The Iran-Israel conflict: a global challenge

ایران-اسرائیل تنازع:عالمی چیلنج

:Share

گزشتہ کئی برسوں سے ایران پر حملہ کرنے کیلئے اسرائیل بہانے تلاش کر رہا تھا اور بالخصوص گزشتہ سال7/ اکتوبر سے غزہ میں جس درندگی کا وہ اظہار کر رہا ہے، وہ مسلسل ایران کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہا تھا اور ایک طویل عرصے سے ایران کو اشتعال دلانے کیلئے اس کے ایٹمی پروگرام پرحملوں کی دہمکیاں بھی دے رہا تھا جس میں بالآخر اسرائیل کامیاب ہو گیا ہے۔اس سے قبل رواں برس اپریل کے آغاز میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے دو سینیئر کمانڈر شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر ہونے والے میزائل حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔اسرائیل کی جانب سے اس حملے کی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تھی تاہم عام خیال یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔

ایرانی دارالحکومت تہران میں رواں برس 31جولائی ایرانی وقت کے مطابق دو بجے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ان کے ذاتی محافظ کے ساتھ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلفِ وفاداری کی تقریب میں شرکت کے بعد فوج کے زیرانتظام ایک مہمان خانے پر میزائل حملے میں شہید کر دیا گیا تھا اور اب 27ستمبر2024ء کو اسرائیلی میزائل حملے میں حزب اللہ کے انتہائی مقبول رہنماء 64 سالہ حسن نصراللہ و دیگر ساتھیوں سمیت ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے جنرل عباس نیلفروشان کی شہادت کے بعد ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر بالآخر منگل جو یہودیوں کے نئے سال کا پہلا دن تھا، کی شب اسرائیل پر صرف 4 سو سیکنڈ میں 200 بیلیسٹک ایرانی میزائل حملوں کی بارش نے دنیا بھر کی نظریں ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ پر مرکوز کر دی ہیں جہاں ایک خونیں تنازع اب ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ سٹاک مارکیٹس سے لے کر عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں تک سب ہی مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورت حال اور فریقین کے اگلے قدم کے حوالے سے پیشگوئی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سب کے بیچ دنیا کی تین بڑی طاقتیں امریکہ، چین اور روس اس تنازع کا حل تلاش کرنے میں بدستور ناکام دکھائی دیتی ہے۔ سات اکتوبر کے حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں بڑھنے والی کشیدگی اب غزہ، لبنان اور یمن کے بعد ایران تک پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اسرائیلی حملوں میں اب تک حماس اور حزب اللہ کے سینیئر رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔اس جنگ کے دوران اسرائیل اپنے دشمنوں بشمول حزب اللہ، حماس اور ایران کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرتا ہوا نظر آیا ہے۔گزشتہ ہفتے لبنان میں اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت تنظیم کے متعدد رہنما بھی مارے گئے تھے اور ان کے علاوہ حزب اللہ کے متعدد سینیئر رہنما بھی ہلاک ہو چکے ہیں اوراب تو اسرائیل کے دفاع کیلئے سینہ ٹھونک کر امریکا بھی میدان میں اتر آیا ہے اور یقیناً امریکا کےاتحادی بھی اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے حزب اللہ، حماس اور ایران کے خلاف کارروائیوں میں شامل ہو گئے ہیں ۔

بظاہر تو امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین میں شامل متعدد ممالک نہ صرف غزہ بلکہ لبنان میں بھی جنگ بندی کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن یہ کوششیں تاحال کارگر ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ امریکا سمیت متعدد ممالک کو یہ اندیشہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں لڑی جانے والی جنگ پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیل سکتی ہے۔ گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ’باقاعدہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔اس مسئلے کا سفارتی حل اب بھی ممکن ہے، بلکہ کثیرالمیعاد سکیورٹی کو یقینی بنانے کا راستہ بھی یہی ہے لیکن تمام تر اپیلوں کے باوجود اسرائیل نے غزہ اور لبنان میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ایران کے حملے کے بعد اس کی جانب سے ایک بار پھر ایران پر حملے کی دھمکی دی ہے۔

سات اکتوبر 2023 کے بعد سے جہاں غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب سات اکتوبر 2023کے بعد سے جہاں غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم ازکم 40,602 افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ 93,855 افراد زخمی ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں وہیں ستمبر 2024 میں لبنان پر اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد ایک ہزارسے زیادہ ہے۔دوسری جانب غزہ کی پٹی میں گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں حماس کے خلاف کی گئی زمینی کارروائیوں کے دوران اسرائیل کے درجنوں فوجی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں جبکہ حزب اللہ کی جانب سے سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل پر راکٹس داغے جانے کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ ایک برس کے دوران حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے مختلف علاقوں پر مجموعی طور پر آٹھ ہزار سے زیادہ راکٹ داغے جا چکے ہیں۔یمن کے حوثی جنگجو بھی غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے بحیرۂ احمر میں اسرائیل آنے اور جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اس سے قبل رواں برس اپریل کے آغاز میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے دو سینیئر کمانڈر شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر ہونے والے میزائل حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے اس حملے کی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تھی تاہم عام خیال یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔

گذشتہ دنوں اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں یہ تمام تر اقدامات اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔اسرائیل امن کا خواہاں ہے۔۔مگر پھر بھی ہمیں وحشی دشمنوں کا سامنا ہے جو ہماری تباہی چاہتے ہیں، اور ہمیں ان کے خلاف اپنا دفاع کرنا چاہیے۔نیتن یاہو نے ایران پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایران سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے سات مختلف محاذوں پر اپنا دفاع کر رہا ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسرائیل یہ جنگ جیتے گا کیونکہ یہ جنگ جیتنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

دوسری طرف لبنان کا محاذ گرم ہونے سے قبل امریکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کروانے کے لیے مذاکرات کی کوشش بھی کرتا رہا ہے، تاہم یہ مذاکرات تاحال تعطل کا شکار ہیں لیکن ابھی بھی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ جنگ بندی کے مطالبات اور سفارتی کوششوں کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہو رہا لیکن عالمی تجزیہ نگارامریکا کے ایسے بیانات کوشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ابھی بھی نیتن یاہو کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات کو دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ جنگ بندی کے مطالبات اور سفارتی کوششوں کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیے گئے ایرانی عوام کے نام تین منٹ کے ویڈیو پیغام میں اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’مشرقِ وسطیٰ میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اسرائیل نہیں پہنچ سکتا، کوئی ایسا مقام نہیں جہاں ہم اپنے لوگوں اور ملک کی حفاظت کے لیے نہیں جا سکتے۔‘ انھوں نے ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’ہر گزرتے لمحے کے ساتھ (ایرانی) حکومت معزز فارسی عوام کو تباہی کے قریب لے جا رہی ہے۔‘نیتن یاہو نے مزید کہا جب ایران ’بالآخر آزاد ہوجائے گا‘ تو سب کچھ بدل جائے گا اور دونوں قومیں امن سے رہ سکیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’جنونی ملاؤں کو اپنی امیدیں اور خواب کچلنے نہ دیں، آپ بہتری کے مستحق ہیں۔ ایرانی عوام جان لیں کہ اسرائیل آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم ساتھ مل کر خوش حال اور پُرامن مستقبل دیکھیں گے۔‘

ایران کے میزائل حملوں کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی تین بڑی طاقتیں آخراس تنازع میں شامل فریقوں کو فائر بندی پر رضامند کیوں نہیں کر پا رہیں اور امریکا کے علاوہ روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اس معاملے پر کوئی مؤثر کردار کیوں ادا نہیں کر پا رہیں؟مشرقِ وسطیٰ اور بین الاقوامی خارجہ پالیسی پر نظررکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا، روس اور چین جیسے ممالک کے درمیان عدم تعاون اور امریکا کی اندرونی سیاست کچھ ایسے عوامل ہیں جس کے سبب اسرائیل کو جنگ بندی کیلئےقائل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ کیا امریکا، چین اور روس کے درمیان اختلافات اسرائیل کو روکنے میں ناکامی کی وجہ ہیں؟ یا اس خطے میں چین کا بڑھتا ہوا معاشی اثر و رسوخ روکنا مقصود ہے؟ کیونکہ اس خطے میں چین نے بڑی کامیابی کے ساتھ ایران اور سعودی عرب کے درمیان یمن میں جاری ایک تلخ جنگ کو ختم کرانے میں ایک اہم اور کامیاب کردار ادا کیا ہے جو یقیناً امریکی اسلحہ سازکمپنیوں کیلئے سراسر جہاں ایک خسارہ کی شکل اختیار کر گیا ہے وہاں ایران پرعالمی پابندیوں کے باوجود چین 27 مارچ 2021ء میں ایران کے ساتھ اسٹرٹیجک تعاون کے 25 سالہ معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ یہ طویل المدتی معاہدہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے شدید مشکلات کے شکار ایران کو درپیش کئی متنوع اقتصادی امور کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے اپنی ضرورت کا وافر تیل ایران سے خریدتا ہے۔

چین کے ساتھ کیا جانے والا یہ معاہدہ ایران کیلئےکسی بڑی عالمی طاقت کے ساتھ کیا گیا پہلاطویل المدتی سمجھوتہ ہے۔اس سے قبل 2001ء میں ایران نے روس کے ساتھ بھی زیادہ تر جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے مگر اس معاہدے کی مدت صرف دس سال تھی ۔بعدمیں اس معاہدے میں دو مرتبہ پانچ پانچ سال کیلئےتوسیع کر دی گئی تھی، اس طرح اس روسی ایرانی سمجھوتے کی مجموعی مدت بیس سال ہوگئی تھی۔

چین اور ایران کے باہمی تعلقات میں کافی زیادہ گرم جوشی پائی جاتی ہے اور 2019ء میں دونوں ممالک نے روس کے ساتھ مل کر شمالی بحرہند میں کی جانے والی مشترکہ بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا تھا۔ بیجنگ اور تہران کے باہمی تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ حالیہ برسوں میں دونوں کے مابین تجارت کا سالانہ حجم تقریبا 20 بلین ڈالرتک پہنچ چکا ہے۔ قبل ازیں 2014ء میں اس تجارت کی سالانہ مالیت تقریباً 52 بلین ڈالررہی تھی مگر پھرایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور عالمی منڈیوں میں تیل کی بہت کم ہو جانے والی قیمتوں کے باعث یہ حجم کم ہو گیا تھا۔ اس لئے کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ جنگ بندی میں کسی بھی صورت میں چین کی جنگ بندی میں کسی بھی کوشش کو امریکا کامیاب نہیں ہونے دے گا اور یوکرین جنگ کی بناء پر روس کے راستے میں بھی امریکا سب سے بڑی رکاوٹ بنے گا۔

اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر ایک طرف امریکا مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کوروکنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف بطوراتحادی جہاں وہ اسرائیل کو عسکری طاقت بڑھانے کیلئےاربوں ڈالر فراہم کر رہا ہے وہاں اس نے اپنی تمام فورسز کو اسرائیل کے دفاع کا حکم دے دیا ہے گویا امریکا تو اس جنگ میں ایک فریق بن گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے جنگ بندی کےحالیہ بیانات کی قلعی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ گذشتہ ہفتے اسرائیل نے کہا تھا کہ امریکا کی جانب سے آٹھ ارب 70کروڑ ڈالر کا امدادی پیکچ ملا ہے تاکہ وہ اپنی عسکری مہمات کو جاری رکھ سکے۔

چینی تھنک ٹینک تائیہی انسٹٹیوٹ کے سینیئر فیلو اینار تانجین کہتے ہیں کہ ’ایک طرف امریکہ جنگ بندی کی بات کرتا ہے لیکن دوسری جانب وہ (اسرائیل کو) اسلحہ، گولہ بارود اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کر رہا ہے جس کا استعمال خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں عام شہریوں کے قتل کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘امریکہ اب تو جنگ بندی کی بات کر رہا ہے لیکن ماضی میں اس کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی قرار دادوں کو ویٹو بھی کیا گیا ہے۔اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کی برطانوی نمائندہ مارگریٹ میکلوئیڈ نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ ’ہم نے اُسی قرارداد کی مخالفت کی جس میں حماس کی دہشتگردی کو نظرانداز کیا گیا یا جس میں اسرائیل کے حقِ دفاع کو نظر انداز کیا گیا۔‘

دوسری جانب روس اور چین جیسی دیگر بڑی طاقتیں بیانات کی حد تک تو ایسے حملوں کی مذمت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جن سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہو لیکن اُن کی جانب سے اب تک کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔حالیہ برسوں میں دُنیا بھر میں چین کا اثر و رسوخ بڑھتا ہوا نظر آر ہا ہے۔ اس اثر و رسوخ کی مثال گذشتہ برس چین کی کوششوں کے باعث تقریباً سات برسوں بعد ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحال ہونے کے علاوہ خطے میں سب سے بڑے معاشی پارٹنرکے ہیں اورشدید ترین سرحدی تنازعہ کے باوجود انڈین خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق یہ دوطرفہ تجارت جو2001 میں 1.83/ ارب امریکی ڈالرز تھی وہ رواں سال کے 11ماہ میں بڑھ کر123/ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

لیکن لبنان میں اسرائیلی حملے میں حسن نصر اللہ سمیت حزب اللہ کی متعدد سینیئر رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد عالمی سیاست میں چین کی خارجہ پالیسی میں احتیاط اور اعتدال کا یہ حال ہے کہ اس نےصرف اتنا ہی کہا کہ وہ لبنان کی خود مختاری اور سکیورٹی کی ’خلاف ورزی‘ کی مخالفت کرتا ہے اور عام شہریوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی غزہ میں تنازع کے سبب بڑھی ہے اور یہ کہ چین کو خطے میں بڑھتے تناؤ پر تشویش ہے۔’چین تمام متعلقہ فریقین خصوصاً اسرائیل سے درخواست کرتا ہے کہ وہ صورتحال کو درست کرنے کے لیے اقدامات اُٹھائیں اور اس تنازع کو بےقابو ہونے سے روکیں۔‘ دوسری جانب روس ہے جو کہ اس خطے میں ایران کا اہم اتحادی بھی ہے۔ اس کا بھی اس تنازع میں حل کے لیے کوئی مؤثر کردار تاحال نظر نہیں آیا ہے، تاہم مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر اس نے بھی مذمت کی ہے۔ پیر کو کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ روس حزب اللہ کے سربراہ کی ہلاکت کی مذمت کرتا ہے اور یہ کہ اس کے سبب مشرقِ وسطیٰ میں بڑی جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ روس ایسی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے جس کے سبب خطے کی صورتحال مزید کشیدگی کا شکار ہو جائے۔

امریکی تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر کی فیلو باربرا سلاون کے مطابق 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے اور روس پر امریکی پابندیوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی بگڑ چکے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ چین اور امریکہ کے تعلقات میں موجودہ سرد مہری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ایسے میں چین کیوں مشرقِ وسطیٰ میں تنازع کے خاتمے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کرے گا؟ اس حوالے سے اینار تانجین کہتے ہیں کہ ’چین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ امریکہ کو یا جوہری طاقت کے حامل اسرائیل کو ڈکٹیٹ کر سکے۔‘ ’چین نے ہمیشہ ہی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور ایسے مذاکرات کی حمایت کی ہے جس سے (اسرائیل اور فلسطین کے مسئلہ کا) دو ریاستی حل ممکن ہو سکے۔‘خیال رہے دہائیوں سے یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں لیکن اس کی جانب سے کبھی اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی لیکن چین کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ ایٹمی قوت کو ڈکٹیٹ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے، کیا کبھی پاکستان کے مقتدرحلقوں نے اللہ کی عطاکردہ اس نعمت کے فوائد کے بارے میں سوچا ہے۔

امریکہ میں رواں برس نومبر میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جس میں امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ سٹمسن سینٹر سے منسلک باربرا سلاون کہتی ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل حامی مؤقف رکھتی ہیں۔’ہم سب کو معلوم ہے کہ جو بائیڈن اسلحے کی فراہمی کو محددو کر کے اسرائیل پر اصل دباؤ ڈالنے میں ہمیشہ ہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں۔‘ جوبائیڈن کی طرف سے اسرائیل کی سلامتی کی مکمل ذمہ داری کا بیان باربرا کے بیان کی کھلی تائید بھی کرتا ہے۔اب جب امریکی الیکشن صرف چند ہی ہفتے دور ہے تو میرا نہیں خیال کہ بائیڈن یا کملا ہیرس دونوں اسرائیل کے مخالف سخت فیصلوں کی تجویز کریں گے کیونکہ اس سے ٹرمپ کو دوبارہ صدر بننے میں مدد مل سکتی ہے۔‘ خیال رہے بطور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر لیا تھا جس پر متعدد ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔تاہم باربرا کہتی ہیں کہ ’ اگر کملا ہیرس جیت جاتی ہیں تو کیا پتا ہمیں غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے لیے امریکی دباؤ بڑھتا ہوا نظر آئے۔ لیکن اس سب کا دآرومدار اس پر ہو گا کہ اسرائیل اور ایران اس تنازع کے موجودہ مرحلے میں کہاں لکیر کھینچتے ہیں۔

لبنان میں حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعد ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نصیر کنعانی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایران لبنان یا غزہ میں اپنی فورسز نہیں بھیجے گا۔ ایران کی رضاکار فورسز کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لبنان اور فلسطینی علاقوں میں موجود فائٹرز جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں۔دوسری جانب امریکی حکام بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ بندی کیلئےامریکی کوششیں ابھی تک ناکافی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی برطانوی نمائندہ مارگریٹ میکلوئیڈ کے مطابق ’جب تک جنگ بندی نہیں ہوگی تب تک میں یہ نہیں کہوں گی کہ امریکی حکومت نے کافی کام کیا ہے۔ ’ہم سمجھتے ہیں وہ تنازع جو اسرائیل اورحماس کے درمیان میں ہو رہا ہے وہ سفارتکاری سے حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے اسرائیل اور لبنان سے آنے والی خبروں کو ’تشویشناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سات اکتوبر کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن مشرقِ وسطیٰ کے گیارہ دورے کر چکے ہیں کیونکہ امریکا کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ سفارتکاری سے حل ہو”۔ لیکن جنگ کے بڑھتے ہوئے شعلے جس تیزی کے ساتھ عالمی امن کو تباہ کرنے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں، یہودی نژاد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کےگیارہ دوروں کا ہی نتیجہ ہے۔

یاد رہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جبکہ لبنان پرفضائی حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل زمینی حملے کا آغاز بھی کر چکا ہے اور اس نے شام اور یمن پر بھی فضائی حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ایسے میں کیا خطے میں ایک نئی اور بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے اور کیا ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست کھلی جنگ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جن کا کردار بظاہر غیر جانب ہی نظر آ رہا ہے جبکہ ایران نے برملا ان ملکوں کو اسرائیل کا حامی قرار دیتے ہوئے خوفناک نتائج کی دہمکی بھی دی ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں