The chandelier of the forehead, Sayyidna Hazrat Umar

ماتھے کاجھومر،سیدناحضرت عمرؓ

:Share

اقبال نے توکہاتھاکہ گہری تاریکیوں میں مرنے والوں کے ماتھے ستاروں کی طرح راہ دکھاتے ہیں،پھریہ کیاہواکہ جلیل القدر ہستیوں کی یادصرف خراجِ تحسین کاعنوان بن کررہ گئی ہے۔ہر سال فاروق اعظم کادن گزرجاتاہے لیکن ہمارے حکمرانوں کویہ سوچنے کی بھی توفیق نہ ملی کہ ہماراکل ان کی یادسے منوراورمعتبرہوسکتاہے اوران کی شخصیت آج بھی رہنما ہوسکتی ہے!کچھ سال پہلے ایک نوجوان سیاستدان ہمسفرتھے،ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ ساتھ بیٹھاہوافردان سے بے نیازہو جائے تویہ خودہی بڑے پرجوش اندازمیں اپنےتعارف کے بعدگفتگوکابڑے پرجوش اورعالمانہ اندازمیں سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ تعارف کے بعدکہنے لگے کہ”آج کل ماؤزئے تنگ اورامام خمینی کوپڑھ رہاہوں”۔عرض کیا”ضرورپڑھئے،یہ ہمارے عہد کے اہم ترین لوگ ہیں،تاریخ پہ جن کاگہرانقش ہے اوراپنی اقوام کی تقدیرکوجنہوں نے بدل ڈالا لیکن اگرسیاست سیکھنی ہو،اگرقوت فیصلہ کو بہتربناناہواوراگریہ سمجھناہو کہ بہترحکمرانی کن اوصاف اورکن اصولوں کاتقاضہ کرتی ہے توحضرت عمرؓبن خطاب کوضرور پڑھئے”۔

کیامسلمان سیدناعمرؓبن خطاب کوپڑھتے ہیں؟جواب ہوگاکہ نہیں!وہ ان پرفخرکرتے ہیں،ان سے محبت کرتے ہیں،ان کی عظمت و شوکت کویاد کرکے خود کوتھامتے اورسہاراپکڑتے ہیں لیکن پڑھتے نہیں ہیں۔حزب المجاہدین کے سربراہ محمد صلاح الدین کوان کے ساتھی نے بہت براطعنہ دیاتوآنکھیں آنسوؤں سے بھرگئیں اوریہ جواب دیکرخاموش ہوگئے کہ”رہنما سیرت نہیں پڑھتے،وہ نہیں جانتے کہ ہمدردی،حسنِ ظن اورخیر خواہی کے بغیرزندگی ادھوری ہے”۔

ماضی میں رہنے والے قدامت پسندی کے مارے مسلمان اگرسیدناعمرؓفاروق کی حیات کامطالعہ کریں توان پرکھلے کہ آئین نوسے ڈرنا اورطرزِکہن پراڑنا جہالت کی ایک قسم ہے۔غیرمسلم مؤرخ بھی تحقیق اورعرق ریزی کے بعدیہ لکھنے پرمجبورہوگئے کہ خلیفہ ثانی سیدنافاروق اعظمؓ ہی ایسی عظیم الشان ہستی ہیں جواسلام کوایک جیتے جاگتے نظامِ حیات کی شکل میں سامنے لائے جوآج بھی دنیا کی رہنمائی کیلئے کافی ہے اوراگر مسلمانوں کوایک اورعمرؓمیسرہوتے تواس وقت ساری دنیامیں اسلام کاغلبہ ہوتا۔یقیناًحضرت عمر فاروقؓ کی شخصیت اتنی عظیم اوران کامقام اتنابلندہےکہ”عمرؓ”کانام سنتے ہی کوئی شخص ابہام کاشکار نہیں ہوتا۔جب بھی اسلام کے عملی فلاحی نظام کی بات ہوتوہرسننے والافوراًسمجھ جاتاہے کہ حضرت عمرؓبن خطاب کے بارے میں گفتگوہورہی ہے۔سوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ کوئی شخص سیدناعمرؓفاروق کوتوجانتاہومگران کے“دس برس چھ ماہ چاردن”پرمشتمل”دورخلافت میں ہونے والی حیرت انگیزکامیابیوں سے واقف نہ ہو۔

جمادی الآخر13ہجری میں خلیفہ اول سیدناابوبکرصدیقؓ نےاپنی مرض الوفات میں سیدناعمرؓکوخلیفہ مقررکرنےکاعہدنامہ لکھوانے کے فوری بعداپنے مکان میں جمع لوگوں سےمخاطب ہوئے اورکہا:”میں نےاپنے کسی بھائی بندکوخلیفہ مقررنہیں کیابلکہ عمرؓکو مقررکیا، کیاتم اس پرراضی ہو؟توسب نےسمعناواطعنا کہا ۔22جمادی الآخر13ہجری میں خلیفہ اول سیدناابوبکرصدیقؓ کی وفات کے بعد، مسلمانوں کے متفقہ طورپرسیدنا عمرؓفاروقؓ کے ہاتھ پربیعت خلافت کرنے کے بعدسیدناعمرؓمسندآراخلافت ہوئے۔

خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے پہلے ہی دن آپ نے لوگوں کے سامنے اس بات کی وضاحت کردی کہ لوگوں سے حکومت کس طرح معاملہ کرے گی۔ آپ نے کہا:لوگو!وحی کا سلسلہ تومنقطع ہوچکاہے،اب ہمارے ساتھ جوبھی معاملہ ہوگا،ظاہری حالات اوراعمال کے مطابق ہوگا۔ظاہراًجس نے خیروبھلائی کارویہ اپنایا،ہماری طرف سے اسے امن و امان کی ضمانت ہے۔باطنی اور چھپے ہوئے رازکی ٹوہ ہم نہیں لگائیں گے،یہ اللہ اوربندے کے درمیان ہے،اللہ باطن کے مطابق اورنیتوں کے لحاظ سے بندوں سے حساب لے گا۔ اسی طرح جس شخص سے شراورفسادظاہرہو،ہم اس کے خلاف قانونی کاروائی کریں گے۔اگروہ کہتابھی رہے کہ دل اورنیت سے اس کاارادہ فتنہ وفتورکانہ تھاتوہم اس کے ظاہری عمل کے مقابلے پراس کے اس دعوے کوقبول نہ کریں گے۔

اس بنیادی اصول کے مطابق سیدناعمرؓنے خلافت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔وحی فی الحقیقت منقطع ہوچکی تھی اوراس کے اصول قرآن وسنت کی صورت میں واضح اورمحکم تھے،پس مخلوق کیلئےاگرچہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو،یہ حق نہ تھاکہ وہ ظاہری اعمال سے صرف نظر کرکے یہ فیصلہ دیناشروع کردے کہ لوگوں کے دلوں میں کیاہے۔اسی مضمون کوخود صاحب وحیﷺ نے بیان فرمایاہے “مجھے یہ حکم نہیں دیاگیاکہ لوگوں کے دل چھیدکردیکھوں یاان کے پیٹ چاک کرکے رازمعلوم کروں۔(بخاری) 14صدیاں قبل حضرت عمرؓنے ایک صالح معاشرہ کیلئے حکمران اوررعایاکے حقوق وفرائض کے بنیادی اصول وضع کردیئے۔

تنظیم خیرخواہی اوراطاعت کے ستونوں پرقائم ہوتی ہے۔بقول حضرت عمرؓ“اطاعت ہوگی توجماعت قائم رہے گی۔،اطاعت کے بغیر جماعت قائم نہ رہ سکے گی۔“سچی بات یہ کہ اطاعت کے بغیرنہ کوئی جماعت قائم رہ سکتی ہے،نہ ادارہ،نہ خاندان،نہ تنظیم۔ سیدنا عمرؓنے اپنے دورِخلافت میں اپنے فرائض اداکرنے کے بعد،رعایاسے ان کے فرائض سے متعلق بازپرس کی، جس سےایسا مثالی معاشرہ قائم ہواجس میں ہرفرداپنے دینی،معاشرتی وسماجی فرائض اورقانونی واجتماعی ذمہ داریوں کواحسن طریقے سے اداکرنے لگا۔اسی لئے قابل رشک فاروقی دورکواپنے مسائل کاحل گردانتے ہوئےآج بھی یاد کرتے ہیں۔

حضرت ابوبکرؓنے اوآخرجمادی الثانی وفات پائی،اورحضرت عمرؓمسند آرائے خلافت ہوئے۔سابق خلیفہ کے عہدمیں جھوٹے مدعیان نبوت،مرتدین، اورمنکرین زکوٰۃ کے خاتمے کے بعد فتوحات کاآغازہوچکاتھا۔12ہجری میں عراق پرلشکرکشی کے نتیجے میں حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہوگئے تھے۔اسی طرح 13ہجری میں شام پرحملہ ہوا،اوراسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں۔ان مہمات کا آغازہی تھا کہ خلیفہ وقت کاانتقال ہوا،اورسیدناعمرؓنے عنان حکومت سنبھالتے ہی پوری توجہ ان اہم مہمات کی تکمیل پرمبذول کردی۔

آپؓ کےعہدخلافت میں ہونے والی فتوحات کاحال بہت طویل ہے۔حضرت عمرؓکے وصال کے وقت اسلامی مملکت کارقبہ2511665 مربع میل تھا۔اس رقبہ میں تقریباً1309501 مربع میل خودسیدنافاروق اعظمؓ کے حُسنِ تدبرکی بدولت اسلامی قلمرومیں شامل ہوا۔ سیدناعمرؓکی عدیم النظیرحکمت عملی اورخوبی مہارت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ان کے دور حکومت میں اسلامی فوجیں روزانہ300مربع میل رقبہ اسلامی حکومت میں شامل کرتی تھیں۔ 23 ہجری کے اختتام پرفتوحات فاروقی کی حدیں،شمال میں بحرخزر کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مقام دربندسے تقریباًسومیل آگے شمال تک(کوہ قاف کے آگے تک)، جنوب میں اردن اوراس کے جنوب میں واقع جزائرتک،مشرق میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مکران تک،مغرب میں لیبا کے شہر طرابلس تک تھیں۔

سیدناعمرفاروقؓ نے اپنے دورخلافت میں اتنے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں کہ انسان اپنی تمام ترشعوری کوششوں کے باوجودیہ فیصلہ نہیں کرسکتاکہ آپؓ کے کس کارنامے کوسب سے بڑااوراصل کارنامہ سمجھے۔سیدناعمرؓکاسب سے بڑا کارنامہ یہ ہےکہ،آپؓ نے دینی شورائی بنیادوں پرایساآئینِ حکومت وضع اورعادلانہ نظام قائم کیاجو مسلمانوں کی جملہ سعادتوں اورترقیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بنیادی حقوق،بلاتفریق مذہب اوررنگ ونسل کاضامن تھا۔اس نظام حکومت نے افرادکی ایسی تربیت کردی جس کی مثال آج ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔

بحرین سے طویل مسافت طے کرکے ابوہریرہ پانچ لاکھ دیناراٹھائے مدینہ میں داخل ہوئے تو عمرؓبن خطاب کواپنے کانوں پریقین نہ آیا۔تمہارادماغ تودرست ہے،کیاتم گنتی جانتے ہو؟حضرت ابوہرؓیرہ نے کہاکہ ان کادماغ بھی درست ہے اوروہ گنتی بھی خوب جانتے ہیں۔فراغت نہ دینے والے ہنگاموں کے سبب ٹیکس کامال جمع ہوتارہا،ایسے میں مشاورت ہوتی اور بحث کی جاتی۔سیدناعلیؓ ابن طالب نے فرمایا”بانٹ دیجئے”،فرمایا:محتاج کوبقدرضرورت دیاجاچکا۔ پھر پلٹ کرسوال کیا،شاہانِ عجم ایسے میں کیاکرتے تھے؟ عمارت بنائی،حساب کتاب کے رجسٹرتیارہوئے،قبطی منشیوں کوملازم رکھااوراسلام میں پہلی بار خزانہ وجود میں آیا۔ چھبیس ادارے………جی ہاں مستقل طور پر26نئے ادارے قائم کئے،مثلاملٹری انٹیلی جنس اورسوشل سیکورٹی کوتوایساعروج بخشاکہ 14 صدیوں کی مجموعی انسانی ذہانت بھی اس میں کوئی اضافہ نہیں کرسکی۔

چھبیس ادارے……جی ہاں مستقل طور پر26نئے ادارے قائم کئے،مثلاًملٹری انٹیلی جنس اورسوشل سیکورٹی کوتوایساعروج بخشاکہ 14صدیوں کی مجموعی انسانی ذہانت بھی اس میں کوئی اضافہ نہیں کرسکی۔سیکنڈیا نیویا میں اسی لئے سوشل سیکورٹی کوعمرلاء کہاجاتاہے اوربرطانیہ میں اس تصورکے معمارنے کہاتھا کہ اس نے یہ سب مسلمان عبقری کی سوانح سے اخذکیا۔

ہنگامی طورپرلیکن پائیداراورمستقل بنیادوں پرایک نیاادارہ وجودمیں آگیا۔وظائف کاسلسلہ شروع ہواتومحتاجوں،کمسن بچوں کے والدین ،اصحاب کبار اور اہلِ بیت کوان کے گھروں میں خاموشی کے ساتھ وظائف کی رقوم پہنچادی جاتیں۔اہل بیت کوزیادہ وظیفہ دیاجاتالیکن وہ توایک ہاتھ سے وصول کرتے تو دوسرے ہاتھ بانٹ دیتے۔آمدن بڑھی تو دودھ چھڑانے کے بعد نہیں،بچوں کی فوری پیدائش کے بعد وظیفہ شروع کردیاجاتا۔پھربیروزگاروں کواورایک بے نوایہودی کوبھیک مانگتے دیکھا تومفلس غیرمسلموں کی فہرست بنانے کاحکم جاری کردیاگیاکہ مستقل طورپران کی احتیاج کودورکرنے کی سبیل ہوسکے۔ ایک سفرمیں معلوم ہواکہ ریگزارکے فرزندبیمار،مرتے ہوئے اوربوڑھے جانوروں کا چارہ بند کردیتے ہیں توسرکاری خزانے سے چارہ فراہم کرنے کاحکم جاری کردیاگیا۔

حضرت عمرؓکی مومنانہ مخلصی کی قوت،بہادری وجانبازی،مجاہدفی سبیل اللہ کی الوالعزمی،جہاندیدہ رہنما کی تجربہ کاری، فطری قابلیت کی بنا پردیکھتے ہی دیکھتے اس زمانے کی سپرپاورکا نعرہ لگانے والی طاقتوں کواسلام کے زیرنگیں کردیا۔ حضرت عمرؓنے قیصروکسری کواپنے جوتے کی نوک پرایسے اڑادیاجیسے چٹیل میدان میں فٹ بال کھیلاجاتاہے انہوں نے اپنی انفرادی صلاحیتوں سے عرب کی اس وادی غیرذی زرع کے اندررہ کروہ کارہائے نمایاں انجام دیے جوبڑی بڑی حکومتوں اور مجلسوں کیلئے بھی انتہائی دشوارتھے۔گورنروں کاتقرر، ججوں کا انتخاب، فوجی افسروں کاچناؤ،لشکروں کی تربیت وتنظیم،فوجی نقل وحرکت اورکمک کے احکام بھیجنا،نقشے بنانا،شہروں کی حدیں کھینچنا،قانون سازی،تقسیم مال غنیمت، حدود و تعزیرات کااجرا ء وغیرہ، الغرض یہ تمام خدمات آپ اپنی صوابدید،اصابت رائے،تیزی ذہن،دوربینی وعزیمت سے انجام دیتے رہے۔ان جلیل القدر خدمات کے ساتھ آپ خاک نشین اورعوام کے ساتھ مل جل کررہتے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی خلافت کازمانہ آج تک عدل وامن اور انتظام کے لحاظ سے دنیاکا اعلی ترین مثالی دورماناگیاہے۔

محاسن بے شمارہیں لیکن بنیادیہ کہ ایک دردبھرادل رکھتے تھے۔قرآن قراردیتاہے کہ حکمران کوصاحبِ علم،توانااوراجلاہونا چاہئے۔ وہ ایسے ہی تھے،فیصلہ کبھی مؤخرنہیں کرتے،کوئی علمی نکتہ سامنے آتاتواصحاب کبارسے کریدکریدکرپوچھتے۔عبداللہؓ بن عباس اورعبداللہؓ بن مسعودکواسی لئےعزیزرکھتے کہ صاحبانِ علم تھے۔عدل اولین ترجیحات میں سب سے بڑی ترجیح تھا۔اصحاب بدرتک سے رعائت نہیں کرتے۔اپنے آقاﷺاورصدیقؓ اکبرکویہی کرتے دیکھاتھااوروہ ساری عمرؓاس پرقائم رہے۔اپنی کسی رائے کوغلط پاتے توعلی الاعلان تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ معذرت کرلیتے،زعم کاروگ کبھی نہیں پالا۔ہمیشہ بلالؓ حبشی کے احترام میں کھڑے ہوجاتے اورعلیؓ ابن طالب کے بارے میں ایک باریہ کہا”اگرعلی نہ ہوتے توعمرؓبرباد ہو جاتا” ۔

دمشق میں امین الامت کی سادگی اوردرویشی دیکھ کررودیئے۔معمولی لباس پہنتے،کچے گھرمیں رہتے اورعام مسلمانوں میں نہ صرف گھل مل کربلکہ ان میں سے ہرایک کوسوال اوراعتراض کی کھلی اجازت دیتے۔معاشرے کوسنوارنے کانسخہ ان کے نزدیک یہ تھاکہ حکمران طبقہ درست رہے اوراس کاکردار، عامیوں کارہنماہو،لہنداحکام،گورنروں حتیٰ کہ اصولی معاملات میں اصحاب کبار تک سے سختی برتتے۔جناب خالدؓ بن ولیدکامعاملہ یہی تھا۔حکمرانی طاقتوروں کے گٹھ جوڑاوراہل رسوخ کورعائتیں دیکرچلائی جاتی ہیں۔اسلام نے اس طرزکوبدل ڈالاتھااورعمرؓاس روش کے نگہبان تھے۔تعلیم کوفروغ دیا۔عدل کے معاملے میں انتہادرجہ کی سختی برتی۔بیمارکے علاج اورمحتاج کے رزق کی ریاست ذمہ دارٹھہرایا۔امن کوہرحال میں قائم رکھااورہرچندامیر معاویہؓ اورعمروؓ بن العاص جیسے بارسوخ گورنروں پر سخت تھے مگرسیاسی استحکام کیلئے گاہے تلخ گھونٹ پی لیتے لہنداان دونوں کوڈانٹامگرمعزول نہیں کیا کہ امن کیلئے استحکام لازم ہوتاہے۔

دنیامیں جس قدرحکمران گزرے ہیں ہرایک کی حکومت کی تہہ میں کوئی نہ کوئی مشہورمدبریاسپہ سالارمخفی تھا۔یہاں تک کہ اگر اتفاق سے وہ مدبریاسپہ سالار نہ رہاتودفعتاً فتوحات بھی رک گئیں یانظام حکومت کاڈھانچہ بگڑگیالیکن سیدناعمرؓکواللہ پر بھروسہ اور اپنے دست وبازوکایقین تھا کہ حضرت خالدبن ولیدؓکی عجیب وغریب معرکہ آرائیوں کودیکھ کرلوگوں کوخیال پیدا ہو گیاکہ فتح وظفر کی کلیدانہی کے ہاتھ میں ہے لیکن جب سیدناعمرؓنے ان کومعزول کردیاتوکسی کواحساس تک نہ ہواکہ کل میں سے کون ساپرزہ نکل گیاہے۔حضرت سعدبن ابی وقاصؓ فاتح ایران کی نسبت بھی لوگوں کوایساوہم ہوچلاتھا،وہ بھی الگ کردیئے گئےاورکسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔یہ سچ ہےکہ سیدناعمرؓایک بہترین منتظم کے ناطے حکومت کواس طرح چلایاکہ جس پرزے کوجہاں چاہا نکال لیااورجہاں چاہالگادیا،مصلحت ہوئی توکسی پرزے کوسرے سےنکال دیااورضرورت ہوئی تونئے پرزے تیارکرلیے۔

رعایاکوایک ایسی شریفانہ،پرامن،مطمئن اوربامقصدزندگی گزارنے کاموقع ملاجس کی ماضی وحال میں مثال ڈھونڈنا،جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ احساسِ جوابدہی اورمحاسبہءنفس نے ان کے دورِعہدمیں زمین کواللہ کے نورسے معمورکردیا۔دنیاکی ہزارہاسالہ تاریخ کے سامنے بظاہرایک بہت ہی مختصر عہدِ فاروقی کی تاریخ میں کشورکشائی،سیاست،حکومت،جمہوریت، اخوت ،آزادی،مساوات،عدل اورفلاحِ انسانی کایہ درخشاں ترین باب قوموں اور ملکوں کیلئےروشنی کامنبع اورایک بہترین آئیڈیل ہے۔نیکی وسعادت،حرکت وعمل کایہ ایک ایساسنہری دورتھاجس کاسوفیصداعادہ خوداسلام کی تاریخ میں بھی نہ ہوسکا۔دراصل عمرفاروق اعظمؓ بن کر تاریخ کے سٹیج پرنمودارہونادعاونگاہِ محمدیﷺکافیضان تھا۔

تمام انسانوں سے گہری ہمدردی ان کے طرزحکمرانی کی اساس تھی اورظاہرہے کہ یہ رحمتہ للعالمینﷺکی تعلیم کاثمرتھااورجناب ابوبکرؓکاورثہ بھی جنہیں وقت کم ملا۔عظیم اوصاف کے حامل ہیں۔غصہ تھالیکن اگرذراسی زیادتی بھی ہوتی تومعافی مانگنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتے۔اوّل اوّل عورتوں کواہمیت نہ دیاکرتے۔خودفرمایا:ہمیں تومعلوم ہی نہیں تھاکہ عورتیں بھی کوئی چیزہیں،یہ توہم نے آنجنابﷺسے سیکھا………درازقد،گورے چٹے،انتہائی بارعب اورفصیح،ہمیشہ غوروفکرمیں منہمک رہتے،ہمیشہ سیکھتے رہنے والے،انتہائی سادہ،بہت منکسر،خوبیوں پرکبھی نازنہ کرتے،ہمیشہ کوتاہیوں کی فہرست اورخودکوسنوارنے کی فکرمیں مبتلارہتے۔

آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھاکہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں،آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اورفرمایاکہ میری موت کاوقت قریب ہے۔ایک روزاپنے معمول کے مطابق نمازکیلئے مسجدمیں تشریف لے گئے،مسجد میں پہنچ کرنمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیا۔صرف تکبیرتحریمہ کہنے پائے تھے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کامجوسی غلام ابولؤلؤ(فیروز)جوایک زہرآلودخنجرلیے ہوئے مسجدکی محراب میں چھپاہوابیٹھاتھا،اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجرسے لگائے،آپؓ بے ہوش ہوکرگرگئے اورحضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے آگے بڑھ کرامامت کی، مختصرنمازپڑھ کرسلام پھیرا،ابولؤلؤنے چاہاکہ کسی طرح مسجدسے باہرنکل کربھاگ جائے،مگرنمازیوں کی دیوارنما حائل صفوں سے نکل جاناآسان نہ تھا،اس نے اورتیرہ صحابیوں کوزخمی کردیاجن میں سے سات جانبرنہ ہوسکے،اتنے میں نمازختم ہوگئی اورابولؤلؤ پکڑلیا گیا ،جب اس نے دیکھاکہ وہ گرفتارہوگیا تواسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کوہلاک کردیا۔

بالآخرحق تعالیٰ نےآپ کی دعائے شہادت کوقبول فرمایااورمُصلائے رسولﷺپرآپ کو27ذوالحجہ بروز(بدھ)زخمی کیاگیااوریکم محرم (اتوار)آپؓ نے 63 سال کی عمرمیں شہادت پائی۔حضرت صہیبؓ نے نمازجنازہ پڑھائی اورخاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکرؓصدیق کے پہلومیں آپؓ کی تدفین ہوئی۔

ہم نے یہ پاکستان حاصل کرتے ہوئے اپنے رب سے یہ وعدہ توکئی بارکیاکہ ہم ان بندوں کوجوبندوں نے اپنے غلام بنالئے ہیں،ان کو ان بندوں کی غلامی سے نکال کررب کی غلامی میں دے دیں گے،لیکن ہم نے اب تک ساری عمروعدہ خلافی میں گزاردی اب یہ سوچتے ہیں کہ ہم پرایسے حکمران کیوں مسلط کردیئے گئےجوہم سے غلام درغلام ہونے کامطالبہ کرتے ہیں اورخودملک کاکھربوں روپیہ لوٹ کر بھی خود کوبے گناہ اورمعصوم ظاہرکرتے ہیں۔

آج ہم اپنے اسلاف کاتذکرہ توبڑی محبت،تفاخراورتعظیم سے کرتے ہیں لیکن صدافسوس!ہم ان سے کچھ سیکھتے نہیں۔اگرہم اب بھی اس عہدجدیدمیں قرآن وسیرت کی اساس پرزندگی بسر کرنے کاارادہ باندھ لیں توتب اسلام کے ماتھے کاجھومرجناب سیدناعمرؓبن خطاب کی تعلیمات ہمارے کردارکومعتبر اورمنورکرسکتی ہیں۔فاروق اعظم ؓ کی حکومت مسلمانوں کی حکمرانی کی مسلمان معاشرے کی وہ بہترین تصویر،نمونہ اورآئیڈیل مثال ہے جس کو تاریخ نے اپنے اندرمحفوظ کرلیاہے۔اس آئیڈیل کی طرف سفرکاآغازکئے بغیر اسلامی نظام کے دعوے خواہ کس قدردلفریب ہوں، درحقیقت کھوکھلے ہیں۔

تمہیں جونازہے آزادئیِ سوال پہ آج
خبربھی ہے یہ اجازت عمرؓکے ساتھ آئی
خدانے یوں بھی دیاان کے مشوروں کومقام
کبھی تویوں کہ شریعت عمرؓکے ساتھ آئی
وہ جس کاعدل”عمرؓلاز”بن کے جاری ہے
وہ باوقارعدالت عمرؓکے ساتھ آئی

اپنا تبصرہ بھیجیں