تاریخ کے صفحات پراگرکوئی قوم ایثارووفاکے حوالے سے لکھی جائے گی توپاکستان کانام سونے کے حروف سے رقم ہوگا۔چالیس برس ہونے کوآئے—اس سرزمینِ طیبہ نے اپنے افغان بھائیوں کیلئےنہ صرف خندقیں کھودیں نہ دیواریں،بلکہ دلوں کے دروازے بھی کھول دیے۔جہاں کبھی خیمے تنے،وہاں بستیاں بس گئیں؛جہاں مہاجرآئے،وہاں مہمان بنائے گئے۔پاکستان نے اپنے شہر،بازار، اسکول، اسپتال،حتیٰ کہ دلوں تک کے دروازے افغان بھائیوں کیلئےکھول دیے۔یہ وہی اخوت تھی جسے قرآن نے فرمایا:
بے شک تمام مؤمن آپس میں بھائی ہیں۔(الحجرات:10)
مگرتاریخ کاالمیہ یہ ہے کہ اخوت کایہ دریااب دلسوزشکووں کے کناروں سے ٹکرارہاہے۔جن ہاتھوں نے کبھی پناہ دی،انہی پرآج الزام اوراحسان فراموشی کی مٹی ڈالی جارہی ہے۔افغان سرزمین سے مہلک بم اوربرسائی گولیاں اب اسی سمت گونجتی ہیں جس نے کبھی ان کے یتیموں کوگودلیاتھا۔اورافسوس،اس غیرفہم دوستی کے پسِ پردہ وہی چہرے ہیں جوکبھی کابل میں سازشیں اوراسلام آبادمیں دھوکہ کی فصلیں کاشت کیاکرتے تھے یعنی پاکستان کاازلی دشمن بھارت جوہمیشہ مسلمانوں کے اتحادپرخنجربن کرگرا،اوردکھ تواس بات کاہے کہ اس نے اسی برادرملک افغانستان کی موجودہ رجیم کوبطورخنجرپاکستان کی گردن پرچلانے کیلئے استعمال کیا۔
پاکستان کادل زخمی ہے،مگرلب خاموش نہیں بلکہ سمجھانے کیلئے کوشاں اورمتفکرہیں،وہ اب بھی امیدرکھتاہے کہ افغان بھائی نفاق کے بادلوں سے نکل کر ایمان کے آسمان پرواپس آئیں گے کیونکہ ہم نے کبھی سرحدوں کودیوارنہیں سمجھا،بلکہ مسلمانوں کے دلوں کے بیچ ایک رشتہ سمجھاہے۔یادرکھیں کہ تاریخ کے افق پرجب قومیں جنگ وجدل کی دھندمیں بھٹکتی ہیں تو امن کی ایک کرن بھی صبحِ نوکی نویدبن جاتی ہے۔ پاکستان اورافغانستان کے مابین حالیہ پیش رفت اسی امیدکی ایک جھلک ہے —مگریہ کرن ابھی کمزورہے،جیسے افقِ مشرق میں طلوع ہوتی ہوئی وہ روشنی جودھوئیں کے پردوں سے لپٹی ہو۔
قرآنِ کریم میں ارشادہے:اوراگروہ صلح کی طرف مائل ہوں توتم بھی اس کی طرف جھک جاؤ،اوراللہ پربھروسہ رکھو،بے شک وہ سننے والا،جاننے والاہے۔(الانفال:61)
یہی وہ الہامی اصول ہے جس کے زیرِسایہ پاکستان اور افغان طالبان نے دومسلم ثالثوں(قطراورترکی)کے ہمدردانہ توسط سے ایک نئے عہدِ امن کی بنیادرکھنے کی کوشش کی ہے۔
حالیہ مشترکہ اعلامیے میں دونوں فریقوں نے اس امرپراتفاق کیاہےکہ اگرجنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی توذمہ دارفریق پرسزا عائدکی جائے گی۔اس معاہدے کی ضمانت دوست ممالک نے دی ہے،اور6نومبرکوعملدرآمدکے باقی امورطے کیے جائیں گے۔یہ دراصل ایک ایساعہدہے جس میں قانون اور ضمیر،دونوں فریقوں کوجوابدہی کے دائرے میں لاتے ہیں۔یہ دراصل خطے کی تاریخ میں ایک نیاباب ہے۔ماضی میں پاکستان اورافغانستان کے تعلقات اکثراعتمادکی کمی اورپالیسی کی ناہمواری کاشکاررہے لیکن اس اعلامیے میں پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا گیاہے کہ امن صرف نیت سے نہیں بلکہ نظام سے بھی قائم ہوتاہے۔یہ شق ایک قانونی ضمانت ہے کہ معاہدہ محض رسمی نہ ہوبلکہ عملی جوابدہی کے اصول پراستوارہو۔اسلامی نقطۂ نظر سے یہ وہی تصورہے جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے:وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا(بنی اسرائیل:34) اور وعدہ پورا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
دونوں ممالک نے جنگ بندی برقراررکھنے پراتفاق کیاہے،اوراس کے قواعدوضوابط استنبول میں چھ نومبر کوطے کیے جائیں گے۔ استنبول،جوماضی میں مشرق ومغرب کے سنگم کااستعارہ رہاہے،اب شایدجنوبی ایشیا کے امن کے نئے باب کاعنوان بننے جارہاہے۔ استنبول کاانتخاب علامتی حیثیت رکھتاہے—وہ شہرجومشرق کی روح اورمغرب کے شعورکاامتزاج ہے۔یہی امتزاج پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات میں درکارہے،روحانی وابستگی کے ساتھ سیاسی تدبرجس کیلئے میں پہلے دن سے اپنی گزارشات گوش گزارکررہاہوں۔یہ مذاکرات دراصل اعتماد سازی کے دوسرے مرحلے کی نمائندگی کرتے ہیں۔اگریہ مرحلہ کامیاب ہوتوایک نئے امن معاہدے کی بنیادپڑسکتی ہے جومستقبل میں سرحدی تحفظ اورتجارتی روابط تک پھیل جائے گا۔
افغانستان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے کہاکہ استنبول مذاکرات کے بعددونوں فریق دوبارہ ملاقاتیں کریں گے اور باقی مسائل پرغورو خوض ہوگا۔یہ بیان ظاہرکرتاہے کہ طالبان حکومت نے بھی یہ محسوس کرلیاہے کہ طاقت کے بجائے مکالمہ ہی استحکام کاراستہ ہے۔افغان تاریخ میں پہلی بارایک ایسی حکومت ابھررہی ہے جوبالآخربین الاقوامی ضابطوں کوجزوی طورپرتسلیم کررہی ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں انقلاب آہستہ آہستہ ادارے کی شکل اختیارکرتاہے۔یہ بیان اس امرکی علامت ہے کہ امن ابھی سفرکے مرحلے میں ہے،منزل ابھی فاصلے پرنیک نیتوں اورعمل کی منتظرہے۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیاکہ ایک نگرانی اورتصدیق کانظام تشکیل دیاجائے گا۔دونوں فریقوں نے ایک مشترکہ نگرانی و تصدیق کانظام قائم کرنے پربھی اتفاق کیاہے جوکسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے کااختیاررکھے گا۔یہ قدم نہ صرف ایک بین الاقوامی شفافیت کامظہرہے،جوسفارت کاری کی دنیامیں ایک مثبت پیش رفت قراردی جاسکتی ہے بلکہ ایک عالمی ضامن کے وجودکوبھی ظاہرکرتاہے۔ترکی،جواسلامی دنیاکے سیاسی توازن میں مرکزی کرداررکھتاہے،اس معاہدے کے ذریعے ایک اخلاقی ضامن کے طورپرابھراہے۔یہ اقدام اس بات کاثبوت ہے کہ امن صرف فریقین کی خواہش سے نہیں بلکہ بین الاقوامی اعتمادسے بھی تقویت پاتاہے۔
امن کی بنیادکمزوری نہیں بلکہ قوتِ بازدارپرہونی چاہیے۔اسی لئے پاکستان کے آرمی چیف فیلڈمارشل عاصم منیرنے پشاورمیں واضح کیاکہ پاکستان اپنے تمام ہمسایوں سے امن چاہتاہے، مگر شدت پسندی ہرگزبرداشت نہیں کی جائے گی۔یہ الفاظ اس حقیقت کا اعلان ہیں کہ امن اگرکمزوری نہیں بلکہ قوت کے وقار کے ساتھ قائم ہوتو وہی پائیدارہوتاہے۔یہ دراصل قوتِ عزم اورسیاسی صبرکا امتزاج ہے۔یہ پیغام داخلی اورخارجی دونوں سطحوں پرہے۔اندرونِ ملک عوام کیلئےتحفظ کاوعدہ،اورہمسایہ ممالک کیلئےاحتیاط کی وارننگ ۔ یہ وہی اصول ہے جسے قرآن یوں بیان کرتاہے: اوران کے مقابلے کیلئےجتنی طاقت جمع کرسکتے ہو،کرو(الانفال:60)
آرمی چیف نے قبائلی عوام کی غیرمتزلزل حمایت کوسراہااورسیکیورٹی فورسزکے ساتھ ان کے تعاون کوقومی یکجہتی کی علامت قراردیا۔یہ خطہ،جوکبھی جنگ کامیدان تھا،آج وفاداری اورقربانی کی علامت بن چکاہے۔قبائلی عوام کاتعاون دراصل پاکستان کے اندرونی استحکام کی ضمانت ہے۔یہ وہ خطہ ہے جہاں غیرت ،شجاعت اوردیانت کی روایات صدیوں سے زندہ ہیں۔یہ پیغام دراصل ایک قومی مفاہمت کی علامت اورایک تاریخی تسلسل کااظہارہے،جس میں پشتون خطے کے عوام ہمیشہ قومی وحدت کے ستون رہے ہیں اورمرکز اورسرحدایک ہی دھڑکن پردھڑکتے ہیں۔
آرمی چیف نے قبائلی عوام کے جرگے میں ان کے دکھ دردکوسمجھتے ہوئے اس بات کابھی یقین دلایاکہ پاکستان،افغان سرزمین سے دہشتگردی قطعاًبرداشت نہیں کرے گا۔یہ جملہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ ریاستی خوداعتمادی کااعلان ہے۔پاکستان نے برسوں دہشت گردی کی آگ میں اپنے ہزاروں شہری کھوئے ہیں۔اب وہ مرحلہ آگیاہے کہ تحمل کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی لازم ہوگیاہے۔پاکستان نے واضح کیاہے کہ افغان سرزمین سے دہشتگردی ہرگزبرداشت نہیں کی جائے گی۔یہ بیان ریاستی خودمختاری کے عزم کامظہرہے،جو کسی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات میں احترامِ باہمی کی بنیادفراہم کرتاہے۔یہ پیغام افغان حکومت کیلئےبھی ایک اشارہ ہے کہ عدم مداخلت ہی بقاکی ضمانت ہے۔
آرمی چیف نے یاددلایاکہ افغانستان سے مسلسل دہشتگردی کے باوجودپاکستان نے گزشتہ برسوں میں تحمل کامظاہرہ کیااورسفارتی و معاشی اقدامات کے ذریعے تعلقات کوبہتربنانے کی سعی کی۔یہ دراصل بردباری کی سیاست ہے۔جب طاقتورقوم غصے کی بجائے تدبیرکواختیارکرے تویہ اس کی اخلاقی برتری کی علامت ہوتی ہے۔پاکستان نے سفارت کاری،تجارت،اورانسانی ہمدردی کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی اورپاکستان ہمیشہ مفاہمت کے دامن میں محبت،ایثاراوراخلاص جیسی قوت کی پوشیدہ تلوارکے حصول کیلئے حکیمانہ صبرکی حکمت عملی کامظاہرہ کرتاچلاآرہاہے اوراب وہ نتائج کی امیدرکھتاہے۔
پاکستانی قیادت نے تشویش ظاہرکی کہ افغان حکومت انڈین حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف کارروائی کی بجائے انہیں سہارافراہم کر رہی ہےاورپاکستان نے واضح شواہداورناقابل تردیدثبوت مذاکرات کی میزسجانے والے ثالثوں کے سامنے بھی پیش کئے کہ طالبان حکومت بھارت کے حمایت یافتہ گروہوں کی پشت پناہی کررہی ہے۔یہ الزام خطے کی تزویراتی کشمکش کوظاہرکرتا ہے۔جس پر مہمان ملکوں نے نہ صرف ان کوتسلیم کیابلکہ طالبان کی طرف سے ٹال مٹول کوبھی شدت سے محسوس کرتے ہوئے یہ رویہ تبدیل کرنے کامشورہ دیا۔پاکستان کیلئےیہ تشویش کا مقام ہے کہ وہی طالبان،جنہیں کبھی دوستانہ حکومت سمجھا گیا،اب اعتمادکے امتحان میں ہیں۔یہ وقت اس تعلق کوازسرِنوپرکھنے کاہے—آیایہ دوستی سفارت کارشتہ ہے یامفادکابندھن۔یہ الزام نہیں، بلکہ اعتمادکے زوال کا شکوہ ہے—وہی اعتمادجوامن کی بنیادہوتاہے۔
کااظہارکرتے ہوئے یقین دلایاکہ خیبرپختونخواہ کودہشتگردوں اوران کے سہولت آرمی چیف نے قبائلی عمائدین کودہشتگردی کے مکمل خاتمے کےعزم کاروں سے پاک کیاجائے گا۔یہ عہد دراصل داخلی استحکام کاستون ہے۔یہ اعلان ریاستی عزم اورعوامی یکجہتی کی علامت ہے،جوامن کے خواب کوحقیقت کاروپ دینے کیلئےلازم ہے۔دہشتگردی کاخاتمہ صرف بندوق سے نہیں،بلکہ تعلیم،روزگار، اورانصاف سے ممکن ہے۔یہ وہ مرحلہ ہے جہاں ریاست اور عوام کومتحدمحاذ کی صورت میں کھڑاہوناہوگا۔
اب ایک مرتبہ پھر6نومبرکواستنبول میں مذاکرات کے ایک نئے باب کاآغازہوگادونوں فریق دوبارہ ملاقات کریں گے اورباقی مسائل پرغورہوگا۔ذبیح اللہ مجاہدنے بھی دوبارہ ملاقات کی تصدیق کی ہے جہاں باقی مسائل پرغورہوگا۔یہ الفاظ ظاہرکرتے ہیں کہ امن کایہ عمل ایک طویل اورنازک سفرہے—جس میں ہرقدم احتیاط کامتقاضی ہے۔یہ مکالمے کی تسلسل کااعلان ہے۔امن ایک دن میں نہیں آتا، یہ اعتمادکی اینٹوں سے بنتاہے۔استنبول مذاکرات دراصل اسی تعمیرکاپہلا ستون ہیں۔
امارتِ اسلامی افغانستان نے کہاکہ وہ پاکستان سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتی ہے،جوعدم مداخلت اورباہمی احترام کے اصولوں پرمبنی ہوں۔اگریہ اصول حقیقی عمل میں ڈھل جائیں توشایدخطے کی سیاست ایک نئے باب میں داخل ہو،جہاں تلواریں نیام میں ہوں اورزبانیں صلح کے چراغ روشن کریں۔یہ مؤقف سفارت کاری کی زبان میں تسلیم اورتحفظ دونوں کوساتھ لےکرچلتاہے۔ اگرطالبان حکومت اپنے قول وفعل میں ہم آہنگی پیداکر لے تویہ پورے خطے میں استحکام کی بنیادبن سکتاہے۔یہ تعلقات اگرعدم مداخلت کے اصول پرقائم رہیں توشایدتاریخ ایک نیاموڑمڑجائے۔
تاریخ کے دروازے پرامن کاوعدہ ایک بارپھردستک دے رہاہے اورفریقین کے تمام قول وفعل تاریخ کاچہرہ بن کر ہماری آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ ہورہے ہیں۔یہ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ دونوں ممالک شک کی بجائے اعتماد،دھمکی کی بجائے تدبیر،اوردشمنی کی بجائے مفاہمت کواپنائیں۔قرآن کہتاہے: اوراللہ سلامتی کے گھرکی طرف بلاتاہے۔(یونس:25)
اب یہ دونوں قوموں پرہے کہ وہ اس دستک کوسنیں یاپھرماضی کے شورمیں گم ہوجائیں۔اگریہ امن قائم ہواتویہ صرف معاہدے کی کامیابی نہیں بلکہ تاریخ کے زخموں کامرہم ہوگا۔بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتاجب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔(الرعد:11)باگریہ دعوت دلوں تک پہنچ جائے،توشایدجنگ کی سرحدوں پرامن کے پھول کھل سکیں۔
تاریخ کے اس موڑپر،جہاں ماضی کی قربانیاں اورحال کے زخم آمنے سامنے کھڑے ہیں،پاکستان اب بھی امن کاداعی ہے مگروہ امن جوعزتِ نفس اوروقارِ ملت کے سائے میں پروان چڑھے۔پاکستان کی سرزمین پر40برس کی مہمان نوازی محض انسانی خدمت نہیں تھی،بلکہ اسلامی اخوت کاعملی مظہرتھی۔یہ وہ قربانی تھی جوخون،مال،اورنسلوں کی قیمت پردی گئی لیکن اب،جب افغان حکومت بھارتی دوستی کے خمارمیں اپنے برادرہمسائے پرالزام تراشی کرتی ہے،تو یہ محض سیاسی اختلاف نہیں،بلکہ تاریخ کے قرض سے انکارہے۔
کیایہ وہی افغانستان نہیں جس کے بچے پاکستان کے اسکولوں میں پلے؟جس کے زخمی ہمارے اسپتالوں میں صحت یاب ہوئے؟جس کے تاجروں نے ہمارے بازاروں میں رزق کمایا؟اورآج وہی سرزمین دہشت کے بیج بوکراسی زمین کولہوسے ترکررہی ہے؟ ہم اب بھی دعاگوہیں کہ افغان قیادت دشمن کے مکرو فریب کوپہچانے اور یاد رکھے کہ :اوران لوگوں کی طرح نہ بنوجنہوں نے اللہ کوبھلادیاتو اللہ نے انہیں خوداپنی حقیقت سے غافل کردیا۔(الحشر:19)
پاکستان آج بھی امن کاچراغ تھامے کھڑاہے،مگراس چراغ کے شعلے میں شکوے کی آنچ اورامیدکی روشنی دونوں یکجاہیں۔وہ اب بھی انتہائی اخلاص کے ساتھ یادکرواتاہے کہ اے برادر افغانستان!ہم نے تمہیں دل دیا،تم نے ہمیں زخم دیے،مگردل اب بھی دھڑک رہا ہےاس اُمیدمیں کہ تم ایک دن بھارت کی چالوں سے آزادہوکرپھرسے اسلامی اخوت کی آغوش میں لوٹوگے۔اخوتِ ایمانی کے زخم اور تاریخ کے قرضداردن آج بھی امن کے خواب آنکھوں میں سجائے تاریخ کے ادھورے وعدوں کی تکمیل کیلئے منتظرہیں۔
گزشتہ چالیس برس سے وہ قلم جو تمہارے اور مدارس کے دفاع میں دنیا بھرکے فکری میدان میں دفاع کرتا چلا آرہاہے،اب بھی تمہارا منتظرہے کہ کب تم اپنے ہی رہبرملاعمر کے اقوال پر پہرہ دو گے جس نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ” ہم پاکستان کے احسانات کا قیامت تک بدلہ نہ چکا سکیں گے، جہاں ان کا پسینہ گرے گا، وہاں ہم اپنا خون گرائیں گے”۔تمہارے ہاتھوں ہمارے ہزاروں شہداء جب روزِ آخرت لہومیں ڈوبے اپنے لاشے لیکرتمہارے خلاف گواہی کیلئے حاضرہوں گے،توتم جواب کیلئے کہاں کھڑے ہوگے؟ملاعمر نے تومظلوم و مجبورکشمیریوں کو بھی بھارتی درندوں سے نجات دلانے کا وعدہ کیاتھا، آج ملا متقی کے دورہ ہند میں مقبوضہ کشمیر کو متعصب ہندومودی کی جھولی میں ڈالنے کا اعلان کرتے ہوئے ان تمام کشمیریوں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی،کیا اس کا جواب دے پاؤگے؟
پاکستان کے ازلی دشمن مودی کے مکارانہ چالوں میں آ کراب قدرتی طور پرپاکستان کی طرف بہنے والے دریائے کابل کا پانی کا رخ موڑنے کیلئے ایک ارب ڈالر کاسودہ کرکے آئے ہو، قدرت کے اس عمل کوروکنے کے گناہ میں شریک کار بننے پرکیا جواب دوگے؟ پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے والا مودی جو اب تک اپنے زخموں کی بے پناہ شدتِ درداورندامت کا بدلہ لینے کیلئے تمہارے کندھے اور سرزمین استعمال کرنے کیلئے ڈرون اور دیگر اسلحہ جات کا ڈھیر لگانے جا رہاہے،وہ جو اپنی حفاظت کرنے سے قاصرہے،اب تمہیں اپنی شیلڈبناکر بطور پراکسی استعمال کرنے جا رہا ہے،اور وہ تمہیں کسی اندھے غارمیں دھکیلنے اور گہری کھائی میں دھکہ دینے کی پالیسی پر عملدرآمدہوکر دونوں مسلمان ملکوں کوخطیرنقصان پہنچانے کی سازشوں میں اپنا مکروہ کردارکررہاہے۔
اب بھی سنبھلنے کا وقت ہے،لوٹ آؤ کہ دونوں اطراف کے امن پسندمسلمان اب بھی اپنے رب کے حضورسلامتی کیلئے دعاگوہیں۔