"The Calm Before the Storm"

“طوفان سے قبل خاموشی”

:Share

مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اسرائیل پرحالیہ بیلسٹک میزائل حملوں کے بعدخطے میں”طوفان سے قبل خاموشی”جیساماحول ہے۔ایک جانب اسرائیل کے ردِعمل کاانتظارتودوسری جانب اسرائیل پرحملے کے حوالے سے امریکی صدرجوبائیڈن سے سوال پوچھے جارہے ہیں جبکہ امریکی انتخابات کی گہما گہمی نے بھی عجیب صورتحال پیداکررکھی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ امریکاکا اسرائیل سے قریبی اتحاداورخطے میں تاریخی کردارہونے کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں موجود اس کی افواج بھی ہیں۔اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ خطے میں اسرائیل کاکردارامریکاکے سپاہی کاہے جوامریکی مفادات کے بدلے میں ضرورت سے زیادہ امریکاسے اپنی قیمت وصول کررہاہے۔

منگل کی شب ایران کے اسرائیل پرمیزائلوں کی بارش کے متعلق امریکانے اسرائیل کوپیشگی اطلاع کردی تھی۔صدربائیڈن سمیت دیگراہم امریکی عہدیداراس صورتحال کاوائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں براہِ راست جائزہ لے رہے تھے۔امریکانے ان حملوں کے بعدفوری ردِ عمل دیتے ہوئے انہیں “ناقابلِ قبول”قرار دیا تھااورکہاتھاکہ امریکی جنگی بحری جہازوں نے متعدد”ایرانی میزائلوں کونشانہ بنایا”۔صدربائیڈن نے پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ میں فوجیں بڑھانے کاحکم دے رکھاہے اوراس سے قبل ستمبرکے اواخرمیں مشرقی بحیرۂ روم میں امریکی طیارہ برداربحری جہاز’یوایس ایس ہیری ایس ٹرومن‘بھیجاگیاتھاجواس ہفتے کے اختتام تک اپنی پوزیشن سنبھال لے گا۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکاکے40ہزارسے زیادہ فوجی مشرقِ وسطیٰ میں مختلف ممالک میں تعینات ہیں لیکن امریکی افواج اپنے ملک سے ہزاروں میل دورمشرقِ وسطیٰ میں اتنی بڑی تعداد میں کیوں موجودہیں؟یہ وہ سوال ہے جس کاجواب اس تنازع کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کیلئےاہم ہے۔ اس کیلئے ہمیں یہ سمجھناضروری ہے کہ اس وقت امریکی فوج کہاں کہاں موجود ہے اور ان کی موجودگی سے خطے میں طاقت کے توازن پرکیسے فرق پڑتا ہے۔

دراصل امریکاکی اس خطے میں موجودگی1940کی دہائی سے خلیج فارس میں رہی ہے اوراس میں2001کے ورلڈٹریڈحملوں کے بعدبڑااضافہ دیکھنے میں آیا۔امریکانے1945میں سعودی شہر “دہران”میں اس خطے میں اپناپہلافضائی اڈہ بنالیاتھا۔امریکی محکمۂ دفاع کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں لگ بھگ 40 ہزارامریکی فوجی موجود ہیں۔سات اکتوبر سے پہلے امریکاکے مشرقِ وسطیٰ میں34ہزارکے لگ بھگ فوجی تھے مگرگذشتہ ایک سال کے دوران چھ ہزار فوجیوں کااضافہ کیاگیاہے۔امریکی محکمہ دفاع کےمطابق مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑاامریکی اڈہ العدیدایئربیس ہے جوقطرمیں ہے اور 1996 ء میں بنایاگیاتھا۔قطرکے علاوہ بحرین،کویت،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،شام،اردن،مصر،قبرص اورعراق میں بھی امریکی فوجی موجودہیں ۔ امریکاکے کویت میں بھی متعددفوجی اڈے ہیں جبکہ سعودی عرب میں بھی اس کے دواڈے ہیں۔ سعودی عرب،قطر،متحدہ عرب امارات،عمان، کویت ،اردن اوربحرین امریکاکی جانب سے فراہم کیے گئے تحفظ کابھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔آپ حیران نہ ہوں کہ اب بھی عراق میں اب بھی امریکاکے دوہزار سے زیادہ اہلکارموجودہیں جو”عین الاسدایئربیس اوریونین تین” جیسی سہولیات کے ارد گرد تعینات ہیں۔

امریکی پالیسی دستاویزات کے مطابق امریکی فوجی مختلف وجوہات کی بنا پرمشرقِ وسطیٰ میں تعینات کیے گئے ہیں اورشام کے علاوہ وہ ہرملک کی حکومت کی اجازت سے وہاں موجودہیں۔بتایاجارہاہے کہ عراق اورشام جیسے ملکوں میں امریکی فوجیں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے کیلئےموجودہیں۔یہاں امریکی فوجی مقامی فورسزکوتربیت بھی دیتے ہیں لیکن عجب طرفہ تماشہ ہے کہ خودسابقہ خارجہ سیکرٹری ہیلری کلنٹن خوداس بات کااعتراف کرچکی ہیں کہ”دولت اسلامیہ”کی تشکیل اوران کی مکمل تربیت امریکانے اپنے مفادات مکی تکمیل کیلئے کی تھی اور انہیں باقاعدہ اسرائیل میں ان کوتربیت بھی دی گئی تھی۔

امریکاکے ایک اہم اتحادی ملک اردن میں سینکڑوں امریکی ٹرینرزہیں جہاں وہ سال بھروسیع مشقیں کرواتے ہیں۔امریکاکا”ٹاور22 “فوجی اڈہ اردن میں شمال مشرقی مقام پرواقع ہے جہاں اردن کی سرحدیں شام اورعراق سے ملتی ہیں۔رواں سال28جنوری کواس اڈے پرایک ڈرون حملے میں امریکی آرمی ریزروکے تین فوجی ہلاک ہوئے تھے جس کا الزام واشنگٹن نے ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیاکتائب حزب اللہ پرلگایاتھا۔

فوجی اڈوں اورفوجیوں کی موجودگی کےعلاوہ بحیرہ احمر،خلیجِ عمان اوربحیرہ روم میں امریکی بحریہ موجودہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق یہاں دومزید امریکی طیارہ بردارجنگی بحری جہاز بھی موجود ہوں گے۔یوایس ایس ابراہم لنکن پہلے ہی خلیج عمان کے قریب موجودہے جبکہ یوایس ایس ٹرومین نے بحیرۂ روم کے پانیوں میں پوزیشن سنبھال لی ہے۔یوں خطے میں امریکی برّی، بحری ،اورفضائی تینوں افواج موجودہیں۔سوال یہ ہے کہ آخرامریکی فوجی ہزاروں میل دورخطے میں کیوں موجود ہیں؟دراصل دہائیوں سے امریکاکی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں ہزاروں میل دوراپنی افواج بٹھانے کے پیچھے متعددوجوہات ہیں۔ایشیااورشمالی افریقاکے بیچ میں موجودمشرقِ وسطیٰ قدرتی وسائل سے مالامال ہے اوراس کی عالمی نقشے پرایک اہم پوزیشن اسے دوسرے ممالک کی خارجہ پالیسی خاص کرامریکاکی خارجہ پالیسی کیلئےاہم ثابت ہوتی رہی ہے۔

1938میں سعودی عرب کے مشرقی شہردہران سے تیل کاکنواں دریافت ہونے کے بعدسے تیل کی عالمی معیشت میں قدرمیں دن بدن اضافہ دیکھنے کوملا۔اس کی تصدیق کرتے ہوئے برطانوی یونیورسٹی ایس اواے ایس میں ڈیولپمنٹ سٹڈیزکے پروفیسرگلبرٹ ایخکرنے عالمی میڈیاکوبتایاکہ ’تیل کو جب عالمی معیشت میں اہمیت ملی توظاہرہے کہ اس کی سٹریٹیجک اہمیت بھی بڑھ گئی۔امریکاایسایہاں دیگریورپی ممالک اورچین کے مشرقِ وسطیٰ کے تیل تک رسائی پرنظررکھنے کیلئےبھی اپنی موجودگی ضروری سمجھتاہےتاہم چنددیگراہم عوامل بھی ہیں۔برطانیہ کے پالیسی انسٹیٹیوٹ چیٹھم ہاؤس میں ایسوسی ایٹ فیلوڈاکٹرلیناخطیب کے مطابق”اکثرافرادیہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ امریکا اس خطے میں صرف تیل کی وجہ سے ہے حالانکہ اس حوالے سے امریکا خودکفیل ہے اور2022میں تیل کی سب سے زیادہ پیداوارامریکامیں ہوئی تھی،جواس سال سعودی عرب سے30فیصد زیادہ تھی۔پروفیسر گلبرٹ کے مطابق امریکا ایسا یہاں دیگر یورپی ممالک اور چین کے مشرقِ وسطیٰ کے تیل تک رسائی پر نظر رکھنے کیلئےبھی کر سکتا ہے۔تاہم چند دیگر اہم عوامل بھی ہیں ۔

خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ روس اورامریکاکی سردجنگ کاشکاررہاہے اورامریکامیں یہ سوچ آج بھی موجودہے کہ وہ جہاں بھی خلاچھوڑے گااسے روس پرکرلے گاتاہم تاریخی طورپریہ بات درست نہیں کیونکہ امریکی صدرہیری ٹرومین نے1948ء میں معاہدے کے12منٹ بعدہی اس پردستخط کرنے کاجوازیہ بتایاکہ یہودیوں کے ساتھ جوکچھ بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران ہوا وہ غلط تھااوروہ اسے اپناحق سمجھتاہے کہ وہ یہودیوں اوران کے ایک علیحدہ خودمختارریاست کے خواب کوپوراکرے۔”دراصل امریکانے دنیامیں خودکوایک”عالمی پولیس مین”کاکردارسونپ رکھاہے اورکیونکہ مشرقِ وسطیٰ ایک اہم خطہ ہے جہاں سے عالمی بحری تجارتی راستے گزرتے ہیں۔

14مئی،1948ءکوڈیوڈبن گوریان نےاسرائیل کے قیام کااعلان کیااوراس کی تشکیل کے بعدامریکا،برطانیہ،فرانس،چین نے اس کوتسلیم کرلیا۔ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات توشروع دن سے تھے لیکن اس نے1992ءمیں اس کوباقاعدہ تسلیم کیاجبکہ یواے ای،ترکی کے علاوہ دیگرتین اورمسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کررکھے ہیں اورسعودی عرب نے 2018ءمیں سفرکی اجازت دے رکھی ہے۔

اسی طرح2001کے ستمبر11کے حملوں کےبعدجب امریکانے عراق پربھی حملے کافیصلہ کیاتوایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو عراق جنگ میں بھیجاگیاتھاتاہم امریکی قبضے کے بعدپیداہونے والی غیریقینی صورتحال نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کوجنم دیاجس کے قیام کےبارے میں امریکی سیکرٹری ہنری کلنٹن کااعتراف بھی موجودہے اوریہ بھی تاریخ کاحصہ ہے کہ اس تنظیم نے صرف اسلامی ملکوں کے خلاف ہی محاذگرم کررکھاہے۔اس کے علاوہ امریکاکا بڑاحریف ایران بھی اسی خطے میں موجودہے۔ایک معروف امریکی تھنک ٹینک کے مطابق امریکا کے معاشی،سیاسی اورعسکری ایسٹس مشرقِ وسطیٰ میں موجودہیں جن کی حفاظت کیلئےاسے یہاں فوجیوں کی ایک مخصوص تعدادرکھناضروری ہے۔خطے میں متعددفضائی اڈوں سے امریکاجب چاہے ردِعمل کااظہارکرتاہےاوراکثر موقعوں پرکچھ نہ کیے بغیربھی صورتحال پراثراندازہوتاہے اورامریکااپنے ان اقدام کوجائزقراردینے کیلئے خطے میں چین اورروس کے بڑھتے اثرورسوخ کوالزام دیتاہے۔

امریکاکی خطے میں عسکری موجودگی ہی کی وجہ سےاسرائیل اپنی بے مہارطاقت کے استعمال سے ساری دنیاکیلئے ایک خطرہ بن چکاہے۔اس حوالے سےواشنگٹن میں پالیسی انسٹیٹیوٹ ولسن سینٹرمیں مڈل ایسٹ پروگرام کے کوارڈینیٹریوسف کین کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں امریکی موجودگی طاقت کاتوازن اسرائیل کے حق میں کرنے میں چارطریقوں سے اہم کرداراداکرتی ہے۔ایک تو امریکی سیاسی حمایت اسرائیل کی کسی بھی قسم،خاص کرعالمی اداروں میں اس کی کارروائیوں کوجائزقراردینے میں اہم کردار اداکرتی ہیں۔ دوسراامریکاکی خطے میں موجودگی کی وجہ سے مقامی اورخطے میں موجودتنازعات کومحدود کرنے میں مددملتی ہے اورشام جیسے ممالک جوسالوں سے تنازعات کاشکارتھے،میں استحکام آتاہے اوراسرائیل کومزیدآزادی ملتی ہے”۔تیسرایہ کہ اسرائیلی اورامریکی مفادات خاص کرمعاشی اعتبارسے ایک جیسے ہیں،اورآخری یہ کہ اسرائیل کوامریکاکی موجودگی کے باعث تحفظ ملتاہے،انٹیلیجنس شیئرہوتی ہے اورسٹریٹیجک سپورٹ ملتی ہے”۔

امریکا کی بین الاقوامی پالیسی پرگہری نظررکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ”اسرائیل ایک چھوٹی ریاست ہے اورچھوٹی ریاستوں کاایک مسئلہ ان کی “سٹریٹیجک ڈیپتھ”کی کمی ہوتی ہے یعنی ان کے پاس خطے میں اپنے دشمنوں کے خلاف لڑنے کیلئےوہ وسعت نہیں ہوتی جوبڑی طاقتوں کے پاس ہوتی ہے۔امریکاکی مشرقِ وسطیٰ میں موجودگی ایران اوراس کے حمایت یافتہ گروہوں یعنی پراکسیزکیلئےایک ڈیٹیرنس(یعنی ڈرپیداکرنے کیلئے)ہے۔امریکی بحری بیڑے خطے میں بحیرۂ احمر،بحیرۂ روم اوربحرِہندمیں بھی موجودہیں اوریہ ایک مربوط نیٹ ورک ہے۔اسی وجہ سے ایران جب بھی حملہ کرتاہے توامریکاکواس بات کا فوری علم ہوجاتاہے اوروہ اسرائیل کواس حوالے سے خبردارکردیتاہے یاوہ خودبھی ان میزائلوں کوروک دیتاہے”۔

امریکارواں صدی میں مشرقِ وسطیٰ میں عراق اورشام کی جنگ میں براہ راست جبکہ متعددجنگوں میں بالواسطہ یعنی پراکسی کرداراداکرتاآیاہے تاہم تجزیہ کاروں کے نزدیک ماضی کے تجربے کودیکھتے ہوئے امریکااب مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کاحصہ نہیں بنناچاہے گا۔امریکاکاقومی مفادتویہی ہے کہ یہ جنگ طویل نہ ہواوریہیں تک محدودہوجائے۔ایرانی بھی”سٹریٹیجک صبر”کامظاہرہ کرتے ہیں اورجوایک غیراعلانیہ معاہدہ تھااسرائیل اورایران کے درمیان کہ وہ ایک دوسرے کی پراکسیزپرتوحملہ کرسکتے ہیں لیکن ایک دوسرے پربراہ راست نہیں اورامریکا چاہے گاکہ یہ توازن برقراررہے۔

تاہم نیتن یاہونے اپنااوراسرائیل کامفاددیکھا،امریکاکانہیں اوراس نے امریکامیں الیکشن سیزن کوجنگ کووسیع کرنے کیلئےاستعمال کیاہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ اسے امریکامیں ڈیموکریٹ اوررپبلکن دونوں ہی طرف سے حمایت ملے گی،اورجیسے ہی نئی امریکی حکومت آئے گی،توخاص کرڈیموکریٹس کے پاس اسرائیل کوروکنے کامینڈیٹ ہوگاجبکہ ٹرمپ نے تواسرائیل کوایران کے ایٹمی پلانٹ کوتباہ کرنے کاعندیہ بھی دیاہے۔اگرامریکاکی قومی سلامتی کے دستاویزات دیکھیں تواس کاسٹریٹیجک مقصداس وقت تیزی سے ترقی کرتے چین کوقابوکرناہے،توہروہ مسئلہ جواس سے ان کادھیان ہٹاتاہے وہ دراصل ان کے قومی مفادمیں نہیں ہے۔یادرہے کہ چین امریکاکیلئےجتنابھی اہم کیوں نہ ہولیکن امریکاہمیشہ دنیامیں ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہے گاجہاں اسے اپنا اثرورسوخ دکھانے کاموقع مل سکے۔

یہ صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے لیکن اس وقت امریکاپوری طرح سے اسرائیل کے پیچھے کھڑاہے اورجب تک ایسارہے گا اسرائیل کواپنا نسلی قوم پرست(ایجنڈا)اوراپنااثرورسوخ بڑھانے جیسے اہداف کوحاصل کرنے میں مدد ملتی رہے گی۔انسٹیٹوٹ فارسوشل پالیسی اینڈانڈرسٹینڈنگ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرکے مطابق”روس اورچین کے کڑے مقابلے کے باوجود امریکا اب بھی مشرقِ وسطیٰ میں موجودوہ واحدعالمی طاقت ہے جس کایہاں اثرورسوخ ہے اوروہ اسے خطے میں توازن کواسرائیل کے حق میں پلٹنے کیلئےاستعمال کرتاہے۔امریکاخطے میں زیادہ ترممالک پراثراندازہوسکتاہے اوروہ اس چھوٹ کوضرورت پڑنے پراسرائیل کی حفاظت کیلئےاستعمال کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکاکافوجی اورمعاشی اثرورسوخ اوراس کی جانب سے اسرائیل کی عوامی اورذاتی حمایت کے بعدامریکاکاکرداراسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت دیتاہے۔

قارئین کویاددلانے کیلئے یہاں یہ بھی بتاتاچلوں کہ 13/اگست 2024 کوپینٹاگون کے پریس سیکریٹری ایئرفورس میجرجنرل پیٹ رائڈرنے نیوز کانفرنس کے دوران کہاتھاکہ مشرق وسطیٰ میں سفارت کاری کیلئے ابھی بھی وقت ہے تاہم امریکی فوجیں امریکی سینٹرل کمانڈکے ذمہ داری کے علاقے میں ڈیٹرنس اقدام کے طورپرمنتقل ہورہی ہیں۔ انہوں نے امریکی فوجیں امریکی سینٹرل کمانڈ کے ذمہ داری کے علاقے میں ڈیٹرنس اقدام کے طور پر منتقل ہو رہی ہیں۔ فضائیہ نے”ایف22ریپٹر”طیاروں کوخطے میں منتقل کردیاہے اورامریکی بحریہ”یوایس ایس” ابراہم لنکن کیریئراسٹرائیک گروپ کو”ایف 35سی”لائٹنگ کوبھی متعین کردیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گائیڈڈمیزائل آبدوزیوایس ایس جارجیابھی کسی بھی ہنگامی حالت کیلئے تیارہیں۔

رائڈرنے کہا کہ آج سینٹ کام کے علاقے میں تقریباً40,000امریکی سروس ممبران اس کے علاوہ موجودہیں جومشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر گہری نظررکھے ہوئے ہیں۔سکریٹری آف ڈیفنس لائیڈ جے آسٹن اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ اورخطے کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ تقریباً روزانہ رابطے میں ہیں۔آسٹن نے اسرائیلی رہنماگیلنٹ کواسرائیل کے دفاع کیلئے ہرممکن قدم اٹھانے کیلئے امریکی عزم کاپورایقین بھی دلایاہے۔بڑھتے ہوئے علاقائی تناؤکی روشنی میں پورے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی قوت کے اندازمیں ہونے والی یہ تبدیلیاں امریکی فورس کے تحفظ کوبہتربنانے،اسرائیل کے دفاع کیلئے ہماری حمایت کو بڑھانے،اوراس بات کویقینی بنانے کیلئےکی گئی ہیں کہ امریکامختلف قسم کے ہنگامی حالات کاجواب دینے کیلئےتیار ہے۔

ایران اورایرانی حمایت یافتہ گروپوں نے اسرائیل پرحملہ کرنے کی دھمکی دی ہے اورامریکاان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیینا چاہیے لیکن ہماری توجہ کشیدگی کوکم کرنے،جنگ بندی کوفعال کرنے اوریرغمالیوں کی واپسی پرہے۔امریکامشرق وسطیٰ میں ایک وسیع،علاقائی جنگ کوروکناچاہتاہے۔کوئی بھی بڑھتاہوانہیں دیکھناچاہتا،کوئی بھی وسیع ترعلاقائی تنازعہ نہیں دیکھناچاہتا۔ لہذا، امید ہے کہ ہم خودکوان صلاحیتوں کوبروئے کارلانے کی حالت میں نہیں پائیں گے لیکن اگرہمیں اسرائیل کے دفاع میں ضرورت پڑی توہم کریں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایران نے توپینٹاگون کے پریس سیکریٹری ایئرفورس میجرجنرل پیٹ رائڈرکی نیوزکانفرنس سے پتہ چلتاہے کہ امریکااس خطے میں اسرائیل کوکھلی چھٹی دیکرکیاکرنے کاارادہ رکھتاہے۔ایران نےتوامریکی جنرل رائڈرکی پریس کانفرنس کے 50دن بعد اسرائیل پرمیزائل حملہ کیالیکن اس دوران اسرائیل کی بڑھتی ہوئی درندگی کوامریکانے لگام کیوں نہیں دی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں