سبزعینک لگاکردیکھنے سے سبزۂ گل نہیں اگتے،خوش حالی پکارنے سے خوشحالی نہیں آتی،”نظام بدل دیں گے”کانعرہ لگانے سے کب بدلاہے نظام!”روٹی، کپڑااورمکان دیں گے”اچھاہے یہ نعرہ،لیکن بے جان لفظ ہیں یہ سب،جب تک فراہم نہیں ہوجاتے۔ انصاف،انصاف کی گردان بے اثررہتی ہے۔جب عدالتیں ہی قیدہوجائیں،حقوق انسانی کتابوں میں درج رہ جاتے ہیں۔چاہے آبِ زرسے لکھے ہوئے ہوں اورانسان خاک بسرہوں۔خواب،خواب رہتاہے جب تک تعبیرنہ پائے۔خواہش،تمناہی رہتی ہے جب تک آسودہ نہ ہو جائے۔ الفاظ کی بازی گری ،تقریروں کاسرکس اوراچھلتےکودتےمسخرے،بس جی بہلانے کیلئےتواچھاہے لیکن جی کے بہلنے سے کب بدلاہے کچھ۔
چلتے پھرتے مسخروں کی اچھل کودکودیکھئےاورجی بہلائیے۔اتنے سارے مائیک دیکھتے ہی غبارے کی طرح پھول کرکپاہوجاتے ہیں اورپھردیکھتے اوردیکھتے چلےجائیے۔جناب لوگوں کوروٹی چاہئے،آپ اورآپ کانظامِ حکومت نہیں،انصاف چاہئے،روٹی کپڑا مکان چاہئے،بدل دیں گے ہم نظام، کٹ مریں گے ہم اپنے عوام پر،پہاڑچھیدکردودھ کی نہریں نکالیں گے،اپنے خون سے سینچ دیں گے یہ گلشن۔ہم بھی سردھنتے رہتے ہیں۔واہ،واہ…جیوے بھئی جیوے۔ کوئی سرپھراسوال کربیٹھے کہ جناب ایسے کیسے بدلے گا نظام،کیا خالی خولی لفظوںسے پیٹ بھریں گے؟توپھررعونت سے تنی گردن ذراسی خم ہوتی ہے: “جناب آپ دیکھتے جائیں”یہی تو دیکھ رہے ہیں۔
کوئی آپ کوایسانظرآتاہے؟عوام کیاچاہتے ہیں اوروہ پکارپکارکرتھک گئے ہیں۔چیخ چیخ کران کے گلے بیٹھ گئے ہیں،لیکن کون سن رہاہے،ان کے دل کی پکار!بس اپنی کہے چلے جاتے ہیں۔انہیں سامنے کی چیزنظرنہیں آتی۔ہم ان سے بصیرت اورفراست کے طلبگارہیں۔اندھوں سے بلندنگاہی کےطلبگار… سخن دلنوازتوتب ہوجب آپ میں اخلاص کا دریابہہ رہاہو۔جاں پرسوزکورہنے دیجئے، یہ توبہت مقامِ بلندہے،بہت کٹھن ہے…سوزتودل کاجوہرہے،یہاں دل ہی نہیں توجوہرکی تلاش کے کیامعنی!
یہ سوہنی دھرتی جہاں بچے گٹروں میں گرکرمرجاتے ہیں اورمزدورایڑیاں رگڑرگڑکر،جہاں خودکشیاں دکھوں کامداوا بن جائیں، خاک بسراپنے لختِ جگرکےگلے میں برائے فروخت کابورڈ لٹکائے سڑک پرکھڑے ہوں،جہاں بیمارہسپتالوں میں دم توڑرہے ہیں، جہاں زندہ لوگوں کومردہ خانے میں رکھ دیاجائے،جہاں جعلی ادویات کے بیوپاری انسانوں کوموت کے گھاٹ اتاررہے ہوں، نوجوان سڑک چھاپ رہے ہوں،جہاں مظلوم قیداورظالم آزاد ہوں ،جہاں دین کوبھی تجارت بنالیاگیاہو،جہاں پرظلم کی حکمرانی ہواوروحشت رقص کناں،جہاں دانشوری اپنے محلات میں محوِآسائش وآرام ہواورآنکھ کھلتے ہی انقلاب،انقلاب پکارنے لگے۔ایسے خوش فہمی کے موسم میں ہم جی رہے ہیں۔
ہمارے ہاتھوں میں انقلاب کے سازہیں اورہم انہیں بجارہے ہیں۔ہمارے ہاتھ تالیاں پیٹ پیٹ کرلہولہان ہوگئے ہیں۔ہمارے خواب روٹھ گئے ہیں۔ اب ہمیں چاندبھی روٹی نظرآتاہے آٹا،آٹا،بجلی،پانی ہماراوظیفۂ جاں ہے۔ایسے میں جب کوئی اپنی لاکھوں کی گاڑی میں بیٹھ کرہاتھ ہلاکرانقلاب کانعرہ لگائے توہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھےدوڑنےلگتے ہیں۔کوئی بے روزگار نوجوان وزیراعلیٰ کی گاڑی کے پیچھے جیوے جیوے کانعرہ لگاتے ہوئے دوڑ رہاہوتوپولیس کے ہتھے چڑھ کرپٹتاہے اورسلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتاہے۔کیایہی ہے انقلاب؟
جن چہروں کوہم روزانہ ٹی وی اسکرین پرمائیک کے پیچھے سے ارشادفرماتے سنتے ہیں،ایسے چہرے کب انقلاب لائے ہیں! اداکاراچھے ہیں،ہرکردارمیں ڈھل جاتے ہیں۔خوب مزے اڑاتے ہیں،ڈیل ڈیل کرکے پاک پوتربن جاتے ہیں اوراشراف کہلاتے ہیں۔ہم اورآپ سادہ ہیں۔سادہ ہیں یابے وقوف ؟سادگی تواچھی خوبی ہےلیکن بے وقوفی؟چلئے رہنے دیتے ہیں۔ذرا سوچئے تھوڑی دیر کیلئےہی سہی ،سراب کوپانی سمجھنے والوں نے کب فلاح پائی ہے؟ دھوکاہی دھوکا،فریب…سب کچھ بکاؤ…سب کچھ۔ دنیابھی دین داری بھی۔اگرآپ اسی میں خوش ہیں توپھرروتے کیوں ہیں؟ہنسیں،کھیلیں،موج اڑائیں ۔اسے ہی زندگی کہتے ہیں توموت کوکیاکہتے ہیں؟عزتِ نفس کیاہوتی ہے؟حقوقِ انسانی کیاہوتے ہیں؟آزادی کیاہوتی ہے؟خودمختاری کی تعریف کیاہے اوریہ جمہوریت کس بلاکانام ہے؟یہ توآپ مجھے بتائیے۔میں دورجدیدکی نئی لغت سے ناآشناہوں۔چلئے آپ کی طبع ضیافت کیلئے اسی دنیاکاایک واقعہ بیان کردیتاہوں ممکن ہے اس سے کوئی عبرت حاصل کرلیں:
راک فیلرکبھی دنیاکاامیرترین ارب پتی آدمی تھا۔25سال کی عمر میں،اس نے امریکاکی سب سے بڑی آئل ریفائنریوں میں سے ایک کوکنٹرول کیا۔31 سال کی عمرمیں،وہ دنیاکاسب سے بڑا تیل صاف کرنے والابن گیاتھا۔38سال کی عمرمیں،اس نے امریکامیں90٪تیل کوصاف کیا۔1950تک وہ ملک کاسب سے امیرآدمی تھا۔ایک نوجوان کے طورپر،ہرفیصلہ،رویہ،اوررشتہ اس کی ذاتی طاقت اور دولت پیداکرنےکیلئےتیارکیاگیاتھالیکن53سال کی عمر میں وہ بیمارہوگیا۔اس کاپوراجسم دردسے لرزگیااوراس کے سارے بال جھڑگئے۔ مکمل اذیت میں،دنیاکاواحد ارب پتی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی خریدسکتاتھالیکن وہ صرف سوپ اورکریکرہضم کرسکتاتھا۔وہ سونہیں سکتاتھا،مسکرا نہیں سکتاتھااورزندگی میں کوئی بھی چیزاس کیلئےکوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔اس کے ذاتی،انتہائی ماہرڈاکٹروں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک سال کےاندرمرجائے گا۔وہ سال اذیت سے آہستہ آہستہ گزرگیا۔
جب وہ موت کے قریب پہنچاتووہ ایک صبح اس مبہم احساس کے ساتھ بیدارہواکہ وہ اپنی دولت میں سے کچھ بھی اپنے ساتھ اگلے جہان میں لے جانے سے قاصرہے۔وہ آدمی جودنیاکی تجارت کو کنٹرول کررہاتھا،اس کی اپنی زندگی اس کے کنٹرول سے باہرتھی۔اب اس کے پاس ایک انتخاب رہ گیاتھا۔اس نے اپنے اٹارنی،اکاؤنٹنٹ،اورمینیجرزکوبلایااوراعلان کیاکہ وہ اپنے اثاثوں کوہسپتالوں،تحقیق اورخیراتی کاموں میں منتقل کرنا چاہتاہے۔راک فیلرنے اپنی فاؤنڈیشن قائم کی۔یہ نئی سمت بالآخرپینسلین کی دریافت کاباعث بنی،ملیریا،تپ دق اورخناق کا علاج۔
لیکن شائدراک فیلرکی کہانی کا سب سے حیرت انگیز حصہ یہ ہے کہ جس لمحے اس نے اپنی کمائی ہوئیتمام چیزوں کا ایک حصہ واپس دنیاشروع کیا،اس کے جسم کی کیمسٹری میں اس قدرنمایاں تبدیلی آتی چلی گئی کہ وہ بہترسے بہترہوتاچلاگیا۔ایک وہ وقت تھا کہ ایسالگتاتھا،وہ53سال کی عمرمیں ہی مرجائےگا لیکن وہ98سال کی عمرتک زندہ رہا۔مال خیرات کرنے سے وہ تندرست ہوگیا۔ گویایہ خیرات نام کی چیزبھی ایک طریقہ علاج ہے۔نجانے ہم اس نسخہ کوآزمانے کیلئے تیارہی نہیں ہوتے۔آج بھی وقت ہے کہ اس ملک سے لوٹی ہوئی دولت کولوٹادیں وگرنہ دنیا و آخرت کے دردناک انجام کیلئے تیاررہیں!