The War for Justice: The International Court of Justice and Israel

انصاف کی جنگ:عالمی عدالت اوراسرائیل

:Share

اسرائیلی فوج کی غزہ میں جوابی کارروائیوں کے بعدپیداہونے والی جنگی صورتحال وقت کے ساتھ گھمبیرترہوتی جارہی ہے اور اسی دوران نہ صرف حماس بلکہ کئی عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی حکام پرمسلسل جنگی جرائم کے الزام عائد کرنے کامطالبہ زورپکڑتاجارہاتھااوربالآخرعالمی فوجداری عدالت کی جانب سے نیتن یاہواورسابق اسرائیلی وزیردفاع یواوگیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کے اجراکے بعدمتعددمغربی ممالک نے کہاہے کہ وہ آئی سی سی کے اس فیصلے پرعملدرآمدکریں گے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق45ہزارسے زائدفلسطینی شہیداور80 ہزارسے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔جن میں 134صحافی146میڈیا کارکن، 120ماہرین تعلیم،اور224سے زیادہ انسانی امدادی کارکنان شامل ہیں،علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے179ملازمین بھی شامل ہیں۔کسی بھی مسلح جنگ کے دوران عام شہریوں کے تحفظ کیلئےبنائے گئے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جنگی جرم کہلاتی ہے۔ جنگ کے قوانین مختلف بین الاقوامی معاہدوں میں درج ہیں جن میں1949کاجنیوا کنونشن اور1899اور1907کاہیگ کنونشن شامل ہیں۔عام شہریوں کی زندگی بچانے اوران پرجنگ کے اثرات کم کرنے کیلئےفریقین بین الاقوامی انسانی قوانین کے پابندہیں۔اس بات سے قطع نظر کے ان قوانین پرعمل کس حدتک ہورہاہے،یہ جانناضروری ہے کہ جنگی جرائم کیاہوتے ہیں،اس حوالے سے عالمی قوانین کیا ہیں،یہ کس صورت میں لاگوہوتے ہیں اورمجرم کوسزادلوانے کاعمل کیاہے؟

انٹرنیشنل کریمینل کورٹ1998میں نیدرلینڈزکے شہرہیگ میں قائم کی گئی تھی۔یہ ایک آزادادارہ ہے جہاں ان افرادپرمقدمہ چلایاجاتا ہے جن پرعالمی برادری کے خلاف انتہائی سنگین جرائم کے الزامات ہوں۔یہ ادارہ جنگی جرائم، نسل کشی،انسانیت کے خلاف جرائم اورجنگ کے دوران جارحیت کے خلاف تحقیقات کرتاہے۔کوئی بھی ملک ملزمان کے خلاف اپنی عدالتوں میں مقدمہ چلاسکتاہے۔آئی سی سی اس وقت کارروائی کرتی ہے جب کوئی ملک کارروائی نہ کرناچاہتاہواوریہ عدالت آخری آپشن ہوتی ہے۔

بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے مطابق جنگی جرائم کے حوالے سے متعلقہ ٹریٹی”روم سٹیچوٹ”ہے جس کے تحت انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کاقیام عمل میں آیاتھا۔اس کے آرٹیکل6 ،7اور8جنگی جرائم کی واضح تشریح کرتے ہیں۔جنگی جرائم کی عمومی تشریح مختلف مقدمات کے دوران بین الاقوامی فورمزیاٹریبیونلزیامختلف ادوارمیں بنائے گئے کریمنل کورٹس میں کی گئی جسے بعدمیں آئی سی سی کے قانون میں بھی شامل کیاگیا۔اس کی مثالیں نیورمبرگ ٹرائل جیسے بے شماراورٹریبیونلزہیں جنہوں نے جنگی جرائم کی شناخت کرکے ان کی تشریح کی جنہیں بعد میں روم سٹیچوٹ میں ایک خاص اورقابلِ شناخت زبان دے دی گئی۔اس میں یہ تفصیل بھی درج ہے کہ آیاشناخت کیے جانے والے جرائم سے منسلک ایکشن اس جرم کاحصہ بنتے ہیں یانہیں،جیسے یوگوسلایویہ اورروانڈاکے جنگی جرائم کے ٹریبیونل وغیرہ تاہم یاد رہے کہ بین الاقوامی قانون کسی بھی ملک کے قانون سے مختلف ہوتاہے جس میں جرائم درج ہوتے ہیں اورلکھی گئی زبان کی بنیادپرفیصلہ کیاجاتاہے کہ جرم ہوایانہیں۔

بین الاقوامی قانون میں ایسا بالکل نہیں ہے یہاں ذرائع میں ٹریٹی،رسم ورواج،جوڈیشل فیصلے،عالمی اداروں کی پریکٹیسزان سب کو ملاکرغورکرنے کے بعدجنگی جرائم کی تشریح کی جاتی ہے اوراس کے خدوخال کی شناخت کی جاتی ہے۔بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی مخصوص قومیت،نسل یامذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والوں کواس ارادے سے ہلاک کرناکہ وہ مکمل یاجزوی طورپر تباہ ہوجائیں،”نسل کشی”قرارپاتاہے۔نسل کشی کامرکزی نکتہ بھی یہی ہے کہ جرم اس نیت اورارادے سے کیاجارہاہوکہ کسی مخصوص گروہ کونقصان پہنچانانہیں بلکہ اسے مٹادینا مقصود ہو۔اقوام متحدہ کے”کنونشن آن پریوینشن اینڈ پنشمنٹ آف دی کرائم آف جینوسائڈ،1948″میں اس جرم کی روک تھام اوراس کاارتکاب کرنے والوں کیلئےسزابھی بتائی گئی ہے۔

1998میں”انٹرنینشل کرمنل ٹریبیونل فارروانڈا”نے دیگرایسے اقدامات کی وضاحت بھی کی جن کونسل کشی گرداناجاسکتاہے۔ان اقدامات میں مخصوص گروہ کے اراکین کے جسمانی اورذہنی تشخص کوسنجیدہ چوٹ پہنچانا،ایسے حالات پیداکردیناجواس گروہ کی مکمل یاجزوی تباہی کاباعث بنیں،اس گروہ میں بچوں کی پیدائش روکنے کے اقدامات کرنا،ایک گروہ کے بچوں کوجبری طورپر کسی دوسرے گروہ کومنتقل کردیناشامل ہیں۔

بین الاقوامی قانون میں نسل کشی کی تعریف کوپہلی بارجرمن نازیوں کے خلاف نیورمبرگ مقدمے کے دوران استعمال کیاگیا۔اب تک اسرائیل اور فلسطین سمیت153ممالک اقوام متحدہ کے اس کنونشن پردستخط کرچکے ہیں۔تاہم سب ممالک نے”روم سٹیچوٹ”پردستخط نہیں کیے جس کے تحت انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کاقیام ہواجوایسے جرائم کے فیصلے کرنے کااختیاررکھتی ہے۔ان میں امریکا،چین، روس اوراسرائیل بھی شامل ہیں۔ ہولو کاسٹ،روانڈا،کمبوڈیا،بوسنیا،عراق میں یزیدیوں اورمیانمارمیں روہنگیاکے خلاف کارروائیوں کو حالیہ تاریخ میں نسل کشی کی مثالیں قرار دیا جاتاہے۔

بین الاقوامی جنگی جرائم قانون کے آرٹیکل7کے تحت جنگ کے نقصانات اوراثرات کومحدودرکھنے کیلئےایسے عام شہریوں کو تحفظ دیاگیاہے جوبراہ راست جنگ میں شریک نہیں ہوتے۔عام شہریوں پرتشددیاحملے جرم تصورکیے جاتے ہیں۔اسی طرح ایسااسلحہ بھی ممنوعہ قراردیاگیاہے جس کے استعمال سے عام شہری متاثرہوسکتے ہیں جیسا کہ بارودی سرنگیں،کیمیائی ہتھیار۔بین الاقوامی قانون کے مطابق زخمیوں اوربیماروں،بشمول زخمی فوجیوں کاخیال رکھنالازم ہے۔کسی کویرغمال بنالینایاپھربے دخلی بھی جنگی جرائم میں شامل ہے۔1950کے جینیوا کنونشن کے مطابق بچوں اورثقافتی ورثے کوخصوصی حفاظت دی گئی ہے۔ایسے جرائم کو طے کرنے کااختیاربھی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پاس ہے۔

اسی طرح آرٹیکل8کے مطابق جنگی جرائم صرف جنگ کے دوران سرزدہوسکتے ہیں لیکن انسانیت کے خلاف جرائم امن کے دوران بھی ہوسکتے ہیں جن میں عام شہریوں پرتشدد،جبری گمشدگی،قتل،بے دخلی یاجنسی تشدداورریپ جیسے جرائم شامل ہیں۔جنگی جرائم سے متعلق قوانین کے ماہرین کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ جرائم عام شہریوں کے خلاف منظم حملے کے طورپرکیے گئے ہوں۔ مثال کے طورپراگرکسی ملک میں پولیس کسی پرتشددکرے تویہ مقدمہ تشددکے خلاف عالمی کنونشن کے زمرے میں آئے گاکیونکہ کہ یہ ایک واقعہ ہے۔تاہم اگرتشددمنظم اندازمیں وسیع آبادی کے خلاف ہواہو تویہ انسانیت کے خلاف جرم تصورکیاجاسکتاہے۔اسی طرح اگرکوئی مسلح گروہ عام آبادی میں گھس کرلوٹ مارکرے،لوگوں کواغو کرے اور خواتین کا ریپ کرے تویہ بھی انسانیت کے خلاف جرم ہوگا۔

آئی سی سی کسی بھی فردیاریاست کے خلاف تفتیش کاآغازکرسکتی ہے،جن میں ممالک کے سربراہان سے لیکرایسے جنرل بھی شامل ہوتے ہیں جنہوں نے اپنےاحکامات سے تجاوزیا خلاف ورزی کی۔جب یہ ثابت ہوجائے کہ جنگی جرم ہواہے تومجرم کوآئی سی سی میں لے جانے یاسزادلوانے کاعمل کیاہے؟اس حوالے سے”سزاکسی ایک شخص کودی جاتی ہے(مثلاً بٹالین کمانڈریاجنرل)ریاست سے توقع ہی نہیں کی جاتی کہ وہ غیرذمہ دارانہ حرکات کی اجازت دے گی کیونکہ ذمہ داری ریاست پرعائدہوتی ہے۔

اگرکوئی ریاست ایسے ایکشنزکی اجازت دیتی ہے،انہیں تسلیم کرتی ہے اوراپنی سٹیٹ پالیسی بنالیتی ہے توایسی صورت میں وہ ریاست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔اس صورت میں دنیابھرکی ریاستوں کواس ریاست کے خلاف صف آراہونا پڑے گا،سفارتی تعلقات ختم کرکے اور پابندیوں کے ذریعے حتیٰ کہ اگرضرورت پڑے توطاقت کااستعمال کرتے ہوئے اسے بتاناپڑے گایہ غلط ہے اوراسے ان ایکشنزسے رکناپڑِے گا۔اگران تمام اقدامات کے باوجودوہ ریاست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جاری رکھتی ہے تودیگرممالک مل کروہاں مشترکہ فوجی بھیجنے کافیصلہ کرسکتے ہیں جس سے اس ملک کوجنگی جرائم سے روکاجا سکے اورعام شہریوں کی حفاظت کیلئےجس حد تک بھی جاناپڑے جایاجائے۔ یہاں R2P یعنی “ریسپانسبلٹی ٹوپروٹیکٹ”کااصول لاگو ہوتاہے جسے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری نے منظورکیاہے۔

یادرہے کہ5 فروری2021ءکو بین الاقوامی فوجداری عدالت یعنی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے فیصلہ سنایاتھاکہ اسے فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم اور مظالم کے بارے میں فیصلہ کرنے کادائرہ اختیارحاصل ہے۔عالمی عدالت فوجداری کے اس اکثریتی فیصلے سے عدالت کیلئے اسرائیل کے”زیر قبضہ فلسطینی علاقوں”میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا راستہ ہموارہوچکاہے اور مزیدبراں عدالت کادائرہ کار1967سے اسرائیل کے زیرقبضہ علاقوں یعنی غزہ اورمشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے تک پھیل گیاہے۔عدالت نے کہاکہ فیصلہ عدالت کے بانی دستاویزات کی روسے قواعدپر مبنی تھااوراس کا مطلب ریاست یاقانونی حدودکاتعین کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہے۔

عدالت کی پراسیکیوٹرفتوؤبینسودانے اس سے قبل اس بارے میں تحقیقات کامطالبہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ فلسطینی خطے میں جنگی جرائم مرتکب کیے جانے کے دعوؤں کو”یقین کرنے کی معقول وجوہات”ہیں۔یہ فیصلہ عدالتی پراسیکوٹر بینسوداکےاس بیان کے ٹھیک ایک سال بعدسامنے آیاتھاجب انہوں نے کہاتھاکہ ابتدائی جائزے میں(فلسطینی خطے میں جنگی جرائم)کی تحقیقات کو کھولنے کیلئے تمام معیارات کوپوراکرنے کیلئے خاطرخواہ معلومات جمع کی گئی ہیں۔

عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے نیتن یاہواورسابق اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کے اجراکے اعلان کے بعدمتعددمغربی ممالک نے کہاہے کہ وہ آئی سی سی کے اس فیصلے پرعملدرآمدکریں گے۔اسرائیل کے مغربی اتحادی برطانیہ کے علاوہ بیلجیئم،ہالینڈ،سوئٹزرلینڈ، اٹلی، آئرلینڈ،سپین اورکینیڈانے بھی اعلان کیاہے کہ وہ اس معاملے میں بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کریں گے۔آئی سی سی کی جانب سے نیتن یاہواوریواوگیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کے اجراکے اعلان کے بعدسے اسرائیل کے سیاستدانوں کی جانب سے شدیدردِعمل سامنے آرہاہے۔اگرچہ نیتن یاہواوریواو گیلنٹ کے ساتھ ساتھ حماس کے فوجی کمانڈرمحمددیف کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے گئے ہیں تاہم عالمی فوجداری عدالت کے اس فیصلے کو حماس،فلسطینی اسلامی جہاداورغزہ کے عام شہریوں کی جانب سے سراہاگیا۔

برطانوی وزیراعظم کیئرسٹامرکے ترجمان سے جب پوچھاگیاکہ کیانیتن یاہوکے برطانیہ میں داخل ہونے کی صورت میں انہیں حراست میں لے لیاجائے گاتوترجمان نے”مفروضوں”پرتبصرہ کرنے سے انکارکردیاتاہم انہوں نے وضاحت کی کہ”حکومت اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرے گی”۔ دوسری جانب جب کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈوسے پوچھاگیاکہ اگرنیتن یاہوآئے توکیاانہیں گرفتارکیا جائے گاتوٹروڈونے کہاکہ”ہم بین الاقوامی قانون کی پاسداری کریں گے اوربین الاقوامی عدالتوں کے تمام ضابطوں اوراحکام کی پابندی کریں گے”۔

تاہم حماس نے اپنے فوجی کمانڈر محمد دیف کے وارنٹ کے اجرا پر تبصرہ کیے بغیر اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔دوسری حانب حماس کواپنے کمانڈرابراہیم المصری عرف محمددیف کے گرفتار ہونے کاکوئی خاص خدشہ نہیں۔اسرائیل کامانناہے کہ وہ پچھلے سال مارے گئے تھے حالانکہ حماس نے آج تک ان کی موت کی تصدیق نہیں کی۔ان کوگرفتارکرنے کے علاوہ آئی سی سی کاارادہ تھاکہ حماس کے دورہنمایحییٰ سنواراوراسماعیل ہنیہ کے خلاف کاروائی کریں تاہم ان کی موت کی تصدیق پہلے ہی ہوچکی ہے۔

ایک بیان میں حماس کی جانب سے کہا گیاکہ”ہم دنیاکے تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صہیونی جنگی مجرموں،نیتن یاہو اورگیلنٹ کوعدالت میں ایک بیان میں حماس کی جانب سے کہا گیاکہ”ہم دنیاکے تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صہیونی جنگی مجرموں،نیتن یاہو اورگیلنٹ کوعدالت میں لانے کے آئی سی سی کے ساتھ تعاون کریں اورغزہ کی پٹی میں شہریوں کے خلاف نسل کشی کے جرائم کو فوری طورپرروکنے کیلئےکام کریں”۔غزہ سے تعلق رکھنے والے عام فلسطینی شہریوں نے بھی اس فیصلے کاخیرمقدم کیا۔

غزہ شہرسے بے گھرہونے والے اوراس وقت دیرالبلاح کے مرکزی علاقے میں رہنے والے40سالہ محمدعلی نے کہاکہ”ہمیں دہشت گردی کانشانہ بنایاگیاہے۔ہمیں بھوکارکھاگیاہے۔ہمارے گھرتباہ کردیے گئے ہیں۔ہم نے اپنی اولادیں،اپنے بیٹے اوراپنے پیارے کھو دیے ہیں۔ہم اس فیصلے کاخیرمقدم کرتے ہیں اورظاہرہے،ہم امیدکرتے ہیں کہ آئی سی سی کے فیصلے پرعمل کیاجائے گا”۔منیرہ الشامی،جن کی بہن گذشتہ ماہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہیدہو گئی تھیں،نے کہاکہ آئی سی سی کایہ فیصلہ ان کی”بہن وفاسمیت دسیوں ہزارمتاثرین کیلئے انصاف”کی طرف اشارہ ہے۔

برطانیہ سمیت کل124ممالک آئی سی سی کے دستخط کنندگان ہیں تاہم ان میں امریکا،روس،چین اوراسرائیل شامل نہیں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تکنیکی اعتبارسے اگرنیتن یاہو یا گیلنٹ آئی سی سی کے دستخط کنندگان ممالک میں سے کسی بھی ملک میں قدم رکھتے ہیں تو انھیں وہاں سے گرفتارکرکے عدالت کے حوالے کیاجاناچاہیے۔تاہم بین الاقوامی سطح پروکلا نے شک کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ گرفتاری وارنٹ میں نامزددونوں شخصیات میں سے کسی کوبھی مقدمے کیلئےدی ہیگ میں پیش کیا جائے گا۔

آخری بار جب نیتن یاہونے امریکاکادورہ کیاتھاجہاں انہیں مکمل استثنیٰ حاصل ہے تاہم گذشتہ سال انہوں نے برطانیہ سمیت کئی ممالک کادورہ کیاتھاجن میں سے کئی آئی سی سی کے دستخط کنندگان میں شامل ہیں لیکن کہاجارہاہے کہ اس کے کافی کم امکان ہیں کہ نیتن یاہودوبارہ ان ممالک جاکراس قسم کا خطرہ مول لیں گے۔اس کے علاوہ دستخط کنندگان ممالک بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ اس طرح کی صورتحال پیداہوجہاں انھیں نیتن یاہوکوگرفتارکرنا پڑے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی سی سی کا یہ فیصلہ اسرائیل کی بین الاقوامی حیثیت کیلئےایک بڑادھچکاہے۔ان دوشخصیات اور خاص طور پراسرائیل کی جانب سے غزہ میں اپنی فوجی مہم کواچھائی اوربرائی کے درمیان لڑائی کے طورپرپیش کرنے کی جاری کوششوں کیلئےبھی لیکن فلسطینیوں کواورخاص طورپروہ شہری جن کاغزہ سے تعلق ہے،انہیں اپنے صحیح ثابت ہونے کا احساس ہو رہاہے کیونکہ اب ایک بین الاقوامی ادارے کوبھی اسرائیل کے جنگی جرائم کے الزامات میں کچھ وزن نظرآرہاہے۔

نظریاتی طورپراتنے بڑے ایکشن یعنی کسی دوسرے ملک میں نسل کشی کوروکنے کیلئےفوج بھجوانے جیسے عمل کواقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ میں ہوناچاہیے لیکن اگریواین ایسانہیں کرتااور اسرائیل دنیاکے ردِعمل سے بے خوف،بے فکرہوکربازنہیں آرہاتوشایدچند ممالک خودایساکرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردیں(چنددن قبل یمن کی جانب سے فائرکیے گئے راکٹ کوامریکی بحری جہاز نے انٹرسیپٹ کیا)مگراس سے عالمی امن کوخطرہ لاحق ہوگا ۔آئی سی سی کی جانب سے جنگی جرائم کے مجرم قرار دیے گئے سربراہانِ مملکت میں سربیاکے سابق صدر سلوبودان میلوسویچ، لائبیریاکے سابق صدرچارلس جی ٹیلر،بوسنیاکے سابق سرب صدررادووان کراڈزیچ،سوڈان کے سابق سربراہ مملکت عمرالبشیر، لیبیاکے سابق رہنمامعمرقذافی،پیروکے سابق صدر البرٹوفوجیموری اوردوسری عالمی جنگ کے بعدجرمن ایڈمیرل اورصدرکارل ڈونیٹزاورجاپانی وزیراعظم اورجنرل ہیڈیکی ٹوجواورکونی آکی کوئسووغیرہ شامل ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ نیتن یاہو کے ان جنگی جرائم میں ان ممالک کے سربراہوں کوبھی شامل کیاجائے گاجنہوں نے کھلم کھلانہ صرف اسرائیل کواسلحہ فراہم کیابلکہ غزہ،لبنان،شام اوریمن میں حملوں کی تائیدبھی کی؟اگر ایساہواتوحالیہ منتخب امریکی صدرکی کابینہ کی نئی نامزدگیوں کے وارنٹ کون جاری کرے گاجوحماس کوجانورسے تشبیہ دیتے ہوئے انہیں صفحہ ہستی سے مٹادینے کا کھلم کھلااعلان کرتے رہے ہیں اوراب بھی اپنے اسی پرانے مؤقف پرقائم ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں