تاریخ کے اوراق میں بعض اوقات ایسے ابواب آتے ہیں جوقلم سے نہیں بلکہ حالات کے تیزدھارنیزوں سے لکھے جاتے ہیں۔جنوبی ایشیاکاموجودہ منظرنامہ بھی کچھ ایساہی ہے—ایک ایسی شطرنج کی بساط جس پرمہرے بھی غیرروایتی ہیں اورچالیں بھی۔زمانے کی گرداڑتی ہوئی بساط پرکچھ مہرے ایسے بھی ہوتے ہیں جوظاہراًخاموش کھڑے رہتے ہیں،مگران کااثرپوری کھیل کی سمت بدل دیتا ہے۔آج برصغیرکی سیاسی وعسکری فضامیں جوہواچل رہی ہے،وہ محض موسمی جھونکانہیں بلکہ ایک آنے والے طوفان کی پیشگی آہٹ ہے۔دلی اور اسلام آبادکے درمیان فاصلہ اب نہ دریاؤں میں ناپاجاسکتاہے نہ سڑکوں کے میلوں میں—یہ فاصلہ مزاج،مفاداورحکمت کا ہے۔
دلی اوراسلام آبادکے درمیان فاصلہ اب صرف زمینی میلوں کانہیں رہا؛یہ سوچ،مفاداورحکمتِ عملی کافاصلہ ہے۔اسی بساط کے ایک گوشے اورکونے پرواشنگٹن میں امریکاکاوہ صدربیٹھا ہے جوکبھی مسکراتاہوادوست نظرآتاہے اورکبھی سوداگرکی مانندنرخ تولتا ہے۔یہ تحریر انہی بدلتے تعلقات، سفارتی اشاروں، عسکری حکمتِ عملیوں اور سیاسی رمزوں کا جائزہ ہے، جہاں ہر واقعہ محض خبر نہیں بلکہ ایک کہانی ہے، اور ہر کہانی کے پیچھے ایک پوشیدہ حکمت۔ یہ تحریر انہی بدلتی چالوں، سفارتی اشاروں، عسکری حکمتِ عملیوں اور تاریخی رمزوں کی ایک گرہ کشائی ہے، جہاں ہرواقعہ ایک داستان ہے اورہرداستان ایک حکمت کادریا،اوریہ قلمی جولانیوں کی انتہائی احتیاط کاتقاضہ بھی ہیں۔
زمانہ شاہدہے کہ جغرافیہ محض زمین کے نقشے پرکھنچی ہوئی لکیروں کانام نہیں،بلکہ قوموں کے درمیان تعلقات کی ایک نازک کڑھائی ہے،جس کے تانے بانے سیاست،معیشت اوردفاع کے دھاگوں سے بُنے جاتے ہیں۔اورتاریخ اس کی بھی گواہ ہے کہ جغرافیہ صرف مٹی اورپتھرکے ڈھیرکانام نہیں،بلکہ یہ ایک ایساآئینہ ہے جس میں قوموں کی امیدیں،خوف اورعزائم جھلکتے ہیں۔
پاکستان اورامریکاکے تعلقات کی تاریخ اتارچڑھاؤکی داستان ہے۔ایک وقت تھاجب اسلام آباد،واشنگٹن کاقریبی اتحادی کہلاتاتھا—افغان جہادکادور، اقتصادی امداد،اورفوجی تعاون۔پھرنائن الیون کے بعددہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک نئی شراکت لیکن حالیہ برسوں میں یہ تعلقات سردمہری کا شکار ہوئے،خصوصاًٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی بیانات کے بعد۔اب بائیڈن دورمیں تعلقات کی نوعیت پھربدل رہی ہے،مگراس باراندازمختلف ہے—براہِ راست ضرورت سے زیادہ علاقائی مفادات اس قربت کوچلارہے ہیں۔
آج پاکستان ایک ایسے موڑپرکھڑاہے جہاں اس کا سامناایک غیرروایتی امریکی صدرسے ہے—ایساصدرجوروایتی سفارتی جملوں کے بجائے تجارتی سودے بازی کے لہجے میں بات کرتاہے ، اورجس کے ہرجملے میں یاتوپیشکش چھپی ہوتی ہے یادھمکی کی جھلک۔یہ امریکی تاریخ کاپہلاصدرہے،جس کی زبان میں کبھی موم کی نرمی اورکبھی فولادکی سختی پائی جاتی ہے۔اس کی گفتگومیں سفارت کی روایتی خوشبوکی بجائے بازاری سودے بازی کی مہک آتی ہے،اورہرجملہ یاتوایک پیشکش ہے یاایک پوشیدہ دھمکی۔
یہ اصول پراناہے کہ ممالک کبھی صرف ضرورت کے سبب قریب نہیں آتے؛اصل کشش مفادات کامقناطیس پیداکرتاہے۔ظاہرہے کہ موجودہ عالمی منظرنامے میں امریکاکوبراہِ راست پاکستان کی فوجی یااقتصادی مددکی فوری ضرورت نہیں،مگرسفارت کااصول ہمیشہ یہی رہا ہے کہ قومیں کبھی حقیقی ضرورت کے سبب قریب نہیں آتیں،بلکہ مفادات کی کشش انہیں ایک دوسرے کی مجلس میں لابٹھاتی ہے۔
امریکاکواس وقت پاکستان سے براہِ راست فوجی مددنہیں چاہیے،مگرتین بڑے عوامل اس تعلق کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔واشنگٹن جانتاہے کہ افغانستان میں استحکام کادروازہ اسلام آبادسے ہوکرگزرتاہے۔بیلٹ اینڈروڈمنصوبہ اورسی پیک خطے میں امریکی اثرکوچیلنج کرتے ہیں۔دہلی اورواشنگٹن کی تجارتی کشیدگی امریکی پالیسی سازوں کوپاکستان کے قریب آنے پرمجبورکرتی ہے۔واشنگٹن اس بات سے بھی واقف ہے کہ افغانستان،پاکستان،ایران اورخطے کے دیگر ممالک کاسیاسی اورتجارتی مستقبل چین کے ساتھ مضبوط ترہوتاجا رہاہے۔پاکستان کی قیمت پربھارت کے ساتھ امریکی تعلقات نے خاصانقصان پہنچایاہے، پاکستان اورخطے کے دیگرممالک اس بات سے واقف ہیں کہ امریکااپنے فوائدکی تکمیل پرانہی دوستوں کی قربانی دینے سے گریزنہیں کرتا۔پاکستان اور افغانستان کے بعدبھارت نے بھی امریکی دوستی کامزہ چکھ لیاہے۔آج سے15برس قبل اپنے کالموں میں برملااس کاتذکرہ کیاتھاکہ پاکستان توامریکاکی دوستی کے نتائج بھگت چکالیکن انڈیاخودکوسنبھال نہیں پائے گاکیونکہ جغرافیائی لحاظ سے ہندوستان میں جاری علیحدگی کی تحریکیں ایک مرتبہ پھرپورے زوروشورسے اپنے حقوق کیلئے میدانِ عمل میں اتریں گی اورانڈیاکی فوج اوردیگر عسکری ادارے پہلے ہی اندرسے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔انڈین فوج میں بڑھتے ہوئے خود کشیوں کے اعدادوشمارسے بھی پتہ چل رہاہے کہ اب انڈین فوج میں بھرتی ہونے کا شوق بھی ختم ہوچکاہے۔
اس لئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ امریکاکوپاکستان کی”ضرورت”نہ ہونے کے باوجودتعلقات کی وجہ صرف یہی ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کاانخلا،خطے میں چین کابڑھتا ہواسایہ،اوربھارت کے ساتھ واشنگٹن کی تجارتی چپقلش—یہ سب مل کر امریکاکواسلام آبادکی دہلیزپرلے آئے ہیں بلکہ یوں کہاجائے کہ یہ سب مل کرواشنگٹن کواسلام آبادکے دروازے پر دستک دینے پر مجبورکررہے ہیں۔یہ قربت بظاہرناپ تول کی ہے،مگردراصل یہ ایک شطرنجی چال ہے،جہاں ایک غلط قدم پوری بازی الٹ سکتاہے۔
امریکی سرزمین پرپاکستانی آرمی چیف کالب ولہجہ محض کلمات نہ تھے بلکہ گویاایک نئے صفحے کاعنوان تھا۔امریکی سرزمین پر پاکستانی آرمی چیف کی تقریر گویاخاموش تالاب میں پتھرپھینکنے کے مترادف ثابت ہوئی۔پاکستانی آرمی چیف کاامریکی تھنک ٹینک میں خطاب محض ایک روایتی تقریرنہیں تھی؛اس میں ایسے نکات شامل تھے جوواشنگٹن میں اعتمادکی فضاپیداکرنے میں کامیاب رہے،اسلام آبادنے اسے تعلقات میں نئے باب کے آغازکی بشارت اورخوش آئندشروعات جانا،مگردہلی نے نہ صرف اسے شک اور تشویش کی نظرسے دیکھابلکہ دہلی کے دل میں یہ بات تیرکی مانندپیوست ہوگئی کہ مودی جوخود کو خطے کاسپرپاورسمجھ کرامریکا کواپنی اہمیت کیش کروانے کے پروگرام جلدی میں طے کررہاتھا،امریکاکوچین کے خلاف محاصرہ میں خودکوعین ضروری سمجھ کر کواڈکی رکنیت حاصل کرکے خودکودنیاکی تیسری قوت جان رہاتھا،ایک معمولی جھٹکے نے تکبرکے غبارے سے ہوانکال دی اور مودی کا چاپلوسی میں مائی فرینڈ کہہ کر ٹرمپ کو مخاطب کرنا بھی کسی کام نہ آیا اوراسی نے دنیابھرکے میڈیاکے سامنےانڈین معیشت کوبھی مردہ قرار دے کر “شائننگ انڈیا”کو گہری اوراندھی کھائی میں پھینک دیا ہے۔
مودی نے انتہائی مکاری کے ساتھ ایک مرتبہ پھرروس اورچین کی بلائیں لینے کاکام شروع کردیاہے لیکن روس اورچین دونوں اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ روس کو پہلےہی ہی شکائت رہی ہے کہ “سوویت یونین سے روس کے سفرتک”میں سب سے پہلے انڈیانے آنکھیں پھیرکر امریکی صدرکے سامنے سجدہ ریزہوگیاجبکہ کشمیر اور بنگلہ دیش کے معاملے پرسوویت یونین ہی اس کی مدد کو ہمیشہ پہنچ کراس کومشکل سے بچانے کاکام کرچکاتھالیکن اب چندبرسوں سے وہ خودکوامریا اورچین کے بعد خود کودنیاکی تیسری قوت سمجھ بیٹھا تھا۔پاکستان کے ساتھ چند دنوں کی جنگ میں بری طرح ہزیمت اورحالیہ امریکی اقدامات نے خطے میں طاقت کے ترازو پرمودی کے سینے پرایک ایسا نیا وزن لاد دیاہے کہ جس نے پرانے توازن اوربرابری کے ساتھ مودی کے تکبرکوہلاکررکھ دیاہے۔
وہ وقت یادکیجیے جب نریندرمودی نے امریکی صدرکو”مائی فرینڈ”کے لقب سے نوازاتھا،مودی اورٹرمپ کے ابتدائی تعلقات بہت گرم جوش تھے،مودی جی کے لبوں سے کبھی”مائی فرینڈ” کے پھول ہی نہیں جھڑتے تھے بلکہ تکبرسے اکڑی گردن بھی خطے کے ممالک کوپیغام دے رہی ہوتی تھی،مگروقت کاپہیہ ایساگھوما کہ امریکی تجارتی پالیسی میں بھارت کیلئےدی گئی مراعات ختم کرنے اورٹیرف بڑھانے سے رشتے میں ایسی دراڑپڑگئی کہ مودی جی منہ کے بل گرکررام رام بھی نہ پکارسکے۔چندہی مہینوں میں یہی دوستی،یہی زبان”ٹیرف کنگ ” طنزیہ پکارمیں بدل کرحلق میں کانٹے لے آئی۔ایف-35طیاروں کی پیشکش اور پاکستان کے ساتھ واشنگٹن کی براہِ راست بات چیت نے دہلی اور وائٹ ہاؤس کے درمیان وہ رسّی ڈھیلی کردی جوکبھی تنی ہوئی تھی۔
مودی کی100منٹ کی تقریرگویاایک لمباکارواں تھی،مگراس میں نہ ایف-35کاذکرآیا،نہ ٹرمپ کی ثالثی کی نفی یاتردیدکرنے کی ہمت ہوئی۔انہوں نے نہروکانام14بارلیامگرچین کاایک باربھی نہیں،گویااصل حریف کے خیمے کودیکھ کربھی آنکھیں چرالیں۔جان بوجھ کر بڑے تنازع کونظراندازکیاگیا۔یہ سفارتکاری کاوہ پہلو ہے جہاں خاموشی بھی ایک بیانیہ ہوتی ہے لیکن اپوزیشن نے اسے مودی بلنڈرکو مودی سرنڈرکانام دیکر پارلیمنٹ میں اس کاناک میں دم کردیا۔گویاایک بڑافیلڈمارشل دشمن کے خیمے کونظراندازکرکے چھوٹے مورچوں پرگولہ باری کرے۔یہی وہ مودی کی مکارسیاست ہے جسے”خاموش اعتراف”کہاجاسکتاہے لیکن اپوزیشن مودی کے منہ سے یہ کہلوانے پربضدہے کہ مودی اپنی غلطیوں اورشکست کااعتراف اورسیندورکے اجڑنے کی ذمہ داری قبول کرے۔
بنیان مرصوص‘قرآنِ حکیم میں یہ وہ مثال ہے جو ایمان والوں کی صف کو مضبوط عمارت سے تشبیہ دیتی ہے،ہمیشہ جس کی اینٹیں باہم جمی اورجڑی ہوئی ہوں ۔اوراہلِ یقین کیلئےالہام کاسرچشمہ رہاہے۔فوجی دائرے میں اس کامطلب ایک ایسی یکجاقوت ہے جو اندرونی اتحاداوربیرونی طاقت دونوں رکھتی ہو۔ اسی قرآنی تصورسے متاثرہوکرایک جدید عسکری آپریشن کویہ نام دیاگیا،اسی سے متاثرہوکرایک جدیدعسکری مہم کانام رکھاگیا،جس کامرکز”فتح” میزائل تھا ۔ گویاجدیدجنگی ٹیکنالوجی کوقرآنی استعارے کے سائے میں پروکرایک نئی معنویت دی گئی۔جس میں “فتح”میزائل گویااس عمارت کی سب سے بلندفصیل تھا ۔ اس طرح آپریشن بنیان المرصوص، ایمان اورعسکریت کاایساامتزاج بن گیاجس کورب کائنات نے فتح مبین دلادی۔
پاکستان فوج نے راکٹ فورس کمانڈکاقیام ایک ایسے وقت میں کیاجب خطے میں ہتھیاروں کی دوڑنے نئی شکل اختیارکرلی ہے۔یہ محض ایک عسکری شاخ نہیں بلکہ مستقبل کے معرکوں میں فیصلہ کن کرداراداکرنے والی قوت اوراتش فشاں ہے جودشمن کوجلاکر راکھ کردینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔راکٹ فورس کمانڈ ایک مخصوص عسکری یونٹ ہے جس کامقصد میزائلوں اورراکٹ سسٹمزکی کمان اورآپریشن سنبھالناہے۔اس میں مختلف رینج اورصلاحیتوں والے ہتھیار شامل ہیں۔اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جدیدجنگ محض بندوق اورٹینک کی لڑائی نہیں،بلکہ میزائل،ڈرون،اورراکٹ سسٹم کے امتزاج کاتقاضا کرتی ہے۔اس کاقیام اس حقیقت کااعلان ہے کہ آنے والی جنگیں صرف توپ وتفنگ سے نہیں بلکہ زمین وفضا کی مشترکہ یلغارسے جیتی جائیں گی۔
چین،روس،امریکا،اورشمالی کوریامیں راکٹ فورس کئی دہائیوں سے موجوداورسرگرم ہے۔بھارت نے ڈرون بٹالین کووسعت دی،اور پاکستان کاجواب راکٹ فورس کمانڈکی شکل میں زمین پر مجاہدین کی یلغارتیارکرلی گئی ہے۔اگرڈرون فضاکے شکاری پرندے ہیں تو راکٹ فورس زمین کے غیظ وغضب کے آتش فشاں ہیں۔دونوں کاتقابل اس بات کوظاہرکرتاہے کہ جدید جنگ میں آسمان اورزمین دونوں کواپنے اپنے سپاہی چاہیے۔حالیہ پاک بھارت جنگ نے ڈرون ٹیکنالوجی پراپنی مہارت کااظہارکرکے ساری دنیاکومبہوت کردیاہے اور بالخصوص اسرائیلی کامی کازہاروپ ڈرونزکی تباہی اورانہیں زمین پربحفاظت اتارلینے کے بعداسرائیل کے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑ گئے ہیں کہ وہ تواپنے ان ڈرونزکو ناقابل تسخیرسمجھتے ہوئے پینٹاگون کوبھی خاطرمیں نہیں لارہاتھا لیکن پاکستان کے اس معرکے کے بعدجب اسے اطلاع ملی کہ آدم پوربیس سے اس کے 20آپریٹرزکے تابوت بھی رات کی تاریکی میں تل ابیب پہنچ رہے ہیں تواس نے فوری طورپرامریکاکومددکیلئے پکاراکیونکہ پاکستان کی طرف سے یہ سگنل پہنچ گیاتھاکہ اب براہِ راست اسرائیل ہماری زدمیں ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ آخرپاکستان کواس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟دراصل بھارت کے جدیدہتھیاروں کاجواب،خصوصاًبیلسٹک میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ خطے میں طاقت کاتوازن قائم رکھنے کیلئے جدیدجنگی حکمتِ عملی میں زمینی اورفضائی ہتھیاروں کی ہم آہنگی کیلئے اس یونٹ کی اشدضرورت ہے تاکہ دشمن کے عزائم کاپوری قوت سے جواب دیاجاسکے۔اسی لئے قرآن کریم میں فرمان الٰہی ہے کہ :اورتم لوگ،جہاں تک تمہارابس چلے،زیادہ سے زیادہ طاقت اورتیاربندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کیلئےمہیّارکھوتاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کواوران دوسرے اعداءکوخوفزدہ کردوجنہیں تم نہیں جانتے مگراللہ جانتاہے۔اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کاپوراپورابدل تمہاری طرف پلٹایاجائے گااورتمہارے ساتھ ہرگزظلم نہ ہوگا۔﴿الانفال:60﴾
یہ سب واقعات بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کی بساط پرہرچال شطرنج کی طرح حساب سے کھیلی جارہی ہے۔دلی اوراسلام آبادکے بیچ کا فاصلہ محض میلوں کانہیں بلکہ پالیسیوں اورترجیحات کاہے،اورواشنگٹن کی قربت محض سفارت کی گرمی نہیں بلکہ مفادات کی آگ ہے۔تاریخ کی رفتارکبھی آہستہ چلتی ہے،مگربعض اوقات وہ دوڑتی ہوئی گزرجاتی ہے اورپیچھے مڑکرنہیں دیکھتی۔آج جنوبی ایشیا ایک ایسے دہانے پرکھڑاہے جہاں ہرفیصلہ آنے والی دہائیوں کی سمت متعین کرسکتاہے۔
دلی اوراسلام آباد کے بیچ پھیلایہ فاصلہ،اورواشنگٹن کی بدلتی قربت،گویاایک نئے عہد کی تمہیدہے۔یہ وہ عہدہے جہاں عسکری قوت صرف توپ وتفنگ سے نہیں بلکہ ذہانت،ٹیکنالوجی اورسفارت کے امتزاج سے جانی جائے گی۔ہماری بساط بچھ چکی ہے،مہرے اپنی جگہ پرہیں—اب دیکھنایہ ہے کہ اگلی چال کس کے ہاتھ میں بازی لے جاتی ہے،اورکون اس پیچیدہ کھیل میں اپنی تاریخ کافاتح باب لکھتا ہے۔
وقت کا قافلہ رکتانہیں—یہ یاتومعرکے جیتنے والوں کے ساتھ آگے بڑھتاہے یاہارنے والوں کوگردِراہ میں چھوڑدیتاہے۔آج جنوبی ایشیا کی بساط پرجوچالیں کھیلی جارہی ہیں،وہ محض لمحاتی سیاست نہیں بلکہ آئندہ نصف صدی کی بنیادہیں۔یہ سب مل کرایک نئے عہدکی تمہیدہیں،جہاں علم،ٹیکنالوجی اورعزم ہی حقیقی ہتھیارہیں۔شطرنج کے مہرے اپنی جگہ سنبھال چکے ہیں—اب دیکھنایہ ہے کہ اگلی چال تاریخ کافاتح کون لکھتاہے۔میرے بہت ہی عزیزدوست جناب ریٹائرڈجنرل نعیم لودھی صاحب جن کی خطے کی سیاسی اور عسکری حالات پرگہری نظر ہے،ایک اہم سوال پوچھاہے کہ کیا فلیگ شپ پروجیکٹ سی پیک اوربی آرآئی ،جوافغانستان،ایران اور بیشترممالک میں چینی اثرورسوخ کے ساتھ اپنے تکمیل کی طرف بڑھ رہاہے، توکیا خطے(خصوصاًپاکستان) میں امن کیلئےکام کرنا امریکاکے مفادمیں ہے؟توکیادہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ امریکی تعاون،کوئی سیاسی معنی رکھتاہے؟بہت ہی اہم اور انتہائی اہمیت کے حامل اس سوال کاجواب کسی اگلے کالم میں ان شاءاللہ دینے کی کوشش کروں گا۔ان شاءاللہ