انسانوں نے بھوک وافلاس،غربت وبیروزگاری سے تنگ آکرچوریاں وڈاکے ڈالے ہیں،خود کشیاں کی ہیں،جرم کی دنیاکاراستہ اختیارکیاہے،اورکچھ نہیں بن سکاتواس علاقے سے ہجرت اختیارکرلی ہے لیکن جس معاملے کوانہوں نے ایک لمحے کیلئے،ذرا سے توقف کیلئے بھی برداشت نہیں کیاوہ تضحیک تھی۔کیونکہ عزت نفس ایک ایسی متاع ہے کہ جس کے لٹ جانے کے رنج پر انسان وہ بپھراہواشیربن جاتاہے کہ اس کے پنجے واپس نہیں مڑتے کہ جب تک انتقام نہ لے لیں ۔ول ڈیورانٹ نے اس تاریخی مائلے کواپنی مشہورزمانہ کتاب”ہیروزآف دی ہسٹری”میں اس طر ح تحریرکیاہے”تاریخ میں انقلاب معاشی حالات اورمجبوریاں نہیں لاتیں بلکہ تاریخ کے بگڑے ہوئےبچے لوگوں کی تضحیک اورتمسخر سے وہ لمحہ قریب کرلیتے ہیں جہاں لوگ خونخواربھیڑیوں کی طرح ایوانوں پرٹوٹ پڑتے ہیں”۔
اس کی ایک ادنیٰ سی مثال اورجھلک انقلاب فرانس میں بھی تلاش کی جاسکتی ہے۔والٹیئرایک معمولی ڈرامہ نویس تھاجس کے ڈرامے معاشرے کی محرومیوں پرایک بھرپورطنزہواکرتے تھے،جن کودیکھ کرفرانس کے لوگوں کواپنی ہی زندگی کے کردار نظرآتے تھے اوروہ اپناساراغم وغصہ بھول کرچین کی نیند سوجاتے تھے۔ان ڈراموں کی مقبولیت دیکھ کرشاہ فرانس کاایک منہ چڑامشیرروہان حسد سے جلنے لگااوربادشاہ کے کان بھرنے شروع کردیئے جس کی بناء پروالٹیئرایک سال کیلئے پیرس بدرکردیا گیا۔والٹیئراپنی پیرس بدری کے بعدجب واپس آیاتواس کے قلم نے کسی بھی انتقامی کاروائی سے اجتناب کیا۔پیرس واپسی پراس نے دوبارہ لوگوں کی محرومیوں پرلکھناشروع کردیالیکن اس دفعہ روہان نے والٹیئرکواپنے بھرے دربارمیں طلب کرکے اس کی شدید بے عزتی اورتضحیک کی جس کابالآخروالٹیئرنے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔لوگوں نے بیچ بچاؤکرکے معاملہ رفع دفع توکروادیا لیکن ایک عورت جو والٹیئرکی بے حد مداح تھی اس سارے معاملے کودیکھ کربیہوش ہوگئی لیکن روہان نے والٹیئرکے گھراپنے چندغنڈوں کوبھیج کروالٹیئرکواس کے گھرسے نکال کرسب لوگوں کے سامنے بری طرح ماراپیٹااورخودوہاں پاس کھڑا مسکراتارہا۔
والٹیئرجب اپنی توہین وتضحیک،کھلم کھلامارپیٹ اورتمسخرکی شکائت کرنے بادشاہ کے محل میں چندلمحوں کی بھیک مانگنے گیا تومحل کے دروازے بندکر دیئے گئے۔یہ وہ لمحات تھے جس نے والٹیئرکو ڈرامہ نگارسے ایک کالم نویس اورفلسفی بنادیا۔اس کے قلم نے لوگوں کی سوچوں کادھاراتبدیل کردیا۔ لوگوں کووالٹیئرکی تحریروں کا شدت سے انتظاررہتاتھا۔والٹیئرکی مقبولیت دن بدن بڑھ رہی تھی اورلوگوں نے اس کواپنامسیحاسمجھناشروع کردیا۔ ادھرروہان اوراس کے حواری بادشاہ کووالٹیئرکی مقبولیت سے ڈراکر اس کی تحریروں اورکتابوں پرپابندی لگواتے رہے۔والٹیئرکی کتاب نیچرل لاء پرپابندی لگاکراس کی تمام کا پیوں کوسرعام بازارمیں آگ لگادی گئی۔اب والٹیئرکی کتابیں خفیہ طورپرچھپتی رہیں اورلوگوں میں تقسیم ہوتی رہیں۔ والٹیئرکے تحریرکردہ کالم اورپمفلٹ متوسط درجہ کے لوگوں کی دل کی آوازبن کرابھرے۔بالآخربادشاہ نے والٹیئرکوملک بدرکرکے برطانیہ بھجوادیا مگروالٹیئرکی تحریروں میں مزید شدت آگئی۔والٹیئرکے الفاظ دہکتے انگاروں کی مانندبادشاہ اوراس کے حواریوں پربرسنے لگے اوربالآخروہ وقت آن پہنچاجب فرانس کے لوگوں نے بادشاہ لوئی اوراس کے حواریوں کوایک بڑے چھرے یعنی گلیوٹین کے نیچے رکھ کرذبح کردیا۔اس نے اپنی موت سے پہلے اس بات کااقرارکیاکہ انقلاب فرانس والٹیئراورروسوکے سواکچھ بھی نہیں۔تضحیک اورتوہین ہر معاشرے میں ایک والٹیئرکوجنم دیتی ہے اور انجام بھی بادشاہ لوئی سے مختلف نہیں ہوتابلکہ بعض اوقات تواس سے بھی زیادہ خوفناک!
پاکستانی قوم کی تضحیک اورتوہین کاسلسلہ تواس دن شروع ہوگیاتھاجب ہم نے اپنے ایک شہری ایمل کانسی کوخوداپنے ہاتھوں سے پکڑکرقصرسفیدکے فرعون کے حوالے کیاتھا۔ہم اگر اس وقت یہ مطالبہ کرتے کہ جناب!آپ اپناوکیل لائیں اورساری دنیا کے میڈیا کے سامنے ہم ایمل کانسی کا ٹرائل کریں گے لیکن مقدمہ ہماری عدالت میں چلے گا۔لیکن اس کے برعکس ہم نے پاکستان کی کسی بھی عدالت کو بتائے بغیرایمل کانسی کوامریکیوں کے حوالے کردیااوراس کے بدلے میں بخوشی ڈالروں کابھراتھیلاہمارے حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھمادیاگیا۔اسی لئے امریکی اٹارنی جنرل نے برملاعدالت میں کہاکہ پاکستانی توصرف20ہزارڈالروں کے عوض اپنی ماں کوبھی فروخت کردیتے ہیں اورامریکی اٹارنی جنرل کے اس فقرہ کودنیا کے سارے میڈیا نے نشرکیا۔
یہ انتہائی غلط اورتضحیک آمیزرسم ہماری سول حکومت کے دوراقتدارمیں انجام پائی اوراس کے کچھ عرصہ بعدہمارے کمانڈو پرویزمشرف نے تواپنے پیشرؤں کوبھی مات کردیا۔جب امریکیوں نے باجوڑمیں ایک مدرسہ پرگائیڈڈمیزائل داغاجس میں معصوم اوربے گناہ80سے زائدبچے اورجوان شہیدہوگئے۔کمانڈوصدرنے نہ صرف سیکورٹی کونسل سے رجوع نہیں کیابلکہ تابعدار خوشامدیوں کی طرح فوراًاس کی ذمہ داری خود قبول کرلی کہ یہ میزائل ہم نے ماراہے لیکن اس سے اگلے دن ہی امریکیوں کا بیان آگیاکہ یہ میزائل حملہ انہوں نے کیاہےاوروہ آئندہ بھی اپنے اہداف پرایسے حملے جاری رکھیں گے۔
مشرف بڑے فخرسے اپنی سوانح حیات کے صفحہ237پراعتراف کرتے ہیں کہ اگرکوئی عادتاًالزام تراشی کرتے ہوئے ہم سے یہ کہتاہے کہ ہم نے “وار آن ٹیرر”کے حوالے سے کچھ نہیں کیاتووہ صرف سی آئی اے سے یہ پوچھ لے کہ انہوں نے کتنی رقم انعام کے طورپرپاکستان کوان خدمات کے صلے میں دی ہے۔اسی صفحے میں مزیدلکھتے ہیں کہ ہم نے689افراد گرفتار کرکے369افراد امریکاکے حوالے کرکے ملینزآف ڈالرکمائے!!!نجانے ہماری مظلوم بہن عافیہ صدیقی،ہمارے بے گناہ بھائی مسعود جنجوعہ،سیف اللہ پراچہ،ڈاکٹرعتیق الرحمان،ڈاکٹرعابد شریف،فیصل فراز،ماجد خان اوردوسرے قیمتی پاکستانیوں کی کتنی قیمت ان خونخوار درندوں نے وصول کی ہوگی۔چھ سوسے زائد کی فہرست تو ہماری بیکس ومجبوربہن آمنہ جنجوعہ نے ترتیب دے رکھی ہے جس کوتھامے وہ ہرجگہ دہائی دیتی رہی کہ ہمارے پیاروں کو ہمارے حوالے کردو،ہم تم کوامریکاسے زیادہ تاوان دینے کوتیارہیں لیکن وہ آواز بھی تھک ہارکرخاموش ہوگئی۔ہماری توہین اورتضحیک کا یہ سلسلہ اب بھی بندنہیں ہوا۔اب تودکھی ماؤں،بہنوں اوربچوں میں مزید انتظار کا حوصلہ باقی نہیں رہا۔ دراصل یہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی بزدلی اوربے حمیتی کے سبب امریکیوں کو یہ اجازت دیکرانہیں آقاکے منصب اورقوم کوغلاموں کی فہرست میں کھڑاکردیاہے۔افسوس کامقام یہ ہے ہمارے حکمرانوں نے امریکیوں کے ساتھ ایک ایسارشتہ استوارکررکھاہے جس میں وہ آقاہیں اورہم ان کےغلام۔
اسی رویہ کودیکھتے ہوئے بھارتی بنئے نے بھی امریکی آقاؤں کی حمائت سے پاکستان کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی وہ سب آزمودہ تراکیب استعمال کرنا شروع کردی ہیں۔بھارتی مطالبے سے پہلے ہی ہم نے اپنے ملک کی چندبڑی فلاحی اوررفاہی تنظیموں پرپابندی لگاکراپنے افرادکوگرفتارکرکے گویا اعتراف جرم کرلیا۔سلامتی کونسل میں اپنے پرانے دیرینہ مخلص دوست چین کو بھارت کی چال کے خلاف ویٹواستعمال کرنے سے منع کردیا۔اس خبر کے عام ہونے پروطن عزیزمیں ایک بوکھلاہٹ کاسماں پیدا ہوگیااورقوم ابھی اس صدمے سے سنبھلی نہیں تھی کہ دوبھارتی طیاروں نے دن دیہاڑے پاکستان کی فضائی خلاف ورزی کرکے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کی جسارت کرڈالی ۔یہ تواللہ کاشکرہے کہ ہمارے شاہین فوراًان کی طرف لپکے اوروہ ناکام ونامراد دم دباکربھاگنے میں عافیت جانی لیکن ہمارے حکمرانوں نے اسے تکنیکی غلطی قراردیتے ہوئے بھارت کی صفائی دینی شروع کردی جبکہ پاکستان کوبھارت کے اس عالمی جرم سے سلامتی کونسل کو آگاہ کرنابہت ضروری تھا ۔
اس نقش پاکے بوسے نے یاں تک کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سرکے بل گیا
ہمیں اس بات کواچھی طرح ذہن نشین کرلیناچاہئے کہ بھارت نے پہلے دن سے پاکستان کودل سے تسلیم نہیں کیا۔اکھنڈمہابھارت کا خواب وہ اب بھی اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھا ہے۔بھارتی انتہاپسندوں کوشروع دن سے یہ خطرہ ہے کہ پاکستان اگراس خطے میں طاقتورہوگیاتواس کے تین ایسے بڑے نقصان ہوں گے جن کی وجہ سے ان کے مستقبل کے سارے سہانے خواب چکنا چورہوجائیں گے۔پہلاان کے اکھنڈمہابھارت کی تکمیل کاخواب ادھورا رہ جائے گااوردوسراان کاکشمیرپریہ دیرینہ اٹوٹ انگ کاراگ بے سراہو کررہ جائے گااورتیسراان کے توسیع پسندانہ عزائم کہ بحر ہند کے تمام ساحلوں پربسنے والے ممالک پربھارت کی اجارہ داری ہو گی،ایسامضبوط پاکستان کی موجودگی میں ممکن نہیں ہوگا۔انہی خطرات کی بنیادپراسرائیل بھی پاکستان کواپناپہلااورسب سے بڑا دشمن گردانتاہے کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان کی موجودگی میں اسرائیل اپنی سرحدوں کومزید وسعت دینے سے قاصر رہے گا۔ہنوداوریہوداس بات پرمتفق ہیں کہ اب جنگ کی صورت میں پاکستان کومٹاناآسان نہیں رہااس لئے سازشوں کے ذریعے پاکستان کے اندر خلفشار برپاکرکے اس کواندرونی طورپراس قدرکمزورکردیاجائے کہ ان کے ناپاک مقاصد بغیرجنگ کے پورے ہوجائیں۔
اگست1984ءمیں ایک ایسے ہی واقعے کی نشاندہی امریکاکے ایک یہودی دانشور”ڈیوڈریز”نے برطانیہ کے ایک جریدے”روسی” 1990ء کے شمارہ ستمبرمیں انکشاف کیاتھاکہ اسرائیل نے بھارت کے ساتھ مل کرپاکستان کی ایٹمی تنصیبات پرفضائی حملہ کرنا چاہالیکن بروقت اطلاع ملنے پرپاکستانی فضائیہ نے اپنی ایٹمی تنصیبات کی مسلسل نگرانی شروع کردی۔یہ صورتحال دیکھ کر اسرائیلی حملہ آورجنگی طیاروں نے سری لنکاکے ہوائی اڈوں کواستعمال کیاتھا اوراس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھینے پاکستان پرحملہ کرنے کیلئے یعنی(ڈی ڈے)نومبرکی پہلی تاریخ1984ء بھی طے کرلی تھی لیکن پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے جواب میں ایک خوفناک ردعمل کابھی ایسا ہی جب اظہارکیاگیااورذاتی طورپرپاکستانی فوج کے سربراہ نے مائیکل مولن کواس سے آگاہ کردیاتھاکہ کسی بھی بھارتی مکروہ جسارت کوکھلی جنگ تصورکیاجائے گااورپاکستان اپنی سلامتی کیلئے کسی حدودوقیودکاپابندنہیں ہو گااوربھارت کوتواپنے ٹکڑے سمیٹنا مشکل ہوجائے گاجس سے اس وقت جنگ کاخطرہ توٹل گیالیکن اسی دن ٹرائیکا(بھارت،اسرائیل اورامریکا)نے یہ طے کرلیاکہ اب جنگ کے ذریعے نہیں بلکہ پاکستان کوایسے اندرونی خلفشارمیں مبتلاکر دیاجائے جس کی بناء پرملک کوخانہ جنگی میں مبتلاکردیاجائے اوراس کے ساتھ ہی معاشی طورپرایساکمزورکردیاجائے کہ خود پاکستانی عوام مہنگائی اورغربت کے ہاتھوں اس قدرمجبورکردیئے جائیں کہ روٹی کے بدلے بم سے دستبرداری کوبخوشی قبول کرلیں۔
پاکستان میں جس قدرتیزی کے ساتھ دہشتگردی میں اضافہ ہورہاہے اوراس کے ساتھ ہی سیاسی انارکی پیداکرکے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیداکئے جارہے ہیں۔دہشتگردی کوروکنے کیلئے دہشتگردوں کے تعاقب میں ان کی سرکوبی کیلئے اعلان ہوچکاہے جس سے خطرات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ یادرکھیں دشمن یہی چاہتاہے کہ سیاسی انارکی پیداکرنے کے ساتھ پڑوسی ممالک کے ساتھ خانہ جنگی کاماحول پیداکردیاجائے تاکہ خاکم بدہن پاکستان کواندربیٹھے عناصرکے ہاتھوں ٹکڑے کردیاجائے۔یادرکھیں! پاکستان کوتوڑنے والوں کاانجام ہم سب کے سامنے ہے۔مجیب کواس کے سارےخاندان سمیت ڈھاکہ میں کیفرکردارتک پہنچادیا گیا،اندراگاندھی کواس کے اپنے محافظ نے گولیوں سے چھلنی کردیااورجنرل یحیٰ خان ایک خطرناک بیماری کاشکار ہوکر چل بسا ۔پاکستان کو دوٹکروں میں تقسیم کرنے والے ملک یونین روس کی یونین قائم نہ رہ سکی اوروہ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔
پاکستان کوختم کرنے کے بارے میں پچھلے کئی سالوں سے پروپیگنڈہ کیاجارہاہے لیکن اللہ کے فضل وکرم سے یہ ابھی تک دنیا کی تمام ظالم صہیونی طاقتوں کامقابلہ کررہاہے لیکن صدمہ اس بات کاہے کہ ملک میں ایک دفعہ پھرغیرآئینی کھلواڑشروع ہوچکا ہے۔ حکومت اوراپوزیشن دونوں پیچھے ہٹنے کوتیار نہیں،دونوں ایک دوسرے کوسیاسی اختلافات کوذاتی دشمنی تک لے گئے ہیں۔ اب کوئی ایسی تیسری قوت نہیں جوان کے درمیان اختلافات کی بھڑکتی آگ کوسردکرنے کاکام کرسکے۔عدلیہ کے پے درپے فیصلوں نے حکومت کوکئی آزمائشوں میں مبتلا کردیاہے جبکہ پیٹی آئی جوعدلیہ سے خارکھائے بیٹھی تھی،اب عدلیہ کے فیصلوں پرکسی بھی مصالحت کیلئے تیارنہیں جبکہ عدلیہ نے ایک مرتبہ ملکی حالات پراپنے خدشات کااظہارکرتے ہوئے خودکوبری الذمہ اورسیاسی جماعتوں کوآپس میں مذاکرات کاکہاتھالیکن اس وقت ملک جس نازک دورمیں داخل ہوچکاہے،بعیدنہیں کہ مزیدتاخیرکے بعداس کے سنبھلناناممکن حدودکو چھوناشروع کردے جس کی بھاری قیمت سب کوہی چکاناپڑے گی۔
پاکستان کے موجودہ حالات کیامخبرصادق میرے رسول اکرمﷺکی بشارتوں کی نویدتونہیں سنارہے؟کیایہ دووہی میدان جنگ نہیں جن کاتذکرہ آپ ﷺنے یروشلم اورہندوستان کانام لیکرفرمایاہے،امام بخاری کے استادمحترم امام نعیم بن حماد کی کتاب الفتن میں احادیث میں ان دونوں علاقوں کاذکرکیاگیاہےکہ”اللہ کے رسولﷺنے فرمایاکہ میری امت میں سے کچھ لوگ ہندوستان کے خلاف جنگ کریں گے اللہ تعالیٰ ان کوفتح سے ہمکنار کرے گا،چنانچہ وہ ہندوستان کے بادشاہوں کوزنجیروں میں جکڑکرلائیں گے،اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کومعا ف فرما دے گااوروہ پھرشام میں عیسیٰ ابن مریم کوپائیں گے”۔یہ دونوں معرکے الگ اوران کے بیانات بھی جداجداہیں لیکن یہ دونوں میدان جنگ جس تیزی سے گرم ہورہے ہیں وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔یہودفلسطین میں ہنودکی اسلحہ کی ترسیل کے ساتھ ہندوؤں نوجوانوں کوبھرتی کرکے مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہوچکاہے۔اب خواہ یہ معرکے آج ہوں یا کچھ دیربعد، ایک بات مخبرصادق میرے رسول اکرمﷺکی بشارتوں سے واضح ہے کہ مغفرت اور فتح انہی دونوں مقامات کاحصہ اورانہی لوگوں کامقدرہے۔تعجب اورحیرت تویہ ہے کہ میرے مخبر صادق رسول اکرمﷺجن دو قوموں سے جنگ کوجنت کی بشارت سے مربوط کرتے ہیں ہم انہی سے دوستی،اعتمادکی فضااورپرامن بقائے باہمی کی باتیں کرتے ہیں۔اس رسول برحق ﷺکی بشارتوں کے منکرروزحشراس کی شفاعت کس منہ سے طلب کریں گے جن کے شب وروزان صہیونی طاقتوں کے احکام کی تعمیل میں صرف ہورہے ہیں۔
عربی کی ایک بڑی حکیمانہ مثل مشہور ہے کہ جب اونٹ بلبلانے لگے تو اس کے سامنے سے ہٹ جاؤ،جب کوئی سیلابی ریلہ اپنے کناروں سے باہر آنے کی کوشش کرے تو اس کےسامنے سے بھی ہٹ جاؤ اور جب کبھی غلام کا چہرہ سرخ ہو جائے تو اس کے سامنے سے بھی ہٹ جاؤ۔ہندوستان میں گجرات احمد آباد، کشمیر اور فلسطین میں غلام مسلمانوں کا نہ صرف چہرہ سرخ ہو گیا ہے بلکہ ان کی آنکھوں میں بھی برسوں کی توہین اور تضحیک کی سرخی بھی اپنے عروج پر ہے،برسوں ظلم و ستم سہتے سہتے ان کے صبر کا سیلاب بھی کناروں کو کسی بھی وقت توڑ کر ان صہیونی طاقتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لیجانے کو تیار ہے اور اسی طرح راجستھان سندھ کے صحراؤں میں اونٹوں نے بلبلانا شروع کر دیا ہے ۔تاج گرانے اور اچھالنے کا وقت آن پہنچاہے۔پانی پت تو کبھی بھی دور نہیں رہا لیکن اب یہ طوفان پانی پت سے ہوتا ہوا اپنے مستقل مستقرکی طرف اس طرح لپکے گا کہ آئندہ کئی صدیاںانسانیت کیلئے امن و امان کی ضامن رہیں گی ۔ مقتدراشرافیہ اورسیاستدانوں کو بھی پاکستانی قوم کی توہین اور تضحیک کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور میرا وجدان اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ وقت اب دور نہیں۔لیکن دیکھئے بابا اقبال کیا کہتے ہیں!
فتویٰ ہے شیخ کایہ زمانہ قلم کاہے
دنیامیں اب رہی نہیں تلوارکارگر
لیکن جنابِ شیخ کومعلوم کیانہیں؟
مسجدمیں اب یہ وعظ ہے بے سُودوبے اثر
تیغ وتُفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہوبھی،تودل ہیں موت کی لذّت سے بے خبر
کافرکی موت سے بھی لَرزتاہوجس کادل
کہتاہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر
تعلیم اُس کوچاہیے ترکِ جہادکی
دُنیاکوجس کے پنجۂ خُونیں سے ہوخطر
باطل کے فال وفرکی حفاظت کے واسطے
یورپ زِرہ میں ڈوب گیادوش تاکمر
ہم پُوچھتے ہیں شیخِ کلیسانوازسے
مشرق میں جنگ شرہے تومغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگرغرض ہے توزیباہے کیایہ بات
اسلام کامحاسبہ،یورپ سے درگزر