There Is No Messiah Or Covenant

کوئی مسیحانہ ایفائےعہد

:Share

یہ دنیاکیاہے؟بستیوں پرمشتمل یہ دنیا،چھوٹی بڑی بستیاں اوران میں ہنستے بستے،روتے گاتے لوگ،اداس بھی مسروربھی،مولائی مست بھی اورفکرمندبھی۔ ہاں یہی ہے ناں دنیا،انسان کے اندربھی توایک بستی ہے۔دل، یہ بھی توایک بستی ہے،ہربندہ اپنی بستی کا مکیں…… دل جوایک چھوٹاسالوتھڑاہے، مگر ہرکوئی ایک ایٹم بم اٹھائے پھررہاہے،چاہتے ہوئے بھی اورنہ چاہتے ہوئے بھی،اس سے انکاربہت کٹھن ہے،بہت مشکل بھی اوربہت جاں لیوابھی، ہاں!نظرکرم ہو جائے توالگ بات ہے،مگریہ ہرایک کانصیباکہاں!اسی بستی سے انسان بستاہے اوراسی سے اجڑتابھی ہے۔وقت ساکت نہیں ہے لیکن یہ ہرایک پرمختلف گزرتا ہے۔صدیاں پل بن جاتی ہیں اور بعض اوقات پل صدیوں پربھاری…..کچھ توہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں کہ ارے اتنی جلدی گزرگیا وقت!……اورکبھی ہم بار بارگھڑی دیکھتے ہیں اورہمیں اندرسے آوازآتی ہے”گزرتاہی نہیں،ایک جگہ ٹھہرگیاہے وقت!”بس اندرکی بستی پرموقوف ہے یہ سب کچھ….کہ وہ وقت کوکیسے محسوس کرتی ہے۔لاکھ اچھاہوموسم،بہت سہانااورسحرانگیز،پرمسرت اورنشاط انگیز….لیکن یہ جواندرکی بستی ہے کبھی توگوشہ مسرت بن جاتی ہے اور کبھی اداسی کامسکن،بھوت بنگلہ،ہرشے کاٹنے کودوڑتی ہے۔ایساہی ہے ہرانسان کاموسم!کبھی دھوپ میں،جھلسادینے والی دھوپ میں راحت وآرام،اورکبھی بہارمیں خزاں رسیدہ ٹنڈمنڈدرخت،بے برگ وبار۔لیکن گزارناتوہے یہ وقت،جیسے بھی گزرے۔

جب ان سے پوچھتے ہیں تومسکراتے ہو ئے آہستہ سے سرگوشی کردیتے ہیں کہ”بس راضی رہو،راضی بہ رضائے الٰہی!”پھرپوچھنا پڑگیاکہ”اچھا!کچھ نہ کریں ،بس راضی بہ رضارہیں،کوئی ہاتھ پاؤں نہ ہلائیں،کچھ نہ دیکھیں اورسوچیں؟”اسی مسکراہٹ کے ساتھ جواب ارشادہواکہ”نہیں نہیں،ایساتونہیں کہامیں نے،محنت کرو،جہد مسلسل ہی کانام توہے زندگی،زمین میں بیج ڈالو،گوڈی کرو،جھاڑ جھنکارالگ کرو،اورپھرانتظارکروکونپل پھوٹنے کا،اورجب پھوٹ پڑے کونپل،وہ ننھاسابیج زمین کاسینہ چیرکرباہرجھانکنے لگے تو اس کی نگہداشت کرولاڈلے بچے کی طرح،اورسوچوکہ اس کاپھل کھائیں گے ضرور،اورپھر……” پھرکیا….جلدی بتائیں،بڑھتی بے تابی کاامتحان نہ لیاکریں،گویاچیخ کرمیں نے پوچھا،جلدی بتائیں…..”۔
مالی دا کم پانی دینا،پرپرمشکاں پاوے
مالک داکم پھل پھول لانا،لاوے یانہ لاوے
اورپھرمالی کاکام ختم ہوا،پھل پھول لانا اس کاکام نہیں ہے۔آگیاتوشکرکرو،نہ آیاتوصبر….بس یہی ہے راضی بہ رضائے الٰہی،راضی بہ رضائے حق.. . ..سر تسلیم خم اورمنہ بسورے بغیرنعرہ مستانہ:

بس توہی ہے ہمارا،ایک دربندتوسودرکھولنے والا۔میرے لئے بس توہی کافی ہے”الیس اللہ بکاف عبدہ”اورمجھےکسی اورکی ضرورت بھی نہیں،میری ضرورتوں کا،ہرطرح کی ضرورتوں کاانتظام کرنے والابس توہی ہے،اورجب بندہ بشرسب کاانکارکردے تووہ آتاہے، بندہ بشرجتنابھی دے ،پیٹ نہیں بھرتا،لالچ ختم نہیں ہوتی،اورپھرطعنے کابھی ڈر،بھری مجلس میں اپنے احسان گنواکرذلیل ورسواکر دیتاہے یہ انسان۔وہ،میرارب!تھوڑاسابھی دے توسارے کام سنورجاتے ہیں،لالچ وطمع اورحرص وہوس باقی نہیں رہتی۔اورپھرمنظربھی بدل جاتاہے۔دیکھنے میں آگ اوررہنے میں جنت،لہورنگ جنت…….مسکراتے آنسواورسرشاری”

میں انہیں دیکھتاہوں،چاروں طرف سے گھرے ہوئے مردوزن اوران کے کڑیل جوان بیٹے اوربیٹیاں،معصوم کلکاریاں مارتے بچے اورٹوٹے پھوٹے مسمار گھر ،چاروں طرف سے گھرے ہوئے شعب ابی طالب کی گھاٹی کے مکین۔ ہرچندماہ بعدیہ تعزیروتعذیب کاعمل ،اطراف میں پڑوسی مسلمان ہونے کادعویٰ بھی کرتے ہیں اورلیکن محاصرہ اورسخت کردیاجاتاہے ۔ دشمن کوکھلی دعوت اوراجازت ہے کہ ہماری زمین اورفضاؤں کوبے دریغ استعمال کرو،ان پربموں ،راکٹوں اورمیزائلوں کی بارش ہورہی ہے، آگ،بارودبرس رہا ہے،فاسفورس بم برسائے جارہے ہیں،وہ اپنے معصوم ،لہولہان بچوں کواٹھاتے ہیں،اکھڑی ہو ئی سانس لیتے بچے،مردوزن،جوان اور بوڑھے،بے سدھ دنیائے فانی پرتھوک کرجنت میں چلے جانے والے یہ بچے،مردوزن،جوان اور بوڑھے،وہی کے مکین تھے، بس کچھ پل کیلئے آئے تھے یہ سب!جوان کڑیل کچھ کرگزرے اوراپنی نذرپوری کرگئے۔ارمان وآرزؤں بھرادل لئے رخصت ہونے والی بچیاں ،صبرکرتاہوا بوڑھا اورآسمان تکتی بوڑھی ماں!بھائی بھائی کالاشہ اٹھاتاہے،ماں اپنے لال کا،باپ اپنے مستقبل کا،سب نے ہی توآنکھیں موندلی ہیں، تازہ خون کا سجا سجایاغازہ بھرامسکراتاچہرہ،گویامنزل پالی۔صبروشکرکے مجسم اورتسلیم ورضاکے پیکرپاس کھڑے اللہ کی کبریائی کے نعرے لگارہے ہیں… …سب کہ سب راضی بہ رضائے الٰہی۔حیرت ہوتی ہے ،کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں،چاروں طرف سے گھرے ہوئے جواں مرد،جنہوں نے اس کریہہ زندگی پرتھوک کرموت کوگلے لگایاہے۔موت کااستقبال کیاہے اورکررہے ہیں۔ان کادل بھی پکارپکارکرکہہ رہاہے کہ کہاں تھی تواے موت!ہمیں تیراہی توانتظارتھا۔آ! تجھے سینے سے لگانے کیلئے کس قدرہم بے تاب تھے۔کبھی دیکھے ہیں آپ نے ایسے جوان مرد!موت بھی حیرت زدہ۔موت کوشکست دینے والے زندہ جاوید … .اور کسے کہتے ہیں زندگی!ہم سانس لیتی ہوئی لاشیں،بس خودکوزندہ سمجھتے ہیں،ذلیل دنیاکے اسیرکتے بن گئے ہیں ہم۔

زندگی کامعنیٰ اورمقصدسمجھناہوتوغزہ کودیکھئے۔آپ آنکھیں کیوں بندکرتے ہیں،بلی کودیکھ کرکبوترکی طرح،یہ ہے زندگی،اصل زندگی،امرزندگی،جواں مردوں کی زندگی ،آگ وخون کے دریامیں بہتی زندگی۔چاروں طرف سے گولہ بارودکی بارش میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراسے دھتکارتے ہوئے لوگ،رقص کرتے ہوئے لوگ،اپنے رب کی کبریائی کاآوازہ بلندکرتے ہوئے لوگ …….عجیب لوگ،پاگل اوردیوانے لوگ……بے خود، سرشارلوگ،امرلوگ ….. .آپ ایک اسرائیل سمجھ بیٹھے ہیں،دنیامیں ستاون مسلم ریاستیں بھی تواسرائیل بنی ہوئی ہیں،باقی کاشکوہ میں کیوں کروں۔یہ ستاون اسرائیل جوخودکومسلمان کہتے ہیں،جبے ودستارپہننے والے،سوٹ کوٹ اورواسکٹ وشیروانی پہننے والے،بے حمیت،بے غیرت۔کیوں نہیں کہتے آپ ان کواسرائیل؟ایک اسرائیل پرہم اگرمل کرتھوک دیں تووہ اس میں ڈوب جائے مگران ستاون اسرائیل سے کیسے جان چھڑائیں؟

یہی سوچناہے۔صرف سوچنانہیں،کچھ کرگزرناہے،اورجب کچھ کرگزرنے کی بات آتی ہے توہمیں اپناتام جھام نظرآنے لگتاہے۔ہائے ہمارے محلات، ہماری گاڑیاں،ہماراخزانہ نہ لٹ جائے!جسے ہم نے جھوٹ سچ بول کر،خوشامدکرکے،تعلقات استعمال کرکے،رشوت دیکر،اپناضمیربیچ کرجمع کیاہے۔یہ جوہماراسامان تعیش ہے اس کاکیابنے گا؟بس یہی سے پھرہم حکمت کاوعظ دیناشروع کردیتے ہیں۔حکمت اوربے غیرتی میں ایک باریک سی لائن ہمیں نظرہی نہیں آتی۔آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھے ہیں ہم!دل ہوتے ہوئے بھی مردہ،نفاق کاپیکر۔اب برالگتاہے توکیاکیاجائے!آپ کاقصیدہ پڑھاجائے؟نہیں یہ کبھی نہیں ہوگا۔قصیدہ گوبہت ہیں،سنتے رہئے انہیں،اور سردھنتے رہئے۔ستاون اسرائیل،مسلم لبادہ اوڑھے ہوئے۔ہم سب کے سب سوگ مناتے ہوئے، آہ وزاری کرتے ہوئے کبھی نہیں سوچتے کہ پہلے ان کاسہ لیسوں سے جوہماری مسلم دنیاپرقابض ہیں،جان چھڑائیں۔جب تک یہ مسلط رہیں گے،ہم آہ وزاری کرتے رہیں گے اورخودکوبڑامعتبرسمجھتے رہیں گے۔پہلا کام ان نمک خواروں سے نجات حاصل کرناہے۔اسرائیل کے خلاف مظاہرے بعد میں کریں ،پہلے خودپرمسلط امریکی واسرائیلی ایجنٹوں کے خلاف سینہ سپرہوں،تب کچھ کرسکیں گے ہم۔یہ ایجنٹ ہمیں لے ڈوبیں ہیں۔شائدمیں بہت دورنکل گیاہوں اور آپ کوبھی بہت سے کام کرنے ہوں گے لیکن کیاکروں غزہ کی چیخیں مسلسل میراتعاقب کررہی ہیں۔
کوئی مسیحانہ ایفائے عہدکوپہنچا
بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی

اپنا تبصرہ بھیجیں