اہلِ یورپ آج بھی اس خیال کے حامل ہیں کہ علم اورٹیکنالوجی کے میدان میں غیرمعمولی پیش رفت کے ذریعے وہ بھرپور فتوحات کے حامل ہوتے چلے جائیں گے۔یہ محض خام خیالی ہے۔عسکری قوت کے بغیرکسی بھی سطح پراپنے آپ کومنوانا انتہائی دشوارہوتاہے۔یورپ کونرم قوت پرنازہے مگر اب وہ سوچنے پرمجبورہورہے ہیں کہ عسکری قوت کے بغیرآگے بڑھتے رہنااوراپنی فتوحات کوبرقرا رکھنا انتہائی دشوارہے۔یورپ کے بہت سے باشندوں نے اس حقیقت پرہمیشہ فخرکیاہے کہ انہوں نے امریکاکی طرح ہرمعاملے میں عسکری قوت بروئے کارلانے پرٹیکنالوجی اورمعاشی قوت کوآلہ کار بنانے کوترجیح نہیں دی ۔ان کے خیال میں ایساکرنے سے دنیابھرمیں یورپ کے حوالے سے یہ تاثر مستحکم ہواہے کہ وہ اپنے مفادات کیلئے کسی کے امن کوداؤپرلگانے کی بجائے مل جل کرچلنے پریقین رکھتاہے۔یورپ کے عام باشندے کے دل میں یہ احساس پایاجاتاہے کہ دنیاکو اصولوں اور اخلاقی اقدارکے مطابق چلانے کی کوشش کرکے یورپ کے قائدین نے امریکا پراخلاقی برتری حاصل کی ہے ۔ہر معاملے کوعسکری قوت کے ذریعے حل کرنے کے بجائے بات چیت، اشتراکِ عمل، معاونت اورامن کے ذریعے درست کرنے کی کوشش اہلِ یورپ کے نزدیک بہت وقیع ہے۔
یورپی قائدین کواس بات کااحساس تھاکہ اگروہ ایک معاملے میں طاقتورنہیں ہیں تودوسرے معاملے میں ہیں۔عسکری قوت اگرچہ کم ہے مگرمعاشی اعتبارسے سپرپاورکے درجے میں ہوناکیابُراہے۔ان کایہ بھی خیال تھا کہ عسکری مہم جوئی سے گریزکرکے وہ اپنی طرزِزندگی کومحفوظ رکھنے میں بہت حدتک کامیاب ہو جائیں گے۔یورپی یونین اِسی خیال سے اب تک عسکری مہم جوئی سے گریزکی راہ پرگامزن دکھائی دے رہی تھی لیکن نیٹوکوامریکاکے ماتحت کرکے اس تاثرکی نفی ہوگئی ہے۔
یقیناً1990ءکے عشرے میں بین الاقوامی ادائیگیوں کوڈالرسے الگ کرنے کی خاطریوروکامتعارف کرایاجانابھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔فرانس کے ارادے بلند ترتھے تاہم جرمنی بعض معاملات میں متشکک دکھائی دیا۔امریکا کیلئےیہ مشکل گھڑی تھی۔ اُسے اندازہ تھا کہ یورپ اپناراستہ بدل رہاہے۔ عالمی مالیاتی نظام اب تک ڈالرسے وابستہ ہے۔یوروکامتعارف کرایاجانااِس امرکی دلیل تھاکہ یورپ اب امریکا کی پالیسیوں سے زیادہ متفق نہیں۔
یورپی یونین کویہ اندازہ نہ تھا کہ بھرپورعسکری قوت کے بغیروہ اپنی خارجہ پالیسی کوبہتراندازسے آگے نہ بڑھاسکے گااور معاشی مفادات کوتحفظ فراہم کرنابھی ممکن نہ رہے گا۔امریکانے اس کمزوری کابھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مفادات کوزیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کاسلسلہ شروع کردیا ہے۔ایران کے معاملے میں اُس نے یہی کیاہے۔امریکی قیادت نے ایران پرنئی پابندیاں عائدکرنے کے ساتھ ساتھ اُن یورپی کاروباری اداروں کے خلاف بھی کارروائیوں کااعلان کردیاجوایران سے لین دین جاری رکھیں گے۔ساتھ ہی ساتھ امریکانے اُن اتحادیوں کے خلاف کارروائی کابھی عندیہ دیاہے جوایران سے تیل خریدناترک نہیں کریں گے۔
فولاداوردیگراشیاپردرآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے بھی نئی اقتصادی جنگ شروع ہوئی ہے۔امریکانے چین سے فولاداوردیگر اشیاکی درآمدپرڈیوٹی بڑھائی توچین نے بھی جوابی اقدامات کیے۔اب کوئی ہفتہ نہیں گزرتاجب دونوں ممالک مختلف اشیاپر درآمدی ڈیوٹی بڑھانے کااعلان نہ کرتے ہوں۔یورپی یونین کے کاریں بنانے والے ادارے بھی پریشان ہیں کہ اس صورت حال میں کریں توکیاکریں۔تجارتی جنگ سے جلدیابدیرمحض نقصان ہی ہوگا۔ امریکااوریورپ دونوں کے صنعتی اورتجارتی اداروں کوغیر معمولی مسابقت کاسامناہوگا۔خام مال مہنگاہوتاجائے گا۔منافع کی شرح گرتی جائے گی۔ یورپ کے بہت سے صنعتی اداروں کو چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی کے سبب اپنی سرگرمیوں کابڑاحصہ امریکامنتقل کرناپڑے گا۔امریکی اداروں کابھی حال بُراہی ہوگا۔یہ سب کچھ ایک بڑے معاشی بحران کوجنم دینے کاسبب بن سکتاہے۔معاملات زیادہ بگڑنے کاخدشہ یوں بھی ہے کہ یورپی یونین کے بہت سے ارکان سلامتی کےحوالے سے نیٹوکی کمٹمنٹ پوری کرنے سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کواداکرنے کی کوشش نہیں کررہے۔جرمنی اوردیگربڑی طاقتوں سےیہ شکایت عام ہے کہ وہ عسکری کاروائیوں کیلئےخاطرخواہ فنڈزفراہم نہیں کررہے۔اگرفنڈزکی کمی برقراررہی تو امریکانیٹوکے پلیٹ فارم سے مشرقی یورپ میں پولینڈ،ایسٹونیا،لٹویااورلتھوانیاکی سلامتی کی ذمہ داری سے کنارہ کش ہوسکتاہے۔یہ صورت حال بہت پریشان کن ہے اوریہ صورتحال برقراررہی توتجارتی جنگ کو کسی انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہوسکتی ہے۔
انیسویں صدی کے دوران افیون کی جنگ کے دوران برطانوی برآمدات کوکسی بھی رکاوٹ سے بچانے میں مرکزی کردار برطانوی قیادت کی جانب سے طاقت کے استعمال کی دھمکی نے اداکیاتھا۔امریکابھی یہی کچھ کرتاآیاہے۔اب بھی وہ اپنے معاشی مفادات کوزیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطر طاقت کے بے محابااستعمال کی راہ پرگامزن ہوسکتاہے۔اگرامریکااپنی منڈیاں بندبھی کردے توبعض خطوں سے فوج ہٹانے کی دھمکی اُس کی مصنوعات کیلئےراہ کھلی رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
یہ نکتہ کوئی بھی ایک مضبوط دلیل کی حیثیت سے پیش کرسکتاہے کہ مشرقی یورپ سے افواج ہٹاناحکمتِ عملی کے اعتبار سے ایک بڑی غلطی تصورکیا جائے گاکیونکہ ایساکرنے سے روس کواپنے اثرات کا دائرہ وسیع ترکرنے میں غیرمعمولی حدتک مددملے گی۔اس سلسلے میں امریکاایسی فضاپیداکرنے کی کوشش کررہا ہےجہاں معاملات اس کے حق میں ہموارہوں اوردوسراروس کوکنٹرول کیاجاسکے،اس سے مشرقی یورپ میں یہ تاثرپیداہوگاکہ اس کا وجود خطرے میں ہے ۔ ایسی صورت میں یورپی یونین کیلئےامریکاکی مرضی کی راہ پرگامزن ہونے کے سواکوئی چارہ نہ رہے گا۔ابہام پیداکرکے امریکی قیادت سرمایہ کاری کا رخ بھی موڑسکتی ہے اورووٹرزکوبھی مجبورکرسکتی ہے کہ وہ طاقت کے استعمال کے حق میں ووٹ دیں۔یورپی قائدین اب تک اس امرکے خواہش مندرہے ہیں کہ معاشی قوت سے کام لیاجائے اورعسکری قوت کوبہترین آپشن کی حیثیت سے بروئے کارنہ لایاجائے جبکہ امریکاچاہتا ہے کہ عسکری قوت کے استعمال کاآپشن پہلے نمبرپررکھاجائے۔اس کی تمام پالیسیاں عسکری قوت کے استعمال کے ذریعے اپنی بات منوانے کی بنیادہی پراستوارہیں۔
ٹرمپ کے دورمیں،بدقسمتی سے،یورپ کیلئے پیغام یہ رہاہے کہ اگروہ اپنے معاشی مفادات کوحقیقی اوردیرپاتحفظ فراہم کرناچاہتا ہے تو اپنے طورپرکچھ نہ کچھ کرنا پڑے گایعنی عسکری قوت کے ذریعے دنیاکویہ پیغام دیناپڑے گاکہ وہ اپنے مفادات کوتحفظ فراہم کرسکتاہے۔اس لئے یورپی یونین کیلئے ممکن نہیں کہ عسکری قوت بروئے کارلائے بغیرخارجہ پالیسی اور معیشت کے میدان میں اپنی بات باقی دنیاسے منواسکے۔یورپ پریہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگروہ اپنے معاشی مفادات کوحقیقی تحفظ فراہم کرنے کاخواہش مندہے تو امریکاپرزیادہ انحصارکرناچھوڑدے لیکن افغانستان سے انخلا نے صورتحال مکمل طورپر تبدیل کر دی ہے۔