ایساہوتاآرہاہے کہ سب فلسفے دھرے رہ جاتے ہیں،دلیلیں منہ تکتی رہ جاتی ہیں،پندونصائح بے اثرہوجاتے ہیں،زور خطابت دم توڑدیتاہے،اہل منبرومحراب دنگ رہ جاتے ہیں…….. جبے،عمامے اپنی شان وشوکت کھوبیٹھتے ہیں، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کرروئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگتے ہیں،زمین تھرتھرانے لگتی ہے،ساری حکمتیں ناکارہ اورسارے منصوبے نابودہو جاتے ہیں، ذلیل دنیاکے چاہنے والے دم دباکربھاگ کھڑے ہوتے ہیں،اہل حشمت وشوکت منہ چھپانےلگتے ہیں،محلات بھوت بنگلے بن جاتے ہیں،منظربدل جاتاہے،موسم بدلنےلگتاہے،آسمان حیرانی سے تکتاہے،شجرمیں بیٹھے ہوئے پرندے اورجنگل میں رہنے والے درندے راستہ چھوڑدیتے ہیں۔جب دیوانے رقص کرتے ہیں،جنوں اپنے گریباں کاعلم بن کرنکل پڑتاہے،پھرعقل خودپر شرمندہ ہوتی ہے،جب عشق اپنی جولانی پرآتاہے،نعرہ مستانہ بلندسے بلندتراوررقص بسمل تیزسے تیزتر ہوتا چلاجاتاہے۔جب موت کی تلاش میں نکلتی ہے زندگی۔سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہوتاہےلیکن……. لیکن ہمیں نظرنہیں آتا،آئے بھی کیسے!ان دیدوں میں بینائی کہاں ہے ، روشنی کہاں ہے؟روشنی اوربینائی تواندرسے پھوٹتی ہے،جی……..اندرسے،دل سے …..اورجسے ہم دل سمجھ بیٹھے ہیں،وہ توصرف خون سپلائی کرنے کاایک پمپ بن کررہ گیاہے،دل کہاں ہے؟نہیں یہ دل نہیں ہے بس ایک آلہ ہے۔جن کے دل دھڑکتے ہیں وہ زمانے سے آگے چلتے ہیں۔ نعرہ مستانہ لگاتے،سربکف میدان میں اترتے ہیں ۔ موت کو للکارتے ہیں اورموت ان سے خائف ہوکر کہیں چھپ کربیٹھ جاتی ہے۔یہ دیوانے اورپاگل لوگ موت کوموت کے گھاٹ اتارنےنکلتے ہیں اوریہ زندہ جاویدلوگ پھرجاکر زندہ جاوید ہوجاتے ہیں!
پھرمیرارب جلال میں آتاہے اورحکم دیتاہے”اورجواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مراہوانہ کہو، لیکن وہ توزندہ ہیں لیکن تمہیں اس کاشعورنہیں۔اورہم تمہیں کچھ خوف اوربھوک اورمالوں اورجانوں اورپھلوں کے نقصان سے ضرورآزمائیں گے،اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لو ٹ کر جانے والے ہیں۔”(سورة البقرہ :154۔156)
یہ ہیں زندہ جاویداورامرلوگ،جنہیں رب بھی مردہ کہنے سے منع کرتاہے،وہ توکہتاہے کہ ایساخیال بھی دل میں مت لاؤ، خبردارجوایساسوچا بھی! زندہ ہیں،امرہیں،رزق پاتے ہیں،زندہ جاویدلوگ…….امرلوگ،رب کے حضوراپنی نذرپوری کردینے والے،اپناعہدنبھانے والے،صلہ و ستائش سے بے پرواہ لوگ،پاگل ودیوانے لوگ۔کہاں نہیں برپایہ معرکہ عشق ومحبت؟کہاں نہیں برپا؟رؤئے ارض پرچاروں طرف سجاہواہے یہ میلہ……اورمیلہ لوٹنے والے دیوانے،ہم صرف تماشائی،نوحہ گراورمرثیہ خواں۔ اب گنواؤں توتکرارہوگی اورطبع نازک پرگراں گزرے گا۔ یہ توسامنے برپاہے معرکہ عشق۔کیایہ کشمیرمیں نہیں دیکھ رہے آپ،مسلسل جل رہاہے،ہرجگہ اپنے کمیں گاہوں سے تیربرس رہے ہیں، لیکن یہ پھربھی پروانہ واراپنی جانوں کوسربازار لٹاتے جارہے ہیں!
انہیں کہتے ہیں انسان، بندہ رب،سب کاانکارکردینے والے پراسراربندے، موت کوسینے سے لگاکرزندہ جاویدہوجانے والے،اپنا خون اپنی جان، اپنے پیارے رب کی نذرکردینے والے قافلہ حسین کے لوگ!اہل غزہ!تم پرسلام ہو،تم نے اطاعت کی ایک مثال قائم کر دی،یہ ہے اطاعت رب میں جاں سے گزرنا،تم نے ثابت کر دیا تم ہو بندگاں خدا….. اہل کشمیرتم پرسلام ہو،ہم سب دیکھتے رہ گئےاورتم اپنی مرادپاگئے،اے بامرادلوگو!تم پرسلام ہو،اے خوش نصیب لوگو!تم پرسلام ہو۔ اے اس دنیائے ناپائیدار کوٹھوکرمارنے والو!تم پرسلام ہو،آنکھیں کھولو……. آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والو! آنکھیں کھولو،یہ دیکھودل کش منظر،سونگھواس خوشبوکو،جوخوشبوئے شہداءہے۔دیکھویہ ہے زندگی……سب کاانکار، کوئی نہیں روک سکتا اس قافلہ حق کو۔اقوام متحدہ،اوآئی سی اورانسانیت کے علمبرداروں اورسامراج کے ایجنٹ لکھاریوں کے منہ پر تھوک دینے والو!تم پرسلام ہو۔
کچھ عقل سے عاری تمہاری ان قربانیوں کوپہچان نہیں پائے کہ اللہ نے ان سے دیکھنے اورسمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔”اللہ نے ان کے دلوں پرمہرلگادی ہے اوران کی آنکھوں پرپردہ ہے اوران کیلئے بڑاعذاب ہےاورکچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور قیامت کے دن پرایمان لائے حالانکہ وہ ایمان دارنہیں ہیں۔(البقرہ:7۔8)۔
حالانکہ اللہ نے توقلم کی بھی قسم کھائی ہے لیکن شائدوہ اس قلم کی حرمت سے ابھی واقف نہیں۔وہ اس بات کو لکھنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ تمہاری قربانی محض ضائع ہوگئی لیکن کمال آفریں ہے تم پرکہ تم ایسے لکھاریوں کو خاطر میں نہیں لائے!!!
کیاآپ جانتے ہیں،کبھی سوچاہے،ہاتھی گھاس کاگٹھااپنی سونڈمیں پکڑکرجھٹکتاکیوں ہے؟اس لئے کہ کہیں اس گھاس میں چیونٹی نہ ہو۔وہ جانتاہے کہ اگروہ چیونٹی کونگل لے تووہ اس کے دماغ میں جاکربیٹھ جاتی ہے اوراپناننھاساپاؤں مارتی رہتی ہے اور بالآخرہاتھی دم توڑدیتاہے۔کشمیرکے شیروں کوسفاک ہندونے چیونٹی سمجھ کرمسلناچاہتاہے لیکن یہ چیونٹی ان کے ہاتھی جیسے جثے کونابودکردے گی۔ہاں!یہ بات اب ہندوکوسمجھ آگئی ہے،ہمیں اب تک سمجھ نہیں آئی۔مزاحمت ہی میں ہے زندگی……باوقاروقابل رشک زندگی۔
سرینگرکا باسی محمود اپنے سات ماہ کے شیرخواربچے کواپنے سینے سے الگ کرکے جب لحد میں اتاررہا تھاتوتکبیربلند کرتے ہوئے اپنے رب سے کہہ رہا تھا کہ یہ آخری پونجی تھی جوتیرے راستے میں قربان ہو گئی۔تیری دی ہوئی نعمت سے سات ماہ استفادہ کیااوراے میرے رب اس کومیرازادراہ بنادے ۔ پلوامہ کی بوڑھی اسی سالہ فاطمہ اس بات پرفخرکررہی ہے کہ میں نے اپنے خاندان کے تمام افراد راستے کے کانٹے چننے کیلئے رخصت کردیئے اور میں بھی اب تیری ملاقات کیلئے بے تاب ہوں۔ احمدیہ کہتاہے کہ میں اپنے بچوں کوہرروزرات کویہ کہانی سناتاہوں کہ ہم مرنے والے نہیں ہیں ، ایک عارضی زندگی کے چنگل سے نکل کردائمی اورکامیاب زندگی ہماراانتظارکررہی ہے۔جب بھی میرے گھرکے اردگرد کوئی گولی چلتی ہے، میں ناچنا شروع کردیتاہوں۔میری ایک ہی بچی جوکشمیرمیں جاری تباہ کاریوں سے ابھی تک بچی ہوئی ہے وہ بھی اس کو ایک کھیل تماشہ سمجھ کرلطف اندوز ہوتی ہے۔موت کوکھیل تماشہ سمجھنے والو!تم پرسلام ہو۔تم نےاپنے عزم سے ثابت کردیا کہ تمہارے پائے اسقلال میں کوئی جنبش نہیں آئی۔تم آج بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح سامنے کھڑے موت کامسکراتے ہوئے انتظارکررہے ہو۔اس گھڑی جب سب کوحاضرہوناہے،تم بھی اپنے خون آغشتہ لاشوں سے حاضرکئے جاؤگے تمہاری فلاح اورکامیابی کااعلان جب فرشتے باآوازبلند کریں گےلیکن تمہارے قاتل کومیڈل سے نوازنے والے آخرت میں تم سے منہ چھپاتے پھریں گے۔یقیناًمیرا رب اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے
اے دنیا کے اسیرو!دنیائے ذلیل کی چاہت میں خوار ہو نے والو!اے ستاون ریاستوں کے مردود حکمرانو،بے غیرتی کے مجسم پتھروں،دیکھو یہ ہے زندگی۔اہل کشمیرتم پرسلام ہو۔وہ دیکھوشہداءکے خون سے پھوٹنے والی سحر۔دیکھو،آنکھیں چرانے سے یہ انقلاب نہیں رکتا۔اپنے محلات بچانے کی آخری کوشش کرلو……نہیں بچیں گے یہ! رب کعبہ کی قسم ،کچھ بھی نہیں بچے گا۔
دنیاکی سب سے بڑی جیل میں رہنے والو!تم پر سلام ہو۔اے دنیا کے پرستارو!بچا سکتے ہوتوبچا لو۔کچھ نہیں بچے گاکوئی بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گا میرے رب کا جو حیی قیوم ہے۔