“پوراپنڈ نہی سُتا”

:Share

ان دیکھے جرثومے کروناکی دہشت نے دنیابھرکی ترجیحات کوبدل کررکھ دیاہے لیکن سفاک ہندوکی مکاری کایہ عالم ہے کہ امیت شاہ نے ایک مرتبہ پھردندناتے ہوئے مقبوضہ کشمیرکی آبادی کاتناسب تبدیل کرنے کااعلان کردیاہے اورہمارے ہاں بھی میڈیاکی ترجیحات میں کشمیرآخری نمبرزپرچلا گیاہے۔پہلے نمبرپرکروناکی بجائے ذخیرہ اندوزوں اورشوگرمافیاکے خلاف نام نہاداعلانات،اسلام آبادمیں تبدیلی کی افواہیں اورآخرمیں کشمیرکاذکر۔ تاریخ گواہی دے گی کہ کشمیرمیں ماؤں بہنوں کی عزتیں لٹ رہی تھی اورپاکستانی لیڈراپنے اقتدارکیلئے لڑرہے تھے۔شہ رگ کہنے والوں کابھرم اس دن کھل جائے گاکہ وہ اپنے فائدے اوراقتدارکے حصول کیلئے کشمیرکاتذکرہ کرتے رہے۔ نجانے کیوں پنجابی کایہ شعریادآگیا:
ماڑے دی مرگئی ماں تے کوئی نی لینداناں
‏تگڑے دامرگیاکُتا،غم وچ پوراپنڈ نہی سُتا

ہائے رے انسان!ہررات موت کی آغوش میں جاتاہے لیکن پھربھی موت کویادنہیں کرتا۔کمزوری انسان کوبھولنے کے مرض میں مبتلاکردیتی ہے ۔آج امت مسلمہ پربھی کمزوری کاغلبہ ہے۔اس لئے اسے نسیان کامرض لاحق ہے۔یہ بہت جلد بھول جاتی ہے اپنے دشمنوں کو،دشمنوں کی تباہ کاریوں کو،بربریت اوردہشتگردی کو۔امت مسلمہ بھول گئی بوسنیا،افغانستان،عراق،لیبیا، صومالیہ،شام،یمن وغیرہ کودشمنوں نے کس طرح اپنی بربریت کانشانہ بنایا۔امت مسلمہ بھول گئی تورابورامیں ڈیئزی کٹربم گرائے جانے کو،ادلب،حمص،حلب،رقہ وغیرہ میں دشمنوں کے شہری آبادیوں پر ہزاروں بم برسانے کو۔

امت مسلمہ بھول گئی گوانتانامابے اورابوغریب جیل میں مسلمان قیدیوں پرانسانیت کوشرمادینے والے مظالم اورقیدیوں پرکتوں کے کتے چھوڑے جانے کے اُن ویڈیوزکوجوجنسی درندہ صفت دشمنوں نے امت کے ہرفردکودکھایاتھا۔امت مسلمہ اب توکل کی بات بھی بھولنے لگی ہے۔یہ بھول گئی میانمارمیں روہینگائی مسلمان بچوں کے زندہ جلائے جانے کو،عورتوں کی ننگی لاشوں کواوریہ بھولنے لگی ہے بیت المقدس کوناپاک یہودیوں کی دارالحکومت قراردینے کواوراس کمزورامت کوبھول جانا ہی چاہئے ،خوابِ خرگوش میں محورہناچاہئے۔

لیکن سال میں ایک یادوباراس امت کی یادداشت واپس آجاتی ہے یوم القدس پرسیاست کرنے کیلئے،یوم کشمیرپرسیاست کرنے کیلئے،دوچارریلیاں نکالنے کیلئے،چندگرماگرم تقاریرکرنے کیلئے،دشمن کواپنی لفاظی سے للکارنے کیلئے جونہ اسوۂ رسول ﷺ ہے اورنہ ہی خلفائے راشدین کاطریقہ ہے اورنہ ہی کبھی کسی مسلمان جرنیل سے اس لفاظی کی جنگ کاثبوت ملتاہے۔

دشمن کولفاظی سے نہیں،جنگی ایکشن اورحکمتِ عملی سے مات کیاجاتاہے،فلمی ایکشن سےنہیں لیکن اس کمزورامت میں اب اس کی طاقت کہاں،ایسی صلاحیت کہاں،ایسے مرد مومن کہاں جویہ فریضہ انجام دے؟ٹکروں میں بٹی نفسانی خواہشوں کی دلدادہ دنیامیں مست،موت سے ڈرنے والی کمزورامت لفاظی کے سواکربھی کیاسکتی ہے؟توکرتے رہو سیاست، نکالتے رہو ریلیاں،للکارتے رہودشمنوں کواور لڑتے رہو لفاظی کی جنگ یہاں تک کہ دشمن تمہارانام مٹا دے،اللہ تمہیں نابودکردے اور تمہاری جگہ دوسروں کودین کاوارث بناکران سے اپنے دین کی سربلندی کاکام لے۔جس طرح ماضی میں تاتاریوں سے لیاتھا۔اے نسیان زدہ امت!شایدکہ تمہیں کچھ یادہو،ماضی میں جب تمہاری روش آج جیسی ہی تھی تب اللہ نے تمہارے دشمن تاتاریوں سے تمہیں خوب تہس نہس کیا،تمہارے خون سے دجلہ اورفرات کورنگین کیا،تمہاری کھوپڑیوں کے میناربنوائے اور پھران ہی تاتاریوں سے اپنے دین کاکام لیااورایساکرنااللہ کیلئے کچھ مشکل نہیں ہے بقولِ شاعر مشرقؒ:
ہے عیاں یورش تاتارکے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے

یہی اللہ تعالٰی کی سنت ہے۔وہ اپنے نافرمانوں کواسی طرح سزائیں دیتاہے۔وہ اپنی دین کی وراثت نافرمان قوم سے چھین کر دوسری قوم کودے دیتاہےجودینِ الہی کیلئے اپناجان ومال قربان کرتی ہے اوردین کوسربلندکرتی ہے۔اگرموجودہ امت محمدیہ نے اپنی منافقت کی روش نہیں بدلی تواللہ کیلئے یہ کوئی مشکل نہیں کہ اسے نیست ونابود کرکے اپنے دوسرے بندوں کواس دین اسلام کاوارث بنادے اوران سے دین کی سربلندی کاکام لے،قرآن کی متعدد مقامات پراللہ تعالٰی کی وعیدہے:
اے لوگو!اگروہ(اللہ) چاہے توتمہیں نابودکردے اور(تمہاری جگہ) دوسروں کولے آئےاوراللہ اس پربڑی قدرت والاہے۔(النساء:133 )
اورآپ کارب بے نیازہے(بڑی)رحمت والاہے،اگرچاہے توتمہیں نابودکردے اورتمہارے بعدجسے چاہے(تمہارا)جانشین بنادے جیساکہ اس نے دوسرے لوگوں کی اولاد سے تم کو پیدا فرمایا ہے:( أنعام:133)
وہ (اللہ)چاہے توتم لوگوں کولے جائے اورایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ایساکرنا اللہ پرکچھ دشوارنہیں ہے۔( ابراھیم 19:20)
پس نہیں،میں قسم کھاتاہوں،مشرقوں اورمغربوں کے مالک کی،ہم اس پرقادرہیں کہ ان کی جگہ ان سے بہترلوگ لے آئیں اور کوئی ہم سے بازی لے جانے والا نہیں ہے۔(المعارج40:41)
اوراگرتم(حکمِ الٰہی سے) رُوگردانی کروگے تووہ تمہاری جگہ بدل کردوسری قوم کولے آئے گاپھروہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے (محمد:38)

آج یہ امت انفرادی و اجتماعی طور پر حکم الٰہی سے روگردانی کرہی رہی ہے اوراس کی سزابھی بھگت رہی ہے لیکن پھر بھی سبق لینے کوتیارنہیں ہے۔اللہ نے اس موجودہ امت کوہرطرح کے خزانوں سے نوازکرسوسال کاوقت دیاکہ یہ دین اسلام کو دیگرادیان پرغالب کرے لیکن یہ کمزورامت آپس کی تفرقہ بازی سے کمزورسے کمزورترہوتی گئی اوردین کے غلبے کاکام کرنے سے قاصررہی۔دین اسلام غالب رہنے کیلئے ہے،مغلوب رہنے کیلئے نہیں اوراللہ اس دین کوضرورغالب کرے گا۔اللہ نے ایک بار ان سے دین کی وراثت چھین کران کے دشمن تاتاریوں کودین کاوارث بنایاتھااور پھران ہی تاتاریوں سے اپنی دین کی سربلندی کاکام لیاتھا۔ شاید تاریخ پھرکسی تاتاری کے انتظارمیں ہے جوموجودہ امت مسلمہ کوسبق سکھائے۔

پھرکوئی شیخ جمال الدین انہیں یہ سبق پڑھائے کہ”جس کے پاس سچادین نہیں وہ کتے سے بھی برُاہے اورکوئی شیخ رشید الدین دشمن کے ایوانوں میں دستک دے اوراسلام ومسلمانوں کے دشمنوں کوحلقہ بگوشِ اسلام کرےاورپھروہ سب مسلمان ہو کردین کی سربلندی کیلئے دشمنوں سے قتال کریں اوراللہ سبحانہ وتعالٰی انہیں فتح یاب کرےاوربیت المقدس فتح ہو،کشمیرفتح ہو،ظلم وبربریت کاشکارروہینگا،بوسنیا،افغانستان،عراق،لیبیا،صومالیہ، شام،یمن وغیرہ کے مسلمانوں کی دادرسی ہو،انسانیت کی فلاح ہواوردین اسلام غالب ہواورآنے والی نسلیں ایک بارپھر یہ ترانہ گائے:
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے

اپنا تبصرہ بھیجیں