ہمارے سیاستدان کشمیرکے مظلوم اوربیکس لوگوں کوکیاپیغام بھیج رہے ہیں جوپچھلی سات دہائیوں سے زائدبھارتی فوج کے ظلم وستم کے باوجود اپنے حق کے حصول کیلئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں اوراس تحریک کوہرحال میں اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپناسب کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں۔ سفاک ہندوکی بھارتی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیرمیں اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق94ہزار888کشمیریوں کوشہیدکر دیا ہے جبکہ1990ءکے بعدبھارتی فوج اورنیم فوجی دستوں کے ہاتھوں7099 افراددورانِ حراست شہیدکئے گئے۔اس عرصے میں ایک لاکھ43ہزار48 افرادکوگرفتارکیاگیاجبکہ ایک لاکھ 8ہزار596رہائشی مکانوں اوردیگرتعمیرات کونذرآتش کیاگیا۔قابض بھارتی فوج نے خواتین کی آبروریزی کو ایک جنگی ہتھیارکے طورپراستعمال کیا ہے اوراب تک11ہزار36خواتین کی عصمتوں کوپامال کیاگیا۔
جولائی2016ءمیں برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد کشمیرمیں تحریک انتفادہ نے ایک نیارخ اختیارکیااورلوگ قابض بھارتی سامراج کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے،انہوں نے بھارتی تسلط کے خلاف بھرپورردعمل کااظہارکیاجس نے کشمیرکی تحریک آزادی میں ایک نئی جان ڈال دی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعدکشمیرمیں سیکڑوں لوگوں افراد کوشہیداور20ہزار 873کوزخمی کردیااوران زخمیوں کی کثیرتعدادعمر بھرکیلئےمعذورہو گئی۔اس عرصے میں بھارتی فوج نے نہتے نوجوانوں پرمہلک پیلیٹ گنوں کابے دریغ استعمال کرکے8355کشمیری نوجوانوں کو شدیدزخمی کردیاجن میں73 نوجوان اپنی بینائی سے محروم ہوگئے جبکہ207نوجوانوں کی ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی اور974نوجوانوں کی دونوں آنکھیں متاثرہوئیں۔برہان وانی کی شہادت کے بعد18ہزار990افرادکوگرفتارکرلیاگیاجبکہ ان میں سے 818کوبغیرشنوائی کےکالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بندکر دیاگیا۔2017ءمیں قابض افواج اورمقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ نے بھارتی حکومت کے احکامات پرحریت کانفرنس اوردیگرآزادی پسندقائدین اور سرگرم رہنمائوں کوبھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کے ذریعے من گھڑت مقدمات کے تحت گرفتارکیااوروہ اس وقت نئی دہلی سمیت کئی جیلوں میں غیرقانونی طورپرنظربندہیں۔یہ سب کچھ انہیں مرعوب کرنے کیلئےکیا جا رہاہے تاہم ایسے ہتھکنڈے کشمیریوں کواپنی منزل سے دورنہیں کرسکتے۔
کشمیری عوام 1947ءسے بالعموم اور1988ءسے بالخصوص آزادی کیلئےقربانیاں دے رہے ہیں جودراصل”تحریک تکمیلِ پاکستان “ہے۔کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کیلئےبیش بہاقربانیاں دی ہیں۔بھارتی قابض افواج نے بالعموم حالیہ عرصے کے دوران اوربالخصوص5/اگست کے بعد مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی ایسی سنگین پامالیاں کی ہیں جس کولکھنے کیلئے قلم بھی ندامت سے منہ چھپاتاپھرتاہے لیکن مودی جیسا سفاک درندہ ابھی تک قصر سفیدکے فرعون اوراسرائیل جیسے انسانیت فروش نیتن یاہوکی آنکھوں کاتارہ بناہواہے۔بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیرمیں اب تک بڑی تعداد میں نہتے مسلمانوں کاخون بہایاجارہاہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کامؤقف ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کی بڑے پیمانے پرتعیناتی اورکالے قوانین کانفاذمقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کاباعث بن رہاہے۔مودی کایہ دعویٰ کہ دیگرممالک کے مقابلے میں بھارتی فوج کاانسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈبہترہے جب کہ اصل حقائق اس کے برعکس ہیں اوربھارتی اتحادیوں کے ملکوں میں اب ان مظالم کے خلاف آوازبلندہوناشروع ہوگئی ہے۔کشمیر میں گزشتہ30برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد شہری شہید اور10ہزارسے زائدلاپتہ ہوچکے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیرحکومت کاکہناہے کہ ایسے لوگوں کی تعدادمحض4ہزارہے،کشمیر کے طول وعرض میں گزشتہ30برس کے دوران500سے زائدمزارِشہداءآبادہوچکے ہیں اور ہزاروں کشمیری گمنام قبروں میں آسودہ خاک ہیں۔خودبھارتی نژادامریکی اسکالرخاتون نے درجنوں اجتماعی قبروں کاشواہدکے ساتھ انکشاف بھی کیاہے جوبھارت کی ریاستی دہشتگردی کاواضح ثبوت ہے لیکن ان تمام مظالم کے باوجودتمام قاتل کشمیریوں کے بے گناہ خون سے آلودہ اپنے ہاتھوں کولہراکراپنی فتح کاجشن منارہے ہیں جومہذب اقوام اوراقوام متحدہ کے منہ پرزناٹے دارتھپڑہے جس کی گونج ساری دنیامیں واضح سنائی دے رہی ہے۔
کشمیرمیں تحریک آزادی کودبانے کیلئےمتعددکالے قوانین نافذہیں جن میں آرمڈ فورسزاسپیشل پاورایکٹ،پبلک سیفٹی ایکٹ اور ڈسٹربڈایریاز ایکٹ بھی شامل ہیں۔ان کالے قوانین کے تحت ہزاروں شہریوں کوبلاوجہ پابندِ سلاسل کیاگیاہےجن میں سے ایک بڑی تعداداب بھی بھارت اور مقبوضہ کشمیرکی مختلف جیلوں میں نظربندہے۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم”ہیومن رائٹس واچ”نے کشمیرمیں نافذکالے قانون”آرمڈفورسز سپیشل پاورز ایکٹ ”کوواپس لینے کامطالبہ کرتے ہوئے اسے دنیاکابدترین قانون قراردیاہے۔ بھارتی درندہ صفت حکمرانوں نے جولائی1990ءمیں تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کیلئےبڑے پیمانے پرکالے قوانین نافذ کرکے ریاست کوشورش زدہ قراردیاتھااوربھارتی فوجیوں کووسیع پیمانے پر اختیارات دیئے۔کشمیرمیں”آرمڈ فورسزاسپیشل پاورایکٹ” سمیت متعددکالے قوانین نافذہیں جن کااصل مقصدبھارتی افواج کوانسانی حقوق کی پامالیوں کی کھلی چُھوٹ دیناہے۔کشمیرمیں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری کے سرکاری دعوؤں کے باوجودفرضی جھڑپوں اورحراستی ہلاکتوں کاسلسلہ جاری ہے۔کشمیرمیں7ہزارافرادکودوران حراست قتل کردیاگیا۔کشمیرکی عدالتوں کی جانب سے نظربندنوجوانوں کی رہائی کے فیصلوں کے باوجودان پرعملدرآمدنہیں کیاجاتاجس سے انسانی حقوق کی صورتحال اورزیادہ ابترہوئی ہے۔
مسئلہ کشمیرپربھارتی مؤقف تاریخی حقائق کے منافی ہے۔تقسیم برصغیرکے اصولوں اورتاریخی حقائق کی بنیاد پرکشمیرپاکستان کاایک اہم حصہ قرارپایاتھا تاہم 1947ءمیں برطانوی سامراج نے متعصب ہندو لیڈروں کے ساتھ سازبازکرکے کشمیرکو زبردستی بھارت کے ساتھ شامل کردیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیرایک تصفیہ طلب مسئلہ ہے اورخودبھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرونے اقوام متحدہ میں ساری دنیاکے سامنے کشمیرمیں ھو خودارادیت کے حق کوتسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کی رائے کااحترام کایقین دلایاتھااوراس قرارداد کی ضمانت کے طورپراقوام عالم کی پانچ بڑی طاقتوں نے بطور ضامن اس پراپنے دستخ ثبت کئے تھے جس کے بعدکشمیرمیں جنگ بندی عمل میں آئی تھی لیکن اس وقت ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اوراندرون خانہ انتشارکی بناء پرخودبھارت کوموقع دیاکہ وہ اپنی مکارانہ سازشوں میں کامیاب ہوگیاوگرنہ کشمیر کو مکمل طورپرفتح کرنے کیلئے ہمارے مجاہدین سرینگرکے دروازے پرپہنچ چکے تھے۔سفاک ہندونے اسی دوران اپنی 6لاکھ فوج کشمیرمیں اتاردی اوربعدازاں وہ پاک بھارت مذاکرات میں تنازعہ کشمیرکوایک طرف رکھ کرپاکستان سے تجارتی تعلقات اور دوستی کامطالبہ کرتے رہے۔
بھارت کی روایتی سرکاری پالیسی یہ رہی کہ پاک بھارت تعلقات کو مسئلہ کشمیرکے حل سے مشروط نہیں کیاجاناچاہئے۔بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اورجذبہ حریت کوفوجی قوت کے ذریعے دبانااورکشمیریوں کی جدوجہد کوکمزور کرنے کیلئے پاکستان کواندرونی مسائل میں الجھاتارہا۔اسی دوران ہمارے پڑوس میں افغانی مجاہدین نے جہادکی برکات سے روس جیسی سپرپاورکوایسی شکست دی کہ اس کے بطن سے 6 مسلمان ریاستیں وجودمیں آگئیں اورامریکانے ہمیشہ کی طرح عین منجدھارمیں میں پھنساکراپنے محسنوں پاکستان اور افغانستان جنہوں نے اپنی بے پناہ مالی وجانی قربانیوں سے اسے دنیاکی واحدسپرپاوربننے میں مددکی، اس خطے سے آنکھیں پھیرلیں اوراس خطے کونہ صرف لاوارث کردیابلکہ چند برسوں کے بعدروس کے بطن سے الگ ہونے والے ریاستوں کے تیل اورمعدنیات پرقبضہ کرنے کیلئے افغان طالبان سے راہداری نہ ملنے سے مکمل انکار پرخود ساختہ نائن الیون حادثے کابہانہ بناکر افغانستان پراپنے اتحادیوں سمیت چڑھ دوڑااورایک دہائی کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے بعد بالآخر شکست جیسی رسوائی کاسامناکرکے دوحامیں امن معاہدہ کرکے انخلاء کااعلان کرناپڑالیکن اسی دورمیں اس نے افغان سرزمین کو انڈیاکوپاکستان کے خلاف دہشتگردی کرنے کالائسنس دے دیاجس کوبھارت اب تک استعمال کررہاہے لیکن اسی دوران5اگست کو ایک گہری سازش کے تحت اپنی اتحادیوں کی رضامندی سے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں اورخوداپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیراورلداخ کواپنے اندرضم کرنے کا یکطرفہ اعلان کر دیا ۔
ان تمام متشددفسطائی ہتھکنڈوں کے باوجودبھارتی فوج89سالہ بوڑھے مردِحریت جناب سیدعلی گیلانی سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ ان کودوسرے کئی ساتھیوں سمیت نظربنداورجیل کی اذیت ناک کوٹھڑیوں میں بندکررکھاہے۔کیاجیل کی سلاخیں کشمیرکی آزادی کاراستہ روک سکتی ہیں؟ کیاکشمیریوں کے محبوب لیڈرسیدعلی گیلانی کوعوام کے دلوں سے الگ کیاجاسکتاہے؟کیامجاہدہ سیدہ آسیہ اندرابی کے عزم کوکمزورکیاجا سکتا ہے؟تاریخ گواہ ہے کہ ایسانہ کبھی ہواہے اورنہ ہی اب ممکن ہے!لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کوکل کلاں تاریخ کس نام سے یادکرے گی؟
جناب محترم سیدعلی گیلانی صاحب اورمجاہدہ آسیہ اندرابی اپنی اولادکے قلب وذہن کے اندرتوپچھلی کئی دہائیوں سے عملِ خیر کاجوبیج بوچکے تھے،اس بیج پرمشیت کی برسائی ہوئی برسات نے بالآخرکس طرح عمل خیرکی لہلہاتی ہوئی کھیتی اگادی ہے۔ اگر اس فصل کی تقسیم شروع کر دی جائے توسب کوہی اپنادامن تنگ نظرآئے گا۔ان نوجوان شہداءنے اپنے خونِ دل اورجان سے پائے رسولۖ کے نقوش کوایسااجاگرکیاہے کہ ہرکسی کواب اپنی منزل آسان دکھائی دے رہی ہے۔ان نوجوانوں کی للہٰیت،اخلاص نیت اور بے لوث ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبور کرلئے ہیں جس کی تمناانبیاء،اصحابہ اورصالحین نے ہمیشہ کی۔ اپنے اس عظیم مقصدکیلئے اپنی جاں جاںِ آفریں سپردکرنے والےان عظیم نوجوانوں کی یاداب تاقیامت تک کفر کے تاریک جزیروں پرایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اورکوندتی رہے گی۔
ان نوجوانوں کی شہادت نے جہاں اوربے شمارباتوں کاسبق یاددلایاہے وہاں ایک یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین کروائی ہے کہ عالمِ اسباب میں سانس کا ایک تموج اورذرے کاایک حقیروجودبھی تخلیق اسباب اورترتیب نتائج میں اپناحصہ رکھتاہے۔جس طرح عمل بدکی ایک خراش بھی آئینہ ہستی کودھندلا جاتی ہے اسی طرح عمل خیرکاایک لمحہ بھی عالم کے اجتماعی خیرکے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کردیتاہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈہوکر کبھی نہ کبھی ضرور گونجتا ہے اورمیزان نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے اور یہ نوجوان شہدا بیٹے،بیٹیاں اورمائیں یوں آخرت کوجب گروہ درگروہ اپنے رب کے ہاں حاضر ہوں گے تویہ شہداءکے گروہ میں شامل اپنے رب کے ہاں اس شان سے حاضرہوں گے کہ تمام عالم ان پررشک کرے گا۔
اللہ سے ہم نے بھی ملاقات کرنی ہے،اللہ جانے کب……؟اللہ جانے کہاں……؟اورکس حال میں ہوں گے؟کتنی بڑی ملاقات ہوگی جب ایک عبد ذلیل اپنے معبوداکبرسے ملے گا!جب مخلوق دیکھے گی کہ خوداس کاخالقِ اکبراس کے سامنے ہے ،اللہ کی قسم …..!کیسے خوش نصیب ہیں یہ کشمیری شہداء کہ جلوہ گاہ میں اس شان سے جائیں گے کہ اس ملاقات کے موقع پراللہ کونذرکرنے کیلئے اللہ کاکوکوئی انتہائی محبوب تحفہ ان کے کفن میں موجودہوگا،جی ہاں!ان کفنوں کی جھولیوں میں جن میں بدن اورسچے ایمان وعمل کی لاش ہوگی مگر شہادت کے طمطراق تمغے سے سجی ہوگی۔ان تمغوں کوخدائے برترکی رحمت لپک لپک کربوسے دے گی اوراعلان ہوگا:
توحیدتویہ ہے کہ خداحشرمیں کہہ دے
یہ بندۂ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے
کاش ہمیں بھی اس ملاقات اوریقینی ملاقات کاکوئی خیال آتااورتڑپادیتا،کاش ہم بھی ایسی موت سے ہمکنارہوجائیں جہاں فانی جسم کے تمام اعضاء باری باری قربان ہوجائیں،سب اللہ کیلئے کٹ جائیں،سب اسی کے پائے نازپرنثارہوجائیں جس کے دستِ خاص نے ان کووجودکے سانچے میں ڈھالا ہے۔ یقیناًان نوجوانوں کے دھڑشیطانی قوتوں کاشکارہوگئے ہیں مگراشک بارآنکھوں سے سوبار چومنے کے لائق ہیں کہ فرشتے ان کو اٹھاکراللہ کے ہاں حاضرہوگئے ہیں اوران کی جوانیاں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ دنیاپرنہیں یہ آخرت پرنثارہوئی ہیں۔انہوں نے دنیاکی کسی چیزسے نہیں،خوداللہ سے عشق کیا،انہوں نے دنیاکی ساری اشیاءاور عیش وعشرت پرنہیں خودرسول اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک پرایمان کی بنیادرکھی،انہوں نے دنیاکی نشیلی چھاؤں میں نہیں بلکہ شہادت کے پرشوق سائے میں پناہ ڈھونڈی،انہوں نے زندگی کی دلفریب اورایمان کی شاہکارشاہراہ پراس طرح سفرکیاہے کہ زندگی سے ہٹ کرشہادت اورشہادت کے اس پارتک کچھ سوچنے کاکوئی سوال ہی نہیں تھا۔وہ شباب وحسن سے وجدکرتے ہوئے اللہ کے ہاں اس طرح حاضرہوگئے ہیں کہ حسن وجوانی باربارایسی حسرت کرے۔
بھارت نے آج پورے خطے کے امن کوداؤپرلگارکھاہے اوراس نے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ لگا رکھی ہے لیکن اس ساری صورتحال کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج اور سکیورٹی ایجنسیزنے اپنی بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں بھارت سمیت تمام دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملارکھاہے۔الحمداللہ!