انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کے دعویدارتمام مغربی ممالک اوراوران سب کاباپ امریکاطاقت کے نشے میں چوربھرپورسفاکی کے ساتھ انسان دشمن اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اورغزہ کو انتہائی بہیمیت کے ساتھ بچوں،عورتوں اور عام شہریوں سمیت، ہسپتالوں اورغزہ کوکھنڈربنادیاگیاہے۔امریکا اوراس کے تمام اتحادیوں کاایک ہی بیانیہ کہ اسرائیل کواپنے دفاع کاحق حاصل ہے ۔یہ سوال کوئی نہیں اٹھارہاکہ جائزحق دار فلسطینیوں کے حقوق کیاہیں؟ہم اسرائیل اورفلسطین میں تشددکانوٹس صرف اس وقت کیوں لیتے ہیں جب فلسطینیوں کے داغے ہوئے راکٹ اسرائیل میں گررہے ہوتے ہیں؟ہمیں یہ بات سمجھناہوگی کہ اگراسرائیل کی طرف داغے جانے والے حماس کے راکٹ ناقابل قبول ہیں توپھرآج کایہ سنگین تنازع ان راکٹس سے پیدانہیں ہوا۔
دورنہ جائیں،گزشتہ برس2022ء کاسال آخری سانسیں لے رہاتھااوربین الاقوامی میڈیاکے مطابق اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں صرف مقبوضہ غربِ اردن میں250سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوگئے۔حقوقِ انسانی کی تنظیمیں مکمل شواہدکے ساتھ اسرائیل پرطاقت کے غیرمتناسب استعمال کاالزام لگاتی رہیں۔بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں کئی فلسطینی خاندان ایک مدت سے جبری نکالے جانے کے خطرے سے دوچارحالت میں جی رہے تھے۔ایک ایسا قانونی نظام وضع کرکے نافذ کردیاگیاجس میں انہیں جبراًبے گھرکرناممکن بنادیاگیا۔چندہفتوں کے دوران انتہاپسند یہودی آباد گاروں نے ان فلسطینیوں کوبے گھر کرنے سے متعلق اپنی کوششیں تیزکردی اورالمیہ یہ کہ صدیوں سے مقیم فلسطینیوں کوان کی زمینوں یاعلاقوں سے بے دخل کرنے کایہ عمل سیاسی اورمعاشی دباؤکے ایک بڑے نظام کامحض ایک حصہ قراردیکرانہیں دربدرکردیاگیا۔ہم ایک مدت سے دریائے اردن کے مغربی کنارے اورمشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی آبادگاروں کے قبضے اورغزہ کی اقتصادی ناکہ بندی دیکھتے آئے ہیں،جس نے فلسطینیوں کیلئے حالات کوناقابلِ برداشت بنایاہے۔غزہ کی آبادی کم وبیش بیس لاکھ ہے اوروہاں70فیصد نوجوان بے روزگارہیں۔ان میں مستقبل کے حوالے سے قطعاًکوئی واضح امیدبھی باقی نہیں رہی۔
ساتھ ہی ساتھ ہمیشہ کی طرح ہریہودی حکومت کواسرائیل میں آبادفلسطینیوں کیلئے بہترمستقبل کے امکانات کوکم سے کم کرنے اورانہیں زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کرتے دیکھاہے ۔ نیتن یاہوکی حکومت نے فلسطینیوں کے علاقوں پرقبضہ کرکے وہاں یہودیوں کوآباد کرنے کی پالیسی پرعمل جاری رکھااوراب دوریاستوں والاحل اب کم و بیش ناممکن ہوکررہ گیاہے۔ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کے تحت اسرائیل کے یہودی اورغیریہودی شہریوں کے درمیان بہت واضح خطِ امتیازکِھنچ گیاہے۔
کیاان تمام حقائق سے حماس کے حملوں کوجوازنہیں ملتا؟حماس نے(مقبوضہ)بیت المقدس میں پائی جانےوالی بےچینی اوربدعنوان ،ناکام فلسطینی اتھارٹی کی ناکامیوں سے بھی فلسطینی نوجوانوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔اسرائیل میں ایک عشرے سے بھی زائدمدت میں انتہائی دائیں بازوکی حکومت کی قیادت میں عدم رواداری اورمطلق العنانیت پرمبنی نسل پرست قوم پرستی کو فروغ دینے کیلئے مجرمانہ کام کیاگیا۔اقتدارکوطول دینے اور کرپشن پرمحاسبے سے بچنے کیلئے نیتن یاہونے اتماربین گوِراور اس کی انتہاپسندجیوئش پاورپارٹی کوجائزحیثیت دینے کی بھرپورکوشش کی۔انہیں حکومت کاحصہ بنایاگیا۔یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جن نسل پرستوں نے(مقبوضہ)بیت المقدس کی سڑکوں پرٹولوں کی شکل میں فلسطینیوں کوقتل کیاوہ آج اسرائیل کی پارلیمان میں بیٹھے ہیں۔
یہ خطرناک رجحانات اسرائیل کے حوالے سے کسی بھی طورمنفردیاحیرت انگیزنہیں۔ یورپ ،ایشیا،جنوبی امریکااورامریکامیں، مطلق العنان قومی تحریکوں کوتیزی سے ابھرنے اور مقبولیت پانے کی تاریخ سے کسی نہیں کچھ نہیں سیکھا۔یہ تحریکیں بہت سوں کیلئے خوشحالی انصاف اور امن یقینی بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے نسلی اورلسانی بنیادپرپائی جانے والی نفرت کوبروئے کارلاکرچندایک کیلئے اقتداراورکرپشن کی راہ ہموارکی ہے۔ساتھ ہی ساتھ ان دنوں سیاسی کارکنوں کی ایک ایسی نسل بھی ابھرتی دیکھ رہے ہیں جوانسانی ضرورتوں اورسیاسی مساوات کی بنیاد پرمعاشروں کی تعمیرچاہتی ہیں ۔جس کی ایک مثال امریکاکی سڑکوں پرجارج فلائڈکے قتل کے بعدایسے بہت سے کارکنوں کواحتجاج کرتے ہوئے دیکھاگیا۔اب یہ کارکن ہمیں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
جوبائیڈن سے اقوام عالم کویہ توقع تھی کہ دنیاکے حوالے سے انصاف اورجمہوریت پرمبنی طرزِفکروعمل اپنایاجائے گا۔سیاسی معاملات اورمظلوم اقوام کوانصاف دلانے کیلئےامریکاسےہرمحاذپر کلیدی اورقائدانہ کرداراداکرنے کی توقعات تھیں۔امریکاسے تنازعات کے خاتمے کی راہ ہموارکرتے ہوئے اشتراکِ عمل اورمعاونت کی راہ ہموار کرنے کی امیدتھی لیکن حالیہ فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں ان کے بیانات اورواضح جارحانہ عمل نے بڑا مایوس کیاہے۔امریکااسرائیل کوہرسال چارارب ڈالرکی امداددیتاہے۔ایسے میں نیتن یاہوکی انتہاپسندحکومت اوراس کے غیرجمہوری اور نسل پرستانہ اقدامات کے حوالے سے جوبائیڈن کوایساکرداراداکرنے کی ضرورت تھی جوتاریخ میں ان کانام روشن کرنے میں معاون ہوتی لیکن ان کے حالیہ کردار نے انسانیت کے منہ پرجوکالک مل دی ہے،اس نے توہلاکواورچنگیزخان کو بھی بہت پیچھے چھوڑدیاہے۔ضرورت تو اس امرکی ہے کہ اس ظالمانہ رویہ کوفوری ختم کرکےاپناراستہ تبدیل کرکے برابری کے اصول پرمبنی طرزِفکروعمل اپنانی چاہیے،جواقوام عالم کے مظلوم عوام کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قانون کوبالا دست اورمضبوط کرتی ہواورساتھ ہی ساتھ امریکی قانون کوبھی بالادستی عطا کرتی ہوجس کے تحت امریکی فوجی امدادکسی بھی حالت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب معاشروں کونہیں ملنی چاہیے۔
نئی اپروچ یہ ہونی چاہیے کہ جس طوراسرائیل کوسلامتی کے ساتھ اورسکون کی حالت میں رہنے کاحق حاصل ہے بالکل اسی طور فلسطینیوں کوبھی محفوظ اورخوش حال زندگی بسرکرنے کا حق حاصل ہے۔میں اس بات پرپورایقین رکھتاہوں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کوبہترمستقبل کی تیاری میں مدد دینے کے حوالے سے امریکابہت اہم کرداراداکر سکتاہے۔اگر امریکاعالمی سطح پر بنیادی حقوق کے حوالے سے تواناآوازبنناچاہتاہے توہمیں انسانی حقوق پربین الاقوامی معیارات کی بالا دستی ہرحال میں یقینی بنانی چاہیے،چاہے ایساکرناسیاسی اعتبارسے کتناہی مشکل ہو۔ہمیں محسوس کرناہوگاکہ فلسطینیوں کے حقوق اوران کی زندگیوں کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اسرائیلیوں کے حقوق اورزندگی کی اورانہیں بھی انسان سمجھ کرجینے کاپوراحق ملناچاہئے۔