Suicide or suicide bombers, the decisive hour!

خود کشی یا خود کش بمبار، فیصلہ کن گھڑی!

:Share

خاموشی کی زبان آپ سمجھتے ہیں؟نہیں…..تواس میں میراکیا قصور!خاموشی میں ایک چیخ پوشیدہ ہوتی ہے،ایک احتجاج، ایک طوفان،اورجب خاموشی بول پڑے توگھمسان کا رن پڑتا ہے ، پھرکوئی نہیں بچتا……جی،کوئی بھی نہیں۔وہ جو محلات میں آسودہ ہیں اوروہ جوکھولیوں اور جھونپڑیوں میں تڑپ رہے ہیں سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بس دیکھتے جاؤ، ایک انتظار کے بعد کیا ہوتا ہے، حادثہ ایک دم تو نہیں ہوتا ناں! برسوں وقت اس کی پرورش کرتا ہے، پالتا پوستا ہے، پھر ایک دن لاوا پھٹ پڑتا ہے،پھر وہ دہکتی آگ کچھ نہیں دیکھتی….مال و منال، عزت و آبرو، ذلت و رسوائی، زردار اور بے زر، کچھ بھی نہیں۔

عجیب سلسلہ چل نکلا ہے کہ ہمارے حکمران اور اپوزیشن دن دیہاڑے قوم کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرکے خود کو مسیحا ثابت کرنے کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔قوم کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر خطاب کیا جاتا ہے، ان کے مصائب کا بڑی دلسوزی سے ذکر کرکے ہیرو بننے کی اداکاری کمال کی حدوں کوچھو رہی ہے۔ کیا آپ جانتے نہیں کہ آپ کے اعمال کے آئینے تو بکھرے پڑے ہیں اور وہ ہمیں شکل دکھانے سے باز نہیں آتے ۔آئینے کی لاکھ کرچیاں کر دیں، وہ کبھی اپنا کام نہیں چھوڑتے۔

انتخابات کو 6 ماہ گزر گئے،کیا قوم کے ٹیکسوں پر پلنےوالے اسمبلی ممبران نے عوام کی فلاح کیلئے کوئی پروگرام دیا ہے، بس ایک دھینگا مشتی جاری ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار نے قوم کا سانس لینا مشکل کر دیا ہے۔ ہر کوئی قوم کو لوٹنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ کیا اپوزیشن نے بجٹ میں خود کو وصول کرنے والی مراعات کو ٹھکرایا ہے بلکہ دو درجن سے زائد قائمہ کمیٹیوں کے سربراہوں نے اسپیکر سے اپنے لئے نئی گاڑیوں کا مطالبہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف عدلیہ کے ہر اس فیصلے کی تو تائید کی جاتی ہے، انصاف زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن جونہی کوئی فیصلہ خلاف اتا ہے تو وہی عدلیہ مطعون ٹھہرائی جاتی ہے، گویا ہر کوئی اپنی فرعونی صفات و اختیارات کی حکمرانی چاہتا ہے۔

آپ کو یہ خبر تو مل چکی ہو گی کہ سلمان شہباز کے آئی پی پی “چنیوٹ پاور” کو تین مہینے کی 63 کروڑ کی کیپیسٹی پیمنٹ کی گئی ہے۔ یہ وہ ادائیگی ہے کہ جس کا تعلق اس بات سے ہرگز نہیں کہ چنیوٹ پاورنے کتنی بجلی پیدا کی اور کتنی تقسیم کی بلکہ یہ صرف اس کیپیسٹی کی ادائیگی ہے جو اس کے پلانٹ میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ نوازشریف جون2013ء میں وزیر اعظم بنے۔اسی سال نومبر میں چنیوٹ پاور لمیٹڈ نے نیپرا میں پاور جنریشن کے لائسنس کیلئے درخواست دی۔ نیپرا کے افسر نے لائنسس کی درخواست کا جائزہ لینے کے بعد اسے مسنوخ کر دیا کیونکہ کمپنی نے بجلی کی ڈسٹری بیوشن کیلئے انفراسٹرکچر لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ نیپرا کے اس افسر کو انکار کی کیا قیمت چکانی پڑی، وہ ایک الگ داستان ہے!

سیاں جی (نوازشریف) کوتوال ہو اور سگا باپ پنجاب کا وزیراعلٰی،تو پھر ڈر کیسا، ہنگامی طور پر فیصل آباد الیکٹرک اتھارٹی کی طرف سے ایک لیٹر لیا گیا جس میں انہوں نے اس بات کی حامی بھری کہ وہ اپنے خرچے پر چنیوٹ پاورسے ڈسٹری بیوشن لائن بچھانے کو تیارہیں۔ چنانچہ جون 2014 کو سلمان شہباز کی کمپنی کا لائسنس منظور کر لیا گیا۔ اس لائسنس کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ چنیوٹ پاور 62 میگاواٹ میں سے 15 میگاواٹ بجلی رمضان شوگرمل کو بیچے گی- رمضان شوگر بھی شریف خاندان کی ملکیت ہے۔ نیپرا کے قواعد کےمطابق آئی پی پی ایک میگاواٹ تک کی بجلی ڈائریکٹ پرائیوٹ کنزیومر کو بیچ سکتا ہے، اسے “بلک پاورپرچیز” کہتے ہیں اور سلمان شہباز کو15 میگاواٹ بجلی بیچنے کی اجازت دے دی گئی گویا اس حکم نامے کے بعد آئندہ ان تمام ایماندار آفیسر کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ سیٹھ منشاء کو استعمال کرتے ہوئے حسبِ منشا کام بہرصورت ہو کر رہیں گے اورکوئی ہماری منشاء کے خلاف زبان و قلم استعمال کرنے کی جرات نہ کرے۔
کہتے ہیں کہ لالچ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔۔۔تین ماہ بعد چنیوٹ پاورنے لائسنس میں ترمیم کی درخواست کی جس کے مطابق چنیوٹ پاور لمیٹڈ مزید دوسری پرائیوٹ کمپنیوں کو بھی بجلی بیچنا چاہتا تھا۔ ان کمپنیوں میں شریف ڈیری فارمز، شریف ملک پراڈکٹس، یونیٹاس سٹیل، کرسٹل پلاسٹکس شامل تھیں۔ ان سب کمپنیوں کی ضرورت ایک میگاواٹ سے کم تھی اس لئے وہ بلک پرچیز کی کیٹیگری میں نہیں آتے تھے لیکن اوپر تایا نواز شریف بیٹھا تھا، نیپرا کے کسی افسرمیں دم نہیں تھا کہ انکار کر سکے ، اس لئے یہ درخواست بھی منظورکر لی گئی۔

چنیوٹ پاور پلانٹ گنے کے بھوسے اور چینی کے خام مال کو استعمال کرکے بجلی بناتا ہے۔ اس پلانٹ کی قانونی اور فنی میعاد 20 سال ہوتی ہے لیکن نیپرا نے چنیوٹ پاور کو 20 کی بجائے 30 سال کا لائسنس عنایت کر دیا۔ صرف یہی نہیں، نیپرا کا ماننا تھا کہ اس طریقے سے بجلی پیدا کرکے چنیوٹ پاور والے ماحولیات کی زبردست خدمت کریں گے، چنانچہ انہیں کاربن کریڈٹ کا بھی حقدار ٹھہرایا گیا جس کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے مزید حکومت نے سلمان شہباز کو دینے شروع کر دیئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، چنیوٹ پاورلمیٹڈ، رمضان شوگر کے خام مال سے بجلی تیارکرکے اپنے ہی خاندان کی فیکٹریوں کو سستی بجلی بیچتی ہے اور کیپیسٹی پیمنٹ کے نام پرعوام کے ٹیکسوں سے ہر مہینے 21 کروڑ روپے مفت میں وصول کر لیتی ہے۔ یہ سب باتیں ہوا میں نہیں کہی گئیں، ان سب کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں شب و روزعوام کے دکھوں کا درد اس زور سے اٹھتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ نجانے یہ رات بھی گزار پائیں گے کہ نہیں۔

اُدھر دوسری طرف ہمارے یہی حکمران ملکی معیشت کی بربادی اور ڈوبنے پر شب و روز ماتم کر رہی ہے کہ قوم کو اس دھوکے میں رکھا جائے کہ یہ تو ملک کی تقدیر سنوارنے کے اعلیٰ اور ارفع کام کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں اور عالمی اداروں اور امیر دوست ممالک کے سامنے مدد کیلئے ہاتھ پھیلائے کھڑے فریاد کر رہے ہیں لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ انہی حکمرانوں کی عیاشیوں کی بناء پر دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔

دنیا پاکستان کو ایک خطرناک ملک سمجھتی ہے۔ جب تک آپ اس حقیقت کو قبول نہیں کریں گے، آپ الجھتے رہیں گے۔ یہ تو ثابت ہو گیا کہ آپ معاشی طور پر اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ بیشترمالی امورکے ماہرین اب ملک کو دیوالیہ قرار دے چکے ہیں،اس لیے آپ کسی بھی وقت دنیا کیلئے ایک مسئلہ بن سکتے ہیں۔ آپ لوگوں کو دنیا کے مشاہدے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم ایسی کھائی میں گرنے جارہے ہیں کہ قلم وہ منظر نامہ لکھنے سے لرزاں ہے۔اب بھی اگر ہم نہ سنبھلے تو خاکم بدہن تاریخ بطورعبرت آپ کویادرکھے گی۔

معیشت دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ اگر آپ معاشی طور پر طاقتور ہیں تو آپ جوہری بم رکھ سکتے ہیں اور میزائل بنا سکتے ہیں۔ چین اور روس کے پاس بھی یہ ہیں لیکن دنیا انہیں خطرہ نہیں سمجھتی، کیوں؟ کیونکہ دنیا کا ماننا ہے کہ یہ دونوں ممالک معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ وہ کبھی بھی اس دنیا کیلئے خطرہ نہیں بنیں گے اور کسی بھی صورت اپنی اس ایٹمی اسلحے کو کسی اور کے ہاتھ فروخت نہیں کریں گے لیکن پاکستان ایک کمزورملک ہے، وہ اپنے جوہری اثاثوں کی زیادہ دیر تک حفاظت نہیں کر سکتا۔ یہ انہیں پیسے کیلئے فروخت کر سکتا ہے یا نفسیاتی دباؤ میں استعمال کر سکتا ہے، جس سے آپ دنیا کیلئے ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں۔

میں ایک مثال کےساتھ اس مسئلے کی وضاحت کر دیتا ہوں۔ فرض کریں کہ آپ ایک غریب آدمی ہیں اورآپ کے پاس ایک بہت ہی مہلک اور قیمتی رائفل ہے۔ آپ اس رائفل کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں؟ آپ اسے پیسے کیلئے فروخت کر سکتے ہیں، یا آپ اسے کسی کے سر پر رکھ کرانہیں لوٹ سکتے ہیں یا اس کی جان لے سکتے ہیں۔ دنیا سوچتی ہے کہ آپ اتنے بھوکے اور غریب رائفل بردار ہیں اور آپ کسی بھی وقت ان میں سے کسی بھی آپشن کو اپنا سکتے ہیں۔یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے مخالفین ایک لمحے کیلئے بھی ہمارے اس پروگرام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور اقوام متحدہ جیساا دارہ بھی ان کی لونڈی کے طور پر کام کر رہا ہے۔

برانہ منائیں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ان حالات میں پہنچانے میں ہمارے حکمرانوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے کہ یہ اپنے اقتدار کیلئے ہر ناجائز حربے کو اپنے لئے جائز قرار دینے میں ماہر ہیں۔ پھر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کے خلاف یہ تاثر بھارت نے اپنی پوری حکمت عملی کے ساتھ پھیلایا ہے۔ انڈیا نے1990 کی دہائی میں ان گنت طلباء کو اسکالر شپ کے ساتھ امریکا، کینیڈا، برطانیہ و یورپ اور مشرق بعید کے ممالک بھیجا۔ انہوں نے اعلیٰ اداروں سے ڈگریاں حاصل کیں اور پھر انہیں عالمی اداروں میں ملازمت دلوائی۔ یہ لوگ امریکی کانگریس مین اور سینیٹرز کے عملے کا حصہ ہیں اور میڈیا انڈسٹری اور تھنک ٹینکس میں بھی ہیں بلکہ برطانیہ میں پہلی مرتبہ انڈین نژاد وزیر اعظم بن کراپنی کابینہ کے اہم اداروں کی سربراہی بھی انڈین نژاد کے سپرد کرکے کئی برس انڈیا کے اس خواب کو حقیقت بھی بنا کر دکھا دیا۔ وہ وہاں بیٹھ کر ہر روز آپ کے خلاف خوف پھیلاتے ہیں اور دنیا اس خوف کو سچ مانتی ہے۔

آپ کا ماضی بھی اس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ آپ نے اکیلے ہی سوویت یونین کی طاقت کو تباہ کیا۔ آپ نے ہندوستان جیسی مکار طاقت کو ابھرنے نہیں دیا اور تمام تر معاشی کمزوریوں کے باوجود آپ وہ حاصل کر لیتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں اور دنیا کو حیران و پریشان کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ نے جے ایف تھنڈر بھی بنایا ہے جس نے عالمی طور پر خود کو منوایا ہے، آپ میزائل ٹیکنالوجی میں وہاں کھڑے ہیں جس نے ان کی نیندوں کو حرام کر دیا ہے بلکہ اپنے کامیاب ایٹمی میزائلوں کے 100فیصد صحیح نشانے کا تجربہ ان طاقتوں کے ماہرین کوبلا کر ان کی آنکھوں کے سامنے کرتے ہیں لہذا عالمی پالیسی سازوں کو لگتا ہے کہ آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن عالمی طاقتیں آپ کو جنگ کا موقع نہیں دیں گی۔ ان کا ماننا ہے کہ آپ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ آپ فوری طورپر حتمی ہتھیار کے ساتھ ایک جنگ شروع کریں گے، اور یہ پوری دنیا کیلئے خطرناک ہو گا، لہذا وہ آپ کواس سطح تک نہیں پہنچنے دیں گے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ انڈیا نے بالاکوٹ میں سرجیکل اسٹرائیک کی۔ پاکستان نے شور مچایا لیکن دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی مدد کیلئےآگے نہیں آیا، کیوں؟ کیونکہ دنیا اس بات کا اندازہ لگانا چاہتی تھی کہ آپ کس سطح پر ردعمل دے سکتے ہیں۔ اگلے دن آپ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ بھارت نے 27 فروری کی رات کو سرحد پر 9میزائل تعینات کیے اور آپ نے 14 میزائل تعینات کرکے ایک کھلا اور خطرناک پیغام دے دیا کہ پاکستان خود پر حملے کے جواب میں کہاں تک جا سکتا ہےجو کہ آپ کا حق بھی تھا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی جنرل ضیاء کی کرکٹ ڈپلومیسی کا واقعہ بھی ذہن میں رکھ لیں کہ کس طرح جنرل ضیاء نے بھارتی سرزمین پر راجیو کو یہ پیغام دیا تھا کہ اگر اس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو اس کے جواب میں دنیا میں پھربھی 55 مسلم ریاستیں باقی رہیں گی لیکن صدیوں تک دنیا بھر میں ہندو ریاست کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔

اب یہی معاملہ ایک مرتبہ پھر درپیش آ گیا۔ 27 فروری کی رات سرد جنگ کے بعد دنیا کی سب سے خطرناک رات تھی۔ ایک چھوٹی سی شرارت پوری دنیا کو تباہ کرسکتی تھی۔ لہٰذا دنیا فوری طور پر متحرک ہو گئی اور بڑی مشکل سے حالات کو پرسکون کر دیا۔ یہ پاکستان کا ایک امتحان تھا، اس ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ آپ لوگ ہمیشہ آخری جنگ کیلئے تیار رہتے ہیں، لہذا ان تمام قوتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ آپ کو دوبارہ اس سطح تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ وہ آپ کو اپنے میزائلوں کو باہر لانے کا موقع نہیں دیں گے۔ وہ آپ کو سرحدوں پر بھی مشتعل نہیں کریں گے۔ انہوں نے اس کا متبادل یہ سوچ کرفیصلہ کر لیا ہے کہ وہ آپ کو معاشی طور پر تباہ کردیں۔

میرے الفاظ نوٹ کرلیں۔ کبھی آپ نے سوچاہے کہ آئی ایم ایف جان بوجھ کرآپ کے پیکیج میں تاخیرکیوں کرتا ہے؟ تاکہ ڈالرمزید مہنگا ہو جائے جس سے افراط زر بڑھتا جائے گا، قرضوں میں جہاں اضافہ ہو گا وہاں پیٹرول، گیس اور بجلی بھی مہنگی ہو جائے گی۔اس سے ترقیاتی بجٹ میں بھی کمی آئے گی۔ اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ اس سے ریاست کے ذریعے کالعدم تنظیموں پر اتنا دباؤ پڑے گا کہ وہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں گے۔ اس سے پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ٹیکسوں میں اتنااضافہ ہو گا کہ عوام اس معاشی بوجھ تلے دب جائیں گے اور حکومت اورریاست دونوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

پاکستان کے خلاف یہ خطرناک منصوبہ شروع ہو چکا ہے۔ آپ نے جیک رسل نسل کے کتوں کے بارے میں ضرور سنا ہو گا۔ یہ ایک چھوٹے سائز کا خوفناک کتا ہے جو ریچھ کا پیچھا کرتا ہے ۔ یہ سائز میں اتنا چھوٹا ہے کہ ریچھ اسے پکڑ نہیں سکتا۔ یہ ریچھ کو پیچھے سے زخمی کرتا رہتا ہے اور اسے اتنا زخمی اور بے بس کر دیتا ہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ جیک رسل مکمل طور پر مطمئن ہو کر اپنے مالک کو مطلع کرتا ہے، اور شکاری ریچھ کو گولی مار دیتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی جیک رسل کی طرح ہیں۔ جیک رسل نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ وہ آپ کو زخمی کر رہے ہیں۔ وہ ہرآئے دن آپ کو معاشی طور پر اتنا کمزور بنا رہے ہیں کہ آپ اپنے میزائلوں کو باہرلانا تو دور کی بات، انہیں فائر کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ آپ کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کیلئے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔ آپ ٹیکس جمع کرنے کا کام فوج کے حوالے کرنے پر مجبور ہوں گے جس طرح آپ نے بجلی چوروں کے خلاف فوج کو میدان میں اتارا تھا۔

اور جس دن ایسا ہوتا ہے، تو پھر آپ اپنے دن گننا شروع کر دیں، کیونکہ ٹیکس جمع کرنے سے فوج کی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ اس کیلئے لوگوں کی محبت کم ہونا شروع ہو جائے گی،اور فوج کے خلاف آپ کے ملک کی ایک جماعت پہلے ہی سوشل میڈیا پر محاذ کھول چکی ہے اور درپردہ اس جماعت کے سوشل میڈیاکو دشمن ممالک کی مکمل اعانت بھی حاصل ہے۔ امریکی اداروں کی طرف سے بھی انسانی حقوق کے نام پر آپ کو انتباہ کیا جا رہا ہے، برطانوی پارلیمنٹ میں بھی ان کے گماشتے سرگرم ہو گئے ہیں، اور عالمی ادارے یہی چاہتے ہیں۔ آپ کو معاشی طور پر زخمی کرکے اور لوگوں کے دلوں سے محبت کو ختم کرنے کے عمل پر تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر حالات اسی تیزی کے ساتھ بڑھتے گئے تو خاکم بدہن ایک دن ایسا نہ آ جائے کہ وہ آپ کو ہندوستان کے قدموں پر بٹھا دیں۔ اورآپ کو بھی بھوٹان اور مالدیپ بنا دیں۔ آپ امداد لیتے رہیں گے اوران کے احکام کے مطابق ملک چلاتے رہیں گے اور بس۔

تاہم پہلی مرتبہ میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ فوج کو آئی پی پیز نامی تباہی کی ذمہ داری لینے سے بری نہیں کر سکتے ۔ بدقسمتی سے فوج ہماری معیشت کی اس سب سے بڑی ڈکیتی پر ان لوگوں کی طرف سے آنکھیں بند کر رہی ہے جو ایک بار پھر اقتدار میں ہیں بلکہ پی ڈی ایم کا آزمودہ شاہکار ہے۔ قوم سمجھتی ہے کہ فوج درپردہ خاموش تو ہے لیکن یہ رویہ سیاستدانوں اور ان افراد کو انتہائی مہلک گولہ و بارود فراہم کر رہا ہے جو اپنے مفادات کیلئے قومی خزانے پر ایسا بوجھ بن گئے ہیں جو اس ملک کو ڈبونے کے درپے ہیں۔ باجوہ کے نظریے نے پاکستان کو اپنے تمام منفی اثرات کے ساتھ نشانہ بنایا،اس نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے کشمیر کو فروخت کر دیا اور ملک کے دو درجن صحافیوں کو بلا کر اپنی بزدلی کی کہانیاں سنا کر قوم کو مایوس کیا۔ کشمیر کو انڈیا کی جھولی میں گرا کر فیض حمید کے توسط سے اجیت ڈوول کے ساتھ مودی کے پاکستانی دورے کا اہتمام کرنے میں مصروف تھا تاکہ اپنے آقاؤں کو خوش کرکے جہاں نوبل پرائز کا اہل قرار پائے وہاں اسے دوبارہ مدت ملازمت میں توسیع مل جائے جبکہ عمران خان نے تو اسے ایسی پیشکش بھی کر دی تھی جس کو خود عمران خان نے تسلیم بھی کیا لیکن جب بات نہ بن سکی تو عدم اعتماد کا راستہ کھول کر ہمیں یہ پی ڈی ایم تحفے میں دیا اور جب سے باجوہ نے عمران کے سر پر ہاتھ رکھنے کا سفرشروع کیا اور بعدازاں پی ڈی ایم کو ہمارے سروں پر مسلط کیا ہم تب سے تیزی کے ساتھ اپنی تباہی کی طرف بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ میں ہمت کرکے اگر یہ کہوں کہ آخر ہمیں ان بدمعاشوں کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت تھی؟

ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہو گا اور پھرحالات کو درست کرنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔ آئی پی پیز کے لائسنس منسوخ کرکے ان سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت بازیاب کی جائے اور اس کیلئے اگر عالمی عدالت میں بھی جانا پڑے تو اپنے مضبوط کیس کیلئے تیار ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ہمت کرکے باجوہ، فیض حمید اور چند دیگر سیاستدانوں اور بیوریوکریٹس کے ساتھ ساتھ ان ججز کو جو ان کے اشارے پر فیصلے سناتے رہے، سب کو کٹہرے میں لا کر صفائی کا کام شروع کرنا ہو گا،فوری طور پر تمام اسمبلی کے ممبران، ججز، بیوریوکریٹس، سیاستدان، جنرلز اور دیگر تمام سرکاری اداروں کے افرادکی تمام مراعات ختم کی جائیں جو کھربوں روپے سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔ کروڑوں روپے جو پروٹوکول پر خرچ کئے جا رہے ہیں،سب سے پہلے اس پر پابندی لگائی جائے، اس کے علاوہ ہمارے پاس اورکوئی چارہ نہیں۔

آپ یقین کریں کہ میرے انتہائی محترم عالمی شہرت یافتہ دوست پروفیسر انتھونی لیڈز نے اچانک مجھے یہ سوال کر دیا کہ کیا پاکستان اپنا قرض واپس کرسکے گا جبکہ اس سے قبل وہ مجھے صدر پاکستان زرداری کے پروٹوکول کی ایک ویڈیو ارسال کر چکے تھے۔ میرا شرم سے سرجھک گیا اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کبھی آپ نے سوچا کہ عالمی مالیاتی اداروں کو اشرافیہ کے ان تمام فضول چونچلوں کا علم ہے لیکن کیا انہوں نے کبھی اس پر پابندی کا کہا ہے؟ عالمی مالیاتی ادارے جب بھی کسی پابندی کا حکم دیں گے ، اس کا تعلق پاکستانی عوام کی کمر توڑنے کی طرف ہو گا تاکہ پاکستانی عوام جلد از جلد بغاوت کیلئے باہر آئے اوربقیہ کام وہ خود سرانجام دیں گے۔

ہینڈڈ پیچ ورک کاسہارا لینے کی بجائےہمیں یہ کام فوری طورپراخلاص کے ساتھ شروع کرنا ہو گا۔ یاد رکھیں! اگرہم غلط دشمن کے خلاف یہ غلط جنگ لڑتے رہے تو حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور قوم خود کشیاں کرنے کی بجائے خود کش بمبار نہ بن جائیں؟ میں اس دن سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں!

اپنا تبصرہ بھیجیں