بشارالاسد نے سال2015ء میں اپنی حکومت بچانے کیلئے روس سے شام میں مداخلت کی درخواست کی،اس وقت شام میں روس دوست حکومت خاتمے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ شام کی خانہ جنگی کا حصہ بننے کے تین سال کے اندر روس مقامی عسکریت پسندوں پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب رہا۔ اس کام میں روس کوایرانی اور عراقی شیعہ گروہوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔روس کی مدد سے بشارالاسد نے جنگ زدہ شام کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔
روس کو عسکری سطح پر کامیابی توحاصل ہوئی، مگر دوسری جانب روس کواجنبی جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے زبردست سیاسی نقصان کا سامنا ہے۔ اپنے ہی شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے والی ظالم حکومت کی حمایت کرنا انتہائی بدترین عمل ہے، جس کے نتیجے میں روس شدید عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا۔ اس دوران روس کے امریکا، نیٹو اور اسرائیل کے ساتھ تصادم کے امکانات انتہائی سطح تک جا پہنچے۔ شام کی حکومت کی حمایت میں ماسکو نے اپنی بین الاقوامی ساکھ کوداؤ پر لگادیا، جو اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ اپریل2018ء میں ماسکو نے اپنے پرانے دوست شام کو اتحادیوں کے حملوں سے بچانے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا، حالانکہ بیان بازی کی حد تک کشیدگی عروج پر تھی۔ روس شام میں بہت کچھ کھوچکا ہے اور اس تنازعے کو بین الاقوامی سطح تک بڑھانے کا ذمہ دار ہے۔ اُسے مشرق وسطیٰ میں مسلسل موجود رہنے کا فائدہ کم ہے،اس کیلئے طویل عرصے تک خانہ جنگی کا سامنا کرنا ہوگا۔ اپریل کے حملوں کے بعد بھی روس جنگ میں کافی سرمایہ خرچ کرچکا ہے۔ ابتدائی مقصد کے حصول میں ناکامی اور ساکھ کو پہنچنے والا نقصان شام سے روس کے انخلا کا سبب بن سکتا ہے۔
شام میں سال 2011ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے روس بشار الاسد حکومت کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کررہا ہے، یہ معاملہ اب روس کیلئے سب سے بڑا عالمی بوجھ بن گیا ہے۔ 2016ء کے آخر میں روس نے انتہائی جدید فضائی دفاعی نظام سے مسلح اہلکار شام میں تعینات کردیے، خانہ جنگی کے آغاز میں اسد حکومت کی جنگی کارروائیوں میں مدد دینے کیلئے دمشق اور دیگر علاقوں میں درجنوں روسی فوجی تعینات کیے گئے، جو تربیت فراہم کرتے تھے۔ جب ماسکو شامی حکومت کو ایک جائز حکومت کے طور پر مدد فراہم کررہا تھا تو اس نے خود کو تنازع میں براہ راست ملوث نہیں ہونے دیا، اس وقت روس میں یہ موقف تھوڑا بہت مقبول بھی تھا۔ روس شام میں مداخلت سے ایک برس قبل مشرقی یوکرائن میں ایک نئی جنگ شروع کرچکا تھا، یوکرائن کے جنگی میدان میں روس نے انتہائی تربیت یافتہ خصوصی دستوں کو تعینات کیاتھا۔روس نے ابتدا میں خود کو اسد حکومت کی بقا کیلئے اہم ترین علاقوں پر بمباری تک محدود رکھا، جس میں مغربی اور شمال مغربی علاقے خاص طور پر شامل ہیں، اس وقت زمینی جنگ زیادہ تر اسد کے وفادار اور ایرانی اتحادی لڑ رہے تھے۔ شام کی جنگ میں شامل ہوتے وقت فضائی حملوں تک محدود رہنا پوٹن کااہم ترین فیصلہ ہوگا۔ مگر یہ فیصلہ بہت پیچیدگی پیدا کرتا ہے جب حکومت کی بقا ہی خطرے میں ہو۔ حقیقت میں شام کی جنگ سے روس کے خاص مفادات وابستہ نہیں تھے۔ تیل کی قیمتوں میں ڈرامائی کمی اور یوکرائن پر قبضے کے بعد مغرب کی جانب سے روس پر سخت پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ ان حالات میں روسی سرحد سے ہزاروں کلومیٹر دور مداخلت کی گئی، بعض مبصرین سوویت دور سے اسد خاندان اور ماسکو کے درمیان مضبوط تعلقات کا حوالہ دیتے ہیں،کچھ مبصرین روسی حکمرانوں کے مغرب پر سخت غصے کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، جس کی وجہ سال2000ء کے بعد مبینہ مغربی مداخلت کے ذریعے سربیا، یوکرائن، جارجیا اور لیبیا میں حکومت کی تبدیلی ہے۔ اس کے علاوہ روس سے بڑی تعداد میں شام آنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی خواہش بھی اس مداخلت کی وجہ بنی۔ بعض مبصرین کے نزدیک ماسکو کی شام کی جنگ میں شمولیت کی بنیادی وجہ یوکرائن کے معاملے سے بین الاقوامی برداری کی توجہ ہٹانا تھی۔
2014ءکے وسط میں مغرب نے یوکرائن کے علاقے کریمیا کا روس سے الحاق قبول کرلیا اور یوکرائن میں روسی مداخلت پر آنکھیں بند کرلیں، جس کا مقصد مشترکہ دشمن سے لڑنا تھا۔ اس حوالے سے روس کا نقطہ نظر ناقابل فہم بھی نہیں تھا۔ ’’غیر ریاستی عناصر ملکی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں‘‘ نائن الیون کے بعد یہ امریکی نظریہ دنیا پر غالب آگیا۔ شاید روسی قیادت کو امید تھی کہ ایک بار پھر یہ نظریہ کام کر جائے گا، جیسا کے اس سے قبل چیچنیا کی جنگ (2009۔1999ء) کے دوران بھی ہوچکا تھا۔ متوقع طور پر ماسکو نے اسد حکومت کی حمایت کیلئے بین الاقوامی اتحاد قائم کرنے کی تجویز دی، تاکہ اسد حکومت کی بدترین دشمن داعش کے خلاف جنگ کی جاسکے، جو عراق سے مشرقی بحر روم تک کے علاقے میں پھیلتی جارہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی روس نے غیر جہادی عناصر سے اسد حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اپیل بھی کی، اس تجویز کو قبول کرنے کی صورت میں اسد حکومت کو قانونی حیثیت حاصل ہوجاتی، یہ ایسے وقت میں ہوتا جب مغرب اور خطے کے اکثر ممالک کیلئے دمشق میں اسد حکومت کی موجودگی ناقابل قبول تھی۔ حقیقت میں تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مذاکرا ت شروع کرنے کیلئے اسد کا استعفیٰ بنیادی شرط تھی۔ مغرب کے ساتھ مشترکہ فوج کے قیام سے روس کو بین الاقوامی تنہائی سے نکلنے میں مدد ملتی اور ماسکو کا یوکرائن پر قبضہ مزید مضبوط ہوجاتا، کوئی شک نہیں کہ روس کی تجویز دوطرفہ معاہدے کیلئے روایتی طور پر مناسب تھی۔
ماسکو کی شام کی جنگ میں شمولیت کی وجہ بھی مغرب کو ’’جیسے کو تیسے‘‘ کی پالیسی کے تحت جواب دینا تھا۔ ایک مغربی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ’’ممکن ہے کہ شام کی مختلف جماعتوں کے درمیان مذاکرات کرانا کبھی پوٹن کا مقصد رہا ہی نہ ہو، بلکہ روس صرف واشنگٹن کودیوار سے لگانا چاہتا ہو،تاکہ اوباما انتظامیہ کو روس کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کردیا جائے‘‘۔اس دلیل کی روشنی میں اسد حکومت کا خاتمہ روکنا ضروری تھا، اگر ہمیشہ کیلئے نہیں تو کم از کم ماسکو کے تزویراتی مقاصد پورے ہونے تک،اگر مغرب کے ساتھ کسی معاہدے سے قبل اسد حکومت ختم ہوجاتی ہے تو روسی سفار ت کاری اہم ترین سیاسی و جغرافیائی برتری کھو دے گی۔ پوٹن نے سال 2015ء میں کہا تھاکہ’’شام میں ماسکو کا مقصد صرف قانونی حکومت کو مستحکم کرنا اور سیاسی سمجھوتے کیلئے حالات کو بہتر بنانا ہے‘‘۔ فیدروف کے مطابق اسد حکومت کو جنگ جیت کر دینا ماسکو حکومت کا ایجنڈا نہیں ہے۔شام کی جنگ میں شمولیت کے بعد پوٹن یوکرائن کے بدلے شام دینے کیلئے تیار تھے،مغرب کی جانب سے یوکرائن میں روسی مداخلت قبول کرنے کی صورت میں ماسکو اسد کواستعفیٰ دینے پر مجبور کرسکتا تھا،اس طرح کریملین بھی وائٹ ہاؤس کی طرح کے طاقت کے مرکز میں تبدیل ہوجاتا۔بہرحال بعدمیں ثابت ہوگیا کہ ماسکو نے حالات کا غلط اندازہ لگایا تھا، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس کے ساتھ اور اسد کی حمایت میں کسی بھی انسداد دہشت گردی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کردیا، اس دوران ماسکو بھی عالمی تنہائی کے بعد مغربی ممالک سے سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔شام کے معاملے پر2016ء تک روس مغرب کے ساتھ کوئی بڑامعاہدہ کرنے میں ناکام رہا، جس کے بعد روس نے شام میں اپنے مقاصد پر دوبارہ سے غور کیا اور اسد حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے سرمایہ کاری کوبڑھا دیا، اس کے ساتھ ہی ایران سے تعاون میں اضافہ کردیاگیا۔
مغرب کے مقابلے میں کھڑاہونے کا بنیادی مقصد پورا نہ ہونے کے بعد بھی ماسکو نے شام سےنکلنے پرغورنہیں کیا،ماسکونے شام میں اپنی فوج میں اضافہ کرتے ہوئے حمیم کے فضائی اڈے اور طرطوس کے بحری اڈے پر اپنی موجود گی کو بڑھادیا۔اس کے ساتھ ہی روس نے شامی اپوزیشن کے مضبوط علاقوں پر قبضے کیلئے ایرانی اور شیعہ ملیشیا کی حمایت میں اضافہ کردیا۔روس کی شام میں موجودگی میں اضافے سے اسد حکومت کی باغیوں سے مذاکرات کیلئے حیثیت مضبوط ہوگئی، جس نے روس کی ایک مصالحت کار،داعش کے خلاف لڑنے والی اہم ترین طاقت اور خطے میں اہم کھلاڑی کے طور پر حیثیت کو فروغ دیا۔ روسی سفارت کار اور ذرائع ابلاغ داعش کے خلاف جنگ لڑنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ماسکو کی ساری توجہ گنجان آباد اور زرخیز مغربی علاقوں میں موجود سیکولر اور اعتدال پسند باغیوں کو نشانہ بنانے پر ہے، بس کبھی کبھی داعش کے ویران علاقوں پر بھی بمباری کردی جاتی ہے۔ شام کی جنگ میں شامل ہونے کے ابتدائی مرحلے میں ہی روس کی70 سے90 فیصد بمباری کا نشانہ بننے والوں کا داعش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اس آپریشن کے دوران باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں موجود اسپتالوں، بازاروں اور دیگر شہری سہولیات کو نشانہ بنایا جاتارہا،کبھی تومسلسل شدید حملے بھی کیے گئے۔باغیوں کے ہتھیار اور میزائل روس کے مقابلے میں انتہائی کم تر ہیں،اس کے باوجود روس نے اسد مخالفین کے خلاف جنگ کے دوران طاقت کا بیجا استعمال کیا، جس نے روس کی پرانی جنگوں کی یاد دلادی۔ چیچنیا میں دو افراد کے بدلے ایک لاکھ شہریوں کو قتل کیا جاتارہا۔ ہراساں کرنے کیلئے طاقت کا اندھا دھند استعمال روسی فوج کی پالیسی ہے، جس کا مقصد گولہ باری سے باغیوں کے ساتھ شہریوں کو بھی خوفزدہ رکھنا ہے۔ سال۲۰۱۵ کے بعد روسی بمباری سے ہزاروں عام شہری مارے جاچکے ہیں۔شام کی خانہ جنگی میں طویل عرصے تک شامل رہنا خطرات سے خالی نہیں ہے،اور پوٹن کو یہ بات لازمی سمجھنا ہوگی۔ روس کو جلد ہی یہ بات سمجھ آگئی کہ شام میں زمینی دستے لازمی تعینات کرنے ہوں گے، جس کا ایک مقصد روسی تنصیبات کی حفاظت کرنا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی روس نے ٹکٹیکل عسکری صلاحیتوں میں بھی اضافہ کردیا، تاکہ کمزور پڑتی اسد حکومت پر انحصار کم کرنے کے ساتھ اپنی نقل و حرکت کوآسان بنایا جاسکے،روس نے ایرانی اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو بھی تیز ی کے ساتھ طاقتور بنایا۔پوٹن نے شام میں روایتی فوج تعینات کرنے کے بجائے غیر رویتی جنگ کے ماہر چیچن پیراملٹری دستوں کو تعینات کیا، اس کو ویگنر آرمی کے نام سے جاناجاتا ہے،یہ سابق اور موجودہ فوجی افسران پر مشتمل ایک نجی گروپ ہے، روس شام میں فوجی اہلکاروں کے جانی نقصان کو نہیں روک سکتا اور فوری انخلا بھی نہیں کرسکتا،لیکن کریملین فوج کے جانی نقصان کے سیاسی اثرات سے محفوظ رہنا چاہتا ہے،ان حالات میں چیچنیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی موت سے روس میں کسی ردعمل کا امکان انتہائی کم ہے،اس دوران پوٹن کی جانب سے کچھ غیر متوقع بیانات بھی دیے گئے، مارچ2016 اور دسمبر2017 میں پوٹن نے جزوی طور پرشام سے فوجی انخلا کااعلان کیا۔ یہ بیانات روس اور اسد حکومت کے تعلقات کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں، اس سے امریکا کے ساتھ معاہدے کی صورت میں روس کی جانب سے اسد کوتنہاچھوڑنے کیلئے آمادگی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ا س طرح کے بیانات کامقصداسد حکومت پر اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے دباؤ ڈالنا بھی تھا، تاکہ کسی سمجھوتے پر پہنچا جاسکے،پال سلیم کے مطابق ایران کی مدد سے میدان جنگ میں پیش قدمی کے بعد رو س اسد حکومت کی بقاء کی ضمانت بن گیا ہے، اسد حکومت پرشامی اپوزیشن کو کوئی بڑی رعایت دینے کا دباؤ ختم ہوچکا ہے، اس کیلئے وہ اب روس کی ناراضگی اور غصے کو بھی برداشت کرسکتی ہے۔ ان حالات میں روس سے اسد حکومت کو نظراندازکرکے اپنے مفادات کے مطابق کام کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔روسی بیرون ملک طویل جنگ لڑنے سے خوفزدہ ہیں، اس خوف کو کم کرنے کیلئے پوٹن نے فوجی انخلا کااعلان کیا،اس اعلان کے حوالے سے کئی مبصرین کاکہنا ہے کہ’’بغیر کسی واضح فتح کے شام سے فوجیں نکالنا ظاہر کرتاہے کہ کریملین شام کی خانہ جنگی میں روس کیلئے موجود خطرات کو سمجھتا ہے،یہ صرف اپنی ساکھ بچانے کی ایک کوشش ہے، ویسے بھی روس کا شام سے کوئی بڑا مفاد وابستہ نہیں ہے‘‘۔روس اور ترکی تعلقات کی بحالی بظاہر پوٹن کی بڑی کامیابی نظر آتی ہے:
نومبر2015ءمیں ترک فضائیہ کی جانب سے روسی طیارہ مارگرائے جانے کے بعدروس اورترکی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔روس نے تیزی کے ساتھ ترکی سے مضبوط تعلقات قائم کرکے نیٹوممبران کو تقسیم کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا، ترک صدر کے آمرانہ رویے کے خلاف تشویش کے اظہار پراردگان نے مغرب کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔مبصرین نے پوٹن اور اردگان کی دوستی کی ظاہری چمک کے ساتھ ان کے شام میں ٹکٹیکل نوعیت کے اتحاد کی جانب اشارہ کیا ہے۔سال2018ء کاآغازبدقسمتی سے ترکی اور روس اتحاد کے ساتھ ہوا،جنوری میں انقرانے شام کے شہر آفرین میں کردملیشیا کے خلاف جارحانہ آپریشن کیا،جس کے نتیجے میں امریکا نے علاقے میں کردوں کی امداد بند کردی۔ ایران اور روس یقینی طور پر کردعلاقے میں ترک فوج کی کارروائی سے پریشان ہوں گے،خاص طور پر جب انقرا واضح کرچکا ہے کہ اسے آفرین شامی حکومت کے حوالے کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔اس حوالے سے ایردوان نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے بیان کا سخت جواب دیا، ان کا کہنا تھا کہ’’جب وقت آئے گا تو ہم آفرین کو آفرین کے عوام کے حوالے کردیں گے،مگر وہ وقت کب آئے گا،اس کا تعین ہم کریں گے، سرگئی لاروف نہیں‘‘۔ اپریل میں جب اسد حکومت نے دوما شہر میں باغیوں کے خلاف مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے اور اس کے جواب میں امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شام میں حملے کیے،تو ترکی نے مغرب یا روس کا ساتھ دینے کے بجائے فریقین سے تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کیا۔ حملے کے حوالے سے انقرا کا ردعمل ماسکو سے بالکل مختلف تھا،پوٹن نے امریکا اوراتحادیوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے جارحیت قرار دے دیا۔ ایک ایسے ملک پر حملے کی روس نے انتہائی سخت مذمت کی،جہاں روسی فوجی قانونی طور پر قائم حکومت کی انسداد دہشتگردی کی کوششوں میں مدد کررہے ہوں۔کردوں کے معاملے پر ترکی اور روس کے دبے ہوئے اختلافات کھل کر سامنے آگئے، مغرب نے بھی غیر متوقع طور پر اسد حکومت کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی۔ روس کیلئے اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آتا،اگر اسد حکومت ختم ہوجائے توبھی روس کیلئے نکلنا آسان نہیں،بشارالاسد کا متبادل بھی ایران کے زیر اثر اورترکی کیلئے تھوڑا بہت قابل قبول ہوگا۔ روس کے زیرانتظام سوچی مذاکرات میں اب تک بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔شام میں امن یا روسی مفادات میں سے ایک کو چننا ہوگا، کردوں کے حوالے سے پالیسی نے انقرا اور ماسکوکو تقسیم کردیاہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ کرد علیحدگی پسندترکی کیلئے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں اورماسکو کردوں کی حمایت بند کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ایسا کرنے سے روس سودے بازی کے اہم کارڈ سے محروم ہوجائے گا۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل اور روس کے تعلقات کافی اچھے ہیں،اگر روس شام میں مسلسل موجود رہتا ہے تو دونوں ممالک میں اختلافات کا امکان ہے،کیونکہ روس شام میں ایران کی زمینی فوج پر انحصار کرتا ہے، جب کہ اسرائیل اپنے پڑوس میں ایران کی موجودگی کا شدید ترین مخالف ہے، اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح بھی ایران کو شام سے باہر نکالا جائے۔ روس ہمیشہ کیلئے اس لڑائی سے گریز نہیں کرسکتا، ایران کا ساتھ دینے سے اسرائیل تنہائی محسوس کرے گا جوروس کے طویل مدتی مفادات کے خلاف ہے۔اسرائیل روس کیلئے کئی مفید کردار ادا کرسکتا ہے، اسرائیل روس اور مغرب کے درمیان تعلقات بحال کرا سکتا ہے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کر سکتاہے۔شام کے تنازعے کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر ماسکو عالمی تنہائی کا شکار ایران سے وابستہ مشکوک مفادات کیلئے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے سے انکار کررہا ہے۔ شام میں موجود ایرانی ٹھکانوں پر اسرائیل کے حملے، روس اور اسرائیل کے درمیان خاموش معاہدے کو نقصان پہنچا ر ہے ہیں۔ عام طور پر شام میں موجود ایرانی ٹھکانوں پر اسرائیل کے حملوں پر روس آنکھیں بند کرلیا کرتا تھا، مگر اپریل میں خبروں کے مطابق روسی وزیر خارجہ نے اچانک ہی اسرائیلی حملوں کو انتہائی خطرناک عمل قراردیدیا۔اسرائیل کے نزدیک بھی روس نے ایران اور اس کی ملیشیا کو قابو کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔
شام کے میدان جنگ نے امریکا کوموقع فراہم کیا ہے کہ وہ پوٹن کوعالمی اور علاقائی سطح پر ذلیل کرےاوراس میں کوئی خطرہ بھی نہیں ہے، مشرق وسطی میں طاقت کامظاہرہ کرکے روس نے خود کوامریکا کیلئے آسان ہدف بنالیا ہے۔اس بات کااظہاراپریل میں امریکااوراتحادیوں کے میزائل اور فضائی حملوں کے دوران بہت واضح طورپرہوا،جب روسی حکام نے امریکی میزائل مارگرانے کااشارہ دیامگرآخرمیں بشارالاسد کی حکومت کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا۔کچھ روسی حکام نے توبہت ہی آگے بڑھ کردعوی کیا کہ’’روس امریکا کے خلاف جوابی فوجی کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کامظاہرہ نہیں کرے گا،یہاں تک کے امریکی فوجیوں پر حملہ بھی کیاجاسکتا ہے‘‘۔ مگر امریکا اور اتحادیوں کے حملے کے وقت تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا،جس کے دو وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ امریکا نے ماسکو کے خلاف سخت فوجی اور غیر فوجی کارروائی کرنے کا قابل اعتبار اشارہ دیاتھا اوردوسری وجہ یہ کہ شام کی جنگ میں روس کے حوصلے پست ہوچکے ہیں۔ فروری میں روس کی ویگنر آرمی کو امریکی حملے میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا،اس حملے کی تفصیلات تو سامنے نہیں آسکیں مگرمختلف خبروں کے مطابق سو روسی فوجی مارے گئے اور دوسو زخمی ہوئے۔27اپریل کو صدر ٹرمپ کے نامزد کردہ وزیر خارجہ مائک پومپیو نے تصدیق کی کہ رواں سال کے آغاز میں امریکی فوجی کارروائی میں سو یا دوسو روسی فوجی ہلاک ہوئے، اس حوالے سے مزید تفصیلات تودستیاب نہیں مگر اس بات کا کافی امکان ہے کہ پومپیو کا اشارہ فروری میں ہونے والے روسی اور امریکی فوجی تصادم کی طرف تھا۔ امریکی فوج بغیر کسی نقصان کے میدان جنگ سے لوٹی تھی، یہ تصادم روسی فوج کیلئے کوئی نیک شگون نہیں تھا۔ہوسکتا ہے کہ جب روسی جنرلز امریکا، برطانیہ اور فرانس کی فضائی کارروائی کا جواب دینے پر غور کررہے ہوں تو فروری کی شکست نے ان کے اندازوں کو بری طرح غلط ثابت کردیاہو۔ مغرب کی عسکری طاقت اس کی معاشی طاقت کے ساتھ مل کر مکمل ہوتی ہے۔ اپریل کے آغاز میں جب امریکا نے روسی حکام اور کمپنیوں پر پابندی کا اعلان کیا تو روسی اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی بری طرح نیچے آگئی۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ شام میں روس کا مغربی طاقتوں کے ساتھ دشمنی کا اظہار اس کی اسٹاک مارکیٹ اور معیشت کو بری طرح متاثر کرے گا۔
شام میں جنگ لڑنے کیلئے روس کے حوصلے کبھی بھی بلند نہیں تھے،روس نے فوج میں جبری بھرتی کیے گئے فوجیوں کو شام بھیجنے کے بجائے نجی ملیشیا اور کنٹریکٹ اہلکاروں کو بھیج دیا، تاکہ اندرون ملک تنقید سے بچا جاسکے۔ماسکو شام میں جانی نقصان کو چھپانے کے معاملے میں انتہائی حساس ہے، کیونکہ وہ اس کے ردعمل سے خوفزدہ ہے۔شام میں فوجی کارروائی کے حوالے سے کیے گئے لیواڈا سینٹر کے ایک سروے کے مطابق49فیصد روسی شام میں مہم جوئی کا خاتمہ چاہتے ہیں،جب کہ32 فیصد یہ جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سروے2017ء کی گرمیوں میں کیاگیاتھا۔ شام میں روس ایران اتحاد ایران کیلئے کافی فائدہ مند رہا ہے،ایک کمزور اتحادی کی حیثیت میں ایران شام میں فوجی کارروائی کرسکتا ہے مگر باقی سیاسی معاملات روس اور مغرب پر چھوڑ دیے ہیں۔روسی مہم جوئی کے خلاف مغرب کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے ماسکو کومغربی پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا اورنقصان بھی برداشت کرنا ہوگا۔شام میں روسی آپریشن کیلئے ایرانی فوج زمینی مدد فراہم کرتی ہے،مگر وہ طویل عرصے تک ماسکو کو سہولت فراہم کرنے کے پابند نہیں۔روسی جنرلز ایرانی اہلکاروں کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کررہے ہیں توایرانی جنرلز کو بھی اندازہ ہے کہ روس کی فضائی مدد ایک ڈھال کا کام کرتی ہے،جس سے انہیں آپریشن میں آسانی ہوتی ہے، کیونکہ ایرانی جغرافیائی اور ثقافتی طور پرجنگ زدہ علاقے سے قریب ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں،اس لیے ایران کو اس اتحاد سے روس کے مقابلے میں زیادہ فائدہ ملنے کا امکان ہے۔روس ایران کی مدد کرنے سے انکار نہیں کرسکتا، کیونکہ پھرروس کو شام میں اپنی زمینی افواج بڑے پیمانے پر تعینات کرنے کی ضرورت ہوگی،جس کے علاقائی اور عالمی اثرات غیر واضح ہیں۔ ویسے بھی شام میں روس کو ایران سے اتحاد کا ایک ہی فائدہ ہے اور وہ ہے ’’ایران کی افرادی قوت‘‘ کا استعمال کرنا،باقی توصرف نقصان ہے۔ایرانی نقطہ نظر سے بہتر نتائج کیلئے شام میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ممکن ہوں لسانی اور مذہبی توازن کو اپنے حق میں تبدیل کرنا ہوگا۔ شام کے تنازعے کے بہتر حل کیلئے روس شاید ہی ایک آزاد نقطہ نظر رکھتا ہے،ماسکو کی جانب سے ساحل پر روسیوں کو بسانے کے منصوبے کا امکان نہیں،ایسے کسی منصوبے کے خلاف مقامی آبادی اور ان کے رہنما متحد ہو جائیں گے۔ مغرب سے کسی سمجھوتے کے نتیجے میں روس کاشام سے انخلا کا امکان سال2015ء میں تھا، جب روسی مداخلت کاآغاز ہی ہوا تھا، اب توشاید اس بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ماسکو اور مغربی ممالک کے درمیان بد اعتمادی کے موجودہ حالات میں بات چیت کا نتیجہ خیز ثابت ہونا بہت مشکل ہے۔اپنی فوج پر بہت زیادہ دباؤ ڈال کر اور اپنے اہم پتے کھیل کر روس نے خود کو کمزور کرلیا ہے۔
دنیا بھر میں مشہور ہے کہ جب کوئی حکمران بیرون ملک جنگ ہار جاتا ہے تو اسے اپنے ملک میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر روس شام سے باہر آجاتا ہے تو ایران اور شام مغربی اور سنی اکثریتی ممالک کے دباؤ کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکتے۔ پوٹن کیلئے شام کوکھو دینے کا مطلب جنگ میں شکست ہے، جس کے اثرات ان کے اقتدار میں رہنے کے امکانات پر بھی پڑیں گے۔ شام میں موجود رہنا روس کو سنگین خطرات میں ڈالتا ہے، ماسکو اسرائیل اور ایران کے درمیان کسی چھڑپ میں پھنس سکتا ہے۔ روس، ایران اور ترکی جیسے اتحادیوں سے اپنے مفادات کا دفاع کرتے ہوئے تنازعے کومزید بڑھا سکتاہے۔ خطے میں روسی مفادکے مطابق شام کے تنازعے کا کوئی بھی حل غیر واضح ہے۔اگر چہ روس اپنے اتحادیوں میں سب سے طاقتور ہے مگر شام میں جنگ کے اختتام کے بعد ماسکو کے کمزور اتحادی طاقتور حریف بن کر ابھریں گے۔
ادھرٹرمپ کی شکل میں امریکااس خطے میں روس سے جیتی ہوئی جنگ کواپنی افتادطبع کی وجہ سےایک مرتبہ پھرشکست کے دہانے پرپہنچ گیا ہے۔اس نے خطے میں ایران اورترکی سے مخاصمت کوبڑھاکرروس کواپنابلاک مزیدمضبوط بنانے کیلئے ایک سنہری موقع فراہم کردیاہے۔ ترکی نے حالیہ بغاوت ٹھوس شواہدکی بناء پرایک امریکی پادری اینڈریوبرنسن کوگزشتہ دو سال سے دہشتگردی کے الزام کے تحت گرفتارکیاہواہےجس کے بعدٹرمپ نے ترکی پرمختلف پابندیاں عائدکرکے ترکی کوتجارتی خسارے میں مبتلاکرکے ترکی کی کرنسی لیراکوشدیدنقصان پہنچادیا جس کی وجہ سے ترکی کواپنی کرنسی میں چالیس فیصدتک کمی کرناپڑگئی،ترک لیراکی قدرپہلے ہی کم ہوکرایک ڈالر کے مقابلے میں پانچ لیرا ہو گئی ہے، جو حالیہ برسوں میں لیرا کی سب سے کم قدر ہے۔جس کے جواب میں ترکی نے امریکاکے سامنے جھکنے کی بجائے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیاہے اور صدر اردگان نے ٹیلی ویژن پر خطاب میں امریکی وزیرِقانون اوروزیرِداخلہ کے ترکی میں اثاثے منجمد کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں (اگر ان کے پاس اس قسم کے کوئی اثاثے ہیں تو)۔واضح رہے کہ امریکہ میں وزیرِ داخلہ کا عہدہ نہیں ہوتا۔ اس وقت جیف سیشنز امریکا کے اٹارنی جنرل ہیں جبکہ سیکریٹری داخلہ کا عہدہ رائن زنکی کے پاس ہے۔
دوسری طرف ایران کے ساتھ یکطرفہ ایٹمی معاہدے سے الگ ہوکرایران پربھی پابندیوں کااعلان کردیاہے اوران تمام ممالک کوبھی وارننگ دے دی ہے جوایران سے اپنے تجارتی روابط رکھیں گے۔یادرہے کہ اس خطے میں ایران کے تیل کاسب سے بڑاگاہک بھارت ہے اوردیگرتجارتی لین دین بھی بیس ارب ڈالرسے تجاوزکرچکاہے۔بھارت جواس وقت امریکاکاسب سے بڑاچہیتااورلاڈلا ملک ہے اس کے امتحان کابھی وقت آن پہنچاہے۔ان حالات میں یقیناًروس کی قربت ان دونوں ممالک،ترکی اورایران سے مزیدبڑھ جائے گی اورحالیہ پاک امریکاتعلقات بھی انتہائی حدتک گراوٹ کاشکارہیں اورپچھلے دوسال سے پاک روس تعلقات میں نمایاں اضافہ ہورہاہے۔کیااس صورتحال میں روس اورامریکاشام کومیدان جنگ بناکرخطے میں اپنی طاقت کالوہامنوانےکیلئے پر تول رہے ہیں۔
Load/Hide Comments