صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے قبلہ اول کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کی غلطی کی طرف بعد میں آئیں گے ،آئیے پہلے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں۔
دنیاکایہ فیزچھ ہزارسال پرمحیط ہے۔ یہودی سال ستمبر میں شروع ہوتا ہے۔21 ستمبر2017ء کو یہودیوں کے کیلنڈر کے مطابق(کتاب ہدایات) یہودیوں کی مقدس کتاب تلمودنے 5778سال پورے کر لئے ہیں۔ یہودی عقیدے کے مطابق دنیا کے خاتمے میں اب صرف 222سال باقی ہیں۔یہ دنیا 222 سال بعد مکمل طور پر فنا ہو جائے گی۔ یہودیوں نے قیامت سے قبل دو اہم کام کرنے ہیں، تابوت سکینہ کی تلاش اورہیکل سلیمانی کی تعمیر۔
یہ کہانی حضرت ابراہیم سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم چالیس سال حضرت اسماعیل کے پاس مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر رہے۔ آپ نے خانہ کعبہ تعمیر کیااور آپ واپس فلسطین تشریف لے گئے آپ نے وہاں اللہ تعالی کا دوسرا گھر بیت المقدس تعمیر فرمایا۔خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا فرق تھا۔ حضرت ابراہیم نے فلسطین میں انتقال فرمایا۔ آپ کا روضہ مبارک یوروشلم کے مضافات میں ہے۔یہ علاقہ حضرت ابرہیم کی مناسبت سے ہیبرون یا الخلیل کہلاتا ہے۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کے مزارات بھی حضرت ابراہیم کے ساتھ موجود ہیں۔ بنی اسرائیل حضرت یعقوب کی اولاد ہیں۔یہ لوگ قحط کا شکار ہوئے،مصر کی طرف نقل مکانی کی، فرعون کی غلامی میں گئے۔ سینکڑوں سال ذلت برداشت کی اور 33سو سال پہلے حضرت موسی کی معیت میں فلسطین واپس آئے۔ حضرت داؤد نے ہزار سال قبل مسیح میں یوروشلم فتح کیااور اسے اپنی سلطنت” کنگڈم آف ڈیوڈ” کا دارالحکومت بنایا۔
حضرت داؤد نے بیت المقدس کی بنیادوں پر یہودیوں کا عظیم معبد تعمیر کرانا شروع کیا،آپ کے بعد حضرت سلیمان نے یہ تعمیر جاری رکھی، حضرت سلیمان کے پاس حضرت موسی کا ایک تابوت تھا۔اس تابوت میں پتھر کی وہ دو تختیاں بھی تھیں جو اللہ تعالی نے حضرت موسی پر کوہ طور پر اتاری تھیں۔ان تختیوں پر اللہ کے دس احکامات درج تھے۔ تابوت میں حضرت ہارون کا عصا اور وہ برتن بھی تھا جس سے من وسلویٰ نکلتا تھا۔حضرت سلیمان نے یہ تابوت اس معبد کی بنیادوں میں چھپا دیا۔ آپ کے دور میں بڑے بڑے جادوگر بھی تھے ۔ آپ نے اللہ تعالی کے حکم پر ان تمام جادو گروں کو قتل کر دیا اور ان کے جادو کے نسخوں کو بھی صندوقوں میں بند کر کے معبد کے نیچے غاروں میں چھپا دیا۔
یہودی حضرت سلیمان کے معبد کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔یہ ہیکل 586 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے تباہ کر دیا تھا تاہم اس نے ہیکل سلیمانی کی بیرونی دیوار چھوڑ دی ۔ یہودی اس دیوار کو کوتل جبکہ مسلمان دیوار گریہ کہتے ہیں۔ یہودیوں کا خیال ہے حضرت سلیمان نے تابوت سکینہ اور جادو کے نسخے بیت المقدس کے نیچے غاروں میں چھپائے تھے چنانچہ یہ لوگ تین ہزار سال سے بیت المقدس کے نیچے غار کھود رہے ہیں۔ یہ بیت المقدس کو گرا کر مستقبل میں ہیکل سلیمانی کو یہاں تک پھیلانا بھی چاہتے ہیں، کیوں؟ہم اس کی طرف بھی بعد میں آئیں گے،ہم پہلے بیت المقدس میں مسلمانوں کی دلچسپی کا ذکر کریں گے۔
بیت المقدس 11فروری 624 تک مسلمانوں کاقبلہ اوّل تھا۔نبوت کے دسویں سال رجب کی ستائیسویں شب کو معراج کا واقعہ پیش آیا،اللہ تعالی
نبی اکرم ۖکو مکہ مکرمہ سے یروشلم لے کر آیا،آپ ۖنے قبلہ اوّل میں انبیا کرام کی امامت فرمائی۔آپۖبرآق پرتشریف فرما ہوئے اور
براق آپۖکو اللہ تعالی کے حضور لے گیا۔آپ ۖبیت المقدس کے صحن سے آسمان پر تشریف لے گئے تھے،آج بھی وہاں سات فٹ لمبی چالیس فٹ چوڑی اور چھ فٹ اونچی چٹان موجود ہے۔ یہ چٹان آپۖکے ساتھ اوپر اٹھ گئی تھی لیکن حضرت جبرائیل نے اس پر ہاتھ رکھ کر اسے دوبارہ زمین سے جوڑ دیا تھا۔چٹان پر حضرت جبرائیل کے ہاتھ کا نشان آج تک موجود ہے۔ اموی خلیفہ عبدالملک نے 691 میں چٹان کے گرد سنہرے رنگ کی عمارت بنا دی اور یہ عمارت عربی میں قبہ الصخرہ اور انگریزی میں” ڈوم آف دی راک” کہلاتی ہے۔یہ مسلمانوں کے ہاتھوں عرب سے باہر پہلی عمارت تھی اور یہ عمارت آج پوری دنیا میں یروشلم کی پہچان ہے۔
یہ سنہری عمارت قبلہ اول نہیں، بیت المقدس سنہری عمارت سے ذرا سے فاصلے پر تہہ خانے میں ہے، آپ کو وہاں جانے کیلئے سیڑھیاں اترنا پڑتی ہیں ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے آج سے آٹھ سو سال قبل مسجد اقصی کی توسیع کی، یہ توسیع اقصی جدید کہلاتی ہے یہودی اس سنہری عمارت اور اقصی جدید کو بھی گرانا چاہتے ہیں۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ ہیکل سلیمانی بیت المقدس اور اقصی جدید تک وسیع ہو گا۔ یہودیت عیسائیت اور اسلامی عقائد کے مطابق قیامت سے قبل دجال کا ظہور ہو گا۔ یہودی دجال کو مسیحا کہتے ہیں جبکہ عیسائی اسے اینٹی کرائسٹ کا نام دیتے ہیں،یہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد ظاہر ہو گا۔پوری دنیا کے یہودی اسرائیل میں جمع ہوں گے، دجال اسرائیل کو” کنگڈم آف ڈیوڈ” ڈکلیئر کرے گا اور دنیا کو فتح کرنا شروع کر دے گا۔یہ پوری عیسائی اور مسلمان دنیا کو تباہ وبرباد کر دے گا،یہ جنگ چالیس پچاس سال جاری رہے گی اور دنیا ملبے کا ڈھیر بن جائے گی یہاں تک کہ دنیا کے قدیم ترین شہر دمشق میں حضرت امام مہدی کا ظہور ہو گا۔ فجر کی نماز سے قبل حضرت عیسی جامعہ امیہ کے سفید مینار سے اتریں گے اور حضرت امام مہدی کے پیچھے نماز ادا کریں گے اور یہ دونوں دجال کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے، بڑی جنگ ہو گی،یہودی اس جنگ کو” آرما گیڈن” کہتے ہیں۔ اسلامی عقائد کے مطابق مسلمان یہ جنگ جیت جائیں گے اورفتوحات کے بعد اسلامی ریاست بنے گی۔
حضرت عیسی45سال کی زندگی گزار کر انتقال فرمائیں گے یہ نبی اکرم ۖکے پہلو میں دفن ہوں گے۔ان کے بعد حضرت مقعد کی حکومت آئے گی،حضرت مقعد کے انتقال کے 30 سال بعد اچانک سینوں سے قرآن مجید اٹھا لیا جائے گا، جس کے بعد قیامت کے آثار شروع ہو جائیں گے جبکہ یہودی عقائد کے مطابق یہ جنگ دجال جیت جائے گا جس کے بعد یروشلم کے مضافات میں ”جبل الزیتون” پھٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اوریہ قیامت کی پہلی نشانی ہو گی۔جبل الزیتون (مانٹ آف اولیوز) یروشلم کے مضافات میں ہے اور یہودی اس پہاڑی پر دفن ہونا اعزاز سمجھتے ہیں۔
یہودی دن میں تین بار اپنے سیناگوگا میں دجال کی آمد کی دعا کرتے ہیں،یہ دعا ”شمونے عسرے” کہلاتی ہے۔ یروشلم یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں مذاہب کیلئے مقدس ترین شہر ہے کیونکہ یہ انبیا کرام کا شہر ہے۔مسلمان 13سال بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔یہ شہر حضرت عمرفاروق کے دور میں فتح ہوااور یہ سینکڑوں سال مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔سنہری گنبد قبہ الصخرہ آج بھی مسلمانوں کی نشانی بن کر یہاں موجود ہے۔ یہ شہر قیامت کی اہم ترین نشانیوں میں بھی شامل ہے۔ وہ چٹان جو معراج کے وقت براق کے ساتھ اوپر اٹھ گئی تھی،وہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کیلئے مقدس ہے۔یہودی اسے” مانٹ ماریحا” کہتے ہیں،یہودیوں کا خیال ہے یہ چٹان دنیا کامقام ِآغاز تھا ۔حضرت ابراہیم نے قربانی کیلئے حضرت اسحاق(یہودی عقیدے کے مطابق حضرت ابراہیم نے حضرت اسحاق کو قربان کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ ہم مسلمان حضرت اسماعیل کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں)کو بھی اسی چٹان پر لٹایاتھا۔ یہودی اگلے تیس برسوں میں بیت المقدس اقصی جدید اور سنہری عمارت یہ تینوں عمارتیں گرائیں گے،مسلمانوں کے ساتھ ان کا تصادم ہو گا، دجال کا ظہور ہوگا، عالمی جنگ شروع ہو گی۔ دجال احدکی پہاڑیوں تک پہنچ جائے گا، جبل الزیتون پھٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گی اور پھر قیامت آ جائے گی۔ہم مسلمان دجال تک یہودیوں سے متفق ہیں لیکن ہم آخر میں اسلام کے اور مسلمانوں کے غلبے پر ایمان رکھتے ہیں۔
ہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقت کی طرف آتے ہیں۔
دنیا اس وقت دو خوفناک خطرات کے درمیان سانس لے رہی ہے،دنیا میں تباہ کن ہتھیاروں کی انبار لگے ہیں۔کرہ ارض کے چاروں کونوں میں شدت پسندوں کی حکومتیں ہیں، پیوٹن جیسا شدت پسند روس میں موجود ہے جوہرحال میں امریکااوریورپ سے اپنی شکست کابدلہ لینے کیلئے موقع کی تلاش میں ہے۔ شمالی کوریا میں کم جونگ جیسا پاگل برسر اقتدار ہے جس نے پہلی مرتبہ امریکاکوخوفزدہ کرکے اسے اس کی حیثیت یاددلادی ہے، نریندر مودی جیسا شدت پسند بھارت کا وزیراعظم ہے جوکہ دنیاکے امن کیلئے شدیدخطرہ بناہواہے لیکن اپنی بزدلی کی بنا پر سازشوں میں مصروف ہے۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آ چکی ہے،ایران بھی میدان میں بس اترا ہی چاہتا ہے۔عراق اور شام میں داعش پھیلتی چلی جا رہی ہے اوراب افغانستان میں بھی باقاعدہ اس کی تشکیل ہوچکی ہے اورپاکستان اورافغانستان میں اب تک کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکے ہیں، یہ پہلا خطرہ ہے۔ پاکستان کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں،یہ پہلی نیوکلیرریاست ہے جومیزائل ٹیکنالوجی میں دنیامیں ممتازحیثیت کاحامل ملک ہے۔ دوسرا خطرہ اسرائیل اور یہودی ہیں،یہ قیامت کی چاپ سن رہے ہیں۔ یہ روز دن میں تین مرتبہ” شمونے عسرے” کرتے ہیں،یہ اونچی آواز میں دجال کو آواز دے رہے ہیں چنانچہ بس یہ آواز سننے کی دیر ہے اور یہ دنیا چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر برابر ہو جائے گی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6دسمبر 2017 کو اچانک اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم شفٹ کرنے کا اعلان کر کے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیاہے اوردنیا کو ٹرمپ کے پروانے میں اپنی تباہی صاف نظر آ رہی ہے۔یہ اعلان جس دن پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اس دن دنیا کی تباہی کا عمل شروع ہو جائے گااورہم تیسری عالمی جنگ کا رزق بن جائیں گے چنانچہ میری آپ سے درخواست ہے آپ اللہ سے جتنی معافی مانگ سکتے ہیں آپ مانگ لیں، آپ سکھ کے جتنے سانس لے سکتے ہیں آپ لے لیں،اور آپ اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کر سکتے ہیں آپ کرلیں کہ قیامت کادن تو اٹل ہے،کیونکہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے ،اب بس ایک دھماکے کی دیر ہے ۔تیسری عالمی جنگ کا طبل بجا ہی چاہتا ہے۔
پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہو گا،پس جب آنکھیں چندھیا جائیں گی،اور چاند بے نور ہو جائے گا، اور سورج اور چاند اکھٹے کیے جائیں گے، اس دن انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے، ہر گز نہیں کہیں پناہ نہیں، اس دن آپ کے رب ہی کی طرف ٹھکانہ ہے، اس دن انسان کو بتا دیا جائے گا کہ وہ کیا لایا اور کیا چھوڑ آیا، بلکہ انسان اپنے اوپر خود شاہد ہے، گو وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔سورۃ القیامہ(۶۔۱۵)
Load/Hide Comments