کسی منکرخداسے سوال کیجیے کہ بھائی یہ آپ کی ناک آپ کے چہرے پرکیوں واقع ہے؟نظریہ ارتقاءکے اعتبارسے ایساکیوں نہ ہواکہ آپ کی یہ ناک مبارک آپ کے پیٹ یاگھٹنے پرنکل آتی؟یہ ہی کیوں ضروری تھاکہ اس کاوجودعین آپ کی آنکھوں کے نیچے اورمنہ کے اوپریعنی ان دونوں کے درمیان واقع ہو؟ … اس سوال کاجواب اس حقیقت کے سوااورکچھ نہیں ہے کہ یہ دراصل ایک “ذہانت بھرے ڈیزائن”کانتیجہ ہے.ہم آنکھوں سے کسی شے کا جائزہ لیتے ہیں پھرناک سے اسے سونگھ کرمزیدجانتے ہیں اورپھراگراسے کھانے کے لائق پائیں تومنہ سے اسے چکھتے ہیں یاکھاجاتے ہیں.یہ خوبصورت، ذہانت بھراڈیزائن”ایک ایسی ذہین ہستی کے وجود کاواشگاف اعلان کررہاہے جس نے اسے سوچ سمجھ کر وجود بخشاہے…… کہ ہم نے انسان کوبہت اچھی صورت میں پیداکیاہے …….. بس وہی خدا ہے۔
گلاس کوزمین یادیوارپردے ماریں،وہ دہماکے سے کرچی کرچی ہوکرزمین پربکھرجائے گا۔آپ ایساایک بارکیجیے یاہزاردفعہ، نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا۔ایساممکن نہیں ہے کہ وہ گلاس خودبخودٹوٹ کرپلیٹ یاچمچوں کاروپ دھارلے۔ایسا توصرف اسی صورت ممکن ہے جب اس دھماکے کے پیچھے کوئی ذہانت یاصاحب عقل ہوجواسے منظم کرکے اس کی صورت گری کرے۔یہ ہماراروزکامشاہدہ ہے کہ دھماکے کا نتیجہ ہمیشہ تخریب کی صورت میں نکلتاہے،اس کے ذریعے خودبخودترتیب و تعمیرممکن نہیں ہوسکتی۔پھریہ کیسے ہوسکتاہے کہ آج سے کروڑوں سال قبل بگ بینگ نامی ایک دھماکہ ہوجس سے ہماری یہ عظیم الشان کائنات اوراس کاناقابل یقین نظم خودبخودوجودمیں آگیاہو؟لازم ہے کہ اس عظیم دھماکے کے پیچھے بھی ایک عظیم تر ذہانت موجودہو۔قران اورسائنس دونوں بگ بینگ کے نظریے کی تائیدکرتے نظرآتے ہیں مگر کسی منکرخدااورمومن میں فرق یہ ہے کہ ایک فریق اندھے بہرے مجنون مادے کی خدائی کوتسلیم کرتاہے اوردوسرافریق برترذہانت والےمسبب الاسباب اللہ کے نظریے کومانتاہے۔ملحدکادعویٰ یہ ہوتاہے کہ گلاس ٹوٹ کرخودبخودڈنرسیٹ بن سکتاہےجبکہ مومن کہتاہے کہ گلاس کوڈنرسیٹ بنانے کیلئے ذہانت درکارہے۔
ایک تجربے کے طورپرسیاہی کوکسی بھی سادہ کاغذپربکھیردیجیے،یہی عمل آپ ہزاردفعہ دوہرائیں،ممکن ہے کہ ہربارایک بھدا سانشان پڑجائے۔یہ بھی امکان ہے کہ کسی وقت ایک جاذب نظرنقش ابھرآئے،جیسے کوئی ایبسٹریکٹ آرٹ کانمونہ مگراس بات کا سرے سے کوئی امکان نہیں کہ اس سیاہی کوبکھیرنے سے کوئی تحریروجودمیں آجاۓ۔یہ نہیں ہوسکتاکہ محض سیاہی کوپھینکنے سے کسی زبان کامضمون تشکیل پاجائے۔ثابت ہوا کہ امکانی یاحادثاتی قسمت سے یہ توپھرشائدکسی کمتردرجے میں ممکن ہوکہ ایک دلکش نقش دکھائی دینے لگے مگریہ ناقابل یقین ہے کہ کسی حادثے یااتفاق کے نتیجے میں ایک تحریریامعلومات پیداہوسکیں. اب ذرا اس سائنسی حقیقت پرغورکریں کہ ہماراجسم جن لاکھوں کروڑوں خلیات پرمبنی ہے،ان میں سے ہرخلیہ اپنے اندر ایک معلومات کی ضحیم کتاب رکھتاہے،جس میں یہ درج ہوتاہے کہ وہ انسان کیارنگ رکھے گا؟کیا رویہ اپناۓ گا؟اس کے خدوخال کیسے ہوں گے؟ وغیرہ۔جس طرح انسانوں نے کمپیوٹرکیلئے مختلف کوڈایجادکررکھے ہیں،اسی طرح ہمارے ان خلیات میں ہمارے خالق نے ایسے کوڈ قدرتی طورپرڈال رکھے ہیں جوآپس میں نہ صرف گفتگوکرتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے مختلف جسمانی حرکات انجام دیتے ہیں۔ سائنسدان اس طرح کے کوڈکو”ڈی این اے” کوڈ کے نام سے تعبیرکرتے ہیں۔ سمجھنے والوں کیلئے یہ ایک واضح نشانی ہے کہ اس ذہین ترین نظام کو چلانے والی ایک برتر ذہانت موجود ہے۔
ایک سوال اورذہن پردستک دیتاہے وہ یہ ہے کہ کیامحض اجزاءکی کیمیائی ترکیب سے ایک عاقل،ذہین اورباشعوروجودکابن جانا ممکن ہے؟اگر کوئی کہتاہے کہ ہاں ممکن ہے توایساکیوں نہیں ہوتاکہ ہم مردہ انسانی اجزاءکوآپس میں جوڑکرایک جیتاجاگتاعاقل وجودکھڑاکردیں؟ہمارامعاملہ تویہ ہے کہ باوجودتمام ترعلمی دریافتوں کے،ہم ایک باشعوروجودتودرکنارمحض زندگی پیداکردینے سے بھی قاصرہیں۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسان نے خودبیشمار تخلیقات کی ہیں،جن میں بہت سی تخلیقات ذہین بھی ہیں جیسے کمپیوٹریا روبوٹ وغیرہ مگران تمام ذہین تخلیقات میں جو قدرمشترک ہے وہ یہ ہے کہ کسی تخلیق کو ذہین بنانے کیلئے اس میں ذہانت باہرسے ڈالنی پڑتی ہے،یہ اندرسے نہیں پھوٹتی ۔دوسرے لفظوں میں ذہانت کی اپنی جداگانہ حیثیت ہے اوریہ صرف اجزاء کی ترتیب سے ازخودحاصل نہیں ہوسکتی۔کمپیوٹرکی مثال لیجنے،آپ اس کے بیرونی اور اندرونی اجزاءکوجوڑکراسے میکانکی حرکت میں تو لاسکتے ہیں مگراس میں ذہانت ڈالنے کیلئے آپ کولازمی ایک جداسافٹ وئیرکوانسٹال کرنے کی ضرورت ہوگی۔محض ہارڈوئیرکو ترتیب دے لینے سے یااس میں برقی توانائی کے بہاؤسے آپ”ذہانت”نہیں پیداکرسکتے۔انسانی جسم کی ترتیب کابھی یہی معاملہ ہے ،آپ حدسے حدجسمانی وکیمیائی اجزاءکوہارڈوئیرکی طرح یکجاکرسکتے ہیں مگراس میں ذہانت پیداکرنے کیلئے لازم ہے کہ نفس (سول) نام کاسافٹ وئیرمنطبق کیاجاۓ۔اس کے علاوہ کسی اورراۓ کااظہارمحض حقیقت سے فرارہے۔کمپیوٹرایک ذہین تخلیق ہے اوروہ اپنے وجودسے یہ منادی کررہی ہے کہ میراتخلیق کارانسان ایک عظیم ترذہانت کامالک ہے،تویہ کیسے ممکن ہے کہ انسان نامی یہ زہین مخلوق بناءکسی خالق کے خودبخود وجود پاجائے؟
اس لئے یہ ثابت ہوگیاکہ ”بگ بینگ”تھیوری اورڈارون تھیوری کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ میرے رب کی وہ نشانیاں ہیں جن میں عقل مندوں کوغوروفکرکی دعوت دی گئی ہے۔
٭ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کوبغیرستونوں کے بلندکررکھاہے کہ اسے تم دیکھ رہے ہو(الرعد:2)
٭ اسی( اللہ )نے آسمانوں کوبغیرستونوں کے پیداکیاتم انہیں دیکھ رہے ہو( لقمان10)
٭کیا اللہ کے بارے میں تمہیں شک ہے جوآسمانوں اورزمین کاپیداکرنے والاہے۔(ابراہیم:10)
٭ اورہم نے ہی آسمان کومحفوظ چھت بنایا لیکن لوگ اس کی نشانیوں سے منہ موڑتے ہیں(الانبیاء:32)