ہرفرعون یہ سمجھ بیٹھاہے کہ بس وہی ہے عقل وفکرکاعلمبردار ،بہت ضروری ہے وہ۔ اس کی ہدایت ورہنمائی ہی نجات کاسبب ہے۔بس وہی”میں” کا چکر ، نحوست کاچکر۔اسی لیے وہ پکارتارہتاہے،وہی ہے اعلیٰ وارفع،وہی ہے رب اوررب اعلیٰ بھی۔خودفریبی کی چادرمیں لپٹاہوا۔موت …موت تو اسے چھوبھی نہیں سکتی۔سامان حرب سے لیس۔خد ام اس کی حفاظت پرمامورہیں۔چیڑیابھی پر نہیں مارسکی۔دوردورتک کوئی سوچ بھی نہیں سکتاکہ اسے گزندپہنچاسکے۔جیسے وہ موت کوبھول بیٹھتاہے خودفریب توسمجھتا ہے کہ موت بھی اسے بھول جائے گی لیکن ہوتاکچھ اورہے۔سب کچھ ہوتاہے محافظ بھی،سامان حرب بھی،محلات بھی،سازو سامان بھی،آفرین بھی،واہ واہ بھی سب کچھ ہوتا ہے اورپھرنیل ہوتاہے، لہریں ہوتی ہیں،منہ زورلہریں رب حقیقی کے حکم کی پابنداورجب وہ گھِرجاتاہے پھردوردورتک کوئی نہیں ہوتامددگار۔ تب وہ آنکھ کھولتاہے اورپکارنے لگتاہے نہیں نہیں،میں ایمان لاتا ہوں،ہاں میں موسیٰ وہارون کے رب پرایمان لاتاہوں۔لیکن بندہوجاتاہے در،کسی آہ وبکاسے نہیں کھلتا۔پھروہ غرق ہوجاتاہے،موت اس کی شہ رگ پرنوکیلے دانت گاڑدیتی ہے۔ختم شد،نشانِ عبرت،داستان درداستان ۔
فرعون مرتاہے،فرعونیت نہیں مرتی۔اس کے پیروکارآتے ہیں،آتے رہیں گے۔پھروہ پکارنے لگتے ہیں،ہمارامنصوبہ کامیاب رہا۔ہم ہیں اعلیٰ وارفع۔ ہمارے پاس ہیں وہ دانش وبینش جوبچالیجائیں گے سب کو۔دیکھانہیں کہ ہم نے ملک میں موٹرویزکاجال بچھایا، صنعتی ترقی کیلئے بجلی کے پلانٹ لگائے،20 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلوائی اورسب سے اعلیٰ وارفع کام یہ کیاکہ ملک کوپہلی اسلامی ایٹمی طاقت کامقام دلایاتاکہ دشمن دوبارہ میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرے اورہم نے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ضرب عضب کی طاقت استعمال کی۔بس ہمارے پیچھے چلو۔ہماری پیروکاری کرو کہ نجات اسی میں ہے۔
مصاحبین کے نعرہ ہائے تحسین اسے اس زعم میں مبتلارکھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔اس کی مرضی سے چلتاہے کاروبار حیات لیکن پھرایک اوردریا ہوتا ہے اورانجام وہی۔کبھی سنا تھا کہ ملک کاوزیراعطم میڈیاپربرملااعتراف کرے کہ آئی ایم ایف کے سامنے ناک کی لکیریں نکال رہے ہیں لیکن خیرات نہیں مل رہی۔وزیرخزانہ نے تومنصب سنبھالتے ہی نعرہ لگایاتھاکہ ڈالرکی مصنوعی برتری کوپامال کرکے رکھ دوں گا،قوم کوبہت جلدخوشخبریوں سے نہال کردوں گالیکن اپنی ساری توجہ اپنے منجمد اثاثوں کی بحالی پرصرف کرکے ساری خوشخبریاں اپنے ہی دامن میں سمیٹ لیں اورقوم کوظالمانہ نظام،مہنگائی کے بدترین طوفان، پٹرول،گیس اوربجلی کے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے سونامی کے حوالے کردیاگیا۔ میڈیا میں جس آئی ایم ایف کو آنکھیں دکھائیں، امریکی سفیرکے پاؤں پڑکرمعافی کے خواستگارہوگئے۔
پاکستان کاسیاسی دستوریہ بن گیاہے کہ پہلے توانتخابات کے نتائج کومستردکرکے خودکومظلوم قراردیاجائے لیکن اگر حزبِ اختلاف میں بیٹھناپڑگیاتوجی بھرکرحکومت کو گالی دیں اور برسرِاقتدارہیں توگھٹنوں کے بل بیٹھ کے کشکول ہاتھ میں لئے خیرات اکٹھی کرتے رہیں،خیرات مل جائے توقوم کویہ پیغام دیاجائے کہ اگریہ خیرات نہ ملنے پرملک دیوالیہ ہوجاتا تو میں اورمیرے بڑے میاں صاحب خودکوکبھی معاف نہ کرتے لیکن قوم کی شب وروزکی یہ درخواست کوئی نہیں سنتاکہ خداکیلئے اب ہمیں معاف کر دیاجائے۔میں پاکستان سے 6 سال چھوٹاہوں کم ازکم میں نے تواپنے ہوش میں آئی ایم ایف اورامریکاکے بارے میں ہرحکومت اور اپوزیشن کویہی کرتے دیکھا ہے۔میاں نوازشریف نے توبھیک کایہ پیالہ توڑنے کیلئے ہم اوورسیزکے ہاتھ پاؤں پکڑے کہ غیرملکی کرنسی میں اکاؤنٹ کھول کرملک کی مددکریں۔جس ایٹمی دہماکے کواپناسب سے زیادہ زریں کارنامہ بیان کرتے ہوئے زبان نہیں سوکھتی،اس کے فوری بعدعالمی پابندیوں کی پاداش میں اپنے ڈھائی سوملین ڈالر ملک سے نکال لئے گئے اوراوورسیز کی امانتوں پراس دہماکے کاسارابوجھ ڈال دیاگیااور ایک ہی لمحے میں اوورسیزاکاؤنٹ منجمدکرکے ان کوکنگال کردیاگیا۔عدالتی کاروائی میں خودججوں نے اس بددیانتی کااعتراف کرتے ہوئے صرف اوورسیزکوارضِ وطن کیلئے قربانی او ر صبروشکرکادامن تھامنے کی نصیحت کردی جبکہ ایسی ہی قربانی کامطالبہ کسی جج،جنرل،بیوریوکریٹس یاکسی بھی سیاستدان سے نہیں کیاگیا۔
ہمیں اس بات کاادراک ہی نہیں کہ ملک کوسب سے بڑامسئلہ ماحولیاتی آلودگی اورتبدیلی کاہے جس کی بنا پرہرسال بارش کی بہتات اورسیلاب کی تباہی اورآفات سے بچنے کیلئے کسی مستقل حل کے بارے میں صرف بیانات تک کام ہورہاہے جبکہ یہ ہماری زندگی اورموت کامسئلہ ہے اوردوسری بڑی تباہی یہ ہے کہ ہماری آبادی کے5سے16سال تک کے 33٪ بچے کسی بھی قسم کی تعلیم سے عاری ہیں۔تعلیم کے حوالے سے آج ہم بنگلہ دیش،سری لنکا،نیپال سے بھی کہیں پیچھے چلے گئے ہیں۔یہ ایساسانحہ ہے جووقت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں غربت کے بڑھنے کاسب سے بڑاسبب ہے جس سے ملک کے اندرجرائم میں اضافہ ہورہاہے اورتیسرابڑااوراہم مسئلہ صحت کاہے کہ ارضِ وطن کی آبادی کے40٪ بچے معیاری صحت سے بہت دورہیں اورغربت کی بناپرجہاں وہ علاج معالجہ کی سہولتوں سے محروم ہیں وہاں وہ قدرتی طورپراپنی باقی ساری عمراس کاخراج اداکرتے رہتے ہیں۔
اگرہم ان تین مسائل کوہی لے لیں تولامحالہ ہماری نطرگزشتہ 75سال کے تمام حکمرانوں پرجاتی ہے کہ جن کی سات نسلیں مراعات کے بے تحاشہ فوائدسے مالا مال ہیں۔کیاان سے پوچھنے کی کسی میں ہمت ہے کہ آخران حکمرانون کی جائیدادیں،مال ومتاع،محلات اورشاپنگ پلازے ملک سے باہر، ان کی اولادیں ملک سے باہرلیکن یہ کس بل بوتے پرہم پرحکمرانی کاحق رکھتے ہیں۔اب ایک مرتبہ پھردبئی میں بیٹھ کراگلی حکومت کی بندربانٹ کے فیصلے کئے جارہے ہیں،خود ان کے اپنے اتحادمیں پھوٹ پڑگئی ہے کہ اس اتحادکی ہر پارٹی کاسربراہ خودکوآئندہ کاوزیراعظم دیکھناچاہتاہے۔
کون نہیں جانتاکہ ہمارے تمام موجودہ سیاستدان اپنے اقتدارکیلئے اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ اپنی تقاریرمیں جن کی پیٹ پھاڑنے کی باتیں کی گئیں، اپنے مفادات کیلئے آج اس طرح شیروشکرنظرآتے ہیں کہ گویاساری قوم کونسیان کامرض لاحق ہے،اوریہ ایک مرتبہ پھرممکنہ آئندہ انتخابات میں خوشنماوعدوں کی بارش سے عوام کوشرابورکرکے،ان سے ووٹ لیکراقتدارکی مسندتک خود اوراپنی اولادکولانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے13جماعتوں کے اتحادپی ڈی ایم بنانے کیلئے زرداری صاحب نے جومحنت کی،اس کاصلہ تووہ یقیناوصول کرنے کیلئے بے تاب ہیں لیکن ہمیں تواب تک یادہے کہ جس ادارے کے سربراہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کانعرہ لگاکرفوری طورپرڈھائی سال دبئی کے محل میں جاکرچھپ گئے تھے۔2018 کے انتخابات سے قبل ہی عمران کے حق میں اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرلی جس کی بنا پرالیکشن سے قبل نون لیگ کی طرح زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے رہنما بھی گرفتاری سے محفوظ رہے ۔اس ڈیل کے تحت پارٹی کی قیادت نے بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت ختم کروانے اور ”باپ” کو بلوچستان کاباپ بنانے کے منصوبے میں بھرپور کردار اداکیا۔سینیٹ میں رضاربانی کی جگہ صادق سنجرانی کوسینیٹ کاچیئرمین بنانے کی خدمت بھی اسٹیبلشمنٹ کے ایماپرسرانجام دی ، یوں جہاں عمران کو ناجائز طریقے سے قوم کے سروں پرمسلط کرنے کی سازش میں پیپلز پارٹی بالواسطہ مگر بھرپور طریقے سے سہولت کار بنی وہی اپنے انہی آقاکی ایماپرعمران کی حکومت گرانے کا کرداربھی اداکیا۔
پاکستان آئی ایم ایف کے پاس آٹھ دسمبر1958سے آج تک23بارگیاہے۔امریکاکے منظورنظرایوب خان کے نام نہادصنعتی اورسبز انقلاب،امریکی اقتصادی امداد اورعالمی بینک کی مالی وٹیکنیکل فوائدکاڈھونڈوراپیٹنے کے باوجودآئی ایم ایف کے سامنے تین بارماتھا ٹیکناپڑا۔بھٹودورمیں خودکفالت کی خاطر سوشلسٹ معیشت اپنانے کی پالیسی بھی چار بار آئی ایم ایف کے درپرجانے میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ضیاء الحق کیلئے افغان خانہ جنگی کے طفیل اربوں ڈالروں کی بہاراوراسلامی نظامِ معیشت اختیارکرنے کی کچی پکی کوششوں کے فیوض وبرکات بھی آئی ایم ایف کی زنجیر2بارہلانے سے بازنہ رکھ سکیں۔ بے نظیرکوتو5مرتبہ آئی ایم ایف کا دامن تھامناپڑا۔
نوازشریف جوکاسہ گدائی توڑنے کانعرہ لگاتے ہوئے مسنداقتدارتک پہنچے تھے لیکن اپنے تینوں ادوارمیں آئی ایم ایف کی منت سماجت کیلئے چار مرتبہ اسحاق ڈار کواستعمال کیا۔ مشرف نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ڈالرانہ آمدنی اورمعاشی ترقی میں چھ فیصد سالانہ اضافے کاغبارہ اڑانے کے ساتھ ساتھ قومی غیرت کوبھی بیچ میدان میں فروخت کیا لیکن اس کے باوجودشوکت عزیزکے ایماپر آئی ایم ایف کے درپردوبارحاضری دی اورزرداری جواب قومی خزانے کو100/ارب ڈالرتک پہنچانے کی نویدسنارہے ہیں،یہ بھی اپنے دورمیں آئی ایم ایف کے محتاج رہے۔اقتدارسے پہلے عمران خان کی موجودگی میں ان کے انتہائی منظورنظر مرادسعیدتواقتدارسنبھالتے ہی بیرون ملک سے200/ارب پاکستان لانے اورآئی ایم ایف کے منہ پرمارنے کاجودعویٰ کرتے رہے اورعمران خان توآئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے پھانسی پرلٹکنابہترسمجھتے تھے،انہوں نے حلف اٹھانے کے ایک ماہ بعدہی اسدعمرکوواشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹرکا طواف کرنے کیلئے روانہ کردیااورقوم کے سامنے یہ جوازرکھاکہ”مجھے توپتہ ہی نہیں تھاکہ اندرکاحال اتنابراہے”۔
اب شہبازحکومت نے آئی ایم ایف کی نویں قسط حاصل کرنے کیلئے پچھلے آٹھ ماہ میں اپنے تمام درپردہ گھوڑے کھول لیے،تین دوست ممالک کے ہاتھ پاؤں جوڑ کرقرضوں کارول اوورکرواکے تحریری سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ اپنی مرضی کابجٹ پیش کرکے آئی ایم ایف کی مرضی کی ترامیم کیں۔ جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کی ذمہ دارفوجی قیادت کوملک کی معاشی سرحدوں کے تحفظ کیلئے بھی بیچ میں ڈالا۔پیرس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے سامنے وزیرِاعظم تین بارکرسی پرایسے بیٹھے جیسے کوئی عادی نالائق بچہ ہیڈمسٹریس کے روبروبیٹھتا ہے اورآخرمیں ہیڈمسٹریس ترس کھاکے کہتی ہو، آئندہ ایساکیاتوسکول سے نکال دوں گی۔تب کہیں جا کے تمام ترکوششوں کے باوجودتین ارب ڈالرکی سٹینڈبائی فیسلیٹی کامعاہدہ ہوا۔ اس کامطلب ہے کہ مریضِ معیشت کوچندماہ کیلئے مزید آکسیجن مل گئی ہے لیکن قوم ابھی تک اسحاق ڈارکاوہ بیان نہیں بھولی جب انہوں نے سوئٹزرلینڈکے بینکوں سے 200 / ارب ڈالرپاکستان لانے کادعویٰ کیاتھابلکہ اس معاہدے کوصرف چندہفتوں کی دوری بتاکرقوم کوسہانے خواب دکھائے تھے،یہ توبعد میں پتہ چلاکہ اس جھوٹ کے پیچھے جہاں اوورسیز کے فارن اکاؤنٹس جیسی امانت میں خیانت مطلوب تھی وہاں لندن کے ایک پاکستانی قاضی صاحب اوران کے خاندان کے نام پرکروڑوں پاؤنڈکی منی لانڈرنگ پرپردہ ڈالنا تھا۔لندن ہائی کورٹ میں حدیبیہ پیپرملزکاتین سوملین ڈالرکے قرضہ کی ادائیگی کس اکاؤنٹ سے اداکی گئی،آج تک اس کاجواب موصول نہیں ہوسکا۔
ایک دن میں نے باباجی سے پوچھا:انسان ہیں، ہم گناہ توکریں گے،ہوگابھی،پھرکیاکریں؟تو بولے:ہاں یہ توہے لیکن جب گناہ تنہائی میں سرزدہوجائے تو تنہائی میں اس کی معافی مانگو،اورجب سرعام اجتماع میں ہوجائے،تواجتماع میں کھڑے ہوکرمعافی کے طالب بن جاؤاورپھرایک دن فرمانے لگے:سچائی کواختیارکرویہ روشنی ہے،نجات ہے،رہنمائی ہے،سکون ہے۔اس کی تلخی میں بھی شیرینی ہے،مٹھاس ہے۔اورجھوٹ!جھوٹ توبس ہلاکت ہے، اندھیرا ہے،گمراہی ہے، بے سکونی ہے ،اطمینان کاقاتل جھوٹ ہے اور انسانیت کابھی۔جھوٹ ایک فریب ہے،سہانانظرآتاہے ۔بس سچائی ہی نجات ہے۔پھرایک دن انہوں نے اس سے بھی آگے کی بات کردی:سچائی کیلئے زبانِ صادق کاہونا ضروری ہے۔ سچائی پاکیزگی ہے اورجھوٹ نجاست۔ جھوٹ آلودہ زبان سچائی بیان ہی نہیں کرسکتی۔پہلے اپنی زبان وذہن کوجھوٹ کی نجاست سے پاک کرو۔ نجس زبان سے ادا کیے ہوئے الفاظ بے معنی و بے اثرہوتے ہیں،چاہے سننے میں کتنے ہی خوش کن اورسماعت میں کتنے ہی سروربکھیریں۔
عجیب لوگ تھے یہ، ہرمسئلے کی جڑجانتے تھے۔بہت سادہ بیان لیکن روح میں اترجانے والے پندونصائح سے دلوں کوروشنی اورخیرسے منورکرنے کا سلیقہ جانتے تھے…. اکثرصوفیا کا قول دہرایاکرتے تھے”کوئی دے تومنع نہ کر،کوئی نہ دے توطمع نہ کر اورلے لے توجمع نہ کر”۔وہ تھے مولانابشیراحمد سیالکوٹی…دین کی خدمت کیلئے اس وقت سعودی عرب سے واپس پاکستان آگئے جب ہردولت کمانے والے کی منزل سعودی عرب تھی۔آج انہی کی اولادڈاکٹرعبیدالرحمان اسلام آبادمیں مسجدرحمت اللعالمین کے ذریعے خلق خداکی جس طرح خدمت پر مامورہیں،یقینایہ ان بزرگوں کے فیض کانتیجہ ہی توہے لیکن کیاکروں لکھے بغیرضمیر کچوکے لگاتارہے گاکہ چنددن قبل انتہائی پریشانی کے عالم میں انہوں نے ایک عجیب واقعہ کاذکرکیاکہ کس طرح گھرکی راکھی کرنے والے راہزنی پراترآئے ہیں۔میں ان کوہمیشہ نت نئے پروگرامزکے انسائیکلوپیڈیاسے تعبیرکرتاہوں جوہمہ وقت دینی وملی خدمات کیلئے خودکووقف کئے رہتے ہیں،ان کے ساتھ راہزنی کاروّیہ یقیناکسی نئے عذاب کاتازیانہ ثابت ہوگا۔میری اپنے انتہائی کریم ورحیم رب سے دعاہے کہ ان راہزنوں کوعقل اور ہدائت عطافرمائے۔آمین