میرے انتہائی محترم بھائی جناب جنرل(ر)غلام مصطفیٰ صاحب نے میرے گزشتہ کالم میں پاک روس تعلقات کے سلسلے میں بروقت توجہ دلائی اوریقیناًجنرل کیانی کااکتوبر2012ءمیں پاک روس تعلقات کے تناظرمیں دفاعی تعاون اوردُوررس اثرات کاحامل دورہ بریک تھروثابت ہواجبکہ امریکا،برطانیہ،بھارت اور اسرائیل کیلئے اس دورے کوہضم کرناخاصامشکل تھا۔جنرل کیانی کایہ دورہ ہی آج پاک روس کے بڑھتے تعلقات کی بنیادبنا۔
عالمی سیاست کا یہ مقولہ”سیاست ایک ایسا کھیل ہے،جہاں کوئی مستقل دشمن یادوست نہیں مگرمستقل مقاصدہیں۔جنوبی ایشیاءکے سیاست میں ہمیشہ بدلتی سیاسی ہواؤں کی صحیح عکاسی کرتاہے چاہے وہ مسئلہ کشمیر،سردجنگ،امریکاچین تعلقات کی تلخی،نیوکلئیر ائزیشن،افغانستان کابحران، ٹی ٹی پی کوعام معافی، وار آن ٹیرر،این-ایس-جی ممبرشپ،پیوٹ ٹوایشیاءلک ایسٹ دفاعی ومعاشی تعلقات ،وَن بیلٹ وَن روڈجیسے معاشی ربط کےمنصوبے ہوں،یہ سب اس قول کی عکاسی کرتے ہیں-ان تمام تاریخی لمحوں میں جنوبی ایشیاء خصوصاًپاکستان کی خارجہ پالیسی اورسیاست،اندرونی کھلاڑیوں سے زیادہ عالمی شطرنج کے مہروں کے کھلاڑیوں سے کافی اثر اندازہوئی ہے-عالمی سیاست نے اپناسفرملکی سیاست،علاقائی سیاست، براعظموں کی سیاست،بین الاقوامی سیاست،گلوبل ویلج کاسفر کرنے کے بعداب دوبارہ واپسی کاسفراختیارکیاہے-امریکی پالیسیاں،بریکزٹ،پاک چین اکنامک کوریڈور،اِس دورکی سیاست کونمایا ں کرتی ہیں۔
اب اس بدلتے دورمیں روس اورپاکستان علاقائی اورعالمی سیاست میں دواہم کردارہیں-پاکستان اپنے ابتداءہی سے ہمسایہ ملک کی طرف سے جارحیت کاشکار رہاجِنہوں نے پاکستان کوعالمی اداروں اورعالمی وسپیسفک طاقتوں کے ساتھ الحاق کاراستہ دکھایاجوہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے کواور،کھانے کواورتھے-پاکستان کے اِس فیصلے نے اسے علاقائی طاقت سوویت یونین سے دورکردیا- سردجنگ میں حالات مزیدکشیدہ ہوگئے اورآخرکارافغان جنگ پر تعلقات کے باب بندہوگئےمگرپاکستان کی عالمی امن وترقی کیلئے خدمات کے اعتراف کی بجائے اُنہیں مشکوک بناکراورپاکستان کودہشتگردی اورعالمی امن کیلئےخطرہ قراردیکر پاکستان کونئی راہوں اورنئی منزلوں کی طرف مجبوراًدھکیلاجارہاہے کیونکہ مقاصدمستقل رہتے ہیں مگرشائدہمسفربدل جاتے ہیں پاکستان کے مقاصد واضح ہیں دہشتگردی سے پاک،محفوظ ایٹمی ہتھیار،تمام مسائل کاپرامن حل اورخودمختاری کااحترام-مگرشائدعالمی نادیدہ طاقتوں کے اپنے کالے کرتوتوں اورغلط پالیسیوں کی وجہ سے ہماری امن کوششوں کوہماری کمزوری بناکرہم پرآئے دن الزامات کی بوچھاڑ کرکے عالمی سیاست میں ناک آؤٹ کرنے کی کوشش کی ہےمگرشائدعالمی طاقتیں اوران کے تلوے چاٹنے والوں کوانامیں کوئی اورنظرنہیں آتاجوخاموشی سے عالمی نظام میں ابھررہے ہیں اورآہستہ آہستہ مختلف فیصلوں میں چیلنج کررہے ہیں مثلاًافغانستان،شام، یمن،فلسطین، ساؤتھ چائناسی اورایران نیوکلیئیرڈیل وغیرہ۔روس ان میں سے ایک ہے جوایک بارٹوٹ کردوبارہ عالمی سیاست میں مزیدطاقت اور مضبوطی سے ابھررہاہے،دُنیابھرکے تجزیہ نگار(کچھ مُسکراکرکچھ چہرہ بسورکر)اِس کاسہراپیوٹن کے سرسجاتے ہیں۔
بدلتی جغرافیائی سیاست،دفاعی،معاشی حالات اورابھرتے علاقائی خطرات نےروس اورپاکستان کوایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہ دکھائی-دونوں ممالک کے درمیان منظم اداروں نے دفاع،تجارت،سرمایہ کاری،معیشیت،سائنس،ٹیکنالوجی،زراعت،تعلیم اورثقافت کے شعبے میں تعاون میں کافی مددفراہم کی۔ افغانستان جنگ میں عالمی طاقتوں کی ناکامی اوراس کاالزام ہمسایوں پرلگاکردہشتگردی کا بھارتی تڑکا،بھارت کے مغربی طاقتوں کی طرف جھکاؤ، چین کا معاشی طاقت کے طورپرابھرنااورانفراسٹرکچرکے جال کوبچھانا،شام، قطر،یمن،فلسطین اورکشمیرپریکساں خارجہ پالیسی نے بھی دونوں ممالک میں سرد جنگ میں پڑنے والی برف کوپگھلایا-پاکستان اور روس کے درمیان ایک دہائی سے شروع ہونے والی مفاہمت میں سب سے پہلے پاکستان پرہتھیاروں کی فروخت پرلگائی گئی پابندی کو ختم کیا،2014ءمیں دفاعی معاہدے کاسنگ ِمیل طے کیاجب روسی وزیر دفاع نے45سال بعد پاکستان کا دورہ کیا-2015ءمیں دونوں حکومتوں کے درمیان تقریباً 2بلین ڈالرکاشمال جنوب گیس پائپ لائن پروجیکٹ کے معاہدہ پردستخط ہوئے جِس کے تحت کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی-ستمبر 2016ءمیں روس کی سپیشل فورسززکے جوان پاکستان میں پاک فورسزکے ساتھ فوجی مشقوں”فینڈشپ2016″ میں حصہ لینے کیلئے آئے۔ 2017ءمیں روس اورچین کے تعاون سے پاکستان کوشنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت ملی۔پاک،روس کے باہمی تعاون نے دونوں ممالک کیلئےعلاقائی سکیورٹی واستحکام،دفاع،معاشی تعاون کیلئےنئی راہیں کھول دیں،دونوں ممالک اِس بات پرکامل یقین رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی میگاپروجیکٹس بشمول چین-پاکستان معاشی راہداری، وسط ایشیائی علاقائی معاشی تعاون اورعلاقائی ربط کاراستہ ہموارکر رہے ہیں-روس یوریشین ہم آہنگی میں پاکستان کی اہمیت کونظر انداز نہیں کر سکتاکیونکہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن سلک روڈ(اہم معاشی راہدای)کے دوبارہ انتظامی امورکیلئے انتہائی کارآمدہے جوکہ یورپ،مشرقِ وسطیٰ،افریقااور ایشیاءکے ملانے کاایک قدرتی راستہ ہے-افغانستان میں استحکام،روس-بھارت تعلقات،امریکی اثر اندازی،یوکرائین کرائسس ، کریمیا،چین کے معاشی انقلاب، وسطیٰ ایشیاءکے ساتھ پاکستان کے تجارتی معاہدے اورون بیلٹ ون روڈنے پاک روس کے اپنے باہمی تعلقات کودوبارہ سے دیکھنے اوران کوبہتربنانے پرمجبور کیا
ہے-دونوں ممالک کونئی منزلوں کاتعین، علاقائی ربط کومزیدمستحکم اورجانداراورعالمی فورمزکے ساتھ ساتھ علاقائی فورمزجیسا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے زیرسایہ اپنا سفراعتمادکی فضاقائم رکھنے کیلئے ایک خوشگوارماحول کی ضرورت ہے۔
تلخ تاریخ کے باوجودپاکستان اورروس(سابقہ سوویت یونین)کے تعلقات میں ایسے لمحات بھی دیکھنے کوملتے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کافی بہترتھے-1965ءسے 1970ءکے دورانیہ میں پاکستان اورسوویت یونین کے درمیان 1965ءمیں پہلے باہمی ثقافتی وسائنسی معاہدے پردستخط ہوئے-پاکستان اورسوویت یونین نے پاکستان سٹیل مل کاافتتاح کیاجو کہ ایک سنگ میل سے کم نہ تھا-سردجنگ کے خاتمے کے بعد1999ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف اورروسی ہم منصب کے درمیان کئی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔9/ 11کے بعدامریکانے پاکستان کووارآن ٹیررمیں شامل ہونے کیلئے دھمکیاں لگانی شروع کردیں۔امریکاہمیشہ پاکستان کواپنے مطلب کیلئےاستعمال اورآخرمیں اپنانزلہ پاک فوج پرڈال کراپناکام چلاتارہامگراب اِس کی یہ چال ناکام ہوگئی کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جوفوجی آپریشنززپاکستان نے کیے وہ اپنی کامیابیوں کانہ صرف منہ بولتاثبوت بلکہ اقوام عالم کیلئے بھی حیرت انگیزہیں-
امریکاکے بین الاقوامی تعلقات میں مایوس رویہ سے اکتاکرمجبوراًپاکستان روس کے قریب گیااورپاکستان نے امریکاکی شدید بے وفائی اوربگڑتے تعلقات کے پیش نظر2004ء میں روسی جنگی ہیلی کاپٹر”ایم آئی35″کی پاکستان کوفراہمی سے دفاعی تجارت میں ایک نئے سنگ میل کاآغازہواجوبعدمیں فوجی مشقوں کی صورت میں پروان چڑھااوربدستوردوستی میں اضافہ کاموجب بن رہاہے۔
موجودہ دورمیں پاکستان اورروس مختلف عالمی مسائل کے پُرامن حل اورعالمی قانون کی بالادستی کوقائم کرنے جیسے مقاصدپریکساں خارجہ پالیسی مقاصدرکھتے ہیں-دونوں ممالک موجودہ بین الاقوامی نظام کوتبدیل کرنے کیلئے یکطرفہ طاقت،غیرقانونی نقل وحرکت کے خلاف ہیں-دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت اوران کوکم کرنے کیلئے مسلسل دوسری ایٹمی طاقتوں کے تعاون کے منتظر ہیں-دونوں ممالک افغانستان اورعلاقائی استحکام کیلئے تعاون پرمتفق ہیں-مزیدبرآں عالمی طاقتوں کے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم اورآئے دن پاکستان پربےبنیادالزامات کے باوجودروس پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قابلِ تحسین کوششوں کامعترف ہے۔عصرِ حاضرکے تقاضوں کے مطابق دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے پرزوردیاہے جوکہ علاقائی استحکام کیلئےروشن مستقبل کی نویدہے-روس پاکستان کے بڑے بڑے منصوبوں جیساکہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن،پاکستان سٹیل مل کومزیدترقی دینا، ٹیکسلامیں ہیوی مکینکل کمپلیکس کی بہتری،گڈوومظفرگڑھ پاورپلانٹس کی ترقی،تھرکول پراجیکٹس،تاجکستان سے بجلی کے ترسیل کے منصوبے کاسا(سنٹرل ایشیا۔سائوتھ ایشیا1000)،گیس کے منصوبے ٹاپی،(ترکمنستان۔افغانستان۔پاکستان۔انڈیا)اورسی پیک کے تحت اورکئی منصوبوں میں سرمایہ داری کرنے کاارادہ رکھتا ہے۔روس پاکستان کواپنی تیارکردہ مصنوعات برآمدکرنے کی نظرسے دیکھتا ہے جبکہ پاکستان اپنی موجودہ توانائی بحران کیلئے روس کے توانائی کے شعبہ سے فائدہ اٹھاناچاہتاہے-اس بات کااعادہ خودروسی صدرنے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی کیاکہ وہ پاکستان کے معاشی وتوانائی منصوبوں میں پاکستان کی مدد کرے گا۔
کئی سفارتکاراس بات پریقین رکھتے ہیں کہ روس وسطی ایشیاءمیں اپنے معاشی ودفاعی مقاصدکے حصول اورداعش کی انتقامی کاروائیوں،شدت پسندی و دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوارکرناچاہتاہے۔ دفاعی شعبہ میں روس نے پاکستان کودہشتگردی کے خلاف جنگ میں جدید ہتھیار فراہم کیے ہیں-عالمی جنگوں میں اپنے ہتھیارسے معیشیت مضبوط بنانے والوں کی پاکستان کودفاعی آلات وہتھیاربیچنے کی عدم دلچسپی نے پاکستان کو مجبوراًاپنے دفاع کومضبوط کرنے کی خاطرروس کی طرف دیکھنے پرمجبورکیاہے-جیساکہ تحریرمیں واضح ہے کہ روس پاکستان کی اہمیت کوبہت بہترطریقہ سے سمجھتاہے تودفاعی تعاون علاقائی عدم استحکام کوختم کرنے میں کافی مددکرے گا-ہمارے سابقہ عالمی شراکت داروں کارویّہ تو اس حدتک ہتک آمیزہوچکاہے کہ پاکستان کی امن پسندی کوکمزوری سمجھ کرپاکستان کومجرم کے طورپرپیش کیاجارہاہے یہ تو ویسے ہی ہے جیسے الٹاچورکوتوال کوڈانٹے مگرپاکستان کیلئےیہ بہت ضروری ہے کہ عالمی طاقتوں کی افغانستان امن میں ناکامی پرعلاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کرسیاسی طورپراِس مسئلے کاحل نکالے کیونکہ فوجی طاقت سے حالات کشیدہ ودفاعی صنعت کیلئےموزوں توہوسکتے مگرشائدحل نہیں ہوسکتے-روس کے پاس سلامتی کونسل میں ویٹوکی طاقت ہے اورشنگھائی تعاون تنظیم میں بھی اہمیت کاحامل ہے جِس سے پاکستان روس کے تعاون سے دونوں فورمزپہ پاکستان دشمنوں کی ہرسرزہ سرائیوں کابھرپور جواب دے سکتاہے-پاکستان اورروس کے دفاعی تعلقات اِس تناظرمیں بھی اہم ہیں کہ امریکابھارت کوروس اورچائنہ کے مقابلے میں بطورایک علاقائی طاقت کے دیکھناچاہتاہے جوکہ تاریخ کے تناظرمیں خودپاکستان کی اپنی سالمیت کیلئےایک خطرہ بن سکتاہے-طاقت وہ نشہ ہے جوآپ کوایک نیوکلئیرریاست پربھی جنگ مسلط کرنے سے روک نہ سکے جِس کاثبوت بھارت کے موجودہ آرمی چیف کے جنگی جنونیّت میں ڈوبے بیانات ہیں۔
عالمگیریت کے دورمیں ہرملک خصوصاًپاکستان ہرعلاقائی وبین الاقوامی ملک سے تمام باہمی کشیدگیوں کوختم کرکے بہترتعلقات کا خواہاں ہے-ایسے عالم میں جِس میں معیشیت سیاست میں اپنانمایاں اثرورسوخ رکھتی ہے-پاکستان کیلئے اِس سے بڑھ کرکیا ہو گا اگر وہ روس،چین،امریکا، یورپین یونین، افریقا، مشرقِ وسطیٰ اوروسطیٰ ایشیاء کے ساتھ بہترمعاشی تعلقات مزیدمضبوط کرنے کیلئےہرموقع کا فائدہ اٹھائے-روس،یورپ کے ساتھ چلنے والے مسائل کریمیاو یوکرائن کی وجہ سے سمندری تجارت پرپابندیوں کاشکارہے جس کی وجہ سے گوادرروس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے بہترین موقعہ ہے جوروس کوپابندیوں کے باوجودتاریخی سلک روڈاورسی پیک سے گوادرکے ذریعے دنیاکی معاشی ترقی میں اپناکرداراداکرسکے گا۔یہ پالیسی پاکستان کیلئے کسی عظیم معجزانہ انعام سے کم نہ ہو گی جِس سے نہ صرف پاکستان میں تجارتی سرگرمیوں بلکہ زراعت وچھوٹے کاروباروں میں کافی فائدہ ہوگا-اِس پالیسی کے تحت روس،پاک،بھارت، افغانستان کے درمیان مسائل کے حل کیلئےاپناکرداراداکرے گاجیساکہ تاشقند معاہدہ کی صورت میں نمایاں ہے۔
اگرچہ پاکستان اورروس کے درمیان تعلقات کی بہتری کے کئی مواقع ہیں مگران کے درمیان حائل کافی رکاوٹیں اورمشکلات بھی ہیں سب سے پہلی مشکل بھارت کی شکل میں ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر اور دوسرے باہمی مسائل اوراعتمادکی کمی دونوں کے درمیان تعلقات میں رکاوٹیں ہیں-دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عالمی ماحول کوسردجنگ میں رکھے ہوئے ہے جہاں عالمی طاقتیں جنوبی ایشیاء کی سیاست پراثراندازہونے کی کوشش کرتی ہیں جِس سے کوئی بھی مثبت منصوبہ بھی شکوک وشبہات کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔
دوسری بڑی مشکل امریکاکی صورت میں ہے-’’پاکستان-روس‘‘ قربتوں نےعالمی طاقت کوپریشان کردیاہے-سردجنگ کی جنگ ایک نیارخ اختیارکرکے دوبارہ بھڑک سکتی ہے-جنگ،میدان،مقاصد،کھلاڑی،طریقہِ جنگ سب وہی ہیں بس تبدیل ہونی ہیں توسابقہ دوستیاں ودشمنیاں-موجودہ حالات اور بھارت ،امریکاتعلقات،پاکستان اورروس کے تعلقات کیلئے موزوں فریم ورک ہے مگرناقدین اِس کوبھی اپنے خلاف ایک پراپیگنڈہ کے طورپراستعمال کررہے ہیں-سعودی عرب اورایران کے درمیان سردجنگ کی وجہ سے پاکستان کاایران کے حامیوں کے بلاک میں شامل ہوناپاکستان اورعرب ممالک کے درمیان مسائل کوہوادے سکتاہے-مشرقِ وُسطیٰ میں ابھرنے والے تین بڑے مسائل،شام یمن اور قطرپرپاکستان کی غیرجانبدارپالیسی اورغیرجانبدارانہ مؤقف پرپہلے ہی عرب دنیامیں تشویش پائی جاتی ہے۔
خارجہ پالیسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور روس تمام مشکلات اوررکاوٹوں کے باوجودباہمی تعاون بڑھانے پریقین رکھتے ہیں اورمختلف سفارشات پیش کرتے ہیں:
(1)دونوں ممالک کوافغانستان میں جلدامن اورآبادکاری کیلئےاپنی اپنی ذمہ داریوں کاتعین کرناہوگا۔
(2)پاکستان اورروس کومل کردہشتگردی کے خاتمے کیلئےمعلومات کے تبادلے کیلئےایک ادارہ قائم کرناہوگا۔
(3)پاکستان کوروس کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کیلئےایک محفوظ اورمعیشیت دوست ماحول مہیاکرناہوگا۔
(4)عوامی رابطے کیلئے دونوں ممالک میں ایک پروگرام کاافتتاح ناگزیرہے۔
(5)پاکستان اورروس کوبیلنس آف پاوراورکسی بھی قسم کی جارحیت کے فوری جواب کیلئےدفاعی شعبہ میں تعاون کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
(6)پاکستان وروس کوٹیکنالوجی خصوصاًسپیس ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرناہوگا۔
(7)پاکستان کوروس کے ساتھ تعلقات کے ساتھ ساتھ باقی علاقائی اوربین الاقوامی دوستوں کواعتمادمیں رکھناہوگا۔
(8)پاکستان اورروس کومل کرہراُس پراپیگنڈہ کاجواب دیناہوگاجوان تعلقات کوعالمی وعلاقائی امن کیلئےخطرہ قراردیتاہے۔
(9)دونوں ممالک کومل کرسفارت کاری کے ذریعے عالمی مسائل کے حل پیش کرناہوں گے۔
(10)دونوں ممالک کے میڈیاکوتعلقات کوپروان چڑھانے میں اپنامثبت کرداراداکرناہوگا۔
پاک روس تعلقات کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے جِن میں کتنے ہی مفید مواقع گنوادیے گئے-دونوں ممالک ماضی کو بھلاکر نئی شروعات کاآغاز کریں تاکہ ترقی واستحکام کی نئی سے نئی منزلیں طے کی جاسکیں-اپنی اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کودوبارہ دیکھنے اوراپنے دوستوں کاچناؤکرناہوگا-تیزی سے بدلتی عالمی سیاست میں کوئی بھی ملک نہ توتنہارہ سکتاہے اورنہ ہی صرف ایک عالمی طاقت کے سہارے ترقی کرسکتاہے-اس کیلئےکثیرالجہتی نظام پرانحصارکرنا ہوگاجِس میں ادارے مضبوط اورعالمی قانون کی پاسداری کی جائے گی-پاکستان نہ تومغربی طاقتوں کوچھوڑسکتاہے نہ علاقائی طاقتوں سے دوررہ سکتاہے،اِس لیے عالمی وعلاقائی سیاست کے بدلتے تناظرات میں پاکستان کے بدلتے تعلقات کوشک کی نگاہ سے دیکھناخوداپنے ساتھ ساتھ عالمی امن کوخطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔