The case of Pakistan

پاکستان کامقدمہ

:Share

ملک کے تمام ائیرپورٹس کوآؤٹ سورس کرنے کاعمل تقریباًپایہ تکمیل کوپہنچ چکاہے اورکبھی بھی اس کااعلان ہوسکتاہے کہ پہلے ہم نے خوداپنے ہاتھوں اپنی ائیرلائن کابیڑہ غرق کیااور غیر ملکوں میں ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے والوں کودربدرکردیا اوراب بھلاہمیں ان ائیرپورٹس کی کیاضرورت ہے؟ان کوبھی گروی رکھ کرکام چلاتے ہیں،کچھ اپنی بھی چاندی ہوجائے گی۔ہمیں یہ بتایاجارہاہے کہ دوسرے ملکوں میں یہی طریقہ کارفرماہے،بھئی دوسرے ملکوں کی اوربھی بہترین پریکٹس ہے،اس پر توآپ عمل نہیں کرتے۔ آپ پی آئی اے بیچ رہے ہیِں،19ہزار ایکڑ پرمحیط کھربوں روپے مالیت کی کراچی اسٹیل مل کوکوڑیوں کے بھاؤبیچ رہے ہیں،بندرگاہوں کاسودہ ہورہاہے ، نیشنل بینک کی فروخت کاسلسلہ بھی چل رہاہے،سول ایوی ایشن بیچ رہے ہیں، امریکااوربرطانیہ میں جوپاکستانی اثاثے ہیں،انہیں بیچ رہے ہیں،قوم کو بتاناتوایک طرف،آپ نے توپارلیمنٹ کوبھی ربراسٹیمپ بنا کررکھ دیاہے۔آپ اپنی پارلیمنٹ پرجعلی برتری کی بنیادپرساراملک بیچنے پرتل گئے ہیں۔ ابھی ایک آئینی ترامیم کاسونامی ڈبونے کیلئے تیارتھالیکن مولانانے اقلیت میں ہوتے ہوئے بالکل ویساہی اپناوزن دکھایاجیسا کہ ان کے والدمرحوم نے صوبہ میں تیسری مگراقلیتی جماعت ہونے کے باوجودصوبہ کی وزارتِ اعلیٰ کویقین بنادیاتھایاجیسے پنجاب میں پرویزالٰہی صاحب نے صرف دس سیٹوں کی بدولت پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کواپنے گھرکی داسی بناکررکھ دیاتھا۔پچھلے کئی برسوں سے قوم کے ساتھ یہ کھلواڑہورہاہے اورکوئی پوچھنے والانہیں کہ قوم سے یہ کیا مذاق ہورہاہے۔پچھلی سات دہائیوں سے خبریں سن رہاہوں کہ ملک شدیدخطرے میں ہے لیکن جن کی وجہ سے خطرے میں ہے ،ان سے کوئی بازپرس کرنے والاکوئی نہیں۔

ایک اور مسئلے کی طرف بھی توجہ دلاناچاہتاہوں اوروہ بھی بہت اہم ہے:
آپ خودانٹرنیٹ پرجاکرتحقیق کرلیں کہ اس وقت دنیاکے تین بڑے ممالک جوسی فوڈساری دنیاکوایکسپورٹ کررہے ہیں۔ان میں ایک ویتنام ہے جن کاسمندرگوادرسے کہیں چھوٹاہے،وہ 10/ارب کا”سی فوڈ”ایکسپورٹ کرتاہے اورہم گوادرسے کتناایکسپورٹ کر رہے ہیں،اس کاتخمینہ شرم دلانے کیلئے بھی کافی ہے جبکہ ہم تھوڑی توجہ کے بعد12/ارب کا”سی فوڈ”آسانی سے ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔ویتنام نےاپنےسمندرمیں45لاکھ افرادکو روزگار مہیاکیاہےاورہم نےکتنے افرادکوروزگارمہیاکیاہے اس کاجواب بھی ان کے پاس نہیں ہے؟ہمیں اللہ تعالیٰ نے توبے تحاشہ نعمتوں سے نوازاہے جس کویہ چندمقتدرحضرات اپنی اپنی باری پرخوب لوٹ کراپنا اپناسرمایہ غیرملکی بینکوں میں منتقل کررہے ہیں۔رب تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے باوجود ہم حکومتوں کی نااہلی ، انتظامیہ کی جاری کرپشن کی بناءپرقرضوں کے کوہ ہمالیہ کے نیچے دبے ہوئے سسک رہے ہیں اور قوم کومہنگائی جیسے ظالم جن کے حوالے کرکے ان کاخون چوس رہے ہیں۔ہماراوزیراعظم ایک غیرملکی خاتوں کوانٹرویودیتے ہوئے فقیروں کی طرح ساری دنیاسے جس اندازسے مدد طلب کررہاہے،اس کوسن کرانہیں توشائدشرم نہیں آئی لیکن ہم جیسے افرادجوملک سے باہر بیٹھےاپنی تئیں ملک کواب بھی زرمبادلہ ارسال کررہے ہیں،انہیں بھی شرم آناشروع ہوگئی ہے۔ کیاآپ کودنیابھرمیں ایسی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ پاکستان میں ایک آدمی اپنی تنخواہ سے ٹیکس اداکرکے باقی ماندہ وصول کرتاہے اور اب اس ٹیکس کی ادائیگی کے بعدسال بھرکے بعداس کی کمائی پرپھرسے ٹیکس اداکرناہوگایعنی ٹیکس کی ادائیگی کے بعدایک اور الگ سے ٹیکس عائدکردیاگیاہے۔

اب ایک اورظلم بھی سن لیں۔پاکستان میں اس وقت22/اعشاریہ دو/ارب ٹن کے قدرتی معدنی ذخائرموجودہیں۔صرف کھیوڑہ کی نمک کی کان کاذکرکردیتاہوں،اس وقت ہم اس سے سالانہ3لاکھ70ہزارٹن نمک نکال رہے ہیں۔آپ کیلئے اور آپ کے تمام ناظرین کیلئےاس کی تفصیلات بڑی دلچسپ ہوں گی،اس کے ذخائرجہلم سے لیکرمیانوالی کالاباغ اورکوہاٹ بہادر خیل تک پھیلے ہوئے ہیں ۔اس کی پوری لمبائی300کلومیٹر، چوڑائی30کلو میٹر اورگہرائی اس کی2400فیٹ ہے،یہ ساراعلاقہ مکمل طورپرگلابی نمک سے لبریزہے۔میں یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ یہ گلابی نمک پورے کرہ ارض پرصرف پاکستان میں میسرہے اوریہ نعمت صرف اللہ نے پاکستان کوعطاکی ہے۔یہ کتنی بڑی نعمت ہے،اللہ نے ہمیں کس قدرنوازاہے،اسی لئے ساری دنیامیں اسے پنک گولڈ کے نام سے پکاراجاتاہے۔میں نے اس واقعہ سنانے سے پہلے ایک ظلم کالفظ بولاتھاجوکہ ٹھیک نہیں بلکہ ہم سے ان گنت ظلم ہو رہے ہیں،اب میں پوری ذمہ داری اوردلائل کے ساتھ اس ظلم کی مختصر طورپرنشاندہی کردیتاہوں۔

پہلاظلم تویہ ہے کہ پاکستان کاازلی دشمن بھارت اس گلابی نمک کوساری دنیامیں اپنے نام سے فروخت کررہاہے۔ہم ابھی تک “جغرافیائی ایڈینٹیکل”کے تحت اپنے اس قیمتی خزانے کو رجسٹرکرواکراس کوپروٹیکٹ نہیں کرواسکے۔جغرافیائی ایڈینٹیکل قانون کے تحت یہ نمک صرف پاکستان سے نکلتاہے، اس لئے کوئی اورملک ہمارے اس قیمتی اثاثے پراپنالیبل نہیں لگا سکتا،آخرہماری کیامجبوری یانالائقی ہے کہ ہم ابھی تک اس کی رجسٹریشن میں ناکام کیوں ہیں؟کیااس کے پیچھے کوئی یہ رازتونہیں کہ اندر کھاتے کچھ افراداس کاکمیشن بنارہے ہیں؟

دوسراظلم یہ ہورہاہے کہ روایتی کان کنی کے موجودہ خطرناک طریقہ نے جہاں نمک نکالنے والے افرادکی زندگیوں کوداؤپر لگایاہواہے،وہاں بے تحاشہ نمک ضائع ہورہاہے۔میں یہاں آپ کے ناطرین کیلئے گزشتہ برس14مئی 2023ء میں ڈان میں شائع ہونے والی اس خبرکی طرف بھی توجہ دلاناچاہتا ہوں کہ واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانہ میں ہمارے موجودہ سفیرمسعودسے ایک امریکی فرم نے ملاقات کرکے صرف گلابی نمک میں ابتدائی طورپر 20کروڑڈالرکی فوری سرمایہ کاری کی پیشکش کی جو بعدازاں بڑھ کر100کروڑڈالرتک جاسکتی ہے۔امریکی فرم نے یہ بھی بتایاکہ جدیدٹیکنالوجی کے تحت ہم2030ء تک سالانہ ایک کروڑٹن تک گلابی نمک کی پیداواربڑھاسکتے ہیں۔میں آپ کویہ بتاتاچلوں کہ عالمی ماہرین کے مطابق دنیاکایہ واحدمنفرد نمک ہے جس میں بے تحاشہ قدرتی آیوڈین شامل ہے جونہ صرف کھانے میں بلکہ مختلف ادویات اورمحفوظ خوراک میں استعمال ہو سکتاہے جوصحت کیلئے انتہائی مفیدہے پھریہ گلابی نمک مختلف مصنوعات میں استعمال ہوسکتاہےاوراس کی اپنی قدرتی خوشبو ہے جومختلف غذائی اجناس کونہ صرف محفوظ بلکہ اس کی روایتی بدبوسے بھی پاک کردیتا ہے۔لیکن افسوس تویہ ہے کہ ہمارے ہاں کے کرپٹ افرادکی بدبودورنہیں ہوسکی۔

میں آج بڑی دلسوزی کے ساتھ آپ سب کے سامنے پاکستان کامقدمہ رکھ رہاہوں کہ ہماراملکی بیش بہاقیمتی خزانہ لوٹاجارہاہے،میں آپ کے توسط سےپاکستان کے اس تمام اشرافیہ سے پوچھناچاہتاہوں کہ دنیاکے20بڑے ممالک جونمک ایکسپورٹ کررہے ہیں،پاکستان کانام اس میں کیوں شامل نہیں؟ دوسرایہ کہ پاکستان نے ابھی تک انڈیاکے اس غیرقانونی کام کوروکنے کیلئے کوئی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے؟یہ سوال اب تک آنے والی سب حکومتوں سے ہے کہ وہ بھی اپنے اس مجرمانہ فعل کاحساب دیں؟

تیسرایہ کہ ہم نمک نکالنے والے کانکنوں کی زندگیوں اورصحت کوجولاحق خطرات ہیں،اس پراب تک کوئی توجہ کیوں نہیں دی گئی۔موجودہ طریقہ کار کے مطابق جونمک ضائع ہورہاہے،اس کے تدارک کیلئے حکومت کیوں سورہی ہے؟آخرہم اپنے قیمتی ذخائرکوبچانے کیلئے کس کاانتظارکررہے ہیں؟ جدید ٹیکنالوجی کواستعمال کرنے میں ہم کیوں سستی کررہے ہیں اوراس کی ناکامی کاآخرکون ذمہ دارہے؟کیایہ بڑے بڑے اشرافیہ کے مگرمچھ اپنے جاری کاروبارمیں ایسی سستی کامظاہرہ کرتے ہیں؟ہرگزنہیں! کیونکہ یہ قومی دولت ہے جس کے مالک عوام ہیں،اس لئے عوام کومعلوم ہوناچاہئے کہ ان پراس وقت کیامطالم ہورہے ہیں جس کی وہ بھاری قیمت اداکررہے ہیں۔

حکومت کاایک وزیرڈی ایچ اے کے ایک ریسٹورنٹ میں کھاناکھارہاتھا۔اس نے جب ویٹرسے کھانے کابل طلب کیاتواس نے سامنے میزپربیٹھے ایک فردکی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایاکہ انہوں نے آپ کاسارابل اداکردیاہے۔موصوف وزیرنے نوجوان سے ہاتھ ملاتے ہوئے بل کی ادائیگی کاسبب پوچھاتواس نے کہاکہ میں نے آپ کوپہچان لیاہے کہ آپ منسٹرہیں۔منسٹرنے اثبات میں سرہلاتے ہوئے اقرارکرلیا۔اس سے پیشترکہ منسٹرکچھ اورکہتا تواس نوجوان نے برملاکہا:جہاں آپ کے بجلی،گیس اورفون کے بل بھی ہم ہی دیتے ہیں،آپ کی حفاظت کیلئےساتھ آنے والی پولیس گارڈزکی تنخواہیں بھی ہماری جیب سے جاتی ہیں تو کھانے کابل بھی سہی!

اپنا تبصرہ بھیجیں