بندہ بشراپنے اندرکائنات ہوتاہے،ایک پوری دنیابسائے ہوئے۔گزرے ہوئے روزوشب اوربیتے ہوئے ماہ وسال آپ کے چہرے پرنشان چھوڑ جاتے ہیں۔انسان زندگی میں عجیب عجیب سے کام کرتاہے۔سکون کی تلاش میں سرگرداں انسان ایسی اشیاء میں بھی پناہ ڈھونڈتاہے جواسےبالآخر مارڈالتی ہیں۔آپ فلم یاڈرامہ کیوں دیکھتے ہیں اس لیے ناں کہ کچھ دیرکیلئےاپنی اداسی کوبھولیں حالانکہ آپ جانتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے،اداکاری ہے،ناٹک ہے اورنجانے کیاکیا۔جوزف ہیلرکے شاہکارافسانہ آشوب شہرکی کچھ سطریں ہیں۔”بڑے شہرمیں راستہ گم کردینا بہت اذیت ناک ہوتا ہے-اورآدمی کادماغ بھی ایک بڑا شہرہی جہاں آدمی بھٹکتا پھرتاہے …. ساری زندگی…. راستہ ڈھونڈتاہی ٹھوکریں کھاتاہے مگرراستہ نہیں ملتا۔ ملتاہی نہیں.. ..”دنیاایک بہت بڑا شہرہے اورہم سب اس شہرمیں بھٹک رہے ہیں، اجنبی ہیں ۔ ہکسلے نے کہاتھا ”جدید دنیااس قدرتیزی سے مادیت کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مادی آسائشوں کی مٹی آدمی کاچہرہ بھی ڈھانپ لے گی اورجس دن روحانیت کی آخری رمق بھی ختم ہوگئی اس دن کرہ ارض کے تمام باسی پاگل ہوجائیں گے”۔
میری زندگی بھی بہت سارے رنگ لیے ہوئے ہے۔پرائمری اسکول سے فٹ پاتھ پرقسمت کاحال بتانے والے نجومیوں کے ساتھ آشنائی،گھرسے بھاگ کرآنے والے لڑکوں کی دربدری اورکمپنی باغ کواپنا مسکن بنانے والوں کی سنگت،رات کوقبرستانوں میں سونے اوردن کومزدوری کرنے والوں کی زندگی،جوانی میں خون تھوک تھوک کررت جگے کاٹنے والے اورپھردل کی دنیا نشتروں کی زدمیں گزارنے والوں کی صحبت نے بہت کچھ سکھادیا۔ میں نے ایسے رنگارنگ لوگ بھی دیکھے جوبظاہرچور اچکے اٹھائی گیردکھائی دیتے لیکن اندرسے عالم فاضل،سفاک قاتل اور ان سفاک قاتلوں میں ولی،ولیوں کے روپ میں لٹیرے، جوگی کاروپ دھارے اورجھوٹے نگوں کی انگشتریوں سے ہاتھوں کی انگلیاں سجائے،ہرطرح کے رشتے ناطے، مجبوری کے ناتے توڑ کراپنی دنیامیں مست اورپھربہت سارے بابے،میں ان سب میں رہاہوں۔مجھ کمی کمین کورب نے نجانے کیاکیاسکھایا نجانے کیاکیاعنائت کیا،میں قطعاًاس کے لطف وکرم کاحقدارنہیں تھا۔بس کرم ہے،میں نے کبھی نہیں سوچامیرے اس کام کاانجام کیاہوگا۔دنیامجھے کیاکہے گی۔جب ایک دن مقررہے جہاں ہراک حاضرہوگااپنے رب کے حضورتوپھرکیااندیشہ سودوزیاں اورکیا رسوائی کاڈر۔
باباجی نے مجھے ایک دن کہاتھا،دیکھوانسان نے اپنے رب کوحاضرجانتے ہوئے ایک کام بہت اخلاص سے کیالیکن وہ بگڑگیا ،اس کاتوغم نہیں ہوتاکہ میں نے تویہ سوچ کرکیاہی نہیں تھا اوراگرکوئی کام بدنیتی سے کیااوروہ اچھے پھل پھول لے آیاتوبندہ سدا پریشان رہتاہے کہ میں نے توبہت بدنیتی سے کیاتھا،بس یہ ہے اصول زندگی کا۔اسی سے چمٹے رہناچاہے کچھ ہو جائے ۔ ٹالسٹائی نے کہاتھا”میں کیاکروں؟کہاں جاؤں؟ کائنات دائمی اورلامحدود ہے ، میں یہاں لمحے بھرکوچمکنے کے بعدبجھنے والاہوں….اوراب میں کچھ کرلوں۔اس طرف سے زمین کھودکر ادھر نکل جاؤں…. اس طرف سے کھودکر واپس اس طرف نکل آؤں،اپنی موجودہ حالت سے نجات ممکن نہیں ہے۔میرایہ آغازاورانجام کہاں کیوں اورکس کی مرضی سے طے کردیاگیاہے۔
جوگی کسی کو اپنے ساتھ چلنے پرمجبورنہیں کرتے،وہ صرف خواہش دریافت کرتے ہیں،کسی کومحل بنانے کی خواہش ہوتو کہتے ہیں بنالو،پھروہ دوسرا پھیرا لگاتے اورخواہش جانناچاہتے ہیں۔کسی بھی خواہش کااظہارکیاجائے تووہ کامیابی اورخوش رہنے کی دعادیتے ہوئے چلے جاتے ہیں لیکن کوئی ان کا دامن تھام لے اورخودہی چیخ کرکہے میری ساری خواہشات پوری ہوگئیں مگرمیں اب بھی بے چین ہوں تووہ اسے سکون کاراستہ دکھادیتے ہیں کہ سکون توصرف میرے رب کے ذکرمیں ہے۔ میں نجانے آپ سے کیاکہناچاہتاہوں،شایدیہ کہ ہم سب صرف خودجینا چاہتے ہیں لیکن کسی کوجینے کاحق دینانہیں چاہتے،یہی ہے میری زندگی کاتجربہ،عزیزترین رشتے داربدترین استحصالی ثابت ہوتے ہیں۔جب تک آپ ان کی ہدایات پرعمل کریں آپ بہت اچھے ہوتے ہیں،وہ آپ کے گن گاتے ہیں اورجیسے ہی وہ اپناحق وہ حق جو انہیں ان کارب دیتاہے،استعمال کرناچاہیں آپ ان کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں،آپ صرف خودکو دیکھتے ہیں۔
آپ کے پاس ہرایک کیلئےاپنے معیارات ہیں۔آپ کاہرپل نئی عینک لگالیتاہے۔کچھ دیرپہلے وہ جوعزیزترین تھااب بدترین بن جاتاہے اس لئے کہ وہ آپ کی ہدایات پرعمل پیرانہیں ہوتا ۔انسان کٹھ پتلی نہیں ہوتا،وہ ایک جیتاجاگتاوجودہوتاہے،اس کی کچھ خواہشات ہو تی ہیں جسے آپ نازونخرے سے پالتے ہیں،پھراسے خوداپنے ہاتھوں دفن کردیتے ہیں۔زیادہ سفاک یہ رویہ ہوتاہے کہ آپ خودانہیں مارڈالتے ہیں اورکوئی ان کی زندگی میں آکر تھوڑے سے رنگ بھردے اوران کے اداس چہرے پرمسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرے اوروہ کامیاب ہوجائے تو آپ اسے دوبارہ مارڈالتے ہیں اورخود کوکہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ہے اس لیے یہ کیاہم نے۔مجھے اقرارہے میں نے کسی کی بھی ہدایات پرعمل نہیں کیا۔جوٹھیک سمجھاوہ کیا،کسی کی پرواہ نہیں کی پہلے اپنے قصیدے سنے اورپھرگالیاں لیکن میں بازنہیں آیا،میں بازآبھی نہیں سکتا۔انسانوں کو رب نے جو حقوق دئیے ہیں وہ کیسے سلب کرسکتے ہیں آپ۔میں ان کے حق میں نغمہ سراہوتاہوں اورگالیاں کھاتااورمسکراتاہوں۔
بظاہرعام انتخابات کاطبل جنگ بج چکاہے اورتمام سیاستدان عوام کی خواہشات اورمجبوریوں سے کھیلنے کیلئے نئے جال لیکر اقتدارکی مسندپرپہنچنے کی بھرپورکوششوں میں مصروف ہیں۔مذاق کی بات تویہ ہے کہ ملک کی معیشت کوبربادکرنے کیلئے ایک دوسرے کوموردِ الزام ٹھہراکرخودکومسیحاکی شکل میں پیش کرتے ہوئے ہرکوئی اپنی بغل میں الہٰ دین کاچراغ چھپائے اس کاعلاج بتارہاہے۔اگریہ تمام سیاستدان سمجھتے ہیں کہ یہ اقتداراللہ کی امانت ہے اوراس میں بیتے ہوئے ایک ایک لمحے کاحساب دیناہے توپھراس کانمونہ بھی توپیش کرناہوگا۔خوشنماتقاریرکے غازی بن کرکتنی دیرعوام کودھوکہ دیں گے،دراصل آپ توخودکودھوکہ دے رہے ہیں۔ہمیں توہروقت احتساب کیلئے تیاررہناہوگا۔کیایہ جذباتی جملہ کہہ کرجان چھوٹ جائے گی کہ بی بی کی قبرکاٹرائل نہیں ہونے دیں گے جبکہ ہرکوئی جانتاہے کہ کسی بھی فردکے دنیامیں نہ رہنے سے اس کے خلاف دائرتمام مقدمات کسی اورعدالت میں منتقل ہوجاتے ہیں جہاں مکمل انصاف ہوتاہے۔
حساب توآپ سے مانگاجارہاہے کہ سوئٹزرلینڈکے صرف ایک بینک اکاؤنٹ میں6کروڑ ڈالرکہاں سے آئے؟کروڑوں کانیکلس کیسے آیااوراب کہاں ہے؟دنیاکے دوسرے بینکوں میں اورخفیہ اکاؤنٹس کی بابت توسوال بعدمیں آئیں گے۔آپ نے توسرے محل کی ملکیت سے بھی انکارکردیاتھالیکن جب اس کی فروخت کاوقت آیاتوحق ملکیت کیلئے برطانوی عدالت میں جاپہنچے ۔ایون فیلڈکے علاوہ دیگراربوں کے اثاثے کیسے بن گئے؟ برطانیہ کی عدالت کے باہرحدیبیہ پیپرملزکامقدمہ کتنے ملین ڈالرزکی ادائیگی کے بعدختم ہوااوریہ رقم کی منی لانڈرنگ کا حساب کون دے گا؟ملک ریاض کی منی لانڈرنگ میں برطانیہ سے واپس ہونے والی رقوم جوملکی خزانے میں جانی تھی ، وہ دوبارہ ملک ریاض کے عدالتی حکم کے بعدواجب الاداہونے کی بجائے کیسے منہاہوگئی؟اس رقوم کی واپسی کیلئے کیالین دین ہوا؟ابھی تواس کرپشن کے بدبودارگٹرکاڈھکناتھوڑاساسرکایاہے،بہت کچھ باقی ہے جس کاقوم کوحساب دیناہوگا۔نیب کے قوانین میں من مرضی کی ترامیم کرکے خودکو پاکبازقراردینے کی چالیں کب تک چلیں گی؟
یہ توہم سب جانتے ہیں کہ یہاں سے خالی ہاتھ جاناہے۔آپ نہ توفرعون سے زیادہ طاقتورہیں اورنہ ہی شدادسے زیادہ دنیاوی خزانوں کے مالک۔آپ تواس قدرخوفزدہ ہیں کہ اپنے دور حکومت میں بھی قصرسفید کے فرعون کواپنی مددکیلئے پکارتے رہےجواس زمانے میں اس خطے سے نکلنے کیلئے مددکے طالب تھے۔اس سلسلے میں آپ نے ان کواپنے مقررکردہ سفیرغدار وطن حسین حقانی کے ذریعے پیغام بھیجاکہ ہم تو وفاداری کیلئے مکمل تیارہیں لیکن ہماری فوج نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں ۔حسین حقانی تواب بڑی بے شرمی کے ساتھ ہمسایہ دشمن انڈیاکے پلیٹ فارمز پراس کاکھلاکھلا اعتراف بھی کر رہاہے اور اپنی کتاب میں بھی اس کااقرارکررہاہے۔میموگیٹ سکینڈل کوکیسے بھول جائیں جس کے چشم دیدگواہ اب بھی موجودہیں ۔ آپ کے دورِ حکومت میں سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈنعیم لودھی کوبلاکراپنے دفاع کیلئے ایک ایسے بیان پر دستخط کرنے کیلئے کہاگیا جس کے انکارپر انہیں اس منصب سے ہٹادیاگیا۔کیاآپ نے یہ سمجھ رکھاہے کہ جس طرح اپنے ہرکارے واجدشمس الحسن کو برطانیہ میں سفیرمقررکرکےاپنے مقدمات کےتمام کاغذات کوواپس لیکران میگاکرپشن کے مقدمات کومنوں مٹی میں دفن کردیاہے،میمو گیٹ میں بھی یہ حربہ کامیاب ہوجائے گا اوراسی کی تقلید میں نیب میں موجودہ مقدمات کونیب ترامیم کی آڑمیں ختم کروانے کےبعدملکی خزانے پرایک مرتبہ پھرخوں آشام حملہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟
جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کے پنجرے کی اسیرہوئی،اس کے نتیجے میں خلقت صرف حقیرہوئی۔عوام کے سامنے اپنے تمام عیوب،ناکامیاں گزشتہ حکومت پرڈال کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی۔صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،عوام کے علم میں سب کچھ ہے،اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں،عوام کودئیے گئے ریلیف سے ہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔انسان کے جذبات ناقابل تسخیرہوتے ہیں۔مگریہ بھی توسوچیں کہ ان کے دردکے فاصلوں کو کیسے کم کرناہے ۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل ودماغ کے درمیان دشمنی لگادیتے ہیں۔ایسے میں دل اپنانہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں ۔ اب اس بیمارسوچ کوذہن سے کھرچ کرنکالناہوگاکہ ان دونوں کی لڑائی میں ہمارافائدہ ہے۔ سیلاب اور زلزلہ جھونپڑی اورمحلات میں کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔اپنے بھائی کے استقبال کیلئے اپنے جلسوں میں یہ دعویٰ کیاجارہاہے ہے کہ ہم نے سیاست نہیں ریاست بچائی ہے اورملک کودیوالیہ سے بچالیاہے۔اگریہ واقعی پاکستان پہلے سے بہترہوگیا ہے ،لوگ توتب مانیں گے۔
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں
میں صحراتھاسمندرہوگیاہوں
کیا آپ اپنے کبیروخبیررب کی یہ دل دہلادینے والے خبرکوجھٹلانے کی ہمت رکھتے ہیں جس نے واضح طوربتادیاہے کہ:جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلاڈالی جائے گی،اورزمین اپنے اندرکے سارے بوجھ نکال کرباہرڈال دے گی،اورانسان کہے گاکہ یہ اِس کوکیاہورہاہے،اس روزوہ اپنے اوپرگزرے ہوئے حالات بیان کرے گی،کیونکہ تیرے رب نے اسے ایساکرنے کاحکم دیاہوگا۔اس روزلوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کودکھائے جائیں۔پھرجس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گا،اورجس نے ذرہ برابربدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا(الزلزال8۔1)
شایدیہی ہے میراسب سے بڑاجرم لیکن یہ میں کرتارہوں گاچاہے آپ کوکتنابھی ناگوارہو۔آپ ضرورجئیں،سداجئیں لیکن اوروں کوبھی جینے دیں ۔کسی کوبھی اپنی خواہشات کی سولی پرمت چڑھائیں۔آپ نے کسی کی خوشیاں چھینیں توآپ بھی خوش نہیں رہیں گے۔یہ دنیااسی طرح غموں کے سمندر میں غوطے کھاتی رہے گی اورآخرڈوب جائے گی۔اپنے دل کے چراغ کو روشن رکھئے،کوئی آپ کاکچھ نہیں بگاڑسکتا۔ادھوری سچائی پورے جھوٹ سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہے۔ریت پرقلعے تعمیرنہیں کیے جاسکتے۔سچ کوچھپایانہیں جاسکتا،وہ اپناراستہ خود نکالتاہے چاہے کچھ دیرکیلئےوہ پسپاہو جائے لیکن وہ ہمیشہ سرخرورہتاہے۔ آپ اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ بعض اوقات خون کی بوندوں سے الفاظ مرتب ہوتے ہیں اورخون توویسے ہی سرچڑھ کر بولتاہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ اللہ دلوں،کانوں اورآنکھوں پربھاری پردے ڈال کرمہرلگادے اور سننے ودیکھنے کی صلاحیت سلب کر دے ۔
یاد رکھیے یہاں کوئی دائم آبادتھانہ رہے گا۔سب چلے جائیں گے،پھراک دن جمع کیے جائیں گے کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔وہاں حساب ہوگا،بڑا کڑا حساب ہوگا۔ملک سے لوٹی ہوئی دولت جواللہ کی طرف سے اس غریب اوربیکس عوام کی امانت تھی،اس کا حساب دیناہوگا۔آخراقتدارکے شاہانہ ٹھاٹ بھاٹھ کابھی توحساب دیناہوگا۔لاکھوں جانوں کی قربانی دیکر یہ ملک اس وعدے پرلیاتھا کہ یہاں صرف میرے رب کاقانون چلے گا،میں توبس تیراخلیفہ ہوں۔خودکودھوکہ دیتے ہوئے76سال بیت گئے،منزل قریب ہوتے ہوئے بھی دورہوتی چلی گئی،زمانے بھرکی رسوائیوں میں غرق ہو گئے ہیں لیکن پھربھی اس کی غلامی کرنے کوتیارنہیں۔ تیاری کرلیں کہ کوئی حساب سے مبرانہیں۔
ریاکے دورمیں سچ بول تو رہے ہومگر
یہ وصف ہی نہ کہیں احتساب میں آئے