The lamp of truth

حق کے چراغ

:Share

حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے پیکاترمیمی بل2025اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025منظورکیے ہیں،جن پرمختلف حلقوں کی جانب سے تنقید اورتشویش کااظہارکیاجارہاہے۔ان قوانین کے تحت حکومت پرالزام عائدکیاجارہاہے کہ وہ آزادیٔ اظہارکومحدود کرنے اوراپنے مخالفین کونشانہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔اگران قوانین کی تفصیلات،ان کے ممکنہ فوائداور نقصانات،اورآزادیٔ اظہارپران کے اثرات کاجائزہ لیں تویوں محسوس ہوتا ہے کہ اس بل میں بے مہارآزادی اظہارپرپابندی کے نام پراس آزادی کابھی گلہ گھونٹ دینے کی کوشش کی گئی ہے جوبہرحال کسی بھی ادارے کی من مانی پرقدغن لگانے کیلئے ضروری ہے۔

پیکاترمیمی بل2025کے تحت”سوشل میڈیاپروٹیکشن اینڈریگولیٹری اتھارٹی”کے قیام کی تجویزدی گئی ہے۔یہ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اورحقوق کویقینی بنانے،سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی رجسٹریشن،معیارات کے تعین،اورغیرقانونی موادکوہٹانے جیسے اختیارات کی حامل ہوگی۔بل کے مطابق،فیک نیوزپھیلانے پرتین سال قیدیا20لاکھ روپے جرمانہ یادونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔غیرقانونی موادکی تعریف میں اسلام مخالف،ملکی سلامتی یادفاع کے خلاف مواد،جعلی یاجھوٹی رپورٹس،عدلیہ یامسلح افواج کے خلاف مواد،امن عامہ،غیرشائستگی، توہین عدالت،غیراخلاقی مواد،اور کسی جرم پراکساناشامل ہیں۔

اگرچہ دستیاب معلومات میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کی مخصوص تفصیلات محدودہیں،تاہم اس بل کامقصدملک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچرکو مضبوط کرنااورڈیجیٹل معیشت کوفروغ دینا ہوسکتاہے۔اس میں ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ،آن لائن سروسزکی ریگولیشن،اورڈیجیٹل خواندگی کوبڑھانے جیسے اقدامات شامل ہوسکتے ہیں۔

سوال یہ ہے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیاکی نگرانی اورریگولیشن کیلئےپہلے ہی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)موجودہے،جوٹیلی ویژن اورریڈیونشریات کوکنٹرول کرتی ہے۔دراصل پیمراکادائرہ کارالیکٹرانک میڈیاتک محدودہے اوریہ سوشل میڈیایاآن لائن پلیٹ فارمزپرمؤثرکنٹرول نہیں رکھتا۔انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ،آن لائن پلیٹ فارمزپرجعلی خبروں،نفرت انگیزمواد،اورغیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئےمخصوص قوانین کی ضرورت محسوس کی گئی۔

پیکاترمیمی بل2025کے تحت سوشل میڈیاپروٹیکشن اینڈریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی تجویزدی گئی ہے،جوسوشل میڈیاپلیٹ فارمزکی نگرانی اور ریگولیشن کیلئےمخصوص ہوگی۔اس کے علاوہ، قومی سائبرکرائم تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کی بھی تجویزہے، جوسوشل میڈیاپرغیرقانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔تاہم،پیکاترمیمی بل2025اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کی منظوری کے بعدسوال اٹھتاہے کہ ان نئے قوانین کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیاپیمراکے قیام کے وقت ان خطرات کاعلم نہیں تھاجن کاذکر کرکے نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں جن پرساری صحافتی برادری احتجاج کررہی ہے۔

حکومت کامؤقف ہے کہ ان قوانین کے ذریعے غیرقانونی،غیراخلاقی،اورملک دشمن موادکی نشریات کوکنٹرول کیاجاسکے گا،جو معاشرتی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کیلئےفائدہ مندہوسکتاہے۔فیک نیوزاورغلط معلومات کے پھیلاؤکوروکنے کیلئےسخت سزائیں مقررکی گئی ہیں،جومعاشرتی انتشارکوکم کرنے میں مددگارثابت ہوسکتی ہیں۔سوشل میڈیاپلیٹ فارمزکی رجسٹریشن اورمعیارات کے تعین سے آن لائن موادکی نگرانی اورصارفین کے حقوق کاتحفظ ممکن ہوگا۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان قوانین کی وسیع تعریفات اورسخت سزاؤں کی وجہ سے آزادیٔ اظہارپرقدغن لگنے کاخدشہ ہے،جو جمہوری اقدارکے منافی ہوسکتاہے۔حکومت ان قوانین کااستعمال اپنے مخالفین کونشانہ بنانے اورتنقیدی آوازوں کودبانے کیلئےکر سکتی ہے،جوسیاسی آزادی کیلئےنقصان دہ ہوسکتاہے۔صحافی تنظیموں نے ان قوانین کی مذمت کی ہے اورانہیں آزادیٔ صحافت کیلئےخطرہ قراردیاہے،جوآزادمیڈیا کی فعالیت کومحدودکرسکتاہے۔ان قوانین کے نفاذسے آزادیٔ اظہارپرمنفی اثرات مرتب ہونے کاخدشہ ہے۔وسیع اورمبہم تعریفات کی وجہ سے جائزتنقیداوررائے کا اظہاربھی غیرقانونی قراردیاجاسکتاہے،جس سے خودسنسرشپ کارجحان بڑھ سکتاہے۔اس کے علاوہ،حکومت کی جانب سے ان قوانین کاممکنہ غلط استعمال سیاسی مخالفین اورتنقیدی آوازوں کودبانے کیلئےکیاجاسکتاہے،جوجمہوری معاشرے کیلئےنقصان دہ ہے۔

پیکاترمیمی بل2025اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کے مقاصدمیں غیر قانونی موادکی روک تھام اورسوشل میڈیاکی ریگولیشن شامل ہیں،جو بظاہر مثبت اقدامات ہیں۔تاہم،ان قوانین کی وسیع تعریفات،سخت سزائیں،اورحکومتی اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کی وجہ سے آزادیٔ اظہار،آزادیٔ صحافت،اورسیاسی آزادی پرمنفی اثرات مرتب ہونے کاخدشہ ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان قوانین پرنظرثانی کی جائے اورتمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرزبشمول میڈیا،سول سوسائٹی،اورانسانی حقوق کی تنظیموں کی مشاورت سے متوازن قانون سازی کی جائے،تاکہ آزادیٔ اظہاراورقومی سلامتی کے درمیان مناسب توازن قائم کیاجاسکے۔

اگرچہ پیمراالیکٹرانک میڈیاکی نگرانی کیلئےموجودہے،لیکن آن لائن اورسوشل میڈیاپلیٹ فارمزپرمؤثرکنٹرول کیلئےنئے قوانین کی ضرورت محسوس کی گئی۔تاہم،پیکاترمیمی بل2025کی منظوری کے بعدصحافیوں اورآزادیٔ اظہارکے حامیوں کی جانب سے اس پرشدیدتحفظات کااظہارکیاجارہاہے۔عالمی صحافتی ادارے ممکنہ طورپراس احتجاج میں شامل ہوسکتے ہیں اورپاکستانی صحافیوں کی حمایت میں آوازبلندکرسکتے ہیں۔پیکاترمیمی بل2025کی منظوری کے بعدپاکستان کی صحافتی تنظیموں نے اس کے خلاف ملک گیراحتجاج کااعلان کیاہے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یوجے)کی کال پرلاہور، اسلام آباد،کراچی سمیت مختلف شہروں میں صحافیوں نے ریلیاں نکالیں اوراس قانون کوآزادیٔ صحافت کیلئےخطرہ قراردیا۔

عالمی سطح پر،صحافیوں کے حقوق اورآزادیٔ اظہارکے تحفظ کیلئےکام کرنے والے ادارے جیسے رپورٹرزودآؤٹ بارڈرزاور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس، کمیٹی توپروٹیکٹ جرنلسٹس ممکنہ طورپر اس احتجاج میں شامل ہوسکتے ہیں۔یہ ادارے ماضی میں بھی پاکستان میں صحافیوں کے خلاف قوانین اوراقدامات پرآوازاٹھاتے رہے ہیں اورحکومت پردباؤڈالنے کیلئےبیانات جاری کرتے رہے ہیں۔اگرپاکستان کی صحافتی تنظیمیں ان عالمی اداروں ے رابطہ کرتی ہیں توممکن ہے کہ یہ ادارے اس معاملے پر پاکستانی صحافیوں کی حمایت میں بیانات جاری کریں اوربین الاقوامی سطح پراس مسئلے کو اجاگرکریں۔

یہ امرقابل غورہے کہ یہی قانون2022میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے متعارف کرانے کی کوشش کی تھی،جس پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے شدیداحتجاج کیاتھا۔اُس وقت مسلم لیگ(ن)،پیپلزپارٹی اوردیگرجماعتوں نے اس قانون کو”آمریت زدہ”قراردیاتھا اور عدالتوں میں چیلنج کیاتھالیکن آج جب یہی جماعتیں اقتدارمیں ہیں،تووہ اسی قانون کومضبوطی سے نافذکرنے کی کوشش کررہی ہیں،جبکہ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی اس کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔یہ ظاہرکرتاہے کہ پاکستان میں سیاستدان ہمیشہ اپنی حکومت کے مفاداور اقتدار کے دوام کیلئےایسے جابرانہ قوانین کافائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملکی سیاستدانوں کے اس دوہرے معیار کومدنظررکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اس بل کے فوائداورنقصانات کوحکومتی مفادکے بجائے عوامی مفادکی نظرسے دیکھاجائے تاکہ آزادیٔ اظہاراورقومی سلامتی کے درمیان مناسب توازن قائم کیاجا سکے۔مقتدرافراد کو یہ بھی یادرکھناچاہئے کہ اقتدارکاعارضی نشہ جلدختم ہوتےہی مکافاتِ عمل کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے۔

آخرمیں ایک واقعہ کے ساتھ اجازت چاہتاہوں:
پاکستان کے ایک بہت بڑے صحافی اورشاعرآغا شورشؔ کشمیریؒ نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کوایک خط لکھاجس میں انہوں نے کہا”مولاناتاریخ انسانی میں ہمیشہ باطل کی فتح ہوئی ہے“۔مولانانے اس خط کے جواب میں جولکھاوہ سننے کے لائق ہے:
حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ وہ بجائے خودحق،ہے،وہ ایسی مستقل اقدارکانام ہےجوسراسرصحیح اورصادق ہے۔اگرتمام دنیااس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہےکیونکہ اس کاحق ہونااس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیااس کو مان لے،دنیاکاماننانہ مانناسرے سے حق وباطل کے فیصلے کامعیارہی نہیں ہے۔دنیاحق کونہیں مانتی توحق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیاہےجس نے اسے نہ مانااورباطل کوقبول کرلیا.ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انہیں ردکردیااورباطل پرستوں کواپنارہنمابنایا۔اس میں شک نہیں کہ دنیامیں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اوروہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں، لیکن لوگوں کاردوقبول ہرگزحق وباطل کامعیارنہیں ہے۔لوگوں کی اکثریت اگراندھیروں میں بھٹکنااور ٹھوکریں کھاناچاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اورٹھوکریں کھاتی رہے۔ہماراکام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلاناہی ہےاورہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ہم اس سےاللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یابھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔اللہ کایہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔اس احسان کاشکریہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں