمبلی مولوی تمیزالدین کے ساتھ ہتک آمیزسلوک دوسرا دھچکا تھا۔

1965ءکی جنگ میں ساری قوت مغربی محاذپرمامورکرنے کی وجہ مغربی محاذسے مشرقی پاکستان کادفاع قراردیاگیالیکن اس حکمت عملی نے بنگالی عدم تحفظ کاشکار ہوگئے۔ان حالات کاہمسایہ دشمن نے بھرپورفائدہ اٹھانے کیلئے ایک منظم سازش کے تحت 95%ہندوبنگالی ہندواساتذہ کے ذریعے دوقومی نظریہ کونابودکرنے کیلئے غلط پروپیگنڈے سےنئی نسل کومغربی پاکستان کومشرقی پاکستان کی دولت لوٹنے اورشدیدغربت کاذمہ دارقراردیتے ہوئےان کے جذبات کوخوب بھڑکاتے ہوئے دل میں دراڑیں پیداکردیں جس کافائدہ اگرتلہ سازش کیس میں ملوث شیخ مجیب الرحمان انہیں اپنا مسیحا نظرآیا۔

ان حالات میں ملک کی تمام اپوزیشن نے ایوب خان کے خلاف ایک تحریک شروع کردی گئی اوراپوزیشن نے شیخ مجیب الرحمان کورہائی دلوادی جبکہ اس پر مضبوط شواہد کی بناء پرمقدمہ چل رہاتھا۔مذاکرات کے کئی ناکام ادوارکے بعد1969ء میں ایوب خان نے بیماری کی وجہ سے صدارت چھوڑتے ہوئے غیرقانونی طورپراقتدارایک دوسرے جرنیل کومنتقل کردیا جبکہ قانون کے مطابق قائم مقام صدرکیلئے اسپیکرکویہ منصب سنبھالنا تھالیکن بنگالی سپیکر کی وجہ سے ایسانہ کیاگیاہو ۔ان حالات کافائدہ اٹھاتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے چھ نکات کی بنیادپرمشرقی پاکستان میں مکمل اکثریت حاصل کرلی لیکن مغربی پاکستان میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والے بھٹونے”ادھرتم ادھرہم”کانعرہ لگاکران کی اکثریت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔اس کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی اور”کشورِحسین، شاد باد ” دولخت ہوگیا۔

اب آخری 12واں منظرملاحظہ کیجئے !
اس آخری دردناک منظرنامے کوملاحظہ کرنےکیلئے اپنے دل پرہاتھ رکھناہوگا۔میری آوازکی ارتعاش کے بعدمیرے پوتے کی آنکھوں میں حیرت امڈ آتی ہے۔ وہ تھوڑی دیرسوچتاہے اورپھرمیری حالت کودیکھ کرگھبراکرنہائت معصومیت سے پوچھتا ہے”کیا ان لوگوں کوکوئی سزادی گئی؟”میں اپنے پوتے کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتاہوں،میں اس کے کانوں پرجھکتا ہوں اور اسے پیارسے کہتاہوں”نہیں بیٹا،وسیع ترقومی مفادنے ہمارے ہاتھ روک لئے تھے “میرا پوتامیراہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتاہے لیکن میں اپنی گرفت مضبوط کرلیتاہوں۔میں جانتاہوں میں اس کے مزید سوالوں کا جواب نہیں دے سکوں گالیکن یہ منظریہ 12واں منظرمیرے حافظے سے چپک کررہ جاتاہے اورمیں باربارسوچتاہوں یہ ہاتھ اس بچے کے منہ پر کب تک رہے گا، جب اس کے بازوؤں میں طاقت آجائے گی،جب یہ بڑی آسانی سے میرا ہاتھ جھٹک دے گا،جب اس کے سارے سوال بول پڑیں گے تواس وقت میراردِّعمل کیاہوگا،اس وقت میں کہاں جاؤں گا،اس وقت میرے پاس کیاجواب ہوگا۔

میں سوچتا ہوں کاش!اس بچے کے بڑے ہونے سے پہلے میں دنیاکے سارے نقشے جلاسکوں،میں تاریخ کی ساری کتابیں دریابرد کرسکوں،میں وقت کو،تاریخ کو،حالات کواورساری حقیقتوں کونئے نام،نئے لفظ دے سکوں،میں شکست کوفتح میں تبدیل کرسکوں،میں اپنی بزدلی،اپنی خاموشی کو نظریئے کی شکل دے سکوں ، میں اپنے آپ کو مطمئن کرسکوں،کاش اے کاش!
بہت اداس تھامنظرچراغ بجھنے کا
لپٹ کے رودیا،میں بھی ہواکے جھونکے سے

اپنا تبصرہ بھیجیں