اسلام دین فطرت ہے،اس نے ایسی جامع عبادات پیش کیں کہ انسان ہر جذبے میں خدا کی پرستش کر سکے اور اپنے مقصدِحیات کے حصول کی خاطرحیاتِ مستعارکاہرلمحہ اپنے خالق ومالک کی رضاجوئی میں صرف کرسکے۔نماز،زکوٰۃ،جہاد،حج اورماہِ رمضان کے روزے ان ہی کیفیات کے مظہرہیں۔اللہ رب العزت کاارشادہے”اے ایمان والو!تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جیسے پچھلی امتوں پرفرض ہوئے تھے تاکہ تم پرہیزگاربنو۔”(البقرہ)
رمضان کے روزوں کامقصدجیساکہ مذکورہ آیات میں بیان کیاگیاہے،پرہیزگاری کاحصول ہے۔ماہِ رمضان کے ایّام ایک مومن کی تربیت اورریاضت کے ایّام ہیں۔وہ رمضان کے روزوں اورعبادات سے اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرسکتاہے۔مسلمان حضورِ اکرم ﷺسے محبت کااظہارآپ کی پیروی اور اتباع سے کرتا ہے اوراپنی روح ونفس کاتزکیہ کرتاہے،تاکہ زندگی کے باقی ایّام میں وہ تقویٰ اختیارکرسکے اوراپنے مقصدِحیات یعنی اللہ کی بندگی اوراس کی رضاجوئی میں اپنی بقیہ زندگی کے دن بسرکرسکے۔دیکھا جائے توتمام عبادات انسان کے کسی نہ کسی جذبے کوظاہرکرتی ہیں۔نمازخوف کو،زکوٰة رحم کو،جہاد غصہ وبرہمی اورغضب کو حج تسلیم ورضاکواورروزہ اللہ تعالی سے محبت کو!
باقی عبادات کچھ اعمال کوبجالانے کانام ہیں،جنہیں دوسرے بھی دیکھ لیتے ہیں اورجان لیتے ہیں۔مثلاًنمازرکوع وسجودکا نام ہے اوراسے باجماعت ادا کرنے کاحکم ہے،جہادکفارسے جنگ کانام ہے،زکوٰة کسی کوکچھ رقم یامال دینے سے اداہوتی ہے لیکن روزہ کچھ دکھاکرکام کرنے کانام نہیں بلکہ روزہ توکچھ نہ کرنے کانام ہے۔ وہ کسی کے بتلائے بھی معلوم نہیں ہوتابلکہ اس کوتووہی جانتاہے،جورکھتاہے اورجس کیلئے رکھاگیاہے۔لہنداروزہ بندے اورخداکے درمیان ایک رازہے،محب صادق کااپنے محبوب کے حضورایک نذرانہ ہے جوبالکل خاموش اورپوشیدہ طورپرپیش کیاگیاہے۔اسی لئے تونبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ اللہ کریم نے اپنے روزے داربندوں کیلئے ایک بے بہاانعام کااعلان فرمایاہے،وہ یہ کہ”روزے دار ‘ روزہ میرے لئے رکھتاہے اور میں خود اس کی جزا ہوں”۔
اللہ رب العزت خودکو جس عمل کی جزا فرما رہا ہوتو اس کی عطا اور انعام و اکرام کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے۔۔روزہ دراصل بندے کی طرف سے اپنے کریم مولاکے حضور ایک بے ریاہدیہ ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اتنے عظیم انعام و اکرام کا اعلان فرمایا ہے۔ماہِ رمضان المبارک وہ ہے جس کی شان میں قرآن کریم نازل ہوا، دوسرے یہ کہ قرآنِ کریم کے نزول کی ابتداء ماہِ رمضان میں ہوئی۔تیسرے یہ کہ قرآنِ کریم رمضان المبارک کی شبِّ قدرمیں لوحِ محفوط سے آسمان سے دنیامیں اتاراگیااوربیت العزت میں رہا۔ یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے،یہاں سے وقتاًفوقتاً حسبِ اقتضائے حکمت جتنامنظورِالٰہی ہوا، حضرت جبریل امین علیہ السلام لاتے رہے اوریہ نزول تقریباً تئیس(23) سال کے عرصے میں پوراہوا۔
بہر حال قرآنِ مجیداورماہِ رمضان المبارک کاگہراتعلق ونسبت ہرطرح سے ثابت ہے اوریہ بلا شبہ اس ماہِ مبارک کی فضیلت کو ظاہرکرتاہے۔روزہ اور قرآن مجید دونوں شفیع ہیں اورقیامت کے دن دونوں مل کرشفاعت کریں گے۔حضرت عبداللہ بن عمرراوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایاکہ روزہ اورقرآن مجیدبندے کیلئے شفاعت کریں گے۔روزہ کہے گا کہ اے میرے رب!میں نے کھانے اورخواہشوں سے دن میں اسے روکے رکھا،تومیری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما، قرآن کہے گا کہ اے میرے رب! میں نے اسے رات میں سونے سے بازرکھاتومیری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔دونوں کی شفاعتیں قبول ہوں گی۔
رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایاکہ”آدمی کے ہرنیک کام کابدلہ دس سے سات سوگناتک دیاجاتاہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایامگرروزہ میرے لئے ہے اوراس کی جزا میں خوددوں گاکیونکہ بندہ اپنی خواہشات اورکھانے پینے کومیری وجہ سے ترک کرتاہے۔روزہ دارکیلئے دوخوشیاں ہیں،ایک افطارکے وقت اورایک اپنے رب سے ملنے کے وقت اورروزے دارکے منہ کی بواللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ(خوشبودار)ہے اورروزہ ڈھال ہے اورجب کسی کاروزہ ہوتونہ وہ کوئی بے ہودہ گفتگوکرے اورنہ چیخے،پھراگراس سے کوئی گالی گلوچ کرے یالڑنے پرآمادہ ہوتویہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔
انسان چونکہ مادی اور جسمانی پہلو کے علاوہ معنوی اورروحانی پہلوکابھی حامل ہے توان دونوں پہلووں کے کمال تک پہنچنے کیلئےخاص طریقہ کارہیں،معنوی پہلوکی پرورش اورطاقت کاایک طریقہ تقویٰ اورپرہیزگاری ہے،یعنی اگرانسان اپنے آپ کو معنوی پہلو کے لحاظ سے ترقی دیناچاہے اورمطلوبہ طہارت وکمال تک پہنچنا چاہے،تواسے اپنی نفسانی خواہشات پرغالب ہونا پڑے گااورکمال کے راستے میں موجودہ رکاوٹوں کویکے بعددیگرے ہٹاناہوگااورجسمانی لذتوں اورشہوتوں میں مصروفیت سے بچناپڑے گا۔
تقویٰ ہراس آدمی کی زندگی کالازمہ ہے جوعقل کے حکم کے تحت زندگی بسرکرتاہواسعادتمندانہ حیات تک پہنچناچاہتاہے۔دینی اورالہی تقویٰ یہ ہے کہ انسان ان اصول پرعمل پیراہوجن کودین نے زندگی کیلئےمقررکیاہے اورگناہ سے اپنے آپ کوبچائے۔ انسان کواپنی روح میں ایسی کیفیت اورطاقت پیدا کرنی پڑے گی جواسے گناہ سے سامناہوتے ہوئے،گناہ سے محفوظ کرلے یہاں تک کہ تقویٰ کی طاقت کے ذریعے اپنے نفس اورنفسانی خواہشات پرغلبہ پا جائےاوراپنے دامن کواللہ کی معصیت اورگناہ کرنے سے آلودہ نہ کرے۔قرآن مجید کی نظرمیں ہرعبادت کی قبولیت کی شرط تقویٰ اورپرہیزگاری ہے، جہاں ارشادالہی ہے:خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کوقبول کرتاہے
تقویٰ کیلئےموثراورمفید ایک عمل،روزہ ہے جس کی مشق کرتے کرتے انسان اس بات کوسیکھ لیتاہے اورسمجھ جاتا ہے کہ اپنی لگام کو ہواوہوس کے ہاتھوں میں نہ تھمادے اوریہ بالکل عین تقویٰ ہے۔ روزہ کا مقصد، تقویٰ کاحصول ہے،قرآن کریم میں پروردگارکا ارشاد ہے: صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پرلکھے گئے تھے شاید تم اسی طرح متقی بن جاؤ۔
چونکہ روزہ کامقصد تقویٰ حاصل کرناہے توانسان روزہ رکھنے سے کچھ چیزوں سے پرہیزکرنے اوربعض لذتوں سے محروم رہنے کی مشق کرتے ہوئے حرام سے پرہیز کرنے اوراللہ کے احکام کوبجالانے پرتیارہوجاتاہے۔جب انسان کاگناہ سے سامناہوتا ہے تووہاں تقویٰ اختیارکرناچاہیے اورتقویٰ اختیار کرناپختہ ارادہ کے بغیرممکن نہیں،روزہ کاہدف چونکہ تقویٰ کاحصول ہے تو معلوم ہوتاہے کہ روزہ ایسی چیزہے جوانسان کوگناہ سے بچاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:روزہ(جہنم کی) آگ کے سامنے ڈھال ہے۔
تقویٰ اورروزے کاآپس میں اتناگہراتعلق ہے کہ تقویٰ کے معنی اپنے آپ کوبچانااورروکناہے،اور روزہ کامطلب بھی امساک اور ایک طرح کا اپنے آپ کوبچانا ہے ۔ان کاآپس میں فرق یہ ہے کہ تقویٰ،ہراس چیزسے نفس کوبچاناہے جوانسان کے نفس اورتقویٰ کو نقصان پہنچاتی ہے لیکن روزہ خاص مقرر کردہ چیزوں سے پرہیز ہے جوروزہ کے باطل ہونے کا باعث ہیں اورروزہ دارکوتقویٰ تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔ اس تعریف کے مطابق تقویٰ اوراس کے مصادیق کی حد،روزہ کی حدسے زیادہ وسیع ہے۔لہذا ان چیزوں سے بچناجوروزہ کوباطل کرتی ہیں،تقویٰ تک پہنچنے کاسبب ہے۔
اس بات کے پیش نظرکہ روزہ کے ذریعے انسان کوتقویٰ حاصل کرناہے تواگرروزہ کی حالت میں ایک طرف سے انسان کو کھانے پینے اوردیگرکچھ کاموں سے منع کیاگیاہے تودوسری طرف سے ایسے اعمال بجالانے کاحکم بھی دیاگیاہے جوایمان و عمل کی مضبوطی کاباعث ہیں،جیسے واجب ومستحب نمازیں پڑھنا ، قرآن کریم کی تلاوت،صلوات،استغفار،دعاومناجات،غریبوں کی مدد،صلہ رحمی،اخلاق کواچھا کرنااورکئی دیگراعمال ہیں۔تاہم اس ماہِ مبارک کی خصوصی عبادت روزہ ہے،جس کا مقصد تزکیہ نفس یعنی اپنے نفس کوگناہوں سے پاک کرنااورتقویٰ حاصل کرنا ہے۔دوسرے لفظوں میں گناہوں سے بچنااورنیکیوں کی طرف رغبت کرناہے۔رسول اللہ ﷺکافرمان ہے کہ جس نے ماہِ رمضان المبارک کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھے اور جس نے رمضان میں نمازِتراویح اورایمان واحتساب کے ساتھ شب بیداری کی،اللہ تعالیٰ اس کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادیتاہے۔
ماہِ رمضان المبارک کاتقدس اوراحترام کرناسب مسلمانوں کاانفرادی اوراجتماعی فریضہ ہے۔یادرکھئے جس طرح قرآنِ کریم رمضان المبارک کی شبِّ قدر میں لوحِ محفوط سے آسمان سے دنیامیں اتاراگیا،اسی رات کواس دنیاکے نقشے پرپاکستان کامعرضِ وجودمیں آناایک معجزے سے کم نہیں۔رمضان،قرآن اورپاکستان کاآپس میں بڑا گہراتعلق ہے۔اللہ تعالیٰ نے جس رات قرآن پاک نازل فرمایااسی رات ہمیں پاکستان عطافرمایا۔تحریک پاکستان کے دوران “پاکستان کامطلب کیا۔لاالٰہ الااللہ“ کا نعرہ زبان زدعام تھا۔ قیام پاکستان کابڑامقصدیہاں ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرناتھا۔ہمیں اپنی صفوں میں کامل اتحادبرقراررکھنااورمملکت کی نظریاتی اساس کاہرقیمت پرتحفظ کرناہوگا۔ہم نے پاکستان کواسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے ذاتی اورسیاسی مفادات کاذریعہ بنالیاہے، ہمیں اپنے رویوں کوبدلنااورخود احتسابی کی عادت اپنانا ہوگی۔
آج ملک میں موجودہرشخص کی یہ آرزواوردلی تمناہے کہ پاکستان آگے بڑھے اورہم ایک عظیم قوم بنیں۔پاکستان تحفہ خداوندی ہے۔پاکستان ستائیس رمضان المبارک یعنی 14 /اگست1947،کی بابرکت شب معرضِ وجودمیں آیااورجمعتہ الواداع تھا۔وہ افرادآج بھی حیات اورچشم دیدگواہ ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں خودحصہ لیااورگلی کوچوں میں”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ”کے نعرے لگائے۔یہ مسلمانوں کا مقبول ترین نعرہ تھا۔ قائداعظم کاکہناتھاکہ پاکستان میں انصاف اورمساوات پرمبنی معاشرہ قائم ہوگا۔30لاکھ لوگوں نے جان ومال کی لازوال قربانیوں کے بعد یہ ملک حاصل کیا۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلمانان برصغیر نے اللہ تعالی سے وعدہ کیاکہ وہ ہمیں ایک آزادخطہ زمین سے نوازدے ہم وہاں اسلامی نظام قائم کریں گے لیکن بعدازاں یہ وعدہ آج تک ایفانہ ہوا۔جب تک یہ قوم اللہ تعالی سے کیے گئے اپنے وعدے کوپورانہیں کرتی مسائل کا شکار ہی رہے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے پاکستانی ہونے کے تقاضے پورے کریں۔ہم نے اپنے رب سے جواوفوبالعہدکیاتھا ، اس کی عہدشکنی کیلئے اپنے رب سے استغفار کریں۔۔ہم نے جھوٹ، کرپشن اورمنافقت سے دوررہنے کاعہدکیاتھالیکن حال ہی میں توشہ خانہ کے تحائف کی لوٹ مارمیں تمام سیاستدانوں نے جس بے شرمی کے ساتھ ہاتھ صاف کیا،اس کے بعددنیامیں ہمارے سیاستدانوں کے بارے میں کیاسوچتے ہیں،وہ توالگ معاملہ ہے لیکن یہ اپنے رب کے ہاں جواحتساب ہوگا،اس کے بارے میں بھی ذروغوروفکرکرلیں۔یادرکھیں کہ رمضان،قرآن اورپاکستان محض ہم قافیہ نہیں بلکہ حقیقت میں ان کا آپس میں گہراتعلق ہے۔ پاکستان عالم اسلام کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکزہے لیکن کیاہم نے اپنی یہ ذمہ داری ایمانداری کے ساتھ پوری کی؟اس کابھی بہرحال جواب دیناہوگا۔
1857ءکی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کوہرشعبہ ہائے زندگی میں پسماندہ رکھا گیا۔علامہ محمداقبالؒ نے مسلم قوم کوجھنجھوڑااوران میں حریت کی تڑپ پیداکی۔ذراسوچئے کہ اگرہمارے یہ رہنماءجنہوں نے دوقومی نظریہ کی بنیادپربڑی محنت اورقربانیوں کے بعدیہ ملک حاصل کیا،اگروہ آج زندہ ہوتے توان سب کاردِّعمل کیاہوتا۔اس لئے ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ رمضان المبارک کے شب وروزکی عبادات میں اللہ تعالیٰ کے اس انعام کابھی شکراداکریں لیکن کیا کریں یہ بات کہے کالم بھی مکمل نہیں ہوتاکہ رمضان المبارک کی آمد پرجہاں کچھ بدبختوں نے ذخیرہ اندوزی کرکے بیچاری عوام کومہنگائی کاجوتحفہ دیا ہے اور حکومت نے جس طرح ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے وہاں ان ظالم ذخیرہ اندوزوں کوکڑے ہاتھوں لیکران کی بیخ کنی کرکے غریب اوربیکس عوام کومہنگائی کی لعنت سے بچاتی لیکن وہ توملک کے نااہل سیاستدانوں کی بے وقت راگنی جس نے اہل وطن کو سخت صدمے سے دوچارکردیا ہے،ہرکوئی خودکومحب وطن ثابت کرنے کیلئے اپنے کارناموں کے دفاع میں زمین وآسمان کے قلابے ملارہیں ہیں جبکہ برطانیہ میں ہربڑے سٹور میں رمضان المبارک کی آمدپرروزمرہ کی خوردہ نوش کی قیمتوں کونصف قیمت تک سستاکردیاگیاہے۔پاکستانی عوام آسمان کی طرف دیکھ کربڑی بے بسی کے ساتھ کسی ایسے مسیحاکی طرف دیکھ رہی ہے جوان ظالموں اور بدعنوانوں سے ان کونجات دلوائے۔میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان کریم کی برکتوں اوررحمتوں سے مستفیض ہونے کا سلیقہ اور توفیق عنائت فرمائے۔ثم آمین
میری طرف سے تمام قارئین کو ماہِ رمضان مبارک ہو!میری اللہ سے دعاہے کہ ہماری خطائوں کومعاف فرمائے اوراس ماہِ رمضان کااحترام نصیب فرمائے۔ثم آمین