سکستھ جنریشن وار فیئر

:Share

ہم کب تک اپنے حال مست ومال مست معمولات میں مکمل مست رہیں گے؟ شریف خاندان اورزرداری اینڈکمپنی جیسے افرادکاسول،ملٹری مناقشہ اورنیب میں جاری ان کے خلاف کرپشن مقدمات جیسے متنوع معاملات نے ہماری توجہ کواپنے سحرمیں جکڑرکھاہے۔بے معنی مباحث اورطعن وتشنیع قومی سطح پرفکر و عمل کی یکسوئی کوپارہ پارہ کیے دے رہے ہیں جبکہ دشمن ہماری نظریاتی سرحدوں پربھرپورحملے کررہا ہے لیکن ہماری اوّلین ترجیح یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم پہلے ایک دوسرے سے تونمٹ لیں،باقی پھر دیکھا جائے گا۔بہرحال پھر بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق ہوشیار رہنا ضروری ہے۔

سب سے پہلانکتہ تومودی کی وہ سفارتکاری کہ جس سرعت کے ساتھ اس نے چین کے تین دورے کیے تھے اوراقوام عالم کویہ تاثردیاگیاکہ وہ خاصی اہمیت کے حامل ہیں اورخطے میں چین کودوستی کے دام میں پھنساکر اس سے وہ کام لیاجاسکتاہے جوہم کبھی بھی جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔پھربھارت نے گزشتہ برس بھی بھوٹان کی سرحد کے ساتھ ڈوکلام میں چین کے ساتھ تناوکوکسی بڑے ٹکراومیں بدلنے سے گریز کیالیکن درپردہ وہ اس علاقے کواپنے مجوزہ یکطرفہ 5/اگست کے غیرقانونی وغیرآئینی اقدام کے بعدمسلسل اپنی کمزوریوں کی اصلاح کرتے ہوئے آئندہ ایسے حالات سے بچنے کیلئے فوجی اقدام پربھی بھرپورتوجہ دیتے ہوئے اپنی طاقت بڑھانے کیلئے اقدامات کرتارہا۔

اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے اچانک اپنے میڈیامیں خبروں کے بلیٹن میں پاکستان میں شامل کشمیرکے علاقوں یعنی گلگت بلتستان ،مظفرآباداوردیگرعلاقوں کے موسم کے حالات بتاکرباقی ماندہ کشمیرپراپناحق جتانے کی غرض سے اپنی اس مکروہ خواہش کااظہارشروع کردیااورگلگت سے گزرنی والی سی پیک کی اہم شاہراہ کے بارے میں عملی پروپیگنڈے سے ایک قدم اورآگے بڑھ کرسی پیک کو متنازعہ قراردینے کی سازشوں کابھرپورآغازکردیااورچندہی ہفتوں میں سرحدوں پراپنی افواج کی سرگرمیوں کوبڑھاتے ہوئے سی پیک کے اس پروگرام کوسبوتاژکرنے کے منصوبے پرعملدرآمدشروع کردیاجس پرپاکستانی سپاہ نے بھی فوری اقدامات کرتے ہوئے نہ صرف دفاعی بلکہ فیصلہ کن اقدامات کیلئے خودکوتیارکرلیا۔ دراصل مکارہندوچین کو سی پیک کے حوالے سے یہ پیغام دیناچاہتاتھاکہ سی پیک کاعظیم منصوبہ جوکہ “ون روڈون بیلٹ”کے ساتھ بھی منسلک ہے،کی تکمیل بھارت کے رحم وکرم پرہے اوراقوام عالم کوبھی یہ بتانا مقصودتھاکہ اس خطے میں چین کوسپرپاوربننے سے روکنے کیلئے صرف بھارت پربھروسہ کیاجاسکتاہے اورتمامترامریکی اورمغربی امدادی پیکج کا حق دار صرف بھارت ہے۔

اس سلسلے میں دوکلام کے علاوہ لداخ کے علاقے میں ڈیڑھ ماہ قبل جب برہمن کی مکاری ایک مرتبہ پھرسامنے آئی توبھارتی سیناکواس بری طرح خاک چاٹناپڑی کہ چین نے بالآخر کئی میل اندرگھس کرنہ صرف اپناعلاقہ واپس لینے کی کامیاب عملی کوشش کی بلکہ بھارت کوآئندہ جارحیت سے روکنے کیلئے ان علاقوں میں مزیداپنی چوکیاں بھی قائم کرلیں اور بھارت کواس معاملے پرجہاں اپنے ہی ملک میں بڑی رسوائی وشرمندگی کاسامناکرناپڑاوہاں امریکا اوربعض مغربی ممالک کوبھی بھارت کی اس حرکت پرنہ صرف بڑی مایوسی ہوئی بلکہ مودی کی تمام سیاسی بڑھکوں کابھی پول کھل گیاحالانکہ بھارت نے چین کادل جیتنے کیلئے جاپان، امریکا، آسٹریلیا اوراپنے سمیت بننے والے بظاہرچین مخالف اتحادمیں بھی چین سے کشیدگی کاباعث بننے والے کسی بھی اقدام میں شمولیت سے گریز کاعندیہ دیکرچین کویہ اشارہ بھی دیا تھاکہ چین کیلئے خاصی سفارتی گنجائش موجود ہے لیکن سرحدی جارحیت کے معاملے میں چین سے کسی طرح کی کوئی رورعائت حاصل نہ کرسکا۔

اگرہم اس خطے میں بھارتی چانکہ سیاست پرنظردوڑائیں تواسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت ہونے والی کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت کی آمادگی کے پیچھے بھی چین کی کاوشوں کا دخل بتایا جاتا ہے، یعنی بھارت نے چین کی بات رکھی۔ بھارت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات طویل المیعاد خدوخال کے حامل ہیں لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے پاس چین کو آفر کرنے کیلئے ایک مضبوط معیشت، داخلی استحکام اور بڑی مارکیٹ موجود ہے۔ اس وقت بھی چین کے ساتھ اس کی تجارت کا حجم قریب 100ارب ڈالرہے اورباوجودحالیہ کشیدگی کے،اس نے تجارتی تعلقات پرکوئی پابندی عائدنہیں کی کیونکہ وہ اب بھی سمجھتاہے کہ اگروہ چین کی کچھ بھی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے تووہ اس کیلئے فائدہ کاسوداہے کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد کی قیمت پرہوگا۔اس کاخیال ہے کہ اس کی کوششیں اورپاکستان کے داخلی حالات اورآپس کی سر پھٹول مل کرچین کوپاکستان میں اپنے لیے امکانات سے متعلق بدظن کرکے اپنی پالیسی پرنظرثانی پر مجبور کرسکتے ہیں۔

اس میں سی پیک سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں جو بھارت کا ایک اہم تزویراتی ہدف ہے۔ گو ہم اسے فوری طورپرتو اس سے نہیں جوڑسکتے لیکن یہ بات اہم ہے کہ2019میں سی پیک کی مدمیں کچھ خاص چینی سرمایہ کاری پائپ لائن میں نہیں تھی جبکہ صورتحال یہ ہے کہ امریکی بلاک کے ساتھ نسبتاًسرد تعلقات کی وجہ سے پاکستان کیلئے اقتصادی اورعالمی معاملات میں چین اور کسی حد تک روس کی اہمیت اوربھی دوچندہوگئی ہے۔ یہاں یہ امربھی اہمیت کاحامل ہے کہ مودی نے دورہ روس میں پوٹن سے ماضی کے تعلقات اوران میں پائی جانے والی گرمجوشی کاذکرتواترسے کیا۔ بھارت اپنی معاشی پوزیشن کوبین الاقوامی تعلقات کے میدان میں بہت خوبی سے استعمال کررہاہے۔امریکاہویایورپ اوراب ایک مرتبہ پھر روس،فورا ہی ہتھیاروں کی خریداری کا لالچ دیکر سفارتی میدان میں مراعات کاخواہاں ہوجاتاہے۔روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ابھی نوزائیدگی کے دورسے گزررہے ہیں۔ ہمیں اس طرف بہت ٹھوس، فوری اور مسلسل کام کی ضرورت ہے۔ سفارتی کامیابیاں یکسوئی سے حاصل ہوتی ہیں،ایک دوسرے کو فتح کرنے اور نچلا دکھانے کی شوقین اقوام بالعموم اس پھل سے محروم رہ جانے والوں میں شامل ہوجاتی ہیں۔

ہمارے ہاںففتھ جنریشن وارکابہت تذکرہ رہتاہے۔ ففتھ جنریشن وارکابنیادی ہدف عوام اورریاستی اداروں، بالخصوص فوج،کے مابین غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کرناہوتاہے۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کایہ خیال ہے کہ پاکستان کواس وقت اس جارحیت کاسامناہے۔ تاہم اب محسوس یہ ہوتاہے کہ بات کسی سکستھ جنریشن وار فئیرکی جانب چل پڑی ہے۔ گویہ تخصیص ابھی کہیں مستعمل نہیں لیکن جوکچھ اب ہو رہاہے وہ اس طرح کی کسی کیٹیگری میں ہی رکھاجاسکتاہے۔ اس جنگ کاہدف ریاستی ادارے کااپناڈھانچاہوتاہے۔ اس میں نچلے درجے کے ملازمین اور افسران،اور پھر افسران اوراعلی کمانڈ کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلا سپریم کورٹ کے آسیہ مسیح فیصلے کے بعدتحریک لبیک کے رہنما ؤں کے بیانات پرایک طوفان آن کھڑاہواتھا۔ ایک کے بعد ایک کتاب سامنے آنے لگی،ان پرتبصرے ایک نئی آگ کوہوا دیتے رہے ،ہر طرف سچاور سچوںکا غلغلہ مچ گیا ۔ بہت اچھی بات ہے لیکن جب آپ باربار یہ بات سننے لگیں کہ ساری جنگیں توامریکاکے کہنے پر لڑی جاتی ہیں یااس کی خوشنودی کیلئے ختم کردی جاتی ہیں،یاجرنیل توکسی اورملک کے کہنے میں ہیں اوریاپھرانہیں عام سپاہی کے جینے مرنے سے کچھ لینادینا نہیں وہ تو بس اپنے اللے تللے جاری رکھنا چاہتے ہیں اورڈالروں پربک جاتے ہیں توپھراس تمام صورتحال سے صرفِ نظر ممکن نہیں رہتا۔ پاکستان میں اس طرح کی بات بھارت سے زیادہ اثررکھتی ہے کہ پاکستان میں فوج کے سیاست میں مداخلت کے حوالے سے جوگہرے خدشات ہیں ،وہ اب ختم ہوتے نظرنہیں آرہے لیکن دشمن ایجنٹوں کے ہروزنت نئے پروپیگنڈے سے سوشل میڈیاکی زینت بن رہے ہیں اوربالخصوص موجودہ سول حکومت کے بعض اداروں میں ریٹائرڈ فوجی افسران کی تعیناتی نے ان شکوک وشبہات کوزیادہ ہوادی ۔

دنیابھرکی طرح پاکستان میں بھی حالیہ برسوں میں سوشل میڈیاکابے تحاشہ استعمال اب سیاسی جماعتیں،ریاستی ادارے، سماجی کارکن،طلبااورانٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والوں کی اکثریت معلومات کے حصول اوراپنابیانیہ عوام تک پہنچانے کیلئے کسی تصدیق کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔ پاکستانی فوج بھی معلومات اوربیانات کی ترسیل کیلئے سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارم فیس بک اورٹویٹراستعمال کررہی ہے۔فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہان اپنے سرکاری اورذاتی اکانٹ استعمال کرتے رہے ہیں لیکن انہی ویب سائٹس پرکئی بار اعلی افسران سے منسلک ایسے جعلی اکانٹس بھی منظر عام پرآئے جنہیں رد کرنے کیلئے خودفوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کوبتانا پڑاکہ ان کے علاوہ فوج سے منسوب دیگرتمام اکاؤنٹس جعلی تصور کیے جائیں۔

پاکستانی افواج یقیناسوشل میڈیاکے خصوصی قواعدوضوابط پرعملدرآمدکرتی ہوگی جس میں جوانوں کے ڈسپلن پرخاصی توجہ دی جاتی ہے اورسیکورٹی کی چھتری تلے جوآفیشل سیکرٹ ایکٹ اورادارے کی سلامتی سے متعلق تمام قوانین پر سختی سے عملدرآمدکویقینی بنایاجاتاہے۔مزیدبراں ہرسطح پرفوجی اہلکاروں کی سوشل میڈیاکے استعمال سے متعلق تربیت اوررہنمائی کی جاتی ہے جس پرسختی سے کاربندرہنالازمی ہے۔عام ڈسپلن میں یہ بھی دیکھاجاتاہے کہ پوسٹ یا اکا ؤ نٹ یا آگے پھیلائی جانے والی معلومات فوج کی ساکھ کومتاثرنہ کرے یاسوشل میڈیاپرشائع ہونے والی معلومات میں سیکورٹی کی خلاف ورزی،فوجی جوانوں پرکسی قسم کے منفی اثرات نہ مرتب ہوں۔

یہاں یہ عرض کرنابھی مناسب ہوگاکہ سماجی رابطوں کی تمام ویب سائیٹس کے سرورزچونکہ پاکستان میں نہیں ہیں،اس لیے فوج انہیں ہرگزقابلِ اعتمادنہیں سمجھتی،اسی لئے عام طورپر فوج میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس یاانٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی قسم کی معلومات کے تبادلے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ دنیا کی دیگرافواج کی طرح پاکستان میں بھی کسی بھی ایسے کمپیوٹر جس پرحساس معلومات موجودہوں اسے انٹرنیٹ سے”کنکٹ” نہیں کیاجاسکتا۔ پاکستانی فوج کی ہائی کمانڈاورنئی حکومت کوفورااس صورتحال کانوٹس لیناہوگا۔ کچھ کوششیں ایسی بھی جاری ہیں کہ لسانی یافرقہ وارانہ بنیادوں پرفوج کے اندر تفریق پیداکی جائے۔ افواج کی صفوں میں ہلکا سا گومگو بھی اچھی سے اچھی فوج کا مورال اور استعدادِ کار درہم برہم کرسکتاہے۔پاکستان اپنی افواج کے افسروں ، جوانوں میں اس بات کمانڈمیں ایسے کسیdisconnect کا متحمل نہیں ہوسکتاجس کے نتیجہ میں کمانڈکی ساکھ یاجنگ کی وجوہ پرکسی قسم کااشتباہ پیداہو۔اس ضمن بھی فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جو کمانڈ اورجذبہ کوہم آہنگ کر سکیں ۔ہم خودسمجھ سکتے ہیں کہ یہ سکستھ جنریشن وارفیئرکسی بھی دیگر کے مقابلے میں ملک وقوم کیلئے کس قدرمہلک ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان کامستقبل روشن ہے لیکن وہاں تک پہنچنے کاراستہ باقی تمام اقوام کی نسبت مشکل ہے۔ پاکستان دنیا میں ایک بہت بڑے “ٹربل اسپاٹ”پرواقع ہےاوریہاں کچھ نہ کچھ چلتاہی رہے گا۔ ہمیں اس سب کاسامنا کرتے ہوئے اپنے روشن مستقبل تک پہنچناہے۔ ہمارے پاس”گوئنگ بائی دی بک”یعنی کتاب کے مطابق چلنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اوروہ بک ہمارا قرآن ہے۔ یکسوئی،اتحاد اورداخلی استحکام وہ تین اصول ہیں جوبین الاقوامی برادری میں ہمیں محترم بنا سکتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں