بساط علم پرملائک نے شکست مانی توحکم ہوامخدوم کائنات کوسجدہ کیاجائے سب جھک گئے سوائے ابلیس کے،جس کی اکڑفوں کاجوازیہ تھا کہ اسے آگ سے بنایاگیاجبکہ آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے۔قرآنی سماجیات کےایک مفکرکے مطابق انتہائی لطیف استعارے سے قرآن نے سمجھایاہے کہ عظمت ورفعت کامعیارنسل پرستی(آگ بمقابلہ مٹی)نہیں بلکہ”علم”ہے اورعلم الاسماءکامطلب یہ نہیں کہ فرشتوں سے مخفی رکھ کرآدم کوچندچیزوں کے نام سکھادیئے گئے بلکہ آدم کوجوہرعلم عطاہواکہ وہ چیزوں کے بارے میں تصورقائم کرے پھرانہیں نام دے۔ گویافرشتوں کاعلم جمودزدہ علم ہے جتنادیاگیابس اس سے آگے پیچھے کچھ نہیں جانتے،جو آدم کوعطاہواوہ”ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن”سے عبارت ہے۔یہ تخلیقی علم ہے،تحقیق مسلسل کانام ہے۔پہنائے فطرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کانام ہے۔شروع کی سادہ فکری نے نہ جانے کب تک انسان کو”امت واحدہ”بنائے رکھاہوگامگر شجرعلم پر اختلافات کے شگوفوں کاکھلنااورمختلف انسانی گروہوں یاملتوں کامعرض وجودمیں آنافطری اورمشیت ایزدی کے عین مطابق تھاتاکہ دیکھاجائے بساط علم پرکون کیسے جوہردکھاتاہے۔اگرچہ انسان کی فطرت میں حق وباطل کوپرکھنا ودیعت کردیاگیا تھامگررحمت خداوندی نے نہ چاہاکہ اس جنس ناتواں کوآگ وخون کے دریاعبورکرکے عرفان حق تک پہنچناپڑے،وحی وسلسلہ انبیاءکے ذریعے شامل حال ہولیا۔”فاستبقوالخیرات”کاماحول فراہم کیا،جوعلم وخیر سے تہی دامن ہوتے ہیں ان پرعلم وخیرسے مسلح اقوام کا اقتدارقائم کردیاجاتاہے۔بابااقبال اپنے مشہور”جوابِ شکوہ”میں اس کایوں تذکرہ فرماتے ہیں:
عدل سے ہے فاطرہستی کایہ دستور
مسلم آئیں ہواکافرتوملے حوروقصور
ہرچند کہ تہذیب حاضرانسان کی علمی تاریخ کے فقیدالمثال علمی سرمائے کی حامل ہے مگریورپ کی تہذیبی برتری کایہ عہدعلمی پھوٹ،علمی انتشاروخلفشار کے عہدکے طورپریادرکھاجائے گا۔شجرعلم کی شاخوں اورشگوفوں کے درمیان نامیاتی یاحیاتیاتی تعلق نہیں ہے۔قرآن وحدت علم کاپرچارک ہے۔یعنی علم کی جتنی شاخیں ہوں ان سے ایک مکمل تصویرابھرے تویہ حقیقی علم ہوگا، بالفاظ دگرایساعلم جس کا”کل”ہر ایک “جزو”اورہرجزو”کل”کی تصدیق کرے۔اس کلیت علم سے ایک پیغام اخلاق کااخذکرنا قرآنی تعلیم کامرکزومحورہے۔قرآن نے حصول علم کاایک سائنٹفک طریقہ بتایاہے:
کہووہ اللہ ہی توہے جس نے تم کوپیداکیااورتمہارے کان اورآنکھیں اوردل بنائے(مگر) تم کم احسان مانتے ہو۔(الملک:23)
غورکیاجائے توعلم کی دوہی شاخیں ہیں،علوم طبعی اورعلوم سماجیات۔طبعی علوم تجرباتی ہیں ان کاانحصارحواص خمسہ یا مختصراًآنکھ اورکان پرہے۔سماجی علوم مشاہدے اوربصیرت کے متقاضی ہیں،ان کافیصلہ دل کی بارگاہ میں ہواکرتاہے۔یوں قرآن کی نظرمیں مکمل علم وہ ہے جس سے ارض وکائنات کےخالق کی پہچان ہوسکے اوردل اس کی گواہی دے۔یوں توسائنس اورعلوم سماجیات بھی جدانہیں ہیں کہ مظاہر فطرت کوقرآن آیات کہتاہے جوقلب انسانی کیلئے سنجیدہ پیغام لیے ہوئے ہیں اوروہ پیغامات سائنس کے حیطہ ادراک سے ماوراءہیں اورعلوم سماجیات کی اہم ترین شاخ علم الٰہیات کاموضوع ہیں۔خطبات اقبال کی تمہیدمیں اقبال فرماتے ہیں کہ”وہ وقت دورنہیں جب سائنس اورمذہب ہم آہنگی کی پینگیں بڑھارہے ہوں گے”۔ آیت مذکورہ پرغورو فکرکے بعداقبال اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ اہل مغرب کایہ المیہ ہے انہوں نے سمع وبصرپرتکیہ کرتے ہوئے خودکوطبعی علوم تک محدودکرلیااوراہل مشرق قلب محض تک محدودرہ کرصوفیانہ موشگافیوں کاشکارہوگئے۔یوں شرق وغرب”علم کلی”کی نعمت سے تہی دامن ہیں۔اہل مغرب نے عقل کوسازحیات سمجھا،اہل مشرق نے عشق کورازکائنات پایاحالانکہ عقل عشق کی بدولت حق شناسی کی منزل پرپہنچتی ہے اورعشق کوعقل سے مستحکم بنیادمیسرآتی ہے ۔ ڈیکارٹ نے کہا”عقل اپنے پاؤں پرخودکھڑی ہوسکتی ہے یعنی اسے وحی کی ضرورت نہیں۔پاسکل کہہ رہاتھا دل کچھ ایسے جوازرکھتاہے جس کافہم عقل سے ماوراہے۔یورپ نے پاسکل کے بجائے ڈیکارٹ کی سنی، عقل عیارنے مادہ پرستی کے بت تعمیرکیے اوردل لاہوتی وعارف وصوفی سے اعراض برتاگیا ۔بقول رومی علم کایہ خاصاہے کہ تن پربرتاجائے توناگ ہے دل پربرتاجائے توخضرراہ اورہمدم دیرینہ بن جایاکرتاہے۔
قرآن کا تصور علم نہایت کشادہ و دقیق ہے۔ جہاں اپنی سطور کو آیات قراردیتا ہے وہاں مظاہر فطرت کو بھی آیات کہتا ہے۔ آیت کا ترجمہ بائبل کی دیکھا دیکھی میں کیا گیا ہے ورنہ اس کا مطلب نشانی ہے۔تیرکانشان جوحقیقت کبریٰ کی طرف لطیف اشارہ ہواکرتاہے۔بصیرت قرآن کایہ نور جب جام غزالی سے چھلکاتوامام غزالی نے کہا قرآن کتاب المسطورہے اورکائنات کتاب الشہودہے۔ قرآن”ٹیکسٹ”ہے اورکائنات”کنٹیکسٹ”ہے۔
دونوں ایک دوسرے کی گونج اورگواہی ہیں۔دونوں میں تضادآئے توسمجھ لوکسی ایک کے سمجھنے میں کوتاہی ہوئی ہے۔سمندر کے کنارے بنی عمارت کے روشن دان سے سمندردیکھناتصویرکاایک رخ ہے،سمندرمیں اترکرروشن دان کودیکھناہوگاآیا کہ یہ وہی سمندرہے جوروشن دان دکھارہا تھا۔اگرمظاہرو مناظروکارکردگی فطرت کوقرآن کی کسوٹی پرپرکھناہے بعینہ قرآن کومشین فطرت کی کسوٹی پرپرکھناہوگایقیناًدونوں ایک دوسرے سے متعلق اورایک اللہ کی بابت گواہی دیں گے۔جب غزالی کایہ تصورآکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھایاجانے لگاتواہل یورپ نے پہلی بارمظاہر کائنات کوسنجیدہ لیااوریہ تصوریورپ کی نشاۃ ثانیہ کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔برصغیرمیں اہل القرآن نے اس تصورکو آگے بڑھایاغلام جیلانی برق نے”دوقرآن”لکھی جس میں ایک قرآن کتاب اللہ کو قراردیا گیااوردوسراقرآن کائنات کوقراردیاگیا۔ایرانی نژادامریکی اسکالر حسن نصرنے تین قرآن کاتصورپیش کیاجس میں مصنف نے نفس انسانی کوبھی قرآن قراردیاکیونکہ قرآن کہتاہے”ہم ان کو اپنی آیات دکھائیں گے ان کے انفس میں اورآفاق میں”نفس انسانی میں اٹھنے والے خیالات و دلائل کوقرآن نے آیات قراردیاہے اسی لیے اقبال نے مومن کے متعلق فرمایا”قاری نظرآتاہے حقیقت میں ہے قرآن”۔المختصرقرآن کے نکتہ نظرسے علم حقیقی وہ ہے جس کااثبات قرآن،کائنات اورنفس انسانی سے ہو۔
آیات خواہ قرآن کی ہوں یا مظاہر کائنات میں بکھری ہوئی۔ یا نفس انسانی کے تموج سے اٹھنے والے خیالات کا ہیولیٰ ہوں انہیں باعتبارشدت معنویت چار درجوں میں تقسیم کیاگیاہے۔پہلادرجہ آیات کاہے انہیں سمجھا بھی جاسکتاہے یانہیں بھی سمجھاجاسکتا۔ بارش،صبح شام،دن اوررات آیات ہیں غور کریں تومعنویت سے بھرپورہیں ورنہ معمول۔دوسرادرجہ بینات کاہے،غلط یاصحیح ان کادراک ضروری ہوتاہے مثلاًزلزلے طوفان وغیرہ۔تیسرا درجہ برہان کاہے یہ وہ آیات ہیں جوانسان کی نفسیات کوگہری سطح پر متاثرکیے بغیرنہیں رہتیں۔قرآن کوبحیثیت مجموعی “برہان” کہاگیاہے۔چوتھادرجہ ان آیات کاہے جوشدت معنویت اورزوربیان سے سننے والے کوناک کے بل گرادیں۔ مثلاً اے گروہ جن وانس!کیاتم زمین و آسمان کے پردوں سے باہرنکلناچاہو تونکل سکتے ہو؟
قرآن ِ کریم کی حقانیت کی ایک واضح دلیل اس کااعجازہے یعنی قرآن ایک ایسا کلام ہے جس کی نظیرپیش کرناانسانی قدرت سے باہرہے،اسی وجہ سے اس کوسرورِکونینﷺ کاسب سے بڑامعجزہ کہاجاتاہے۔خلوصِ دل کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ یہ یقیناًاللہ تعالیٰ ہی کاکلام ہے ، اورکسی بشری ذہن کااس میں کوئی دخل نہیں۔قرآن کی فصاحت وبلاغت اورکلام کی سحرانگیزی ایک ایسی صفت ہے جس کا تعلق سمجھنے اورمحسوس کرنے سے ہے،اورپوری حقیقت وماہیّت کوالفاظ میں بیان کرناممکن نہیں،آپ تلاش وجستجواوراستقراءکے ذریعہ فصاحت وبلاغت کے اصول وقواعدمقررفرماسکتے ہیں لیکن درحقیقت ان اصول وقواعد کی حیثیت فیصلہ کن نہیں ہوتی،کسی کلام کے حُسن وقبح کاآخری فیصلہ ذوق اوروجدان ہی کرتاہے،جس طرح ایک حسین چہرے کی کوئی جامع ومانع تعریف نہیں کی جاسکتی،جس طرح ایک خوش رنگ پھول کی رعنائیوں کوالفاظ میں محدودنہیں کیاجاسکتا،جس طرح مہکتی ہوئی مُشک کی پوری کیفیت بیان کرناممکن نہیں،جس طرح ایک خوش ذائقہ پھل کی لذّت وحلاوت الفاظ میں نہیں سما سکتی،اسی طرح کسی کلام کی فصاحت و بلاغت کوتمام وکمال بیان کردینابھی ممکن نہیں لیکن جب کوئی صاحبِ ذوق انسان اسے سُنے گاتواس کے محاسن واوصاف کاخودبخودپتاچل جائے گا۔ دوسری یہ کہ کسی کلام کےحسن اورفصاحت وبلاغت کااندازہ اس کلام کی زبان کوسمجھے بغیرنہیں لگایاجاسکتا،اس لیے فصاحت وبلاغت کے معاملے میں ذوق بھی صرف اہلِ زبان کامعتبرہے، کوئی شخص کسی غیرزبان میں خواہ کتنی مہارت حاصل کرلے لیکن ذوقِ سلیم کے معاملے میں وہ اہلِ زبان کاکبھی ہمسرنہیں ہو سکتا۔
زمانہءجاہلیت کے اہلِ عرب پرنظردوڑائیں تووہ خطابت اورشاعری کے بامِ عروج پرتھے،عربی شعروادب کافطری ذوق اُن کے بچے بچے میں سمایا ہوا تھا ،فصاحت وبلاغت اُن کی رگوں میں خونِ حیات بن کردوڑتی تھی،ان کی مجالس کی رونق،اُن کے میلوں کی رنگینی،اُن کے فخرونازکاسرمایہ اوران کی نشرو اشاعت کا ذریعہ سب کچھ شعروادب تھااورانہیں اس پراتناغرورتھاکہ وہ اپنے سواتمام قوموں کو”عجم”یعنی گونگاکہاکرتے تھے۔ایسے ماحول میں ایک اُمّی (جناب محمدﷺ)ایک کلام پیش کرکے اعلان کرتاہے کہ یہ اللہ کاکلام ہے،اس کے غیرانسانی کلام ہونے کی دلیل کے طورپر ایک چیلنج بھی دیتاہے:
اگر تمام انسان اور جِنّات مل کراس قرآن جیسا(کلام) پیش کرناچاہیں تواس جیساپیش نہیں کرسکیں گے،خواہ وہ ایک دوسرے کی کتنی مددکیوں نہ کریں۔(الاسراء :88 )
یہ چیلنج کوئی معمولی بات نہ تھی۔یہ دعوٰی اُس کی طرف سے تھاجس نے کبھی وقت کے مشہورادباءاورشعراء سے کوئی علم حاصل نہ کیاتھا،کبھی مشاعرے کی محفلوں میں کوئی ایک شعربھی نہیں پڑھاتھا،اورکبھی کاہنوں کی صحبت بھی نہ اُٹھائی تھی، خودشعرکہناتودرکنار،اسے دوسرے شعراءکے اشعارتک یاد نہیں تھے،پھریہ اعلان ایساسچاثابت ہواکہ ان کے آبائی دین کی ساری عمارت مُنہ کے بل گِرپڑی،اوراُن کی صدیوں پُرانی رسوم وروایات کاساراپلندہ پیوندِ زمین ہوگیاکیونکہ یہ کلام ایک دین بھی پیش کررہاتھا،اس لیے یہ اعلان درحقیقت اُن کی ادبی صلاحیتوں کوایک زبردست چیلنج تھا،یہ اُن کے دین ومذہب پرایک کاری وارتھا، یہ اُن کی قومی حمیّت کے نام مبازرت کاایک پیغام تھا،یہ اُن کی غیرت کوایک للکارتھی،جس کاجواب دئیے بغیرکسی غیورعرب کیلئے چین سے بیٹھنا ممکن نہیں تھا،لیکن ہواکیا؟ـــــــــاس اعلان کے بعداُن آتش بیان خطیبوں اورشعلہ نواشاعروں کی محفل میں سنّاٹاچھاگیا،کوئی شخص اس چیلنج کو قبول کرنے کیلئےآگے نہ بڑھا،کچھ عرصہ کے بعد قرآن کریم نے پھراعلان فرمایا:
اوراگرتم کواس کتاب کے بارے میں ذرابھی شک وشبہ ہے جوہم نے اپنے بندے پرنازل کی ہے تواس جیسی ایک سُورت(ہی) بنالاؤ،اگرتم سچے ہو، اوراللہ کے سواتمہارے جتنے حمایتی ہیں اُن سب کوبلالوپھربھی اگرتم ایسانہ کرسکے،اوریقین ہے کہ ہرگزنہ کرسکوگے،توپھراس آگ سے ڈروجس کاایندھن انسان اورپتھرہوں گے، وہ کافروں کیلئےتیارکی گئی ہے۔(البقرہ:23)
اس پربھی بدستورسکوت طاری رہا،اورکوئی شخص اس کلام کے مقابلے میں چندجملے بھی بناکرنہ لاسکا،سوچنے کی بات ہے کہ جس قوم کی کیفیت یہ ہوکہ اگراسے یہ معلوم ہوجائے کہ دنیاکے آخری حصے پرکوئی شخص اپنی فصاحت وبلاغت پرغیرمعمولی گھمنڈرکھتاہے،تووہ اس پرتنقیدکرنے اوراپنے اشعار میں اس پرچوٹیں کسنے سے بازنہ رہ سکتی تھی،اس بات کاکیسے تصّورکیا جا سکتاہے کہ وہ قرآن کے ان مکّررسکرّراعلانات کے بعدبھی چپکی بیٹھی رہےاوراُسے دَم مارنے کی جرات نہ ہو؟
اس بات کی کوئی تاویل اس کے سوانہیں ہوسکتی کہ فصاحت وبلاغت کے سورماقرآن کریم کامقابلہ کرنے سے عاجزآچکے تھے ۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کوزک پہنچانے کیلئےظلم وستم کاتوکوئی طریقہ نہیں چھوڑا،آپؐ کوستایا، مجنوں،جادوگر،شاعراورکاہن کہا لیکن ان سے اتنانہیں ہوسکا کہ قرآن کے مقابلے میں چندجملے پیش کردیتے۔پھرصرف یہی نہیں کہ یہ شعلہ بیان خطیب اورآتش نوا شاعر قرآن کریم کامقابلہ نہیں کرسکے بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس کلام کی حیرت انگیزتاثیرکاناچاہتے ہوئے بھی اعتراف کیا۔امام حاکمؒ اوربیہقیؒ نے قرآن کریم کے بارے میں ولید بن مغیرہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:”خدا کی قسم ،جویہ کلام بولتے ہیں اس میں بلاکی شیرینی اوررونق ہے،یہ کلام غالب ہی رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا”۔
یہ ولیدبن مغیرہ ابوجہل کابھتیجاتھا،ابوجہل کوجب یہ پتہ چلاکہ میرابھتیجااس کلام سے متاثرہورہاہے تووہ اسے تنبیہ کرنے کے لیے اس کے پاس آیا،اُس پرولیدنے جواب دیا کہ خداکی قسم تم میں کوئی شخص شعرکے حُسن وقبح کومجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں،خداکی قسم ،محمدؐجوکہتے ہیں شعرکواس کے ساتھ کوئی مناسبت اورمشابہت نہیں ہے۔(اخرجہ الحاکمؒ والبیہقیؒ عن ابن عباسؓ (الخصائص الکبریٰ ص 13 ج 1)
اسی طرح عتبہ بن ربیعہ قریش کے سر برآور دہ لوگوں میں سے تھا، وہ آنحضرت ﷺ کے پاس مصالحت کی گفتگو کرنے آیا، آپؐ نے سورہ حٰم السجدہ کی ابتدائی آیات اس کے سامنے تلاوت فرمانا شروع کیں ۔۔۔وہ ہمہ تن گوش سنتارہا، یہاں تک کہ آپؐ نے آیتِ سجدہ پر سجدہ کیا، تو وہ بدحواسی کے عالم میں اُٹھ کر سیدھا گھر چلا گیا، لوگ اس کے پاس گفتگو کا نتیجہ معلوم کرنے آئے تو اس نے کہا “خدا کی قسم! محمدؐ نے مجھ کو ایسا کلام سنایا کہ میرے کانوں نے تمام عمر ایسا کلام نہیں سُنا،میری سمجھ میں نہ آسکا کہ میں کیا جواب دوں؟”(اخرجہ البیہقیؒ وابن اسحٰقؒ عن محمدبن کعبؒ(الخصائص الکبریٰ ،ص115ج1) وابو یعلیؒ عن جابرؓ(جمع الفوائد، ص 26ج 2)
یہ توتھاقرآن کاتصورعلم،جہاں تک تصورتعلیم کاتعلق ہے وہ یہ ہے کہ قرآن،کائنات اورنفس انسانی سے اٹھنے والی آیات سے ایک جامع”نظام اخلاق ” کشیدکیاجائے جوثابت وسیارہو۔اس میں کچھ دائمی اصول بھی ہیں اورکچھ زندگی کے تغیرکاساتھ دینے والے پہلو بھی۔اس نظام اخلاق کانفاذکتنی بڑی ذمہ داری ہے؟حضرت حسینؑ کے دل سے پوچھئے!جس سے پہاڑلرزگئے تھے،زمین اور آسمان نے ہاتھ جوڑلیے تھے۔مگرغالب اپنے فارسی اشعار میں کہہ رہے ہیں
بیاکہ قاعدہ آسماں بگردانیم
قضا بگردشِ رطلِ گراں بگردانیم
“آؤ!کہ آسمان کاقاعدہ بدل دیں یعنی زمانے کوآسمان کی گردش کے بجائے اپنی مرضی کے تابع کرلیں اوررطل گراں یعنی پیالہ عشق کی گردش سے قضاو قدر کارخ موڑڈالیں یعنی اسے اپنی مرضی پرڈھال دیں۔
کافرکی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق